یہ ہوتی ہے قیادت

سلام ہے روانڈا کی دوراندیش قیادت کو جس نے اپنی سرزمین پر پیدا ہونے والے کافی کے چھوٹے چھوٹے بیجوں کو معمولی نہ جانا۔


فرحین شیخ February 16, 2018

اچھی قیادت کیا ہوتی ہے اور کس طرح صرف صحیح سمت دے کر قوموں کی بِِگڑی بنائی جاتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں روشن مثال کی صورت میں روانڈا کی کہانی سے ملتے ہیں ۔

زیادہ پُرانی بات نہیں جب روانڈا بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔ سو دنوں تک جاری رہنے والے اس انسانی بحران میں آٹھ سے دس لاکھ باشندوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ سال1994 کو اس نسل کشی کے باعث جدید تاریخ کا سب سے گھنائونا سال تصور کیا جاتا ہے۔ کٹر نظریات کے حامل ہوٹو نسل کے افراد نے ٹوٹسی اقلیت اور اعتدال پسندوں کو چُن چُن کر ہلاک کیا یہاں تک کہ روانڈا اپنی ستر فی صد آبادی سے محروم ہوگیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ جنگ کے لازمی نتائج کے طور پر روانڈا کا معاشی ڈھانچہ مکمل تباہ ہو گیا۔ ملک میں موجود تمام کھیت کھلیان جلا دیے گئے یا تہس نہس کردیے گئے، جن کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے روانڈا کے پاس افرادی قوت تقریباً صفر ہوچکی تھی۔ اس گھپ اندھیرے میں روانڈا کے پاس امید کی بس ایک ہی کرن تھی اور وہ تھی یہاں ہونے والی کافی کے بیجوں کی وافرکاشت۔

یہ امید کی کرن جلد ہی مایوسی میں تبدیل ہوجاتی، اگر روانڈا جیسے پس ماندہ ملک کے حکمراں اپنی سرزمین پر ہونے والی اس واحد پیداوار کی اہمیت کو نظرانداز کرکے روانڈا کے شہریوں کو روزجینے اور مرنے کے لیے ان کے حال پر ہی چھوڑ دیتے، لیکن کم وسائل میں مثالی منصوبہ بندی کرکے جنگ زدہ قوم کو زیرو سے اوپر کی طرف لانے کا سہرا بجا طور پر روانڈا کے حکمرانوں کے ہی سر جاتا ہے۔

کافی کی صنعت نے روانڈا کے تاریک مستقبل کو نئے سرے سے تحریر کیا۔ 2013 تک کے مختصر سفر میں ہی روانڈا کی کافی دنیا بھر میں تہلکہ مچا چکی تھی اور وہ دنیا بھر میں اعلیٰ معیارکی کافی برآمد کر نے والا ایک بڑا ملک بن چکا تھا ۔ جنگ کے ہاتھوں سب کچھ لُٹا دینے والے عوام اور حکمرانوں کی شبانہ روز محنت سے کافی کی پیداوار برگ و بار لانے لگی۔

روانڈا میں امید کی سوئی ہوئی کرنیں بے دار ہوئیں، باشندوں پر نوکریوں کے دروازے کھلے، کچی چھتیں پکی ہونے لگیں، کسانوں کے چہروں کی رونق لوٹ آئی حتی کہ دنیا نے وہ حیرت انگیز وقت بھی دیکھا جب روانڈا کو جنگ میں دھکیلنے والے متحارب ہوٹو اور ٹوٹسی گروہوں کے درمیان کافی کی پیداوار مصالحت کا راز بن گئی اور اس تجارت میں آج دونوں اپنے اپنے اختلافات بھلائے روانڈا کی ترقی کے نئے سفر میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔

سلام ہے روانڈا کی دوراندیش قیادت کو جس نے اپنی سرزمین پر پیدا ہونے والے کافی کے چھوٹے چھوٹے بیجوں کو معمولی نہ جانا۔ ان سرخ بیجوں کو ہیروں کی طرح اہمیت دیتے ہوئے تمام تجارتی پالیسیاں نرم کیں اور کسانوں پر عائد پابندیاں بھی اٹھا لیں۔ ان بہترین حکمت عملیوں کے باعث روانڈا میں کافی کے بیجوں کی کاشت میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہوا۔ سب سے اہم بات تو یہ کہ انھوں نے کافی کی پیداوار کو تو بڑھایا، مگر اس کی قیمت بے جا نہیں بڑھنے دی۔

سن2000 میں ایک کلو کافی بیگ کی قیمت اعشاریہ دو ڈالر تھی اور دس سال بعد اس کی قیمت معمولی اضافے کے ساتھ ساڑھے تین ڈالر ہوگئی، لیکن یہ قیمت روانڈا کے بد حال اور مفلوک الحال کسانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ ان کے شانوں سے بوجھ کم ہونے لگا تو مزید پیداوار میں ان کا دل لگنے لگا۔ ذرا سا ہاتھ کھلتے ہی ان کے بچوں کے لیے تعلیم کے دروازے کھلنے لگے۔ یوں روانڈا کی کافی نے دنیا کو ہی اپنا گرویدہ نہیں بنایا بلکہ اپنے عام شہریوں کا معیار زندگی بھی بدل دیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ وہی قومیں کامیاب ہوئی ہیں جنہوں نے بیساکھیوں پر تکیہ کیے بنا اپنے ہی وسائل کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ترقی کا سفر طے کیا۔ حالانکہ روانڈا کا شمار آج بھی ترقی پذیر ممالک میں ہی کیا جاتا ہے، یہاں بجلی جیسی بنیادی سہولت بھی محض بیس فی صد شہریوں کو میسر ہے، لیکن ملک کے بنیادی ڈھانچے میں لائی جانے والی تبدیلیاں ایک دن روانڈا کی قسمت ضرور تبدیل کریں گی، بشرطیکہ یہاں آیندہ آنے والے حکمراں بھی ملک و قوم سے اتنے ہی مخلص ہوں۔

