تاحیات جمہوریت
ہماری موجودہ جمہوریت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنی پانچ سالہ مدت کسی مداخلت، کسی حادثے کے بغیر مکمل کرلی
ISLAMABAD:
پاکستان کی 65 سالہ اقتداری تاریخ گواہ ہے کہ ہر آنے اور جانے والی حکومتوں نے عوام کے مسائل میں اضافہ ہی کیا، کمی نہیں کی۔ اس ملک کی 65 سالہ تاریخ کا تقریباً 30 سالہ حصہ فوجی حکومتوں میں گزر گیا اور جمہوری حکومتوں کے حصے میں 35 سال آئے، 35 سال کے اس جمہوری دور میں جمہوری حکمرانوں نے اپنا وقت یا تو آپس کے لڑائی جھگڑوں میں گزارا یا پھر لوٹ مار کی نذر کر دیا، ویسے تو یہ پورے 35 سال ہی مایوسی اور انتشار کے سال رہے اور نظم حکمرانی بدترین رہا۔
لیکن پچھلے 5 سال میں عوام کی جو درگت بنی، مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے جو بازار سجے ان عذابوں نے جہاں عوام کو جمہوریت اور سیاست سے مایوس اور متنفر کر دیا، اہل دانش، اہل قلم کے حلقوں میں یہ سوال زیر بحث رہا کہ جس نظام کو ہم جمہوری کہہ کر اس کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں کیا یہ نظام واقعی جمہوری ہے؟ جمہوریت سے اس کا کوئی واسطہ اور رشتہ ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مسئلے پر اہل دانش، اہل علم، اہل قلم تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں لیکن جیسے جیسے جمہوریت کا مکروہ چہرہ ان حلقوں کے سامنے اپنی کارکردگی کے ساتھ آ رہا ہے۔
ویسے ویسے یہ اختلاف رائے کم ہوتا نظر آ رہا ہے اور اس جمہوریت کے حامی اور مخالف دونوں ہی اس وڈیرہ شاہی جمہوریت سے مایوس نظر آ رہے ہیں لیکن ان سب کے سامنے سوال یہ کھڑا ہوا ہے کہ اس کا متبادل کیا ہے اور کہاں ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں اس کرپٹ اور تاریخ کی بدترین جمہوریت کے مخالفین بھی خلائوں میں گھورنے لگ جاتے ہیں کہ اس کھیل سے جان چھڑانے کا کوئی طریقہ کسی کے سامنے موجود نہیں اور سر جھکا کر اس جمہوریت کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ہماری موجودہ جمہوریت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنی پانچ سالہ مدت کسی مداخلت، کسی حادثے کے بغیر مکمل کرلی، ہمارے ملک میں جمہوریت کی گاڑی ہمیشہ دو حوالوں سے ڈی ریل ہوتی رہی ہے، ایک یہ کہ فوجی جنرلز تشریف آور ہو گئے، دوسری وجہ یہ رہی کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ 1968ء اور 1977ء میں عوام کے سڑکوں پر آنے ہی سے حکومتوں کا خاتمہ ہوا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ 1968ء میں عوام ایک فوجی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئے اور 1977ء میں عوام جمہوریت کی سب سے بڑی چیمپئن اور پاکستان میں جمہوری شعور بیدار کرنے والی پی پی پی کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئے لیکن دونوں ہی تحریکوں کا نتیجہ فوجی حکومتوں ہی کی شکل میں سامنے آیا اور دلچسپ بات یہ رہی کہ ہر موقع پر سیاست دان ہی ان المیوں کا باعث بنے اور ان تبدیلیوں پر مٹھائیاں بانٹتے رہے۔
آیئے! اب ذرا اس لوٹ سیل کی طرف جس کو دیکھ کر اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کا جمہوریت پر ایمان اس قدر پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اس جمہوریت کو آنے والی کئی نسلوں تک محفوظ و مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، جمعہ 15 مارچ ہماری جمہوری تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جس میں ہماری سندھ اسمبلی نے اپنے آخری اجلاس میں جمہوریت کے خدمت گزاروں کو وہ حیرت انگیز مراعات فراہم کیں جس کی مثال دنیا کی کسی جمہوریت میں نہیں ملتی۔
اراکین اسمبلی کے لیے تاحیات جن مراعات کا اعلان کیا گیا اس کے مطابق نہ صرف موجودہ وزرا، معاونین خصوصی، ارکان سندھ اسمبلی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بلکہ سابقہ ارکان سندھ اسمبلی کو بھی تا حیات وہ مراعات حاصل ہو جائیں گی جن کا مختصر ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں، ارکان سندھ اسمبلی کو سرکاری گیسٹ ہائوسز، ریسٹ ہائوسز، سندھ ہائوس اسلام آباد، سندھ ہائوس گوادر میں قیام و طعام کی سرکاری ریٹ پر تمام سہولتیں حاصل ہوں گی، انھیں اسمبلی سیکریٹریٹ، اسمبلی لائبریری اور اسپیکر گیلری میں بیٹھنے اور کارروائی دیکھنے کی تا حیات سہولت حاصل رہے گی، یہ معزز ممبران تا حیات ایئرپورٹس کے وی آئی پی لائونجز استعمال کر سکیں گے۔
