ایک حسینہ دل نشینہ سے ملاقات 

ہم نے اس کے عطر مجموعہ و جود خیرہ کن حسن اور ساحرانہ نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

barq@email.com

پہلے تو جب اس نے ہمارے کمرے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف یاب کیا بلکہ یوں کہئے کہ نزول اجلال فرمایا تو سارا کمر ہ ایک دم جیسے بقعہ نور، بلکہ دہکتا ہوا تنور بن گیا، نہ صرف ہمارے سارے چراغوں میں روشنی نہ رہی بلکہ ہاتھوں کے طوطے، بٹیر، کو ے، کبوتر، حتی کہ مرغے، مرغیاں، بلکہ بطخیں تک اڑ گئیں۔

پہلے تو ہم اسے پریانکا، دوسری نگاہ میں دیپکا اور کرینہ، کترینہ سمجھے لیکن ایک نگاہ میں وہ انجلینا جولی، بمکارلٹ جانسن اور لیڈی گا گا نظر آئی لیکن تیسری نگا ہ میں وہ ان سب کا مجموعہ دکھائی دی۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا نتھنے سائز میں دگنے ہوکر پھنکار رہے تھے اور آنکھیں اردگرد کی ساری شاملاتیں قبضے میں لے کر چار گنا بڑی لگ رہی تھیں، جن میں سرخی اتنی زیادہ تھی جیسے کسی نے دو کبوتر ذبح کرکے سارا خون ان میں انڈیل دی دیا ہو، جن سے سرخی کے ساتھ ہر قسم کی شعاعیں ایکسریز، ریڈیم ریز نکل کر ہمارے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔

آ۔ آپ ۔ ک ک کون؟

یہی تھی تمہاری طرم خانی طرف داری اور سخن فہمی؟ اس کی آواز میں گرم سلاخوں جیسی گرمی اور پتھروں جیسی سختی تھی؟ ہمیں حیرت سے بت بنتے دیکھ کر اس نے اپنی آواز میں غیرت ناہید کی ہر تان اور دیپک ملہار بھرتے ہوئے کہا۔ میں قتالۂ عالم لرزندئہ جہاں اور ساحرئہ عالم ''کرپشن'' ہوں۔

ہمیں یاد آیا کہ اس کی سرزنش قہر اور چشم اس وجہ سے تھی کہ ہم نے اس کے وکیل ہونے کی مدعی ہو کر اس کی پیروی کا دعویٰ تو کیا تھا لیکن اپنی ڈیوٹی کا حق ادا نہیں کر پائے۔ ہم نے اس کے عطر مجموعہ و جود خیرہ کن حسن اور ساحرانہ نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گئی لیکن کیا بیٹھ گئی؟ ایسا بیٹھ گئی کہ ساتھ ہمارا دل بھی بیٹھ بلکہ ''لیٹ'' گیا۔ وہ بھی کہیں اور انھیں کے قدموں میں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس سے ''راہ سخن'' کیسے وا کریں یعنی بقول شاعر:

جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی

مشکل کہ اس سے ''راہ سخن'' وا کرے کوئی

ہم کیا ہماری حیثیت کیا اور جرأت کلام کیا۔ کہ اس کے آگے ''بڑے بڑے'' بلکہ بڑوں سے بھی ''بڑے'' اور بڑے بڑوں سے بھی بڑے ہڑبرانا بھی بھول جاتے ہیں۔ لیکن اچھا ہوا وہ خود ہی ''گل افشاں'' ہوئی۔ تم نے ہماری وکالت کا بیڑا اٹھایا تھا لیکن دیکھ رہے ہو کہ تمہارے ملک کے لوگ کس طرح ہماری ''بے حرمتی'' کر رہے ہیں۔ برا ہی برا کہہ رہے ہیں اور ''بھلا'' کوئی بھی نہیں کہہ رہا ہے۔ وہ بھی کہ جن سات پشتوں تک کو میں نے مالا مال کیا ہے ان کی ساری ''بگڑیاں'' سنواریں۔ ان کو بغیر سیڑھیوں بالائے بام پہنچایا ہے، زیرو سے ہیرو بنایا ہے۔

اس عرصے میں ہم بھی سنبھل چکے تھے۔ ہر لفظ کے ساتھ تھوک نگلتے ہوئے عرض کیا۔ ہم نے کوشش تو کی تھی۔ خاک کوشش کی ہے تم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا کہ ان احسان فراموشوں کو یہ تک یاد لاتے کہ ان کا سب کچھ ان کی ہستی ان کا وجود اور سارا ہست و بود میرا ہی دیا ہے اور وہ بھی آج مجھے کوس رہے ہیں جن کو میرے احسانوں کا قصیدہ خوان ہونا چاہیے تھا۔ عرض کیا۔ در اصل یہ جو تمہیں بُرا بھلا کہہ رہے ہیں سب کے سب اندر سے تمہارے قصیدہ خوان ہی ہیں، لیکن ساتھ اچھے شاعر بھی ہیں اور اچھے شاعروں کا کمال یہ ہے کہ وہ ''ہجو'' میں بھی دراصل قصیدہ خوانی کر رہے ہوتے ہیں۔


