قصہ پاکستان کا

بد عنوانی ایک نہ ختم ہونے والا ٹھیکہ بن چکی ہے جس سے ہر بڑا گھر تعمیر ہوا ہے۔.

www.facebook.com/syedtalathussain.official

قصہ ہے تو مشہور مگر اختصار کے ساتھ دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پاکستان کے نظام کو وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ یہ قصہ ہے ایک ایسی سر زمین کا جہاں پر پہاڑ اونچے اور دریا گہرے تھے۔ لہلہاتی کھیتیاں، وافر پھل اور اناج کے ڈھیر اس کی وجہ شہرت تھے۔ یہاں پر رہنے والے اتفاق، محبت اور اتحاد کو اپنی خوشیوں کی ضمانت سمجھتے تھے، ہر کسی کے چہرے پر طمانیت کی لالی تھی اور کسی کی رگوں میں سفید خون کا وجود نہیں تھا۔

نہ کبھی جنگ کا سنا تھا اور نہ کسی نے کسی کو انصاف کے لیے کٹہرے میں گھسیٹا تھا یعنی جنت کا سماں تھا۔ بادشاہ اور وزیر اپنی رعایا کی بہترین دیکھ بھال کرتے تھے۔ ہر طرف قدرتی اور انسانی تحائف کی بارش کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ ایسا چین فرشتوں کو بھی نصیب نہ ہو گا۔ ایسی سکھ کی بانسری کہیں اور نہ بجتی تھی۔

پھر کیا ہوا ایک دن شیطان اور اس کے چیلے اس جگہ پڑائو کر گئے۔ دائیں بائیں دیکھا تو اطمینان اور امن کے اس پھیلائو سے بہت کوفت ہوئی۔ تباہی کے ان ہر کاروں نے خود پر خوب ملامت کی کہ ان کی موجودگی میں ایسا خطہ زمین کیونکر پھل پھول رہا ہے۔ اس میں نحوست کا راج کیوں نہیں ہے، یہاں خون کی ندیاں کیوں نہیں بہتیں اور تیزابی اولے کیوں نہیں برستے کیونکہ وہ مکاری اور برائی پھیلانے کے ماہر تھے لہذا انھوں نے جنت کے اس ٹکڑے کے پانی میں اپنے ہاتھ ڈبو دیے۔ ان کی زہریلی تاثیر ہر طرف پھیل گئی، فصلیں سوکھ گئیں، کھلیان بنجر ہو گئے، پہاڑوں کی چوٹیاں بُھر کر زمین بوس ہو گئیں۔

جس کسی نے پانی کا ایک گھونٹ پیا وہ غصے سے پاگل ہو گیا، ہر آنے والے پر چڑھ دوڑنے لگا اور ایسا فساد برپا ہوا کہ عرش بھی کانپ اٹھا۔ بادشاہ اور وزیر خوش قسمت رہے، انھوں نے یہ بھانپ لیا کہ پانی کی تاثیر تبدیل ہو گئی ہے۔ ان کی رعایا اب باولی ہو گئی ہے۔ مگر چونکہ بھلے مانس تھے، اس لیے تحمل کا پرچار کرتے رہے۔ تلوار اور نیزے چلانے والے ہاتھوں کو روکتے رہے مگر حالات بد سے بدتر ہو تے چلے گئے۔

برائی جب بڑھتی ہے تو نیکی پر زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ قاتل اور لٹیرے جب ریاست پر قبضہ کر لیں تو ایمان رکھنے والے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ جہالت کی بدمعاشی کے سامنے علم کے دریا کوزوں میں محدود ہو جاتے ہیں، اس وحشت زدہ قوم کو نہ بادشاہ پسند آیا اور نہ وزیر۔ ہر گلی سے صدا اُٹھ رہی تھی کہ یہ دونوں زمانے کے مزاج کے خلاف چل رہے ہیں، ان کے عقل کی چولیں ڈھیلی ہو گئی ہیں۔ ہم آگ لگاتے ہیں، یہ آشیانے کو بچانے کی بات کرتے ہیں، ہم خون سے ہاتھ رنگنا چاہتے ہیں، یہ دعا کی تبلیغ کرتے ہیں۔