روانڈا پر حکمراں زیرک قیادت کے اقدامات کے نتیجے میں شہریوں کی زندگی صرف ایک کافی سے اجلی ہوتی جا رہی ہے۔ رواں ماہ، روانڈا دنیا کے پسماندہ ممالک میں وہ پہلا ملک قرار پایا ہے جہاں آنکھوں کے علاج کی مفت سہولت ملک کے ہر شہری کو مفت فراہم کر دی گئی ہے ۔ روانڈا میں ہر تیسرا شہری آنکھوں کے کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ چالیس سے پینتالیس سال کی عمر میں ہی میں ان کی آنکھوں سے بینائی رخصت ہوجاتی ہے۔

حکومت کو اس بات کا جلد ہی ادراک ہوا کہ ملک کے باشندوں کی بینائی کا چلے جانا، کافی کی پیداوار پر نہایت منفی اثر ڈال رہا ہے۔ کافی کے بیجوں کی چھٹائی نہایت مہارت کا کام ہے اور یہ کام زیادہ تر عورتیں انجام دیتی ہیں۔ بینائی کے جلد چلے جانے کی وجہ سے عورتیں کام کے قابل نہیں رہتیں اورگھر بیٹھ جاتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں عورتوں کا گھر بیٹھ جانا کسی بھی مفلس ملک کی دشواریوں میں اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لہذا ''ویژن فار نیشن'' کے تعاون سے روانڈا میں مفت آنکھوں کے علاج تک بچے بچے کو رسائی دے دی گئی ہے۔

پندرہ ہزار ماہر نرسیں روانڈا کے ہر گائوں اور قصبے میں لوگوں کے علاج کے لیے آج موجود ہیں۔ 12ملین عوام کو آنکھوں کے علاج کی مفت سہولت فراہم کرنے کا مقصد روانڈا میں ہونے والی کافی کی کاشت کو مزید ترقی دینا ہے۔ یہ سہولت فراہم کرنے کا دوسرا بڑا مقصد بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہ کرنا ہے کیوں کہ بینائی کے چلے جانے کے باعث جب لوگ کام کے قابل نہیں رہتے تو وہ بچوں کو اسکولوں سے اٹھا کر کافی کے بیجوں کی چھٹائی کے کام پر لگا دیتے ہیں۔

اس عمل کو روکنے کے لیے شہریوں کی آنکھوں کا علاج اور نظام تعلیم کی ترقی روانڈا کی ایک اہم حکومتی ترجیح بن چکی ہے جس پر وہ کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ روانڈا بلاشبہ افریقا کی ایک نئی سمت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے دیگر سوئے ہوئے ملکوں کے لیے ایک تازہ اور زندہ مثال ہے۔

حیرت انگیز امر تو یہ ہے کہ روانڈا کے سنہرے مستقبل کی تعمیر میں سارا ہاتھ کافی کی اس پیداوار کا ہے جس کا استعمال خود روانڈا میں ایک فی صد بھی نہیں۔ وہاں کے باشندے تعجب کرتے ہیں کہ اس کالے اور کڑوے محلول میں ایسا کیا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔

روانڈا کی حکومت اس محاذ پر بھی سرگرم ہے اور پوری دنیا میں موجود کافی کلچر کو اپنی زمین پر بھی قابل قبول بنانے کے لیے یہاں کافی شاپس کھولی جارہی ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ روانڈا کے شہریوں کے لیے جدید اور ترقی یافتہ دنیا کی کوئی چیز انجان نہ رہے اور کافی کلچر سے دوری کے باعث اس کے شہریوں کی دنیا میں تضحیک نہ ہو۔

روانڈا کا سخت گرم موسم اور آتش فشانی مٹی کافی کی پیداوار میں نہایت معاون ہے۔ یہ روانڈا کی سب سے بڑی زراعتی پیداوار ہے۔ امریکا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان اس کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ روانڈا کے پس ماندہ اور جاہل کہلائے جانے والے لوگ دنیا کی باشعور قوموں کی طرح اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ جو زخم پک کر ناسور بن چکے ہوں ان کے بھرنے میں طویل اور صبر آزما وقت درکار ہوتا ہے، ترقی کا سفر جست لگا کر نہیں بلکہ زینہ بہ زینہ طے کیا جاتا ہے۔

اس بارے میں روانڈا کی نسل کشی سے بچ کر امریکا چلے جانے والے معروف مصنف ایماکیولیٹ للی بجیزا کہتے ہیں،''روانڈا دوبارہ جنت بننے کی طرف جا رہا ہے، لیکن زخم بھرنے تلک اسے پوری دنیا کی محبت درکار ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں