پنجاب اراضی ریکارڈ سینٹر ایک تلخ تجربہ

لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی حقیقت کا اندازہ تب ہوا جب ایک معمولی فرد کےلیے تین دن تحصیل اراضی ریکارڈ سینٹر کے چکر لگانے پڑے


میاں ذیشان عارف February 22, 2018
لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی حقیقت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب ایک معمولی فرد کےلیے تین دن تک تحصیل اراضی ریکارڈ سینٹر کے چکر لگانے پڑے۔ ان تین دنوں میں اس نظام میں موجود خامیوں کا بغور جائزہ لینے کا موقع ملا۔ (فوٹو: اسکرین شاٹ)

KARACHI: ہر دورِ حکومت میں حکمران کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ عوام کے ٹیکس کے پیسے کو عوام کی فلاح کےلیے استعمال کرے۔ عوام کی سہولت کےلیے ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے ان کے روزمرّہ کے مسائل کم اور سہولیات زیادہ ہوں۔ عوام پر حکمرانوں کا یہ احسان بھی نہیں ہوتا کیوں کہ انہی کے پیسے کو ان کی فلاح کےلیے خرچ کیا جاتا ہے۔

میرا تعلق جس صوبے سے ہے اور جسے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اس پر پچھلی ایک دہائی سے حکومت کرنے والے حکمرانوں کا طرزِ عمل اور سوچ ذرا مختلف ہے۔ ان کے نزدیک منصوبوں کا ایک ڈھیر ہو اور اس ڈھیر کے اوپر ان کی بڑی سی تصویر چھپی ہو اور لوگ سارا دن ان کی عوام دوستی کے گیت گاتے نہ تھکیں۔ بھلے ان منصوبوں کو اربوں کا نقصان کروا کر بند کرنا پڑے یا اربوں خرچ کرکے جبری زندہ رکھنا پڑے۔

پٹوار جیسے نظام سے عوام کو خلاصی دلانے کےلیے پنجاب حکومت نے ورلڈ بینک کی معاونت اور کروڑوں کی اشتہاری مہم کے ذریعے جس منصوبے کا آغاز کیا اسے ''لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم'' کا نام دیا گیا جو بورڈ آف ریوینیو کے ماتحت کام کررہا ہے۔

فلاح کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ پہلے سے موجود پیچیدہ نظام کے متبادل اس سے آسان نظام متعارف کروایا جائے جس سے عوام کے روزمرہ کے مسائل پہلے کی نسبت جلد اور آسانی سے حل ہوں۔ مگر افسوس کہ ناقص منصوبہ بندی اور جلد بازی ہمیشہ مسائل کو جنم دیتی ہے، حل نہیں کرتی۔

پنجاب حکومت نے اپنے تئیں پٹواری نظام ختم کرنے اور لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کریڈٹ تو لے لیا مگر یہ نظام کتنا عوام دوست ہے، اس میں کیا خامیاں رہ گئی ہیں، اور اسے کس طرح مختصر عرصے میں بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ اس طرف شاید ابھی تک دھیان نہیں گیا۔

لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی حقیقت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب ایک معمولی فرد کےلیے تین دن تک تحصیل اراضی ریکارڈ سینٹر کے چکر لگانے پڑے۔ ان تین دنوں میں اس نظام میں موجود خامیوں کا بغور جائزہ لینے کا موقع ملا۔

سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ تحصیل کی سطح پر صرف ایک اراضی ریکارڈ سینٹر قائم ہے یعنی کہ پوری تحصیل میں واقع سینکڑوں دیہاتوں کا ریکارڈ ایک جگہ اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ آپکو شاید لگے کہ یہ اچھا اقدام ہے مگر اس کے باعث پیش آنے والی پچیدگی یہ ہے کہ اس تحصیل کے کسی بھی گاؤں میں بسنے والے افراد کو ایک فرد تک کے حصول کےلیے ریکارڈ سینٹر آنا پڑتا ہے اور یہاں کوئی بھی کام کروانے کےلیے جاری ہونے والے ٹوکن کا وقت دو بجے تک ہے۔

اراضی ریکارڈ سینٹر میں اگرچہ ٹوکن سسٹم نافذ ہے مگر یہاں سے دوسری پیچیدگی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کو کوئی بھی کام کروانے کےلیے پہلے بایومیٹرک ٹوکن جاری ہوتا ہے جسے جاری کرنے کےلیے صرف ایک آپریٹر بیٹھا ہوتا ہے اور باہر سینکڑوں لوگوں کی قطار لگی ہوتی ہے۔ یہاں خواتین اور بزرگوں کےلیے الگ قطار ہے نہ کوئی خاص انتظام؛ اور اگر آپ اپنے سارے کام چھوڑ کر صبح سویرے اراضی ریکارڈ سینٹر پہنچ گئے ہیں تو خوش قسمتی سے چند گھنٹوں کی خواری کے بعد آپ کا کام ہوجائے گا وگرنہ آدھا دن قطار میں لگے گزر جائے گا اور باقی آدھا انتظار میں۔ اور اگلے دن پھر آکر قطار میں لگنا پڑے گا۔

ٹوکن ملنے کے بعد اگلا مرحلہ اندر جا کر اپنی باری کا انتظار کرنا ہے۔ جب آپ کا نمبر آئے تو اس کے بعد متعلقہ کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب کو اپنا مسئلہ بتائیے۔ مثلاً مجھے ایک فرد لینا تھی اور میں بارہ بجے پہنچا تو دو گھنٹے قطار میں کھڑے ہو کر ہی واپسی کی راہ لی۔ اگلے دن تھوڑا جلدی پہنچ گئے اور چند گھنٹوں کی خواری کے بعد میری باری آئی تو مجھے کہا گیا کہ فیس کےلیے چالان فلاں کاؤنٹر سے ملے گا۔ کاؤنٹر پر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ مجھ سے پہلے 182 افراد اپنے چالان پرنٹ ہونے کے منتظر ہیں۔

پھر چالان پرنٹ ہونے کا انتظار کرتے رہے اور جب یہ مرحلہ بھی اختتام پذیر ہوا تو وہیں موجود بینک میں فیس جمع کروانے کی قطار میں کھڑے ہو گئے اور فیس جمع کروانے کے بعد پھر فرد ملنے کے انتظار میں بیٹھ گئے جس کا وقت تیس منٹ رکھا گیا ہے مگر چونکہ تب تک چھٹی کا وقت ہوچکا تھا تو کہا گیا کہ چالان جمع کروادیجیے، کل صبح فرد مل جائے گی۔ یعنی اگلے دن پھر آنے کو کہہ کر ایک مزید دن ضائع کردیا گیا۔

میرا چونکہ پہلا تجربہ تھا اس لیے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ یہ معاملہ شروع دن سے ایسے ہی چلتا آ رہا ہے یا اب جاکر کوئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ تحصیل بھر کے کسان یونہی کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ظلم کا شکار ہورہے ہیں اور پٹواریوں کو دعائیں دے رہے ہیں کیونکہ تب انہیں فرد کے حصول کےلیے دو دو دن قطار اور انتظار کی زحمت سے نہیں گزرنا پڑتا تھا۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خرابی نظام میں نہیں نظام چلانے والوں میں ہے جنہوں نے ناقص حکمت عملی سے منصوبہ شروع کرکے عوام کو مصیبت سے دوچار کردیا ہے۔

اس نظام کو فعال بنانے اور عوام کو خوار ہونے سے بچانے کےلیے اس میں موجود خامیوں کو جلد از جلد ختم کیا جانا چاہیے تاکہ اس میں فلاح کا عنصر نظر آئے۔ تحصیل میں موجود قصبوں کے الگ الگ اراضی ریکارڈ سینٹر موجود ہوں جہاں اس قصبے سے ملحقہ دیہاتوں کا ریکارڈ موجود ہو۔ عملے کی تعداد میں اضافہ اور بزرگوں اور خواتین کےلیے الگ سے کاؤنٹر بنائے جائیں۔

اس نظام کو چلنا چاہیے مگر اس میں بہت بہتری کی گنجائش ہے جو اگر نہ کی گئی تو عوام پھر پٹواری کو دعائیں دینے پر مجبور ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |