عاصمہ جہانگیر کا خواب
عاصمہ نے جمہوری استحکام کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔
عاصمہ جہانگیرکا جنازہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے صاحبزادے فاروق حیدر نے پڑھایا، ہزاروںافراد جنازے میں شریک ہوئے۔ خواتین کی نماز جنازہ میں بھاری تعداد میں شرکت سے ایک طرف رجعت پسندوں کا پروپیگنڈا باطل ہوا اور یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ پاکستان کے عوام ایک لبرل، سیکیولر اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے والوں کی قدر کرتے ہیں۔ ان کے جنازے میں خواتین کی بھاری تعداد میں شرکت سے صنفی مساوات کی جدوجہد کو ایک نئی جہت ملی جو عاصمہ کا خواب تھا۔
وفاقی حکومت کا عاصمہ جہانگیرکو سرکاری اعزاز سے دفنانے سے معذوری پر عاصمہ کی عظمت اور بلند ہوگئی، وہ تو خاک نشین تھیں یہی ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔عاصمہ جہانگیرکا تعلق لاہور کے ککے زئی خاندان سے تھا۔ ان کے نانا مولانا صلاح الدین نے اردو زبان کی خدمت میں زندگی بسرکی۔ پہلے آمر جنرل ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا۔ عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی نے ساری زندگی آمروں کے خلاف مزاحمت میں گزاری۔ انھوں نے ایوب خان کی آمریت کو چیلنج کیا اور پابند سلاسل ہوئے۔
ملک غلام جیلانی نے یحییٰ خان کے مشرقی پاکستان میں آپریشن کی اس وقت مخالفت کی جب مغربی پاکستان کے سیاستدان جنرل یحییٰ خان کے ہر آمرانہ فیصلے کی تائیدکرتے تھکتے نہیں تھے۔ یحییٰ خان نے ملک جیلانی کو پابند سلاسل کیا، عاصمہ اس وقت طالبہ تھیں۔ انھوں نے یحییٰ خان کے مارشل لاء کو غیر قانونی قراردینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔اس دوران ملک ٹوٹ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے برسراقتدار آنے کے بعد عدالت نے فیصلہ کیا کہ جنرل یحییٰ خان غاصب تھے اورکسی فوجی جنرل کو مارشل لاء نافذ کرنے کا اختیار نہیں۔
جب جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو حکومت کوبرطرف کیا، آئین کو معطل کیا اور مارشل لاء نافذ کیا تو جنرل ضیاء الحق کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے متنازعہ قوانین نافذکیے تو اس وقت عاصمہ ایک شادی شدہ خاتون اور پروفیشنل وکیل بن چکی تھیں۔ عاصمہ نے ایک فیصلے کے خلاف خواتین کو جمع کیا اور لاہورکے مال روڈ پر مظاہرہ کیا، پولیس نے ان پر بیہمانہ تشدد کیا۔
ممتاز شاعر حبیب جالبؔ خواتین کی حمایت میں آئے تو پولیس کے بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنے، عاصمہ اور ان کی ساتھی خواتین جیل بھیج دی گئیں۔ عاصمہ کے بچے چھوٹے تھے مگر عاصمہ کے عزائم بلند تھے۔ جب 1983ء میں پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کی دیگر جماعتوں نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) شروع کی توسندھ کے عوام نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ عاصمہ اور ان کی ساتھی خواتین ایم آر ڈی کی تحریک سے یکجہتی کے لیے میدان میں آگئیں، لاہورکے تھانوںکے لاک اپ اور کوٹ لکھپت جیل ان کا مقدر قرار دیا گیا۔ عاصمہ اپنی ساتھیوں کے لیے کوٹ لکھپت جیل میں نظر آئیں۔
انھوں نے 1986ء میں جسٹس ریٹائرڈ دراب پٹیل، آئی اے رحمن، حسین نقی، نثارعثمانی، جسٹس صبیح الدین احمد اور اقبال حیدر وغیرہ کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) قائم کیا۔ ایچ آر سی پی نے بھٹہ مزدوروں، باؤنڈڈ لیبر، خواتین اور غیرمسلم شہریوں کے حقوق اور جمہوری نظام کی پاسداری اور آئین کی بالادستی کے لیے تحریک شروع کی۔ پنجاب کے بھٹہ مزدور قرون وسطیٰ دورکی زندگی بسر کررہے تھے۔ بھٹہ مالکان چند سو روپے قرضے کے نام پر دیتے اور پورے خاندان کو یرغمال بنالیتے۔
عاصمہ جہانگیر نے سپریم کورٹ میں بھٹہ مزدورکے حقوق کا مقدمہ لڑا۔ ان کی جدوجہد کی بناء پر سپریم کورٹ نے ایک جامع فیصلہ دیا جس میں بھٹہ مزدوروں ، ان کے خاندان کے اراکین کو یرغمال بنانے کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور ان کی کم از کم اجرتوں کا تعین کیا گیا۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنی بہن حنا جیلانی ایڈووکیٹ کے ساتھ مل کر بے سہارا خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤس قائم کیا اور خواتین کی پسند کی شادی کے حق میں عدالتوں میں لڑائی لڑی۔ عاصمہ جہانگیر پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے گئے۔ ان کی توہین کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ نے یہ حق حاصل کر کے دیا خواتین کو۔ عاصمہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں۔ ان کے خلاف فتویٰ جاری ہوئے، ان کی تضحیک کی گئی مگر عاصمہ مرتے دم تک ایسے افراد کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے بھارت، افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک سے پرامن تعلقات کے لیے آواز اٹھائی۔
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور دوستی سے جمہوری نظام مستحکم ہوگا۔ تمام ممالک اپنے بجٹ میں دفاع کے لیے جو خطیر رقم خرچ کرتے ہیں وہ انسانی وسائل کی ترقی پر خرچ ہوگی مگر عاصمہ کی امن کی اس خواہش نے ان کے مخالفین کو کچڑا اچھالنے کا موقع دیا۔
عاصمہ نے جمہوری استحکام کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا، جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو عاصمہ جہانگیر اور ایچ آر سی پی کی قیادت نے جنرل مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔ جب جنرل مشرف نے عبوری آئینی حکم (P.C.O) نافذ کیا تو بہت سے ججوں کو برطرف کیا گیا تو عاصمہ نے اپنے ساتھی وکلاء کے ساتھ مل کر بار کونسلوں کے ذریعے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف آواز اٹھائی، یوں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن متحرک ہوئیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جنرل مشرف کے اقتدار کو جائز قرار دینے اور آئین میں ترمیم کے فیصلے کو چیلنج کیا ۔
جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کومعزول کرکے نظر بند کیا گیا تو عاصمہ بار کے صدر منیر اے ملک، حامد خان، رشید اے رضوی، جسٹس طارق محمود وغیرہ کے ساتھ واحد خاتون تھیںجو چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں شامل رہیں۔ اس تحریک کے دوران انھیں کراچی میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور انھیںان کی رہائش گاہ پر نظربندکیا گیا۔ جب سابق صدر آصف زرداری نے جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا وعدہ پورا نہیں کیا تو عاصمہ نے آواز اٹھائی۔ عاصمہ نے جسٹس چوہدری کے بعض فیصلوں کو بھی للکارا ۔ یہ وہ وقت تھا جب عدلیہ بحالی کی تحریک کے سرکردہ رہنما سپریم کورٹ میںمقدمات لڑ رہے تھے۔ اس جدوجہد میں عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئیں۔ انھوں نے اسٹیبلشمٹ کی پالیسی کو چیلنج کیا۔
نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ ان کے ساتھ بیہمانہ سلوک شروع ہوا۔ منتخب وزیر اعظم زیر عتاب آئے۔عاصمہ پھر جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے بھرپور آواز کے ساتھ گرجی۔انھوں نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص کے ساتھ خواہ اس کا کوئی عقیدہ یا نظریہ ہو قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہیے۔ وہ کہتی تھیں کہ سویلین کے لیے راہیں محدود کی جارہی ہیں۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستان کی ریاست پر آئین کی بالادستی قائم ہو اور کوئی ادارہ یا گروہ انسانی حقوق کو پامال نہ کرے۔ یہ خواب کب پورا ہوگا؟