فکر فلسفہ اور تہذیب ثقافت کے جدید چیلنج
ہم فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے ان رویوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو اسلام کو عالمی منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
مسلم امت دعوت کی امت ہے اس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ دین اسلام کی دعوت بھولے بھٹکے انسانوں تک پہنچائے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں فرمایا: اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایاگیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔
مسلمان دنیا میں اﷲ تعالیٰ کا سپاہی ہے لہٰذا اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی زمین پر نیکی پھیلائے اور برائی مٹائے۔ جب تک اس ذمے داری کو ادا کرتا رہے گا تو وہ بہترین امت کا بہترین فرد ہوگا اور ایسے ہی شخص کو آپ ﷺ نے بہترین انسان بتایا ہے۔
حضرت درہ بنت ابو لہب روایت کرتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ منبر پر وعظ فرمارہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر آپ ﷺ سے سوال کیا، یا رسول اﷲ ﷺ انسانوں میں سب سے بہتر آدمی کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا انسانوں میں بہترین وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے والا ہو۔ جو سب سے زیادہ متقی ہو، جو سب سے زیادہ معروف (بھلائی) کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا ہو ور جب سب سے زیادہ رشتہ داری کا پاس کرنے والا ہو۔
قرآن کریم میں مومن کی جو صفات نمایاں کرکے بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ صفت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے۔
مومن کی یہ صفت ہر وقت اس کے سامنے رہتی ہے اور وہ نیکی کو پھیلانے سے کسی وقت غافل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں کوتاہی کرتا ہے۔ گویا یہ اس کی عادت بنی ہوئی ہوتی ہے کہ اپنی زبان سے برائی کو برا کہے اور اسے روکے۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے:
تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، پھر اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، پھر اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں برا کہے۔
ان آیات و احادیث کی روشنی میں زبان کا ایک اہم کردار یہ ہے کہ اس سے نیکیاں پھیلانے اور برائیاں ختم کرنے کا کام لیا جائے۔ دعوت و تبلیغ و امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمے داری پوری کرنے کے شرعی لحاظ سے کئی پہلو ہیں، جنھیں مومن ان کی ادائیگی میں اپنے سامنے رکھے۔
عالمی سطح پر فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے مختلف رویوں کے درمیان کشمکش اور تصادم کے بڑھتے ہوئے امکانات کی جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے اس میں اسلام ایک واضح فریق کی صورت میں سامنے آرہا ہے جس کے پیش نظر نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے زیادہ سے زیادہ تذکرے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کہ اس تہذیبی اور فکری کشمکش میں قرآن کریم اور سیرت طیبہؐ ہی سے ہم صحیح سمت کی طرف رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے ان رویوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو اسلام کو عالمی منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ جس طرح بہت سے دوسرے مذاہب سوسائٹی کی فکری رہنمائی، ثقافتی اور معاشرتی قیادت سے دستبردار ہوگئے ہیں اسی طرح اسلام کو بھی معاشرتی قیادت کے منظر سے ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے مذاہب کی طرح اپنی سرگرمیوں اور ہدایات کو شخصی اور پرائیویٹ دائروں تک محدود کرلینا چاہیے۔
