نکاح پڑھا کر جان چھڑائی
میرے علاوہ بھی کوئی یہ راز جانتا تھا کہ نہیں مجھے نہیں پتہ۔
منشی عزیز بھی میروں کے سیکڑوں ملازمین میں سے ایک تھے۔ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ کامدار تھے یا زمینوں کی پیداوار کا حساب کتاب رکھنے والے منشی، لیکن کہلاتے منشی تھے۔ نسلی اعتبار سے پنجابی تھے اور بال بچوں کے ساتھ ٹنڈو غلام علی شہر میں رہتے تھے۔ شریف آدمی تھے، ان کے بچے اماں سے قرآن پاک پڑھنے ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ بھی نہایت ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔
ابا کی ملازمت کے دوران میروں کا دیا ہوا گھر چھوڑ کر اپنے شاہی بازار والے گھر میں منتقل ہو جانے کے بعد میں اکثرکوئی چیز لینے یا دینے ان کے گھر جایا کرتا تھا، انھوں نے اپنی بھینس بھی پال رکھی تھی، خود ہی اس کا دودھ دوہتیں اور لسی رڑکتی تھیں۔ بچپن میں ہم اپنی اماں کو بھی یہی کام کرتے دیکھا کرتے تھے۔ منشی صاحب کے بچے مجھے اس واقعے کے حوالے سے بھی یاد ہیں جب ابا کو بیٹھے بٹھائے اچانک گھر کے صحن میں کنواں کھودنے کی سوجھی تھی۔
ہمارے وہاں کنویں بہت گہرے کھودے جاتے تھے، ابھی پانی نہیں نکلا تھا کہ انھیں کھدائی روک کر کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جانا پڑ گیا۔ وہ جس رسی کی مدد سے کنویں میں اترتے تھے وہ اسی طرح بندھی ہوئی لٹک رہی تھی۔
اماں نے مرغیاں بھی پال رکھیں تھیں جو دن بھر اپنے چوزوں کو لیے صحن میں چگتی رہتی تھیں۔ ایک چوزہ اچانک کنویں میں گرگیا، بس پھر کیا تھا، ایک کہرام سا مچ گیا، اماں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ کوئی اسے نکالو، جلدی کرو نہیں تو مر جائے گا۔ منشی صاحب کا بیٹا جو بچہ ہی تھا اور بیٹھا پڑھ رہا تھا، اٹھا اور اس نے کنویں میں اترکر چوزہ نکال لانے کی اجازت چاہی، اماں نے بھی بدحواسی میں گردن ہلادی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے رسی پکڑکرکنویں میں اترگیا۔
اس نے ابا کے علاوہ کسی اور کو بھی اس طرح کنویں میں اترتے دیکھا ہوگا، مگر نہیں جانتا تھا کہ اس کی ایک خاص تیکنک ہوتی ہے، دونوں ہاتھوں سے تو رسی پکڑی ہوتی ہے لیکن دونوں پاؤں کنویں کی دیوار سے ٹکا کر رک رک کر اترا جاتا ہے، ورنہ مونج کی رسی (بان) کی مسلسل رگڑ سے ہتھیلیاں ناقابل برداشت حد تک گرم ہوجاتی ہیں اور آدمی رسی کو چھوڑنے پر مجبور ہوکر نیچے جا گرتا ہے۔
بچے کے ساتھ بھی یہی ہوا، اس نے کنویں میں اترتے ہی رسی چھوڑ دی اور کافی بلندی سے گرا تھا لیکن کنویں کی دیوار سے نہ ٹکرانے اور سیدھا نیچے کھدی ہوئی نرم مٹی پر جا گرنے کی وجہ سے اسے معمولی سی چوٹ بھی نہیں آئی، گرتے ہی اٹھا اور کپڑے جھاڑکر کھڑا ہوگیا۔
ہماری سب سے چھوٹی بہن مرحومہ اقبال بانو (اللہ اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے)، اس وقت اماں کے ساتھ گھر میں موجود تھی۔ بتاتی تھی کہ کوئی ٹوکری یا تھیلی وغیرہ رسی سے باندھ کر نیچے پھینکی گئی، بچے نے چوزے کو پکڑ کر اس میں ڈالا جسے اوپر کھینچ کر نکال لیا گیا مگر اب بچے کو نکالنے کا مسئلہ درپیش تھا اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیسے حل ہوگا۔
اللہ نے سن لی اور ٹھیک اسی وقت علی محمد نے دروازے پر دستک دی جو ہمارے گھرکا پانی بھرا کرتا تھا، اسے نہ جانے کیا چیز چاہیے تھی جو لینے آیا تھا، مگر اماں نے اسے دیکھتے ہی کہا بیٹا بچہ کنویں میں گرگیا ہے، پہلے اسے نکالو۔ اسے شاید رسی کی مدد سے کنویں میں اترنے اور باہر آنے کا طریقہ معلوم تھا تبھی فوراً اترگیا اور بچے کوکندھے پر بٹھا کر بحفاظت نکال لایا۔
منشی عزیز اور ان کی اہلیہ کتنے اچھے پڑوسی اور شریف لوگ تھے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ انھوں نے اسے ایک حادثہ ہی سمجھا اور پوچھنا تو درکنار کبھی بھولے سے بھی اس کا ذکر ہم لوگوں سے نہیں کیا، لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، سو اس خاندان میں بھی ایک نمونہ موجود تھا جس نے سب گھر والوں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں منشی عزیزکا اپنا برادر نسبتی (سالا) رحمت علی تھا۔ بظاہر اچھا بھلا آدمی تھا اور گاؤں میں رہتا تھا، ظاہر ہے کھیتی باڑی ہی کرتا ہوگا کہ وہاں کرنے کو اور کوئی کام جو نہیں تھا، تھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی تھا۔ جب بھی شہر آتا، ابا کی دکان پر آکر اخبار مانگتا اور باہر بینچ پر بیٹھ کر پڑھتا رہتا۔
قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت اگرچہ فعال تھی لیکن اس میں انتہا پسندی کا عنصر شامل نہیں تھا اور مار دھاڑ سے خالی تھی۔ سارا زور لٹریچر بانٹنے پر ہوتا تھا، زیادہ ہوا تو مذہبی جلسے منعقد کیے اور کرائے جاتے تھے جن میں لوگ بہت بڑی تعداد میں علما حضرات کی تقاریر سننے آتے تھے۔
خدا جانے رحمت علی نے کسی لٹریچر میں کوئی ایسی ویسی بات پڑھی تھی یا اس کا کوئی پیچ پہلے سے ڈھیلا تھا، ایک دن معمول کے مطابق گاؤں سے شہر آیا اور تیلیوں کے کولہو کے بالمقابل حکیم نور محمد کی دکان میں گھس کر اس پر حملہ کردیا جو بوڑھا اور کمزور سا آدمی تھا اور دکان کے اندر بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھا دوائیں بنا رہا تھا۔
دکان میں حکیم کے منجھلے بیٹے جمیل سمیت اور بھی لوگ موجود تھے لیکن سب کچھ اچانک اور اتنی جلدی ہوا کہ کوئی بھی کچھ نہ سمجھ پایا۔ اس نے جونہی حکیم کو ٹانگ سے پکڑ کر مارنے کے لیے اپنی طرف کھینچا، وہ چبوترے سے نیچے آ گرا اور اس کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی، اوپر سے مکے اور لاتیں الگ پڑ رہی تھیں، سنا تھا رحمت علی کی جیب میں چاقو بھی تھا جو یہ حکیم کو مارنے کے لیے لایا تھا، لیکن لوگوں نے اسے وہ نکالنے کی مہلت نہ دی اور پکڑ کر بے بس کردیا۔
وہاں قادیانی، مرزائی کہلاتے تھے جن کا تعلق زیادہ تر پنجابی آبادکار برادری سے تھا، شہر سے چند میل دور بشیر آباد میں انگریزوں کی طرف سے انھیں دی ہوئی جاگیر بھی تھی جو قادیانی اسٹیٹ کہلاتی تھی۔ حکیم نور محمد کی دکان دراصل دفتر رابطہ (لائژن آفیس) تھا جہاں ہر وقت ان کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔پولیس آئی اور رحمت علی کو پکڑ کر لے گئی، کیس چلا اور اس کو سزا ہوگئی۔ بیچارے منشی عزیز کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، وہ تو میروں سے تعلق کام آگیا ورنہ پولیس انھیں بھی اس کیس میں پھانسنے کی کوشش کرتی۔ اس سے تو بچ گئے لیکن سالے کے بچے پالنا بھی اب ان کی ذمے داری ٹھہری۔
منشی عزیزکے اس جنونی سالے کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی مجھے یاد ہے جو میرے دوست اقبال آرائیں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اس نے اقبال سے کہا کہ شام کو اس کی بیٹی کا نکاح ہے اور وہ اسے دعوت دینے آیا ہے۔ آج کل کا تو پتہ نہیں لیکن اس دور میں وہاں لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں کھلے دل سے شریک ہوتے تھے، سو اقبال بھی چلا گیا، وہاں جاکر پتہ چلا کہ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
اس پاگل آدمی نے اپنی کمسن بچی کا رشتہ توکسی کے ساتھ طے کیا ہے، نکاح پڑھوا کے رخصتی بھی دینا چاہ رہا تھا جو ایوبی دور میں بننے والے عائلی قوانین کے تحت قابل تعزیر جرم تھا، کوئی بھی نکاح خواں بچی کا نکاح پڑھانے کے لیے تیار نہیں تھا، اقبال کو بٹھا کر وہ بچی اور اس کے ہونے والے دلہے کو بھی وہیں لے آیا اور اقبال کو نکاح پڑھانے کے لیے کہا۔
اقبال نے کہا مجھے نکاح پڑھانا نہیں آتا تو اس نے گھر کے اندر سے ایک چوپڑی سی لا کر دی اور کہا اس میں سے دیکھ کر نکاح پڑھا دو۔ اقبال نے پھر بھی انکارکیا تو وہ مرنے مارنے پر اتر آیا اور اقبال کو نکاح پڑھا کر ہی جان چھڑانی پڑی۔ میرے علاوہ بھی کوئی یہ راز جانتا تھا کہ نہیں مجھے نہیں پتہ، لیکن میں سب کو بتانے کی دھمکی دیکر اپنے یار سے ہر بات منوالیا کرتا تھا۔