طبلِ جنگ کی طرح سدا گونجنے والی آواز عاصمہ جہانگیر
جسے لوگ ایک عورت سمجھتے ہیں وہ تو خلق کا ایک بپھرا ہوا سمندر تھی۔
کبیر داس جی نے فرمایا تھا:
دنیا بڑی باوری پتّھر پُوجن جائے
گھر کی چاکی کوئی نہ پُوجے، جس کا پِیسا کھائے
عجیب ہے یہ دنیا اور عجیب تر ہیں اس کے باسی۔ لیکن اسی انبوہ کثیر میں کچھ سرپھرے نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسے نمایاں کہ پھر جدھر دیکھیے وہی نظر آتے ہیں، ایسے سرپھرے کہ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔ کہلاتے وہ گم راہ ہیں، اور اسی لیے قدامت پسندوں کی نظر میں راندۂ درگاہ ہوتے ہیں، لیکن راست باز تو وہی ہوتے ہیں۔
عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے لوگ، زمین کا نمک۔ ایسے جو انسانیت کو اپنا کنبہ کہتے ہیں، ان کا مذہب تکریم انسانیت ہوتا اور وہ ان کے حقوق کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ وہ کوئی جوہڑ نہیں ہوتے نہ ہی کوئی جھیل اور دریا، وہ تو سمندر ہوتے ہیں، محبتوں کا سمندر، ان کی لغت میں قوم، مذہب، قبیلہ، خطہ نہیں ہوتا۔
عالم گیر فکر انسانیت کے علم بردار۔ یہ جو خود فراموشی ہے، یہ ویسے ہی نہیں مل جاتی، بہت کچھ اور کبھی کبھی تو اپنا سب کچھ قربان کردینے کے صلے میں ملتی ہے، ہر کس و ناکس کو نہیں کہ یہی تو جوہرِِ انسانیت ہے کہ جب تک خود کو فراموش نہ کیا جائے، کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔
صوفیاء اس منزل کو ''نفی ذات'' کہتے ہیں اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔ خیر، ہم کوئی اور بات کر رہے تھے، تو وہ جو کہا گیا ہے ناں کہ لوگوں نے آوازے کسے، طعنے دیے، فتوے جڑے، ایسے سخت جان کہ وہ سخت جاں ہنستا رہا، ہنستا رہا اور بس اپنی طے کردہ منزل کے راستے پر، خارزار راستے پر چلتا رہا، چلتا رہا۔ آبلہ پائی جیسا لفظ تو ان کی کفالت ہی نہیں کرتا، وہ تو مجسم مصلوب ہوتے ہیں، سنگ زنی میں بھی رقصاں، اور سنگ کا کیا صاحب، وہ تو پتھر ہیں سو اچھالا گیا پتھر کہیں سے بھی مضروب کرسکتا ہے، اپنی سولی آپ اٹھائے ہوئے مصلوب، '' سرِ بازار می رقصم'' کا گیت گاتے بس اپنے راستے پر رقص بسمل کرتے ہوئے رواں اور دواں۔ عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے سرپھرے لوگ، زمین کا نمک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے جو انسانوں کو دو طرح سے دیکھتے ہیں۔ یہ طارق عزیز کس وقت یاد آئے:
منڈھ قدیم توں دنیا اندر، دو قبیلے آئے نیں
ہک جنہاں نے زہر نے پیتے، ہک جنہاں نے پیائے نیں
ہاں ایسا ہی ہے، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ ظالم اور اس کے سامنے مظلوم کے حق میں نغمہ سرا، اور آپ تو جانتے ہی ہیں ناں جب کوئی مظلوم کے حق میں نغمہ سرا ہو، تو حُسین بنتا ہے، کربلا کا حسین اور پھر اس کے قبیلے کے لوگ نوک سناں پر بھی مظلوم کا ساتھ دیتے ہوتے نغمہ سرا ہوتے ہیں، عجیب قبیلہ ہے یہ، اچھا تو آپ جانتے ہیں یہ سب کچھ ۔۔۔۔۔۔!
تو پھر یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ جب بھی اور جہاں بھی اور کوئی بھی مظلوم کا ساتھ دے گا، انہیں گلے لگائے گا، انہیں زمین سے اٹھائے گا اور اپنا حق مانگنے نہیں، چھیننے پر اکسائے گا تو وہ زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار تو ہوگا ہی، یہ دوسری بات کہ ان دیوتاؤں کے نام الگ الگ ہوں گے، ہر دور میں بدلتے ہوئے نام، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے، کوئی مذہبی، کوئی ریاستی اور کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
پھر انجام کیا ہوتا ہے، اس کے سوا کیا کہ :
ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں
اب کیا بات کریں، اپنے اس لکھے کے حق میں دلیل لائیں، مثال لائیں، تو صاحبو ایسے قبیلے کی تو پوری تاریخ بھری پڑی ہے، قدیم کو چھوڑیں اس دور کو لیتے ہیں ناں اور دنیا بھر کو پھر کبھی لیں گے، اپنے ہاں کی بات کرتے ہیں، عبدالستار ایدھی، جسٹس درّاب پٹیل، بے نظیر بھٹو، ملالہ، ڈاکٹر روتھ فاؤ، خدا سلامت رکھے ہمارے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور عاصمہ جہانگیر۔
عاصمہ نے اپنی ایک راہ چنی اور اپنے قبیلے کی لاج ہی نہیں رکھی اس میں نئی روایتوں کو بھی جنم دیا، جب بھی، جہاں بھی کسی ظالم نے چاہے وہ کسی بھی نقاب میں ہو، مظلوموں کے حقوق کو غصب کیا وہاں وہ اس کے مقابل آئی۔ ڈر، خوف، لالچ تو اس سے خود خوف زدہ تھے کہ وہ تھی ہی ایسی۔
جسے لوگ ایک عورت سمجھتے ہیں وہ تو خلق کا ایک بپھرا ہوا سمندر تھی۔ ایک پوری کائنات جس میں سمائی ہوئی تھی۔ وہ عورت مرد کی تقسیم سے انکاری ایک مکمل انسان تھی۔ وہ ایک نغمۂ شوریدہ تھی، جس کی لے میں بڑے بڑے سورما لڑکھڑا کر گرتے دیکھے گئے۔ وہ ایک زلزلہ تھی، جس نے ان ایوانوں کو تہہ و بالا کیا جس میں انسانوں کو بہ زور جبر غلام بنانے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ وہ ایک ایسا منہ زور طوفان تھی، جس کی زد میں آئے ہوئے ظالم خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح اڑ جایا کرتے تھے۔ وہ ایک شمشیر براں تھی، جس نے ظالموں کے وجود کو گھائل کر رکھا تھا۔
جہاں مظلوم تھا وہاں عاصمہ تھی۔ جہاں جبر تھا وہاں اس کے مقابل عاصمہ تھی۔ جہاں ناانصافی تھی وہاں اس کے سامنے سینہ سپر عاصمہ تھی۔ عاصمہ ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے جرم میں زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار رہی۔ کیا یہ اس کے اخلاص، ایثار اور انسان دوستی کا مظہر نہیں ہے ۔۔۔۔۔؟
کسی دانا، شاید ارسطو نے کہا تھا کہ '' قانون مکڑی کا وہ جالا ہے، جس میں ہمیشہ حشرات الارض یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں، بڑے جانور تو اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔'' لیکن عاصمہ نے حشرات الارض کے حقوق کی جنگ اس دلاوری سے لڑی کہ بڑے بڑے جانور اس کے نام سے خائف تھے۔
بھگت سنگھ نے کہا تھا: '' لوگوں کو موت سے خوف زدہ کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو جینے کا حوصلہ سکھایا جائے، اس لیے کہ انسان ہر مشکل میں جی کر اس عہد تک پہنچا ہے۔'' بلاشبہ عاصمہ نے ایسا ہی کیا۔