آج کے عالمی منظر میں مسلمانوں کو فکر و فلسفہ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے یہی سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور آج نبی کریمؐ کی سیرت و تعلیمات کا اس پس منظر میں مطالعہ کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت طیبہؐ کا جس حوالے سے بھی تذکرہ کیا جائے اجر و ثواب کے سرچشمہ ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو دیکھنا ہے، اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر ان ضروریات، کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ایک دائرہ ہمارا داخلی دائرہ ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں ایک دائرہ عالمی اور بین الاقوامی ہے جو ہمارے داخلی دائرے سے الگ ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے گلوبل ماحول کی وجہ سے اپنے فاصلے کم کرتا جارہاہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں نبی کریمؐ کی تعلیمات و سیرت کے ان پہلوئوں کو ترجیحی بنیادوں پر آگے لانے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے جس کا تعلق موجودہ ضروریات سے ہے، کمزوریوں سے ہے اور کوتاہیوں سے ہے۔ اسی طرح نبی کریمؐ کی تعلیمات و ارشادات کے ان حصوں کو زیادہ اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوگیا ہے جو آج کے عالمی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں بالخصوص باہمی مکالمہ کی بات زیادہ بلند آہنگ کے ساتھ کی جارہی ہے اور جن میں ان شکایات و شبہات کا جواب پایا جتا ہے جو آج کی دنیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں نمایاں کیے جارہے ہیں اور جن کا جواب دینے کی مختلف اطراف سے کوشش کی جارہی ہیں۔
بد قسمتی سے ہم اس حوالے سے بھی افراط و تفریط کا شکار ہیں اور ہماری طرف سے ان معاملات میں دو مختلف بلکہ متضاد رویے سامنے آرہے ہیں جو کنفیوژن کا باعث بن رہے ہیں اور مسائل کے حل کے بجائے ان میں اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ مثلاً ایک رویہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کو درپیش مسائل و مشکلات اور اس کے حل کے لیے منطقی اور فطری ضروریات کی نفی کرتے ہوئے اور ان سے آنکھیں بند کرتے ہوئے رسول کریمﷺ کے ارشادات و تعلیمات کو اسی انداز اور ماحول میں پیش کیا جاتا ہے جس کا ہمیں آج سے دو یا تین سو سال قبل سامنا تھا۔
ہم جب آج کے ماحول اور تناظر میں تین سو سال قبل کے ماحول اور تناظر کے مطابق مسائل اور احکامات کو پیش کرتے ہیں تو اس سے منطقی طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسلام میں معاشرتی ارتقا کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ تبدیل ہونے والے حالات اور تقاضات کو اپنے اندر ضم کرنے یا اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ذوق نہیں رکھتا ہے اب سے تین سو سال قبل یورپ میں مسیحیت کو اس قسم کی صورتحال درپیش تھی۔
مذہب کے علمبردار احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح میں زمانے کے تغیرات اور ماحول کی تبدیلی کا لحاظ رکھنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو یورپ کے عوام نے فیصلہ کرلیا کہ معاشرتی ارتقا کا راستہ روکا نہیں جاسکتا اور نہ ہی تمدن کی ترقی پر قدغن لگائی جاسکتی ہے، اس لیے اگر مذہب ارتقا اور ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے تو اسے اپنی جگہ کھڑا رہنے دیا جائے ور سوسائٹی کو اپنی رفتار سے آگے بڑھنے دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اور سوسائٹی کا باہمی رابطہ ٹوٹ گیا۔
مذہب کی راہنمائی اور اس کی حدود کی پابندی سے آزاد ہوکر سوسائٹی نے ''مادر پدر آزادی'' کا راستہ اختیار کرلیا جس کے خوفناک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اسلام کے بارے میں بھی یہی سوچ نمایاں کی جارہی ہے اور اس تاثر کو عام کیا جارہاہے کہ اسلام میں جدید دور کے تقاضوں کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس لیے اسے مسجد کے دائرے میں رہنے دیا جائے اور شخصی زندگی میں اس کے کردار کی نفی کی جائے، سوسائٹی کو مذہب کی رہنمائی اور اس کے احکام و حدود کی پابندی سے آزاد کردیا جائے۔
اس سے زیادہ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ارباب دانش جو اس صورتحال سے پریشان ہیں اور اس سوال کا اپنے اپنے طور پر جواب دینے کا انتظار کررہے ہیں ان میں سے کچھ دوست دوسری انتہا کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ معاشرت و تمدن کے جدید مسائل و مشکلات اور ان کے بارے میں موجودہ انسانی سوسائٹی نے جو حل سوچ لیا ہے یا ان سے نکلنے کے لیے جو راستہ طے کرلیا ہے اسی کو حتمی معیار سمجھ لیا جائے اور اس کے مطابق قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات و تعلیمات کی نئی تعبیر و تشریح کرلی جائے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں کررہے ہیں، اگرچہ وہ تعبیر و تشریح ہماری خود ساختہ ہی کیوں نہ ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشاد مقدسہ کو پیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنا رکھنا ضروری ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فکر فلسفہ اور تہذیب کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔ ایسا دعوتی کام کی وسعت اور جدید اسلوب اختیار کرنے سے ممکن ہوگا بالخصوص مکالمہ کی روایت کو زندہ کرکے۔
مسلمان دنیا میں اﷲ تعالیٰ کا سپاہی ہے لہٰذا اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی زمین پر نیکی پھیلائے اور برائی مٹائے۔ جب تک اس ذمے داری کو ادا کرتا رہے گا تو وہ بہترین امت کا بہترین فرد ہوگا اور ایسے ہی شخص کو آپ ﷺ نے بہترین انسان بتایا ہے۔
حضرت درہ بنت ابو لہب روایت کرتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ منبر پر وعظ فرمارہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر آپ ﷺ سے سوال کیا، یا رسول اﷲ ﷺ انسانوں میں سب سے بہتر آدمی کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا انسانوں میں بہترین وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے والا ہو۔ جو سب سے زیادہ متقی ہو، جو سب سے زیادہ معروف (بھلائی) کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا ہو ور جب سب سے زیادہ رشتہ داری کا پاس کرنے والا ہو۔
قرآن کریم میں مومن کی جو صفات نمایاں کرکے بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ صفت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے۔
مومن کی یہ صفت ہر وقت اس کے سامنے رہتی ہے اور وہ نیکی کو پھیلانے سے کسی وقت غافل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں کوتاہی کرتا ہے۔ گویا یہ اس کی عادت بنی ہوئی ہوتی ہے کہ اپنی زبان سے برائی کو برا کہے اور اسے روکے۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے:
تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، پھر اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، پھر اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں برا کہے۔
ان آیات و احادیث کی روشنی میں زبان کا ایک اہم کردار یہ ہے کہ اس سے نیکیاں پھیلانے اور برائیاں ختم کرنے کا کام لیا جائے۔ دعوت و تبلیغ و امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمے داری پوری کرنے کے شرعی لحاظ سے کئی پہلو ہیں، جنھیں مومن ان کی ادائیگی میں اپنے سامنے رکھے۔
عالمی سطح پر فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے مختلف رویوں کے درمیان کشمکش اور تصادم کے بڑھتے ہوئے امکانات کی جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے اس میں اسلام ایک واضح فریق کی صورت میں سامنے آرہا ہے جس کے پیش نظر نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے زیادہ سے زیادہ تذکرے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کہ اس تہذیبی اور فکری کشمکش میں قرآن کریم اور سیرت طیبہؐ ہی سے ہم صحیح سمت کی طرف رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے ان رویوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو اسلام کو عالمی منظر سے ہٹانے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ جس طرح بہت سے دوسرے مذاہب سوسائٹی کی فکری رہنمائی، ثقافتی اور معاشرتی قیادت سے دستبردار ہوگئے ہیں اسی طرح اسلام کو بھی معاشرتی قیادت کے منظر سے ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے مذاہب کی طرح اپنی سرگرمیوں اور ہدایات کو شخصی اور پرائیویٹ دائروں تک محدود کرلینا چاہیے۔
آج کے عالمی منظر میں مسلمانوں کو فکر و فلسفہ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے یہی سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور آج نبی کریمؐ کی سیرت و تعلیمات کا اس پس منظر میں مطالعہ کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت طیبہؐ کا جس حوالے سے بھی تذکرہ کیا جائے اجر و ثواب کے سرچشمہ ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو دیکھنا ہے، اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر ان ضروریات، کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ایک دائرہ ہمارا داخلی دائرہ ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں ایک دائرہ عالمی اور بین الاقوامی ہے جو ہمارے داخلی دائرے سے الگ ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے گلوبل ماحول کی وجہ سے اپنے فاصلے کم کرتا جارہاہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں نبی کریمؐ کی تعلیمات و سیرت کے ان پہلوئوں کو ترجیحی بنیادوں پر آگے لانے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے جس کا تعلق موجودہ ضروریات سے ہے، کمزوریوں سے ہے اور کوتاہیوں سے ہے۔ اسی طرح نبی کریمؐ کی تعلیمات و ارشادات کے ان حصوں کو زیادہ اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوگیا ہے جو آج کے عالمی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں بالخصوص باہمی مکالمہ کی بات زیادہ بلند آہنگ کے ساتھ کی جارہی ہے اور جن میں ان شکایات و شبہات کا جواب پایا جتا ہے جو آج کی دنیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں نمایاں کیے جارہے ہیں اور جن کا جواب دینے کی مختلف اطراف سے کوشش کی جارہی ہیں۔
بد قسمتی سے ہم اس حوالے سے بھی افراط و تفریط کا شکار ہیں اور ہماری طرف سے ان معاملات میں دو مختلف بلکہ متضاد رویے سامنے آرہے ہیں جو کنفیوژن کا باعث بن رہے ہیں اور مسائل کے حل کے بجائے ان میں اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ مثلاً ایک رویہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کو درپیش مسائل و مشکلات اور اس کے حل کے لیے منطقی اور فطری ضروریات کی نفی کرتے ہوئے اور ان سے آنکھیں بند کرتے ہوئے رسول کریمﷺ کے ارشادات و تعلیمات کو اسی انداز اور ماحول میں پیش کیا جاتا ہے جس کا ہمیں آج سے دو یا تین سو سال قبل سامنا تھا۔
ہم جب آج کے ماحول اور تناظر میں تین سو سال قبل کے ماحول اور تناظر کے مطابق مسائل اور احکامات کو پیش کرتے ہیں تو اس سے منطقی طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسلام میں معاشرتی ارتقا کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ تبدیل ہونے والے حالات اور تقاضات کو اپنے اندر ضم کرنے یا اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ذوق نہیں رکھتا ہے اب سے تین سو سال قبل یورپ میں مسیحیت کو اس قسم کی صورتحال درپیش تھی۔
مذہب کے علمبردار احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح میں زمانے کے تغیرات اور ماحول کی تبدیلی کا لحاظ رکھنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو یورپ کے عوام نے فیصلہ کرلیا کہ معاشرتی ارتقا کا راستہ روکا نہیں جاسکتا اور نہ ہی تمدن کی ترقی پر قدغن لگائی جاسکتی ہے، اس لیے اگر مذہب ارتقا اور ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے تو اسے اپنی جگہ کھڑا رہنے دیا جائے ور سوسائٹی کو اپنی رفتار سے آگے بڑھنے دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اور سوسائٹی کا باہمی رابطہ ٹوٹ گیا۔
مذہب کی راہنمائی اور اس کی حدود کی پابندی سے آزاد ہوکر سوسائٹی نے ''مادر پدر آزادی'' کا راستہ اختیار کرلیا جس کے خوفناک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اسلام کے بارے میں بھی یہی سوچ نمایاں کی جارہی ہے اور اس تاثر کو عام کیا جارہاہے کہ اسلام میں جدید دور کے تقاضوں کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس لیے اسے مسجد کے دائرے میں رہنے دیا جائے اور شخصی زندگی میں اس کے کردار کی نفی کی جائے، سوسائٹی کو مذہب کی رہنمائی اور اس کے احکام و حدود کی پابندی سے آزاد کردیا جائے۔
اس سے زیادہ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ارباب دانش جو اس صورتحال سے پریشان ہیں اور اس سوال کا اپنے اپنے طور پر جواب دینے کا انتظار کررہے ہیں ان میں سے کچھ دوست دوسری انتہا کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ معاشرت و تمدن کے جدید مسائل و مشکلات اور ان کے بارے میں موجودہ انسانی سوسائٹی نے جو حل سوچ لیا ہے یا ان سے نکلنے کے لیے جو راستہ طے کرلیا ہے اسی کو حتمی معیار سمجھ لیا جائے اور اس کے مطابق قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات و تعلیمات کی نئی تعبیر و تشریح کرلی جائے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں کررہے ہیں، اگرچہ وہ تعبیر و تشریح ہماری خود ساختہ ہی کیوں نہ ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشاد مقدسہ کو پیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنا رکھنا ضروری ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فکر فلسفہ اور تہذیب کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔ ایسا دعوتی کام کی وسعت اور جدید اسلوب اختیار کرنے سے ممکن ہوگا بالخصوص مکالمہ کی روایت کو زندہ کرکے۔