ہم لوٹ کر کھانا چاہتے ہیں، یہ حلال روزی کی بات کرتے ہیں۔ ہم اپنے بد نما چہروں پر اترا تے ہیں اور یہ نیکی سے پیشانی روشن کرنے کا سبب بناتے ہیں۔ ایک دن سب اکھٹے ہو گئے، بادشاہ اور وزیر کا گھیرائو کر لیا، تلواریں تان لیں اور ہر طرف سے گردن زنی کے فتوے جاری ہونا شروع ہو گئے۔ موت کو سامنے دیکھ کر بادشاہ اور وزیر نے ایک دوسرے سے مشاورت کی اور پھر یک زبان ہو کر کہا، ہمیں ماریے مت۔ ندی سے پانی لے آئیے، ہم بھی جی بھر کر پینا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کے موسم کے باوجود ایک ایسا نظام بن چکا ہے جس کے سامنے نہ کوئی اصول ٹِکتا ہے اور نہ کوئی ضابطہ اخلاق۔ بد عنوانی ایک نہ ختم ہونے والا ٹھیکہ بن چکی ہے جس سے ہر بڑا گھر تعمیر ہوا ہے۔ مال و دولت حاصل کرنے کے لیے سیدھا راستہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ اُلٹے راستے بڑی بڑی ہائی ویز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ آپ کو اگر پاکستان میں دولت کمانی ہے تو محنت، مشقت، صلاحیتوں میں اضافے اور سمجھ بوجھ میں اور وقت ضایع کرنے کی ضرورت نہیں۔ دو اداروں کے ساتھ مل کر ٹھیکیداری شروع کر دیجیے، پھر مقامی، سیاسی جوڑ توڑ میں پیسہ ڈالیے، غریبوں اور بیوائوں کی زمینوں پر قبضہ کیجیے۔

کرائے پر دستیاب قلم کاروں کی خدمات حاصل کیجیے اور بدترین اَٹھائی گیروں کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بن جائیے۔ دس سال میں چالیس (40 ) ایم این اے اور اسی ( 80) ایم پی اے آپ کی جیب میں ہوں گے۔ ملک کا صدر، بڑی جماعتوں کے تمام سربراہان، افسر شاہی کے سر کردہ لوگ، یونیفارم میں ملبوس محافظ سب آپ کی جیب میں ہوں گے۔ آپ پنجاب میں اپنی پسند کا نگراں وزیر اعلیٰ لائیں گے، وفاقی کابینہ میں چار منسٹر لگوائیں گے اور ٹوٹے پھوٹے نظام سے ابھرنے والی کچی پکی مزاحمت کو کچل کر امر ہو جائیں گے۔ دنیا بھر میں مافیا ایسے ہی کام کرتے ہیں لیکن دنیا کی کوئی ریاست مافیا کو خود پر قابض نہیں ہو نے دیتی۔

کوئی خطہ ایسا نہیں ہو گا جہاں ایک ملک پورے ملک پر بھاری ہو۔ اگر آپ کو یہ راستہ پسند نہیں تو پھر جدید یا دقیانوسی گینگ کی سربراہی قبول کر لیجیے، جدید گینگ آپ کو اسمبلیوں میں بھی پہنچائے گا، ذرایع ابلاغ کی گردن پر چاقو رکھ کر آپ کی تعریف بھی کروائے گا اور چند سالوں میں بھتے سے آپ کے گھر بھر دے گا۔ شرط صرف یہ ہو گی کہ آپ نے پوجا پاٹ ترک نہیں کرنی اور ہر وقت گینگ کے سربراہ کے سامنے سجدے کی حالت میں رہنا ہے۔ دوسرے گینگ آپ سے جان کا نذرانہ مانگیں گے اور شہروں میں سے نکال کر پہاڑوں میں لے جائیں گے مگر کاروبار ان کا بھی سچا ہے، ا س میں کمی نہیں آتی۔ دین اول کا نام استعمال ہو تا ہے اور ہر گھنائونا کام کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے۔

رزق اور تحفظ کے حصول کے ایک دو اور طریقے بھی ہیں جن میں سے زیادہ مرغوب سیاست ہے، کیونکہ آپ عوام کی نمایندگی، ووٹ، آئین، اتفاق رائے اور بہترین نظام حکومت جیسی اصلاحات کی تسبیح کرتے رہتے ہیں لہذا آپ کے سو گناہ معاف ہیں اور ہزار مزید گناہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ آپ ٹیکس چوری کریں، بجلی، پانی اور گیس کے بل نہ دیں، زمینوں پر قبضے کریں، اپنے حلقے میں راجا پرویز اشرف کی مانند عوام کے پیسے سے کھربوں روپے لٹا دیں، جعلی ڈگری بنوائیں، کالج کا منہ دیکھے بغیر ملک کے صدر بن جائیں، اربوں روپے بطور رشوت لے کر باہر منتقل کر دیں، اپنے گھر کے نوکر کو اہم اداروں کا سربراہ بنا دیں، جو دل میں آئے کریں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔

آپ مجرم ہونے کے باوجود قاضی الحاجات کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہر کوئی آپ سے فیض یاب ہونا چاہے گا، آپ کا نام بڑا ہو گا، لیکن آپ نے یہ راستے نہ اپنائے تو آپ کی حالت بھی بادشاہ اور اس کے وزیر جیسی ہو گی جو برائی میں اتنا گِھر جائے گا کہ برائی کا حصہ بننے اور مارے جانے کے سوا کوئی تیسرا راستہ موجود نہیں ہو گا۔ اس پاک سر زمین کے پانی کو اتنا ناپاک کر دیا گیا ہے کہ اس کی تطہیر میں صدیاں لگ جائیں گی۔
Load Next Story