سیاستدان ناکام نہیں ہوئے…

نگراں وزیراعظم کے نام پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہ ہونے کو سیاستدانوں کی ناکامی سے تعبیر کرنانا انصافی ہوگی


Nasir Alauddin Mehmood March 29, 2013

عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کرکے ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کی بنیاد رکھ دی ہے۔ نگراں وزیراعظم کا انتخاب اگرچہ آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق پہلے مرحلے پر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے باہمی مشورے سے نہیں ہوسکا اور اس کے بعد دوسرے مرحلے پر آئین کے مطابق تشکیل دی گئی آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی مقررہ وقت کے دوران کسی ایک نام پر متفق نہ ہوسکی لیکن آئین ہی کے تحت دیے گئے تیسرے اور آخری طریقے کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جسٹس (ریٹائرڈ) میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم مقرر کردیا۔

قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا نگراں وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہونے اور بعد ازاں آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی میں بھی کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے چار اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دونوں ارکان نے اگرچہ افسوس توضرور کیا لیکن انھوں نے مایوسی کا اظہار ہرگز نہیں کیا۔ کمیٹی کے ارکان نے پریس بریفنگ کے موقع پر قوم کو یہی مثبت پیغام دیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کا یہ پہلا تجربہ تھا جس کے بعد اس طریقہ کار کی چند خامیاں بھی پوری طرح عیاں ہوئی ہیں۔ جس کے بارے میںتوقع ظاہر کی کہ آیندہ آنے والی پارلیمنٹ اس سقم کو آئینی ترمیم کے ذریعے دور کرے گی تاکہ مستقبل میں پھر کبھی یہ نوبت نہ آئے اور ڈیڈ لاک پیدا ہوئے بغیر پارلیمانی کمیٹی میں نگراں وزیراعظم کے نام پراتفاق رائے کیا جاسکے۔

اس موقع پر ان رہنمائوں نے مذاکرات کے تمام رائونڈز کو انتہائی مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات پورے وقار اور احترام کے ساتھ ہوئے، کمیٹی میں پیش کیے گئے چاروں افراد کو انتہائی قابل احترام قرار دے کر ان کے بھی وقار کو ملحوظ رکھا گیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئین کے مطابق اب الیکشن کمیشن، بھجوائے گئے ناموں میں سے جس نام کا بھی انتخاب کرے گا وہ ہم سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔ یہ ایک خوشگوار روایت کی ابتدا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس پورے عمل میں شریک ملک کے سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت حسین نے، نگراں وزیراعظم کے نام پر پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کو سیاستدانوں کی ناکامی قرار دے کر جمہوری نظام کے ناقدین کو تنقید کا سنہری موقع فراہم کیا۔

جس کا ان عناصر نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود سیاستدان آپس میں باہمی مشاورت کے نتیجے میں ایک نگراں وزیراعظم تک کا انتخاب نہیں کرسکے اور بالآخر الیکشن کمیشن کو ہی یہ مسئلہ حل کرنا پڑا۔ لہٰذا یہ بات کس طرح تسلیم کرلی جائے کہ مذکورہ سیاستدانوں نے تاریخ سے کچھ سبق سیکھ لیا ہے اور وہ باہمی مشاورت کے ساتھ امور مملکت چلانے کے اہل ہوچکے ہیں ۔یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ ابھی چند روز قبل تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کو یہی ناقدین ''فرینڈلی اپوزیشن'' کا طعنہ دیا کرتے تھے ۔آج وہی اپوزیشن اگر حکومت کے ساتھ نگراں وزیراعظم کے نام پر متفق نہیں ہوسکی تو جمہوری نظام کے ان ہی ناقدین کو یہ مہذب اختلاف بھی پسند نہیں آیا اور انھوں نے اس اختلاف کو بھی اپنی خواہش اور مرضی کے معنی پہنا دیے ہیں۔

شاید اس جارحانہ رویے کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ گزشتہ پانچ سال تک اپوزیشن نے جمہوری نظام کے مخالفین کی خواہشات پر عمل نہیں کیا اور پارلیمنٹ میں ایسے حالات پیدا نہیں کیے جس کو بنیاد بنا کر کوئی ماورائے آئین اقدام کیا جاتا۔ حزب اختلاف نے پوری دیانتداری کے ساتھ اختلاف رائے کا اظہار تو کیا لیکن جمہوری نظام کو تقویت پہنچانے اور اسے مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی جاری رکھی۔ اسی بنا پر جمہوری نظام کے مخالفین اپوزیشن پر شدید برہم رہے اور عوام کو متنفر کرنے کے لیے گمراہ کن الزامات لگاتے رہے۔

