سندھ ہائیکورٹ نے اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں بھرتیوں کا ریکارڈ طلب کر لیا
2000 سے2017تک ایس بی سی اے، کے ایم سی، ڈی ایم سی، واٹربورڈ میں کتنی بھرتیاں ہوئیں؟ سندھ ہائیکورٹ کااستفسار
سندھ ہائی کورٹ نے سندھ اسمبلی اور ایم پی اے ہوسٹل کی نئی عمارتوں میں بڑے پیمانے پر گھپلوں سے متعلق درخواست پر اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں 17سالہ بھرتیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
ہائی کورٹ 2رکنی بینچ کے روبرو سندھ اسمبلی اور ایم پی اے ہوسٹل کی نئی عمارتوں میں بڑے پیمانے پر گھپلوں سے متعلق سماعت ہوئی، عدالت نے حکم دیا کہ2000 سے 2017 تک تمام بھرتیوں کا بریک اپ دیا جائے، عدالت نے درخواست گزار کو بھی پیش ہونے کا حکم دیدیا،عدالت نے ریمارکس دیے کہ صرف سندھ اسمبلی بلڈنگ کی کرپشن ہی نہیں دیگر عوامل کا بھی جائزہ لیں گے، دیکھنا ہوگا کہ کیا درخواست گزار کے اپنے ہاتھ صاف ہیں،
عدالت میں سندھ حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے، عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو پیش ہونے کی بھی ہدایت کردی،عدالت نے بلدیاتی اداروں میں ہونے والی بھرتیوں کا 17 سالہ ریکارڈ طلب کرلیا، عدالت نے استفسار کیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ایم سی، ڈی ایم سی، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں کتنی بھرتیاں ہوئیں؟ بتایا جائے،کس عہدے پر کس کو تعینات کیا گیا میرٹ کیا تھا۔
عدالت نے سندھ اسمبلی میں ہونے والی بھرتیوں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 15مارچ تک ملتوی کردی، افشاں منصور نے نیب تحقیقات کے لیے درخواست کر رکھی ہے۔
دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نئی سندھ اسمبلی کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر کریشن کی گئی، ایم پی اے ہوسٹل کی نئی عمارت میں بھی بڑے پیمانے پر گھپلے کیے جا رہے ہیں، پی سی ون کے مطابق عمارت کا تخمینہ 2ارب 70کروڑ روپے لگایا گیاجو اب بڑھا کر 11ارب 40کروڑ روپے کردیا گیا ہے، 30 جون 2017 تک 6 ارب 72 کروڑ سے زائد رقم جاری کی جا چکی،50 فیصد کام مکمل نہ ہونے کے باوجود اتنی بڑی رقم جاری کردی گئی، پروجیکٹ کی نگرانی اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کر رہے ہیں۔
اسپیکر نے منظور نظر افسر کو پروجیکٹ ڈائریکٹر بنایا، اکائونٹنٹ جنرل، محکمہ خزانہ سمیت سب ملے ہوئے ہیں،صوبائی اینٹی کریشن کے تحقیقاتی افسر کا تبادلہ کردیا گیا،سندھ اسمبلی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں اور ترقیاں بھی دی جا رہی ہیں،کرپشن، خلاف ضابطہ تقرریوں اور ترقیوں کو کوئی دیکھنے والا نہیں، ان معاملات کی نیب سے فوری تحقیقات کی ضرورت ہے،چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب سندھ کو کریشن اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم دیا جائے، ایم پی اے ہوسٹل کی تعمیر پر مزید فنڈز جاری کرنے سے روکا جائے۔
درخواست میں اسپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی، سیکرٹری سندھ اسمبلی، سیکرٹری قانون، چیئرمین نیب، ڈی جی نیب سندھ، صوبائی اینٹی کریشن و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
ہائی کورٹ 2رکنی بینچ کے روبرو سندھ اسمبلی اور ایم پی اے ہوسٹل کی نئی عمارتوں میں بڑے پیمانے پر گھپلوں سے متعلق سماعت ہوئی، عدالت نے حکم دیا کہ2000 سے 2017 تک تمام بھرتیوں کا بریک اپ دیا جائے، عدالت نے درخواست گزار کو بھی پیش ہونے کا حکم دیدیا،عدالت نے ریمارکس دیے کہ صرف سندھ اسمبلی بلڈنگ کی کرپشن ہی نہیں دیگر عوامل کا بھی جائزہ لیں گے، دیکھنا ہوگا کہ کیا درخواست گزار کے اپنے ہاتھ صاف ہیں،
عدالت میں سندھ حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے، عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو پیش ہونے کی بھی ہدایت کردی،عدالت نے بلدیاتی اداروں میں ہونے والی بھرتیوں کا 17 سالہ ریکارڈ طلب کرلیا، عدالت نے استفسار کیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ایم سی، ڈی ایم سی، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں کتنی بھرتیاں ہوئیں؟ بتایا جائے،کس عہدے پر کس کو تعینات کیا گیا میرٹ کیا تھا۔
عدالت نے سندھ اسمبلی میں ہونے والی بھرتیوں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 15مارچ تک ملتوی کردی، افشاں منصور نے نیب تحقیقات کے لیے درخواست کر رکھی ہے۔
دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نئی سندھ اسمبلی کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر کریشن کی گئی، ایم پی اے ہوسٹل کی نئی عمارت میں بھی بڑے پیمانے پر گھپلے کیے جا رہے ہیں، پی سی ون کے مطابق عمارت کا تخمینہ 2ارب 70کروڑ روپے لگایا گیاجو اب بڑھا کر 11ارب 40کروڑ روپے کردیا گیا ہے، 30 جون 2017 تک 6 ارب 72 کروڑ سے زائد رقم جاری کی جا چکی،50 فیصد کام مکمل نہ ہونے کے باوجود اتنی بڑی رقم جاری کردی گئی، پروجیکٹ کی نگرانی اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کر رہے ہیں۔
اسپیکر نے منظور نظر افسر کو پروجیکٹ ڈائریکٹر بنایا، اکائونٹنٹ جنرل، محکمہ خزانہ سمیت سب ملے ہوئے ہیں،صوبائی اینٹی کریشن کے تحقیقاتی افسر کا تبادلہ کردیا گیا،سندھ اسمبلی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں اور ترقیاں بھی دی جا رہی ہیں،کرپشن، خلاف ضابطہ تقرریوں اور ترقیوں کو کوئی دیکھنے والا نہیں، ان معاملات کی نیب سے فوری تحقیقات کی ضرورت ہے،چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب سندھ کو کریشن اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم دیا جائے، ایم پی اے ہوسٹل کی تعمیر پر مزید فنڈز جاری کرنے سے روکا جائے۔
درخواست میں اسپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی، سیکرٹری سندھ اسمبلی، سیکرٹری قانون، چیئرمین نیب، ڈی جی نیب سندھ، صوبائی اینٹی کریشن و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