مزدوروں اور خادمین کے حقوق
اسلام ہر مسلمان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ خادم اور مزدوروں کے ساتھ نرمی کرے، اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
بے شک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ اچھا سلوک کرے خاص طور پر جو اس کے ماتحت اور زیراقتدار ہو، جیسا کہ خادم اور مزدوری کرنے والے لوگ، کیوں کہ اللہ جل و علا ضرور اس سے ان کے بارے میں سوال کرے گا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' سُن لو! تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، چناں چہ وہ امیر جو لوگوں پر مقرر ہے وہ نگران ہے، جس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔''
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے: راعی وہ ہوتا ہے جو حفاظت کرنے والا، امانت دار ہو اور جس پر وہ نگران ہو اور جو اس کی دیکھ بھال میں ہوں ان کی اصلاح کا اہتمام کرنے والا ہو۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر وہ شخص جس کی دیکھ بھال میں کوئی چیز ہو تو اس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ انصاف کرے، اور اس کے دین، اس کی دنیا اور اس کے متعلقہ کاموں میں اس کی دل چسپی قائم رکھے۔
اسلام ہر مسلمان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ خادم اور مزدوری کرنے والوں کے ساتھ نرمی کرے، اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح اِن کو اُس کام کا ذمّے دار نہ بنایا جائے جس کی ان میں طاقت نہ ہو۔ کھانا، پانی، لباس میں سے ہر وہ چیز انہیں مہیا کرے جس کی ان کو ضرورت ہو، ان کو ان کی مزدوری ادا کرے ، اور ان کے پورے حقوق دے، ان کے ساتھ اچھے انداز سے گفت گُو کرے اور ان کی خیر خواہی کرے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے چاہیے کہ اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ ان سے وہ کام نہ لے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دے تو اس پر خود بھی ان کا ہاتھ بٹائے۔''
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آقا پر لازم ہے کہ وہ غلام کو ملکوں اور لوگوں کے دستور کے مطابق خرچ اور مناسب لباس فراہم کرے، خواہ وہ آقا کے خرچ اور اس کے لباس کی قسم سے ہو یا اس سے کم ہو یا اس سے زیادہ ہو، حتیٰ کہ اگر کوئی آقا اپنے نفس پر ایسی کنجوسی سے کام لے جو اس جیسے آقاؤں کی عادت سے خارج ہو، یا تو دنیا میں زہد اختیار کرتے ہوئے یا بخل سے کام لیتے ہوئے تب بھی اس کے لیے غلام کے بارے میں کنجوسی کرنا، کوئی چیز اس پر لازم کرنا اور اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا حلال نہ ہوگا مگر جب غلام خود راضی ہو۔
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے ایسے کام کی ذمے داری سونپے جس کی اس میں طاقت نہ ہو، اگر ایسی صورت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ خود بھی اس کی مدد کرے یا کسی اور کے ذریعے اس کی مدد کروائے۔ اور اس پر یہ بھی لازم ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے اپنے نبی ﷺ کی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے ان کو ڈانٹنے اور سختی کرنے سے دور رہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : '' رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت کو، نہ کسی غلام کو مگر یہ کہ آپؐ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں۔''
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان دونوں یعنی عورت اور خادم کے معاملے کو اہمیت دینے کے لیے ان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ کیوں کہ ان دونوں پر تشدد زیادہ وقوع پذیر ہوتا ہے اگرچہ مشروط طور پر ان دونوں کو مارنے کا جواز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ نہ مارا جائے۔
غلاموں سے سختی کا انجام :
اور جو اپنی قوت سے دھوکا کھائے اور اس زعم میں ہو کہ اسے ان مسکینوں پر تسلط حاصل ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ رب العالمین کی اس قدرت کو یاد کر لے جواس کو اس پر حاصل ہے۔ سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں اپنے ایک غلام کو کوڑے مار رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی ''ابو مسعود جان لو!'' میں غصے کی وجہ سے آواز پہچان نہ سکا۔ جب وہ (کہنے والا) میرے قریب پہنچا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ آپؐ فرما رہے تھے: '' ابومسعود جان لو! ابو مسعود جان لو!'' میں نے اپنے ہاتھ سے کوڑا پھینک دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' ابو مسعود جان لو! اس غلام پر تمہارے اختیار سے زیادہ اللہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔'' تو میں نے کہا: اس کے بعد میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں غلام کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر ابھارا گیا ہے۔ اس میں نصیحت اور تنبیہ ہے کہ درگزر سے کام لیا جائے اور غصے کو پی لیا جائے۔ (اس غلام پر تمہارے اختیار سے زیادہ اللہ تم پر قدرت رکھتا ہے) یعنی تمہارے اس کو مارنے کی قدرت سے زیادہ اللہ تمہیں سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے لیکن اللہ جب غضب ناک ہوتا ہے تو وہ بردباری دکھاتا ہے اور جب تمہیں غصہ دلایا جاتا ہے تو تم بردباری سے پیش نہیں آتے۔ اور جب کسی مزدور یا کسی خادم سے کوئی غلطی یا زیادتی ہوجائے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم ان سے عفو و درگزر سے کام لیں اور اس کے ساتھ ساتھ نرمی اور شفقت سے ان کی خیر خواہی اور راہ نمائی بھی کریں اگرچہ یہ چیزیں ان سے بار بار سر زد ہوں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ ہم خادم کو کتنی مرتبہ معاف کریں ؟ تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیا : تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ پھر جب تیسری بار پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''ہر روز ستّر مرتبہ درگزر کرو۔''
انسان کے لیے حقیقی خوش نصیبی انتقام لینے میں نہیں اور نہ کم زوروں پر ظلم ڈھانے میں ہے، بل کہ حقیقی خوشی جلد بازی اور نفرت کے بہ جائے عفو و درگزر میں ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : (ان میں) مٹھاس، حلاوت، دل کا اطمینان و سکون، انسان کی عزت اور اس کی سربلندی ہے۔ بہ نسبت انتقام کے ذریعے علاج کرنے سے۔ اِن میں سے کوئی بھی چیز مقابلہ کرنے اور انتقام لینے میں نہیں۔
تو نرمی لازم پکڑو! نرمی لازم پکڑو! اے مسلمانوں! ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالی نے تمہیں ذمے دار بنایا ہے، خاص طور پر کم زوروں اور مساکین پر اور دوسروں پر تشدد، سختی اور آمریت کو ترجیح دینے سے بچو۔ اور ہمیشہ یاد رکھو کہ بدلہ عمل کی جنس سے ہی ملتا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: '' اے اللہ جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمے دار بنے پھر وہ ان پر سختی کرے تو تُو اس پر سختی فرما، اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمے دار بنے پھر وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو تُو اس کے ساتھ نرمی فرما۔''
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: '' یہ لوگوں پر مشقت ڈالنے پر انتہا درجہ کی ڈانٹ ہے اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر سب سے بڑی ترغیب دلانا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' سُن لو! تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، چناں چہ وہ امیر جو لوگوں پر مقرر ہے وہ نگران ہے، جس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔''
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے: راعی وہ ہوتا ہے جو حفاظت کرنے والا، امانت دار ہو اور جس پر وہ نگران ہو اور جو اس کی دیکھ بھال میں ہوں ان کی اصلاح کا اہتمام کرنے والا ہو۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر وہ شخص جس کی دیکھ بھال میں کوئی چیز ہو تو اس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ انصاف کرے، اور اس کے دین، اس کی دنیا اور اس کے متعلقہ کاموں میں اس کی دل چسپی قائم رکھے۔
اسلام ہر مسلمان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ خادم اور مزدوری کرنے والوں کے ساتھ نرمی کرے، اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح اِن کو اُس کام کا ذمّے دار نہ بنایا جائے جس کی ان میں طاقت نہ ہو۔ کھانا، پانی، لباس میں سے ہر وہ چیز انہیں مہیا کرے جس کی ان کو ضرورت ہو، ان کو ان کی مزدوری ادا کرے ، اور ان کے پورے حقوق دے، ان کے ساتھ اچھے انداز سے گفت گُو کرے اور ان کی خیر خواہی کرے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے چاہیے کہ اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ ان سے وہ کام نہ لے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دے تو اس پر خود بھی ان کا ہاتھ بٹائے۔''
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آقا پر لازم ہے کہ وہ غلام کو ملکوں اور لوگوں کے دستور کے مطابق خرچ اور مناسب لباس فراہم کرے، خواہ وہ آقا کے خرچ اور اس کے لباس کی قسم سے ہو یا اس سے کم ہو یا اس سے زیادہ ہو، حتیٰ کہ اگر کوئی آقا اپنے نفس پر ایسی کنجوسی سے کام لے جو اس جیسے آقاؤں کی عادت سے خارج ہو، یا تو دنیا میں زہد اختیار کرتے ہوئے یا بخل سے کام لیتے ہوئے تب بھی اس کے لیے غلام کے بارے میں کنجوسی کرنا، کوئی چیز اس پر لازم کرنا اور اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا حلال نہ ہوگا مگر جب غلام خود راضی ہو۔
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے ایسے کام کی ذمے داری سونپے جس کی اس میں طاقت نہ ہو، اگر ایسی صورت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ خود بھی اس کی مدد کرے یا کسی اور کے ذریعے اس کی مدد کروائے۔ اور اس پر یہ بھی لازم ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے اپنے نبی ﷺ کی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے ان کو ڈانٹنے اور سختی کرنے سے دور رہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : '' رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، نہ کسی عورت کو، نہ کسی غلام کو مگر یہ کہ آپؐ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں۔''
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان دونوں یعنی عورت اور خادم کے معاملے کو اہمیت دینے کے لیے ان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ کیوں کہ ان دونوں پر تشدد زیادہ وقوع پذیر ہوتا ہے اگرچہ مشروط طور پر ان دونوں کو مارنے کا جواز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ نہ مارا جائے۔
غلاموں سے سختی کا انجام :
اور جو اپنی قوت سے دھوکا کھائے اور اس زعم میں ہو کہ اسے ان مسکینوں پر تسلط حاصل ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ رب العالمین کی اس قدرت کو یاد کر لے جواس کو اس پر حاصل ہے۔ سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں اپنے ایک غلام کو کوڑے مار رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی ''ابو مسعود جان لو!'' میں غصے کی وجہ سے آواز پہچان نہ سکا۔ جب وہ (کہنے والا) میرے قریب پہنچا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ آپؐ فرما رہے تھے: '' ابومسعود جان لو! ابو مسعود جان لو!'' میں نے اپنے ہاتھ سے کوڑا پھینک دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' ابو مسعود جان لو! اس غلام پر تمہارے اختیار سے زیادہ اللہ تم پر قدرت رکھتا ہے۔'' تو میں نے کہا: اس کے بعد میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں غلام کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر ابھارا گیا ہے۔ اس میں نصیحت اور تنبیہ ہے کہ درگزر سے کام لیا جائے اور غصے کو پی لیا جائے۔ (اس غلام پر تمہارے اختیار سے زیادہ اللہ تم پر قدرت رکھتا ہے) یعنی تمہارے اس کو مارنے کی قدرت سے زیادہ اللہ تمہیں سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے لیکن اللہ جب غضب ناک ہوتا ہے تو وہ بردباری دکھاتا ہے اور جب تمہیں غصہ دلایا جاتا ہے تو تم بردباری سے پیش نہیں آتے۔ اور جب کسی مزدور یا کسی خادم سے کوئی غلطی یا زیادتی ہوجائے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم ان سے عفو و درگزر سے کام لیں اور اس کے ساتھ ساتھ نرمی اور شفقت سے ان کی خیر خواہی اور راہ نمائی بھی کریں اگرچہ یہ چیزیں ان سے بار بار سر زد ہوں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ ہم خادم کو کتنی مرتبہ معاف کریں ؟ تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیا : تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ پھر جب تیسری بار پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''ہر روز ستّر مرتبہ درگزر کرو۔''
انسان کے لیے حقیقی خوش نصیبی انتقام لینے میں نہیں اور نہ کم زوروں پر ظلم ڈھانے میں ہے، بل کہ حقیقی خوشی جلد بازی اور نفرت کے بہ جائے عفو و درگزر میں ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : (ان میں) مٹھاس، حلاوت، دل کا اطمینان و سکون، انسان کی عزت اور اس کی سربلندی ہے۔ بہ نسبت انتقام کے ذریعے علاج کرنے سے۔ اِن میں سے کوئی بھی چیز مقابلہ کرنے اور انتقام لینے میں نہیں۔
تو نرمی لازم پکڑو! نرمی لازم پکڑو! اے مسلمانوں! ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالی نے تمہیں ذمے دار بنایا ہے، خاص طور پر کم زوروں اور مساکین پر اور دوسروں پر تشدد، سختی اور آمریت کو ترجیح دینے سے بچو۔ اور ہمیشہ یاد رکھو کہ بدلہ عمل کی جنس سے ہی ملتا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: '' اے اللہ جو شخص بھی میری امت کے کسی معاملے کا ذمے دار بنے پھر وہ ان پر سختی کرے تو تُو اس پر سختی فرما، اور جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمے دار بنے پھر وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو تُو اس کے ساتھ نرمی فرما۔''
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: '' یہ لوگوں پر مشقت ڈالنے پر انتہا درجہ کی ڈانٹ ہے اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر سب سے بڑی ترغیب دلانا ہے۔