ارکان سندھ اسمبلی ان کی شریک حیات اور 18سال سے کم عمر کے بچوں کو پاسپورٹ، اسلحہ لائسنس وغیرہ کی تجدید کا تاحیات حق حاصل رہے گا، اس بل کے مطابق ارکان سندھ اسمبلی کی تنخواہوں میں 60 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور معاونین خصوصی کی تنخواہوں اور مراعات میں 40 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، ختم ہونے والی کابینہ کے وزرا کی تنخواہ اب 78 ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ 9 ہزار 2 سو روپے ماہانہ ہو جائے گی جب کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہ 15 ہزار کے بجائے اب 65 ہزار ہو جائے گی، آفس مینٹیننس کی مد میں 5 کے بجائے اب 8 ہزار روپے ملیں گے۔
سیل فون کی مد میں 10 ہزار ماہانہ ملیں گے، گیس اور بجلی کی مد میں 4 ہزار 8 سو جب کہ ڈیلی الائونس 880 روپے روزانہ کے حساب سے ملے گا، معزز ارکان کو ٹریولنگ وائوچر کے طور پر ایک لاکھ بیس ہزار، ری کریئیشن کی مد میں ایک لاکھ روپے ملیں گے، انھیں گریڈ 17 کا ایک افسر بطور پرائیویٹ سیکریٹری، ایک اردلی، ایک مالی، ایک ڈرائیور، ایک باورچی، ایک سینٹری ورکر سندھ حکومت کی طرف سے تا حیات حاصل ہو گا، اس سے زیادہ تفصیل بیان کرنے کے لیے ہمارا غیر جمہوری قلم ہمارا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
ہفتہ 16 مارچ کو چھٹی کے دن بینک کھلوا کر جو کچھ کیا گیا اس کی تفصیل بھی ہماری جمہوریت کے حامیوں کے علم میں ہو گی، ہمارا میڈیا چلا رہا ہے کہ ہمارے جمہوری وزیر اعظم کو ان کے خصوصی فنڈ میں وزارت خزانہ کی طرف سے 39 ارب روپے مہیا کیے گئے اور نئے وزیر خزانہ نے ایک ماہ میں وزیراعظم کو 7 ارب روپے فراہم کیے، وفاقی حکومت کی طرف سے ہفتہ 16 مارچ کی چھٹی کی منسوخی کی خبر پڑھ کر ہمیں نواز شریف دور کی ایک خبر یاد آ گئی کہ نواز شریف نے ایک دن کے لیے کراچی پورٹ کے قوانین کو اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ انھیں بغیر ڈیوٹی اور کسٹم کے بغیر ساری قیمتی گاڑیاں پورٹ سے نکالنا تھیں۔
جمہوریت سے اختلاف اس لیے ممکن نہیں کہ سیاسی ارتقا کی تاریخ میں جمہوریت ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے لیکن یہ نہ حتمی ہے نہ سیاسی ارتقا کی آخری منزل، وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں آئیں گی لیکن اس جمہوریت کو سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اس طرح نتھی کر دیا گیا ہے کہ اس کا ارتقائی عمل رک گیا ہے، مشکل یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی متعارف کردہ اس جمہوریت کے بھی کچھ قاعدے قانون، اصول، قواعد و ضوابط اور اخلاقی اقدار مقرر ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جمہوریت، سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ان اصولوں پر بھی پوری نہیں اترتی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان میں جمہوریت کا بانی کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بھٹو صاحب کا اس حوالے سے صرف اتنا کنٹری بیوشن ہے کہ انھوں نے عوام میں جمہوری شعور بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن فیوڈل نفسیات کے مطابق اپنی ذات ہی کو جمہوریت کا مرکز بنا لیا اور ان لوگوں کو جو بھٹو صاحب کی پارٹی کو ایک جمہوری پارٹی بنانا چاہتے تھے اتنا مایوس کیا کہ وہ ایک ایک کر کے پارٹی سے الگ ہوتے گئے اور ان کی جگہ کرپٹ لوگوں اور فیوڈلز کو پارٹی میں طاقتور بنا دیا گیا۔ بھٹو صاحب جب شملہ کانفرنس میں جا رہے تھے تو انھوں نے کراچی کی اہم ہستیوں کی ایک مشاورتی میٹنگ بلائی، ہم بھی اس میٹنگ میں مدعو تھے، ہم اور ہمارے دوستوں نے قاسم پٹیل کی بدعنوانیوں سے بھٹو صاحب کو آگاہ کرتے ہوئے انھیں وزارت سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن بھٹو صاحب نے جواب دیا ''اس نظام میں قاسم پٹیل جیسے لوگ حکومت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔''
یہی ضرورت بڑھتے پھیلتے 2008ء کے انتخابات تک آئی اور 15 مارچ اور 16 مارچ تک پہنچ گئی جہاں جمہوریت کو تا حیات عیاشی بنا دیا گیا، اس کے بعد بھی اگر کوئی اس جمہوریت کے گن گاتا ہے تو ہم اس کی عقل کا ماتم ہی کر سکتے ہیں۔ ہاں اس جمہوریت سے بہرحال انکار نہیں کہ عوام کے سامنے اس جمہوریت کا کوئی بہتر متبادل نہیں، وہ اس کھیل کے ساتھ گزارا کرنے کے لیے مجبور ہیں لیکن کیا 2013ء عوام کو اس مجبوری کے حصار میں قید رکھ سکے گا؟