یہ دیکھ کر ہمیں خاصی تسلی ہوئی کہ وہ دھیرے دھیرے شانت ہو کر ''شعلہ جوالہ'' سے نارمل ہو رہی ہے، آنکھیں بھی دھیرے دھیرے اپنے اصل رقبے پر آ رہی ہیں، نتھنے بھی پھنکارنے کی بجائے صرف سرسرانے لگے ہیں اور آنکھوں سے جوشعلے اور شعائیں نکل رہی تھیں وہ اب کچھ نشہ آور سی ہو رہی تھیں۔

سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر گزری ہے

پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو

لہجے میں ریشم کی سی نرمی بھرتے ہوئے بولی۔ میں ساری دنیا میں پھرتی رہتی ہوں لیکن تمہارے ملک کے لوگوں جیسے احسان فراموش نیکی برباد اور دو رنگے بلکہ ست رنگے کہیں نہیں دیکھے ہیں۔ بخدا یہ مجھے برا کہہ رہے ہیں مجھے محسنہ اعظم کرپشن کو برا کہہ رہے ہیں اور وہ بھی جن پر میں نے سب سے زیادہ احسان کیے ہیں ان کا سب کچھ سنوارا ہے ایسی حالت میں کہ یہ خود اپنا سب کچھ بگاڑتے رہتے ہیں اور میں سنوارتی رہتی ہوں۔ ذرا اس ملک کے باسیوں، خاص طور پر ان ''باسیوں'' کو جو سات سات پشتیوں سے ''باسی'' ہو کر اتنی باس مار رہے ہیں کہ ساری دنیا نے ناک پر رومال رکھا ہوا ہے۔ شانت تو وہ ہو گئی تھی لیکن روٹھی سی اب بھی تھی۔

اب کوئی اتنی بے مثل و مثال حسینہ روٹھی ہوئی اچھی کسے لگتی ہے جس کی ایک ''نگاہ کرم'' سے ڈوبے ہوئے سفینے باہر نکل آتے ہیں، عاقبت سنور جاتی ہے، اور ہر دن عید اور ہر شب برات ہو جاتی ہے اسے ہر حال میں منوانا اور اپنے اوپر مہربان رکھنا چاہیے، چاہے اس کے لیے سفید تو کیا سیاہ سرخ سبز نیلا پیلا بلکہ ست رنگا جھوٹ ہی کیوں نہ بولا جائے۔ اس لیے عرض کیا۔

جان تمنا، روح آرزو، حسن مجسم، اور قرار جگر اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کروں۔ بولی۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ میں ہی تو دنیا کی واحد ہستی ہوں جو ہر کسی کو ہر قسم کی اجازت دیتی اور دلواتی ہوں۔ بولو کیا کہنا چاہتے ہو اپنی صفائی میں؟۔ عرض کیا ویسے تو تم سمجھدار ہو، معاملہ فہم ہو، معاملہ ساز، ہو سب کچھ ہو لیکن شاید فلمیں نہیں دیکھتیں۔ فلمیں؟ میں فلمیں کیسے دیکھ سکتی ہو اتنا کام جو کرتی ہوں اور تمہارے ملک میں تو مجھے سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے۔

تھانے پٹوار خانے سے لے کر میں بڑے بڑے ''ہائوسز'' میں پہنچ کر بگڑیاں سنوارنے ہی میں سارا وقت نکل جاتا ہے بلکہ یہ صرف میں ہوں جو چوبیس گھنٹے میں اڑتالیس بلکہ 480 گھنٹے کاکام کرتی ہوں، ایسے میں ''فلمیں'' کہاں دیکھ سکتی ہوں۔ یہی تو بات ہے اگر تم فلمیں دیکھتیں تو پتہ چلتا کہ ہم نے تمہارے لیے کتنا کام کیا ہے، آج یہ ہر کسی کی زبان پر تمہارا نام ہے ''برسبیل شکایت'' ہی کیوں نہ ہو یہی در اصل تمہاری تعریف اور مدح ہے اور اگر تم فلمیں دیکھتیں تو پتہ چلتا کہ ولن کی برائی ہی اس کی کامیابی ہوتی ہے۔

آج اگر سارا پاکستان تم پر تھو تھو کر رہا ہے تو اس لیے کر رہا ہے کہ ''تھو'' کے ساتھ اسے بھی کچھ نگلنا ہوتا ہے بظاہر ''ہجو'' ہی اصل میں قصیدہ ہے جسے اگر کوئی کہے کہ فلاں حسینہ بڑی ظالم ہے، کافر ہے، فتنہ ہے، تو یہ اصل میں تعریف ہی ہوتی ہے اور پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے بُرا کہہ کر بھی تمہاری پبلسٹی کی جاتی ہے۔ ختم کرنے کے دعوے در اصل اور زیادہ پھیلانے کے ہوتے ہیں

ہنسوآج اتنا کہ اس شور میں

صدا سسکیوںکی سنائی نہ دے
Load Next Story