نگراں وزیراعظم کے نام پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہ ہونے کو سیاستدانوں کی ناکامی سے تعبیر کرنا سراسرنا انصافی ہوگی، یہاں ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے سابقہ پارلیمنٹ اور اس میں موجود سیاستدانوں کو مبارکباد پیش کرنی چاہیے کہ انھوں نے ''میثاق جمہوریت'' میں کیے گئے عہد کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے لیے جس طرز کے آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کا قوم سے وعدہ کیا تھا وہ انھوں نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے پورا کردیا۔

آج پوری قوم کو الیکشن کمیشن پر کوئی اعتراض نہیں اور جمہوری نظام کے مخالفین بھی الیکشن کمیشن کے سربراہ کے اچھے کردار کے معترف ہیں۔ اس ہی پارلیمنٹ نے ''میثاق جمہوریت'' کے عین مطابق نگراں حکومتوں کے قیام کا پورا طریقہ کار وضع کیا اور نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخاب کے لیے تین مراحل متعین کیے۔ پارلیمنٹ اور فیصلہ سازی کے عمل میں شریک سیاستدانوں کو ان کی بصیرت، دور اندیشی اور معاملہ فہمی پر خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔

ناقدین جمہوریت کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے اپوزیشن کو اس بنا پر ہدف تنقید بنایا گیا کہ قائد حزبِ اختلاف نے کمیٹی کی تشکیل کے موقع پر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو نظر انداز کرکے غیر جمہوری رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئین کے متعلقہ آرٹیکل سے انحراف کرکے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے؟ کیا آئین میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو یہ صوابدیدی حق نہیں دیا گیا کہ وہ جن ارکان کو چاہیں اس پارلیمانی کمیٹی کا رکن منتخب کریں۔

اس صوابدیدی اختیارکے پس پشت بھی ایک دانش کارفرما تھی۔ یعنی یہ کہ اگر کسی اتحادی حکومت میں پانچ یا اس سے زائد جماعتیں شامل ہوں یا اس ہی طرح اپوزیشن میں پانچ یا اس سے زائد سیاسی جماعتیں موجود ہوں اور ان حالات میں 4 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مرحلہ درپیش ہوتو پھر 4 رکنی کمیٹی میں پانچ یا اس سے زائد جماعتوں کے نمایندوں کو شامل کرنا کس طرح ممکن ہوگا؟ یقیناً اس ہی ممکنہ الجھن سے بچنے کے لیے قانون سازوں نے ارکان کے انتخاب کا اختیار صوابدیدی کردیا تھا۔ قانون سازوں کو اس دور اندیشی پر بھی تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

جمہوریت میں ہمیشہ ہر مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے کا پیدا نہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ لیکن قابل ستائش امر یہ ہے کہ جو بھی مسئلہ سامنے آئے اس کا حل آئین میں رہتے ہوئے نکالا جائے۔ اگر سیاستدان آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کا واضح مفہوم یہی نکلے گا کہ سیاستدانوں نے جو آئین تشکیل دیا اور پھر اس میں وقتاً فوقتاً جو ترامیم کی ہیں ان میں مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھا گیا تھا۔ اسی وجہ سے کہ نگراں وزیراعظم کے معاملے پرکسی بھی نوعیت کا کوئی تعطل پیدا نہیں ہوسکا اور بظاہر گمبھیر مسئلہ کوئی کشیدگی پیدا کیے بغیر ہی آئین کے مطابق حل ہوگیا۔

اس تناظر میں اگر گزشتہ پانچ سالہ جمہوری تجربے کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں نئے جمہوری کلچر کی ایک اچھی اور قابل تقلید ابتدا ہوگئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوںنے چند بہترین روایات کو قائم کیا ہے۔ جمہوری نظام کے تحت سیاسی مسائل کا آئینی حل تلاش کرنے کا رویہ، سیاستدانوں میں ایک مثبت تبدیلی کی غمازی کرتا ہے۔ ہمیںموجودہ جمہوری نظام کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرنا چاہیے۔ دور حاضر کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے بیشتر انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں حیرت انگیز ترقی کا سفر جمہوریت ہی کی بدولت ممکن ہوسکا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی ترقی اور خوشحالی بھی جمہوریت ہی میں پنہاں ہے۔ ہمیں تمام رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کے سفر کو جاری رکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں