مصائب میں خدمت خلق
خدمت خلق میں اپنے اور غیر میں تمیز نہیں کرنی چاہیے
مسلمانوں پر مصائب کا آنا اور مسائل کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، بل کہ یہ خدا کی سنّت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تیرہ سالہ مکی دور اور ہجرت کے بعد مدینہ میں آٹھ سال یعنی اکیس سالوں تک اس قسم کے مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا۔ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے، اس زمانے میں مسلمانوں پر خوف و دہشت کا یہ عالم تھا کہ مسلمان باقاعدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رات میں نگرانی کیا کرتے تھے، اور صحابہ کرامؓ بہ غرضِ حفاطت ہتھیار ساتھ رکھ کر سوتے تھے۔ نیز شعب ابی طالب کی قید و بندش اور مختلف مواقع سے کفار کا حملہ آور ہونا اسی رودادِ غم و الم کی داستان ہے۔ قرآنی الفاظ ''من الخوف و الجوع'' میں جُوع سے صرف بھوک ہی مراد نہیں ہے، بل کہ وہ تمام وسائل معاش اس میں شامل ہیں جن سے زندگی وابستہ ہے۔ جیسے سرکاری و غیر سرکاری نوکریاں، تجارت اور اچھی تعلیم کے ذریعے اونچے عہدوں کا حصول وغیرہ ہے۔
دنیا میں مسلمانوں پر مصیبت آنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مسلمان اللہ کی نظر سے گرگیا ہے، یا اس امت کی مقبولیت و محبوبیت میں کمی آگئی ہے، بل کہ ان مصائب پر صبر و استقامت کے ذریعے مزید مقبول ہوا جاسکتا ہے۔ ایک عام قاعدہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی خیر خواہی کے لیے جو چیز بھی مناسب ہوتی ہے، انجام دیتا ہے۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات صبر و استقامت ہے اور صبر و استقامت صرف عبادات ہی میں نہیں بل کہ تمام دینی احکامات میں مطلوب ہے۔ ہمارا ایمان دین کے معاملے میں اتنا پختہ اور مضبوط ہونا چاہیے کہ دین کے ادنیٰ سے ادنیٰ حکم کے بارے میں ہمارے دل و دماغ میں شک و شبہ کا کانٹا باقی نہ رہے، بل کہ شریعت کا ہر حکم اور دین کی ہر بات دل و جان سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے کہ یہی اصل ایمان کا تقاضا ہے۔
آج کل کا ماحول یقینا ہمارا ساتھ نہیں دیتا، لیکن پھر بھی دو باتیں نہایت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ پہلی اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار کر ان کی صحیح دینی تربیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین اور پیغام سے شناسائی۔ کیوں کہ بچوں کے دل کی تختی بالکل سادہ ہوتی ہے جو اس پر لکھ دیا جائے وہ نقش ہوجاتا ہے۔
اسی طرح موجودہ حالات میں ہمت نہیں ہارنا چاہیے، ہمت شکنی بہت بری بلا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت سے سخت حالات میں بھی اپنے صحابہؓ کی ہمت بندھائی، جنگ احد کے موقع پر شکست کے باوجود آپؐ نے دشمن کا تعاقب کرنے کے لیے ایک جماعت بھیجی، جس کا مقصد دشمن پر اپنی جرأت کے اِظہار کے ساتھ صحابہ کرامؓ سے حوصلہ شکنی کی کیفیت کو دور کر کے ہمت بڑھانا بھی تھا۔ اسی طرح ایک مرتبہ کچھ صحابہؓ کسی معرکے سے واپس آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملنے میں ہچکچا رہے تھے اور ملاقات کے وقت پشیمانی سے کہا، مفہوم: '' نحن الفرارون'' کہ ہم بھاگے ہوئے لوگ ہیں تو آپؐ نے دل بستگی کی اور ہمت بڑھاتے ہوئے کہا: ''بل انتم کرارون'' نہیں بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر دوبارہ حملہ کرنے والے ہو، آپ نے ہمیشہ حوصلہ بر قرار رکھا۔
ہمیں ہر ایک سے اپنے تعلقات استوار کرنا چاہیے اور اپنی رواداری اور برادرانہ تعلقات کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ہر ایک کی خدمت اور مدد کرنا چاہیے، جس طرح ایک مسلمان کو پانی پلانا کارِ ثواب ہے، اسی طرح کسی غیر مسلم کو بھی پلانا ثواب کا کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ایسی رواداری اور خدمت خلق کے ہزاروں نمونے موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار مکہ کی ان کی دشمنی کے باوجود قحط کے زمانے میں غریب مسلمانوں سے پانچ سو دینار جمع کر کے ابوسفیان اور صفوان بن امیہ کے پاس غریبوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھیجا۔ آپؐ نے کافروں کے لیے اپنا بستر اور تکیہ بھی پیش کر دیا، فتح مکہ کے معاً بعد کافروں کو کھانے کی دعوت بھی دی، یہ نمونے اس بات کے لیے کافی ہیں کہ خدمت خلق میں اپنے اور غیر میں تمیز نہیں کرنی چاہیے، ہم اگر خدمت کے ذریعے ان کا دل جیت لیتے ہیں تو ہماری فتح کے لیے دوسرے ہتھیار کی ضرورت نہیں۔
مسلمان فاتحین نے اپنی مفتوح قوموں پر اتنا گہرا اخلاقی اثر ڈالا کہ ان کی فوجیں وہ اثر نہ ڈال سکیں۔ یہ صرف اور صرف ان کی رواداری اور اخلاق کا نتیجہ تھا۔ نفرت کا جواب نفرت سے دینا دانش مندی نہیں ہے، اس آگ کو محبت کے پانی سے ہی بجھایا جا سکتا ہے، آگ کو آگ سے بجھانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس لیے ہم تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ حالات کو سمجھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی میں موجود نمونوں سے کام لیں اور اپنے اعمال کو صحیح کرنے کی فکر میں لگے رہیں، کیوں کہ مصیبت ہمیشہ نہیں رہتی اس کا خاتمہ جلد ہی ہو کر رہے گا۔
طولِ غمِِ حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شام ہے، جس کی سحر نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو تیرہ سالہ مکی دور اور ہجرت کے بعد مدینہ میں آٹھ سال یعنی اکیس سالوں تک اس قسم کے مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا۔ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے، اس زمانے میں مسلمانوں پر خوف و دہشت کا یہ عالم تھا کہ مسلمان باقاعدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رات میں نگرانی کیا کرتے تھے، اور صحابہ کرامؓ بہ غرضِ حفاطت ہتھیار ساتھ رکھ کر سوتے تھے۔ نیز شعب ابی طالب کی قید و بندش اور مختلف مواقع سے کفار کا حملہ آور ہونا اسی رودادِ غم و الم کی داستان ہے۔ قرآنی الفاظ ''من الخوف و الجوع'' میں جُوع سے صرف بھوک ہی مراد نہیں ہے، بل کہ وہ تمام وسائل معاش اس میں شامل ہیں جن سے زندگی وابستہ ہے۔ جیسے سرکاری و غیر سرکاری نوکریاں، تجارت اور اچھی تعلیم کے ذریعے اونچے عہدوں کا حصول وغیرہ ہے۔
دنیا میں مسلمانوں پر مصیبت آنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مسلمان اللہ کی نظر سے گرگیا ہے، یا اس امت کی مقبولیت و محبوبیت میں کمی آگئی ہے، بل کہ ان مصائب پر صبر و استقامت کے ذریعے مزید مقبول ہوا جاسکتا ہے۔ ایک عام قاعدہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی خیر خواہی کے لیے جو چیز بھی مناسب ہوتی ہے، انجام دیتا ہے۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات صبر و استقامت ہے اور صبر و استقامت صرف عبادات ہی میں نہیں بل کہ تمام دینی احکامات میں مطلوب ہے۔ ہمارا ایمان دین کے معاملے میں اتنا پختہ اور مضبوط ہونا چاہیے کہ دین کے ادنیٰ سے ادنیٰ حکم کے بارے میں ہمارے دل و دماغ میں شک و شبہ کا کانٹا باقی نہ رہے، بل کہ شریعت کا ہر حکم اور دین کی ہر بات دل و جان سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے کہ یہی اصل ایمان کا تقاضا ہے۔
آج کل کا ماحول یقینا ہمارا ساتھ نہیں دیتا، لیکن پھر بھی دو باتیں نہایت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ پہلی اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار کر ان کی صحیح دینی تربیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین اور پیغام سے شناسائی۔ کیوں کہ بچوں کے دل کی تختی بالکل سادہ ہوتی ہے جو اس پر لکھ دیا جائے وہ نقش ہوجاتا ہے۔
اسی طرح موجودہ حالات میں ہمت نہیں ہارنا چاہیے، ہمت شکنی بہت بری بلا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت سے سخت حالات میں بھی اپنے صحابہؓ کی ہمت بندھائی، جنگ احد کے موقع پر شکست کے باوجود آپؐ نے دشمن کا تعاقب کرنے کے لیے ایک جماعت بھیجی، جس کا مقصد دشمن پر اپنی جرأت کے اِظہار کے ساتھ صحابہ کرامؓ سے حوصلہ شکنی کی کیفیت کو دور کر کے ہمت بڑھانا بھی تھا۔ اسی طرح ایک مرتبہ کچھ صحابہؓ کسی معرکے سے واپس آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملنے میں ہچکچا رہے تھے اور ملاقات کے وقت پشیمانی سے کہا، مفہوم: '' نحن الفرارون'' کہ ہم بھاگے ہوئے لوگ ہیں تو آپؐ نے دل بستگی کی اور ہمت بڑھاتے ہوئے کہا: ''بل انتم کرارون'' نہیں بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر دوبارہ حملہ کرنے والے ہو، آپ نے ہمیشہ حوصلہ بر قرار رکھا۔
ہمیں ہر ایک سے اپنے تعلقات استوار کرنا چاہیے اور اپنی رواداری اور برادرانہ تعلقات کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ہر ایک کی خدمت اور مدد کرنا چاہیے، جس طرح ایک مسلمان کو پانی پلانا کارِ ثواب ہے، اسی طرح کسی غیر مسلم کو بھی پلانا ثواب کا کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ایسی رواداری اور خدمت خلق کے ہزاروں نمونے موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار مکہ کی ان کی دشمنی کے باوجود قحط کے زمانے میں غریب مسلمانوں سے پانچ سو دینار جمع کر کے ابوسفیان اور صفوان بن امیہ کے پاس غریبوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھیجا۔ آپؐ نے کافروں کے لیے اپنا بستر اور تکیہ بھی پیش کر دیا، فتح مکہ کے معاً بعد کافروں کو کھانے کی دعوت بھی دی، یہ نمونے اس بات کے لیے کافی ہیں کہ خدمت خلق میں اپنے اور غیر میں تمیز نہیں کرنی چاہیے، ہم اگر خدمت کے ذریعے ان کا دل جیت لیتے ہیں تو ہماری فتح کے لیے دوسرے ہتھیار کی ضرورت نہیں۔
مسلمان فاتحین نے اپنی مفتوح قوموں پر اتنا گہرا اخلاقی اثر ڈالا کہ ان کی فوجیں وہ اثر نہ ڈال سکیں۔ یہ صرف اور صرف ان کی رواداری اور اخلاق کا نتیجہ تھا۔ نفرت کا جواب نفرت سے دینا دانش مندی نہیں ہے، اس آگ کو محبت کے پانی سے ہی بجھایا جا سکتا ہے، آگ کو آگ سے بجھانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس لیے ہم تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ حالات کو سمجھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی میں موجود نمونوں سے کام لیں اور اپنے اعمال کو صحیح کرنے کی فکر میں لگے رہیں، کیوں کہ مصیبت ہمیشہ نہیں رہتی اس کا خاتمہ جلد ہی ہو کر رہے گا۔
طولِ غمِِ حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شام ہے، جس کی سحر نہیں