منشور کے تھان

اسی اندیشے کے باعث میری چائے کی خواہش بھی دم توڑ گئی جس طرح ان مظلوم سیلزمینوں کی ٹوٹتی تھی


Muhammad Ammar Faizan March 29, 2013

ہمارے ایک انتہائی 'نستعلیق' قسم کے قریبی دوست کی شادی کا وقت نزدیک آیا تو تمام 'عام' انسانوں کی طرح انھیں بھی خریداری کا خیال آیا اور انھوں نے کتابوں کی دنیا سے ہاتھ چھڑا کر اور آنکھ بچا کر بازار میں قدم رکھا اور ہم قدم اور ہم رکاب اپنے ہی جیسے علمی 'یاروں' کے ساتھ، جس میں اتفاق سے میرا بھی شمار کیا گیا جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس انتخاب کے بعد ان کی علمی اور عملی کاوشوں پر شک بھی کیا جاسکتا ہے۔

خیر عزت دی گئی تھی تو بغیر کسی تردد کے قبول کرلی اور بہت ساری کتابوں کے 'علم' کے ساتھ بازار کا رخ کیا تاکہ اپنے حسین دوست کو دلہا بنا سکیں، دوست اور ہماری عمر میں تو کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن ساتھ میں ایک 'صرف' چہرہ سے تجربہ کار قسم کے صاحب کو بھی ساتھ لیا تاکہ کچھ رعب پڑسکے۔ اطلاع کے لیے یہ خبر دیتا چلوں دونوں حضرات آج کل اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے تحریر کررہے ہیں اور دنوں کا جھکائو اردو ادب کی جانب ہی ہے جس کی بدولت دونوں ہی زبان اور بیان میں 'ثقیل' ہوچکے ہیں۔

جس دکان پر شیروانی اور کوٹ پسند کرتے ساتھ ہی ساتھ ان کے منہ سے کچھ ایسے 'نازیبا' الفاظ نکل جاتے جس کو سن کر کپڑا فروشوں کے دانت اور آنکھیں باہر کی جانب اُبل آتی تھیں کیونکہ ان بے چاروں کو کیا بہت سے الفاظ کے معنی تو مجھ غریب کو بھی نہ آتے تھے بس اپنا بھرم رکھنے کے لیے مسکرا دیتا تھا تاکہ ان کو اندازا ہوجائے میں سب سمجھ گیا ہوں، جب کہ اس وقت میں اور سیلزمین ایک ہی صف میں ہوتے تھے۔دو ڈھائی گھنٹے کی مشقت کے دوران کئی دکان دار اِن ادیبوں کے جملوں کے 'حملے' سہتے رہے اور برداشت اور چائے کے گھونٹ پیتے رہے، ساتھ ساتھ چائے کی پیشکش بھی کرتے رہے، لیکن دونوں موصوف نے پتا نہیں کہاں پڑھا تھا یا شاید دونوں کے دماغوں میں وہ اشتہارات تھے جس میں چائے پیتے ہی جذبات سرد ہوجاتے ہیں اور پھر بیگمات اپنے 'مطلب' کے کام نکلوا لیتی ہیں جس میں زیادہ تر کوئی خرچہ ہی کرنا ہوتا ہے۔

اسی اندیشے کے باعث میری چائے کی خواہش بھی دم توڑ گئی جس طرح ان مظلوم سیلزمینوں کی ٹوٹتی تھی جب وہ کوئی عوامی قسم کا جملہ ہماری طرف اچھالتے تھے کہ شاید تھوڑا سا مسکرانے کے باعث ان کے دل میں کوئی نرمی پیدا ہوجائے اور وہ من مانی قیمت وصول کرلیں لیکن کمال ہے جو ان اسپاٹ چہروں پر کوئی تبدیلی کے اثرات نمودار ہوئے ہوں اور پھر میں ان کا ساتھ دینے کے لیے ہلکے سے دانت نکال کر اپنی سمجھ دانی کا ثبوت پیش کردیتا تاکہ ان کو احساس رہے کہ 'انسانوں' کو ہی مال فروخت کیا ہے۔

خیر تمام دانشوری کے ساتھ خریداری کی گئی اور بہت خوش تھے کہ لوگ بلاوجہ ایسی خبریں اڑاتے ہیں کہ کتابوں کی دنیا میں رہنے والوں کو کیا معلوم ہوتا ہے، بس خیالی پلائو ہوتے ہیں اور کچھ نہیں لیکن اس وقت تو حقیقی زندگی کے میدان میں بھی کامیابی کا سا گمان تھا، شیروانی والے نے سینہ ٹھونک کر کہا دو دن بعد آجائیں 'آزمائشی' طور پر دیکھ کر چلے جائیں پھر ایک ہفتہ بعد تیار سامان لے جائیں۔

اصل کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ کچھ آگے بڑھے تھے کہ ایک دکاندار نے بہت پیار سے آواز لگا کر تین 'دانشوروں' کو اپنے سحر میں مبتلا کرلیا اور نجانے کیا ہوا قدم اٹھنے کا نام نہ لیتے تھے اور وہیں ڈھیر ہوگئے، بیٹھنے کی دیر تھی استاد نے اپنا سب سے ذہین چیلا چھوڑ دیا، اس نے جھٹ پٹ کئی تھان لہرا لہرا کر ہمارے چہروں کی جانب اُڑا دیے، ان کپڑوں کا نرم و ملائم پن اور بھینی بھینی سی خوشبو نے دماغوں کو بے خود کردیا، اس کے بعد اس کی جانب سے نہ ختم ہونے والے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے جواب ابھی جاری ہی ہوتے تھے کہ مزید سوال اچھل کر آجاتے اور تینوں کو احساس ہوا کہ پورے بازار میں اگر واقعی ہمارا کوئی حقیقی خیر خواہ ہے تو بس یہ ہی ہے۔

اس مصرع کے مصداق کہ، میرے شکوہ کو جو سمجھا تو وہ رضواں سمجھا۔ اس کے بعد ہم ان کی باتوں کی گرفت میں تھے جو مسلسل اعصاب کو شل کیے جارہی تھی لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی ایسا نشہ تھا کہ ہم مدہوش ہوتے چلے گئے اور جو اس نے فروخت کرنا چاہا وہ ہم نے لے لیا۔ جب سات سمندر پار کیے اور جادو کا اثر تھوڑا کم ہوا تو دولہا دوست جنہوں نے کچھ زیادہ ہی 'پی' لی تھی ان کو یہ تک یاد نہ رہا کہ شلوار کا ناپ دیا ہے یہ نہیں؟ اور ایک بار پھر دکان کی طرف گئے جہاں وہ ہی عجیب سی مسکراہٹ کا سحر طاری تھا جس سے بچ کر بھاگے تھے، لیکن اتنی محبت سے جواب دیا گیا کہ ہمیں شرمندگی کا احساس کروا دیا گیا اور دل میں خیال گزرا فضول میں ہی ہم نے زیادہ سر پر حاوی کرلیا ہے، بندہ 'بشر' ہی ہے۔

دو دن بعد جب دکان کی یاترا کی تو پتا چلا نیا فرمان جاری ہوا ہے، درزی کا فرمانا ہے اب شیروانی وغیرہ کی آزمائش کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، یہ تو پہلے وقتوں کی بات ہے۔ اتنی دور آنے کی خواری اور بے زاری کے بعد یہ پہلا صدمہ تھا، اس کے بعد اس 'ساحر' کی دکان تک گئے، بہت مشکل سے ہمارے دانشوروں نے اس سے جان بچائی جو محبت کے نام پر پیسے زیادہ طلب کررہا تھا اور اس کی محبت گھر آنے پر آشکار ہوئی کہ موصوف نے جس کپڑے اور جوڑے کی تعریف میں زمین آسمان کی قلابیں ملائی تھیں وہ جوڑا ہی خراب کردیا۔

گزشتہ انتخابات کے بعد سب سے زیادہ شور اسی بات کا کیا گیا کہ عوام باشعور ہوگئے ہیں، علم کے خزانوں نے ٹی وی، انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی انسانوں کے ذہنوں کو تبدیل کرچکی ہے، اب اس ملک کے عوام کسی چور، بدمعاش اور کرپٹ سیاستدان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے، اس پاکستان کے نوجوان جو مایوسیوں کا شکار ہیں، اب حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں، یہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں، اب ان کو کسی شوگر کوٹیڈ گولی کے ذریعے بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا، اب ٹھپہ مافیا کا زور نہیں چل سکے گا، تو مجھے فوراً وہ سیلزمین یاد آیا جس نے ہمیں شادی کی خوشی میں کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع دیے بغیر ایک کے بعد ایک بہترین قسم کا تھان ہمارے سامنے کھولنا شروع کردیا تھا۔

جس میں ہر کپڑے کی کئی ہزار خصوصیات بتائی تھیں کہ اس کو پہن کر دولہا شہزادہ لگے گا، اس طرح آج ہر سیاسی جماعت 'مارکیٹ' میں اپنا منشور پھینک رہی ہے، جس میں انتہائی دل کو لبھانے اور بہلانے والی باتیں ہیں، بہت ہی حسین اور دلکش خواب ہیں، نہایت ہی عمدہ اور عالیشان وعدے ہیں، زندگی بدل دینے کی زمانتیں ہیں، نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے خزانے ہیں، لڑکیوں کے لیے 'مزید' آزادی اور بہتریں تعلیم کے سپنے ہیں، دیانت داری کے دعوے اور کرپشن سے پاک پاکستان کا عزم ہے، معاشی ترقی کے نئے زینے تیار کرکے دکھائے گئے ہیں، بجلی، پانی، گیس کی کمی کا آیندہ آنے والی زندگی میں مسئلہ ہی ختم کردیا ہے۔

ہر انتخاب کے بعد رونے اور چلانے کے بجائے 'خواہشات' پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اقتدار کی چاہ میں اسلامی فلاحی ریاست کا ڈول اور بھنگڑا ساتھ ڈالا جا رہا ہے۔ ایک ہی طرح کے منشور پیش کرکے بس ہر جماعت اس میں 'اپنا پن' ڈال رہی ہے، اور ہر دفعہ کی ناکامی کے بعد انتہائی مظلومانہ شکلیں لے کر اگلے الیکشن تک بے چاری عوام کو کوستے ہیں یہ کہہ کر کہ جیسے لوگ منتخب کرو گے ویسا ہی حال ہوگا۔ اور میں یہ سوچتا رہا کہ جب اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات ایک سیلزمین سے مات کھا سکتے ہیں تو عوام جس نے شعور کی پہلی منزل پر قدم بھی نہ رکھا ہو، وہ کیونکر ہر دفعہ دھوکا نہیں کھائے گی۔ جناب کیا سوچنا شروع کردیا؟ ہم صرف وہ سوچ سکتے ہیں جو سوچنے پر ہم کو مجبور کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |