میں نہیں مان سکتا کوئی ڈکیت پارٹی صدر بن کر حکومت کرے چیف جسٹس
اللہ نہ کرے کوئی چور اچکا پارٹی صدر بن جائے، چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ میں نہیں مان سکتا کوئی ڈکیت پارٹی صدر بن کر ملک پر حکومت کرے اور اللہ نہ کرے کوئی چور اچکا پارٹی صدر بن جائے جب کہ نااہل شخص اراکین پارلیمنٹ سے وہ سب کام کروائے گا جو وہ خود نہیں کرسکتا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مشاہد حسین کے لیے پارٹی ٹکٹ پر نوازشریف نے دستخط کیے، فرحت اللہ بابر نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ پر عمران خان کے دستخط ہیں جس پر وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ،63 کا تعلق اہلیت اور نااہلیت سے ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ اور اراکین سے متعلق ہے جب کہ الیکشن ایکٹ 2017 آئین سے متصادم نہیں ہے، پارلیمنٹ چاہے تو آرٹیکل 17میں ترمیم کرسکتی ہے، کسی پارٹی رکن کی غلطی کو معاف کرنا یا ریفرنس بھیجنا سربراہ کا اختیار ہے، دونوں صورتوں میں یہ سیاسی جماعت کااندرونی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں ان کے وزیراعظم وہی ہیں، ہم یہ دیکھ رہے ہیں پارٹی صدر کی حیثیت کیاہوتی ہے، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرے خیال سے پوری پارلیمنٹ نوٹس لے رہی ہو گی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم بھی نوٹ کررہے ہیں، پارلیمنٹ کو قانون بنانے کااختیار ہے تاہم ایسے قانون بنانے کااختیار نہیں جو انویلڈ ہوں جب کہ میں نہیں مانتا کوئی ڈکیت پارٹی صدر بن کرملک پر حکومت کرے، وزیراعظم کہتے ہیں میں تو صرف نمائندہ ہوں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نیلسن منڈیلا بھی کئی سال جیل میں رہے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نیلسن منڈیلا پرسیاسی کیس تھا فوجداری نہیں جب کہ کیا توہین عدالت کا مرتکب پارٹی صدر بن سکتاہے، توہین عدالت کامرتکب ریاست سے وفادار نہیں ہوتا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 63 ون کوآرٹیکل 17میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں نااہل شخص پارٹی صدر بن سکتاہے، جس پر وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62ون ایف کی نااہلی پارلیمنٹ کے حوالے سے ہے لہذا آرٹیکل 63ون کو آرٹیکل 17 میں شامل نہیں کیا جاسکتا، سیاسی جماعت کے اراکین کی مرضی وہ جس کوسربراہ بنائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نااہل شخص اراکین پارلیمنٹ سے وہ سب کروائے گا جو خود نہیں کرسکتا، سلمان اکرم نے دلائل میں کہا کہ کیا پارٹی صدارت کے لیے پابندی ہوگی اور کیا نااہل شخص سیاسی جماعت میں سیکرٹری جنرل سیکرٹری فنانس کاعہدہ نہیں رکھ سکتا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ کیا قتل اور ڈکیتی میں سزا کاٹنے والا سیاسی جماعت بناسکتاہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اللہ نہ کرے کوئی چور اچکا پارٹی صدر بن جائے، کسی کی ذات سے کوئی غرض نہیں، پاکستان کے سارے سیاسی رہنما اچھے ہیں تاہم عدالت نے فیصلے میں مستقبل کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مشاہد حسین کے لیے پارٹی ٹکٹ پر نوازشریف نے دستخط کیے، فرحت اللہ بابر نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پارٹی ٹکٹ پر عمران خان کے دستخط ہیں جس پر وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ،63 کا تعلق اہلیت اور نااہلیت سے ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ اور اراکین سے متعلق ہے جب کہ الیکشن ایکٹ 2017 آئین سے متصادم نہیں ہے، پارلیمنٹ چاہے تو آرٹیکل 17میں ترمیم کرسکتی ہے، کسی پارٹی رکن کی غلطی کو معاف کرنا یا ریفرنس بھیجنا سربراہ کا اختیار ہے، دونوں صورتوں میں یہ سیاسی جماعت کااندرونی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں ان کے وزیراعظم وہی ہیں، ہم یہ دیکھ رہے ہیں پارٹی صدر کی حیثیت کیاہوتی ہے، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرے خیال سے پوری پارلیمنٹ نوٹس لے رہی ہو گی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم بھی نوٹ کررہے ہیں، پارلیمنٹ کو قانون بنانے کااختیار ہے تاہم ایسے قانون بنانے کااختیار نہیں جو انویلڈ ہوں جب کہ میں نہیں مانتا کوئی ڈکیت پارٹی صدر بن کرملک پر حکومت کرے، وزیراعظم کہتے ہیں میں تو صرف نمائندہ ہوں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نیلسن منڈیلا بھی کئی سال جیل میں رہے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نیلسن منڈیلا پرسیاسی کیس تھا فوجداری نہیں جب کہ کیا توہین عدالت کا مرتکب پارٹی صدر بن سکتاہے، توہین عدالت کامرتکب ریاست سے وفادار نہیں ہوتا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 63 ون کوآرٹیکل 17میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں نااہل شخص پارٹی صدر بن سکتاہے، جس پر وکیل سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62ون ایف کی نااہلی پارلیمنٹ کے حوالے سے ہے لہذا آرٹیکل 63ون کو آرٹیکل 17 میں شامل نہیں کیا جاسکتا، سیاسی جماعت کے اراکین کی مرضی وہ جس کوسربراہ بنائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نااہل شخص اراکین پارلیمنٹ سے وہ سب کروائے گا جو خود نہیں کرسکتا، سلمان اکرم نے دلائل میں کہا کہ کیا پارٹی صدارت کے لیے پابندی ہوگی اور کیا نااہل شخص سیاسی جماعت میں سیکرٹری جنرل سیکرٹری فنانس کاعہدہ نہیں رکھ سکتا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ کیا قتل اور ڈکیتی میں سزا کاٹنے والا سیاسی جماعت بناسکتاہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اللہ نہ کرے کوئی چور اچکا پارٹی صدر بن جائے، کسی کی ذات سے کوئی غرض نہیں، پاکستان کے سارے سیاسی رہنما اچھے ہیں تاہم عدالت نے فیصلے میں مستقبل کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