عاصمہ ایک درویش تھی، جی ہاں ایک درویش، میں اسے درویش خدا مست کہوں تو آپ کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ہونے دیں۔ مولانا جلال الدین پیرِ رومی نے کہا تھا : '' اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔ '' کیا اس کے بعد بھی آپ کو اس کی درویشی کی دلیل چاہیے ۔۔۔۔۔ ؟ کیا آپ انکار کرسکتے ہیں کہ اس نے انسانوں سے پیار کیا، ان کے لیے مار کھائی، جیلوں میں گئی، کہساروں اور ویرانوں میں رہ کر مظلوم انسانوں کی پشتہ بانی کی۔
وہ صلہ ستائش کی تمنا سے یک سر محروم تھی، وہ بے نیاز انسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انسان کی تکریم، ان کے حقوق کی جنگ جس جنگ جُو نے بے جگری سے لڑی، وہ عاصمہ کہلائی۔
صاحبو، ہم بدنصیب ہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہی، آج ظالم اس کی موت پر جشن منا رہے ہیں اور مظلوم ماتم کناں ہیں، ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ لیکن ذرا سا رک جائیے، ذرا دم لیجیے، اس کی جلائی ہوئی آگ کبھی سرد نہیں ہوگی، اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی اور مظلوم اس کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہر ظالم کا تعاقب کرتے رہیں گے۔
مرتے تو ہم جیسے ہیں دھرتی کا بوجھ کہ خس کم جہاں پاک، عاصمہ جیسے کہاں مرتے ہیں، وہ تو مرتے ہوئے کو جینے پر اکساتے ہیں۔
کبیر داس جی نے کہا تھا، جب میں دنیا میں آیا تو میں رو رہا تھا، اور لوگ ہنس رہے تھے۔ اب میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں جاؤں تو ہنستا ہوا جاؤں اور لوگ میرے لیے روئیں۔
اس کے کارنامے بیان کیے جارہے ہیں اور بیان کیے جاتے رہیں گے، عاصمہ حقوق انسانی کی مجاہدانہ داستان تھی اور صاحبو داستانیں تو امر ہوتی ہیں، ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، داستان بھی کبھی ختم ہوئی ہے کیا۔۔۔۔۔۔ !
ہر مظلوم کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو تمہاری سچائی اور جدوجہد کی گواہی ہیں عاصمہ!! سلام تم پر!!!
دنیا بڑی باوری پتّھر پُوجن جائے
گھر کی چاکی کوئی نہ پُوجے، جس کا پِیسا کھائے
عجیب ہے یہ دنیا اور عجیب تر ہیں اس کے باسی۔ لیکن اسی انبوہ کثیر میں کچھ سرپھرے نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسے نمایاں کہ پھر جدھر دیکھیے وہی نظر آتے ہیں، ایسے سرپھرے کہ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔ کہلاتے وہ گم راہ ہیں، اور اسی لیے قدامت پسندوں کی نظر میں راندۂ درگاہ ہوتے ہیں، لیکن راست باز تو وہی ہوتے ہیں۔
عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے لوگ، زمین کا نمک۔ ایسے جو انسانیت کو اپنا کنبہ کہتے ہیں، ان کا مذہب تکریم انسانیت ہوتا اور وہ ان کے حقوق کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ وہ کوئی جوہڑ نہیں ہوتے نہ ہی کوئی جھیل اور دریا، وہ تو سمندر ہوتے ہیں، محبتوں کا سمندر، ان کی لغت میں قوم، مذہب، قبیلہ، خطہ نہیں ہوتا۔
عالم گیر فکر انسانیت کے علم بردار۔ یہ جو خود فراموشی ہے، یہ ویسے ہی نہیں مل جاتی، بہت کچھ اور کبھی کبھی تو اپنا سب کچھ قربان کردینے کے صلے میں ملتی ہے، ہر کس و ناکس کو نہیں کہ یہی تو جوہرِِ انسانیت ہے کہ جب تک خود کو فراموش نہ کیا جائے، کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔
صوفیاء اس منزل کو ''نفی ذات'' کہتے ہیں اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔ خیر، ہم کوئی اور بات کر رہے تھے، تو وہ جو کہا گیا ہے ناں کہ لوگوں نے آوازے کسے، طعنے دیے، فتوے جڑے، ایسے سخت جان کہ وہ سخت جاں ہنستا رہا، ہنستا رہا اور بس اپنی طے کردہ منزل کے راستے پر، خارزار راستے پر چلتا رہا، چلتا رہا۔ آبلہ پائی جیسا لفظ تو ان کی کفالت ہی نہیں کرتا، وہ تو مجسم مصلوب ہوتے ہیں، سنگ زنی میں بھی رقصاں، اور سنگ کا کیا صاحب، وہ تو پتھر ہیں سو اچھالا گیا پتھر کہیں سے بھی مضروب کرسکتا ہے، اپنی سولی آپ اٹھائے ہوئے مصلوب، '' سرِ بازار می رقصم'' کا گیت گاتے بس اپنے راستے پر رقص بسمل کرتے ہوئے رواں اور دواں۔ عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے سرپھرے لوگ، زمین کا نمک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے جو انسانوں کو دو طرح سے دیکھتے ہیں۔ یہ طارق عزیز کس وقت یاد آئے:
منڈھ قدیم توں دنیا اندر، دو قبیلے آئے نیں
ہک جنہاں نے زہر نے پیتے، ہک جنہاں نے پیائے نیں
ہاں ایسا ہی ہے، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ ظالم اور اس کے سامنے مظلوم کے حق میں نغمہ سرا، اور آپ تو جانتے ہی ہیں ناں جب کوئی مظلوم کے حق میں نغمہ سرا ہو، تو حُسین بنتا ہے، کربلا کا حسین اور پھر اس کے قبیلے کے لوگ نوک سناں پر بھی مظلوم کا ساتھ دیتے ہوتے نغمہ سرا ہوتے ہیں، عجیب قبیلہ ہے یہ، اچھا تو آپ جانتے ہیں یہ سب کچھ ۔۔۔۔۔۔!
تو پھر یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ جب بھی اور جہاں بھی اور کوئی بھی مظلوم کا ساتھ دے گا، انہیں گلے لگائے گا، انہیں زمین سے اٹھائے گا اور اپنا حق مانگنے نہیں، چھیننے پر اکسائے گا تو وہ زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار تو ہوگا ہی، یہ دوسری بات کہ ان دیوتاؤں کے نام الگ الگ ہوں گے، ہر دور میں بدلتے ہوئے نام، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے، کوئی مذہبی، کوئی ریاستی اور کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
پھر انجام کیا ہوتا ہے، اس کے سوا کیا کہ :
ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں
اب کیا بات کریں، اپنے اس لکھے کے حق میں دلیل لائیں، مثال لائیں، تو صاحبو ایسے قبیلے کی تو پوری تاریخ بھری پڑی ہے، قدیم کو چھوڑیں اس دور کو لیتے ہیں ناں اور دنیا بھر کو پھر کبھی لیں گے، اپنے ہاں کی بات کرتے ہیں، عبدالستار ایدھی، جسٹس درّاب پٹیل، بے نظیر بھٹو، ملالہ، ڈاکٹر روتھ فاؤ، خدا سلامت رکھے ہمارے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور عاصمہ جہانگیر۔
عاصمہ نے اپنی ایک راہ چنی اور اپنے قبیلے کی لاج ہی نہیں رکھی اس میں نئی روایتوں کو بھی جنم دیا، جب بھی، جہاں بھی کسی ظالم نے چاہے وہ کسی بھی نقاب میں ہو، مظلوموں کے حقوق کو غصب کیا وہاں وہ اس کے مقابل آئی۔ ڈر، خوف، لالچ تو اس سے خود خوف زدہ تھے کہ وہ تھی ہی ایسی۔
جسے لوگ ایک عورت سمجھتے ہیں وہ تو خلق کا ایک بپھرا ہوا سمندر تھی۔ ایک پوری کائنات جس میں سمائی ہوئی تھی۔ وہ عورت مرد کی تقسیم سے انکاری ایک مکمل انسان تھی۔ وہ ایک نغمۂ شوریدہ تھی، جس کی لے میں بڑے بڑے سورما لڑکھڑا کر گرتے دیکھے گئے۔ وہ ایک زلزلہ تھی، جس نے ان ایوانوں کو تہہ و بالا کیا جس میں انسانوں کو بہ زور جبر غلام بنانے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ وہ ایک ایسا منہ زور طوفان تھی، جس کی زد میں آئے ہوئے ظالم خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح اڑ جایا کرتے تھے۔ وہ ایک شمشیر براں تھی، جس نے ظالموں کے وجود کو گھائل کر رکھا تھا۔
جہاں مظلوم تھا وہاں عاصمہ تھی۔ جہاں جبر تھا وہاں اس کے مقابل عاصمہ تھی۔ جہاں ناانصافی تھی وہاں اس کے سامنے سینہ سپر عاصمہ تھی۔ عاصمہ ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے جرم میں زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار رہی۔ کیا یہ اس کے اخلاص، ایثار اور انسان دوستی کا مظہر نہیں ہے ۔۔۔۔۔؟
کسی دانا، شاید ارسطو نے کہا تھا کہ '' قانون مکڑی کا وہ جالا ہے، جس میں ہمیشہ حشرات الارض یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں، بڑے جانور تو اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔'' لیکن عاصمہ نے حشرات الارض کے حقوق کی جنگ اس دلاوری سے لڑی کہ بڑے بڑے جانور اس کے نام سے خائف تھے۔
بھگت سنگھ نے کہا تھا: '' لوگوں کو موت سے خوف زدہ کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو جینے کا حوصلہ سکھایا جائے، اس لیے کہ انسان ہر مشکل میں جی کر اس عہد تک پہنچا ہے۔'' بلاشبہ عاصمہ نے ایسا ہی کیا۔
عاصمہ ایک درویش تھی، جی ہاں ایک درویش، میں اسے درویش خدا مست کہوں تو آپ کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ہونے دیں۔ مولانا جلال الدین پیرِ رومی نے کہا تھا : '' اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔ '' کیا اس کے بعد بھی آپ کو اس کی درویشی کی دلیل چاہیے ۔۔۔۔۔ ؟ کیا آپ انکار کرسکتے ہیں کہ اس نے انسانوں سے پیار کیا، ان کے لیے مار کھائی، جیلوں میں گئی، کہساروں اور ویرانوں میں رہ کر مظلوم انسانوں کی پشتہ بانی کی۔
وہ صلہ ستائش کی تمنا سے یک سر محروم تھی، وہ بے نیاز انسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انسان کی تکریم، ان کے حقوق کی جنگ جس جنگ جُو نے بے جگری سے لڑی، وہ عاصمہ کہلائی۔
صاحبو، ہم بدنصیب ہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہی، آج ظالم اس کی موت پر جشن منا رہے ہیں اور مظلوم ماتم کناں ہیں، ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ لیکن ذرا سا رک جائیے، ذرا دم لیجیے، اس کی جلائی ہوئی آگ کبھی سرد نہیں ہوگی، اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی اور مظلوم اس کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہر ظالم کا تعاقب کرتے رہیں گے۔
مرتے تو ہم جیسے ہیں دھرتی کا بوجھ کہ خس کم جہاں پاک، عاصمہ جیسے کہاں مرتے ہیں، وہ تو مرتے ہوئے کو جینے پر اکساتے ہیں۔
کبیر داس جی نے کہا تھا، جب میں دنیا میں آیا تو میں رو رہا تھا، اور لوگ ہنس رہے تھے۔ اب میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں جاؤں تو ہنستا ہوا جاؤں اور لوگ میرے لیے روئیں۔
اس کے کارنامے بیان کیے جارہے ہیں اور بیان کیے جاتے رہیں گے، عاصمہ حقوق انسانی کی مجاہدانہ داستان تھی اور صاحبو داستانیں تو امر ہوتی ہیں، ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، داستان بھی کبھی ختم ہوئی ہے کیا۔۔۔۔۔۔ !
ہر مظلوم کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو تمہاری سچائی اور جدوجہد کی گواہی ہیں عاصمہ!! سلام تم پر!!!