حیدرآباد دکن کے شوقیہ گلوکار

عبدالرّئوف غالباً محکمۂ رجسٹریشن بلدہ میں سب رجسٹرار تھے، لیکن شوقیہ گاتے تھے۔


February 17, 2018
عبدالرّئوف غالباً محکمۂ رجسٹریشن بلدہ میں سب رجسٹرار تھے، لیکن شوقیہ گاتے تھے۔ فوٹو : فائل

دکن کے شوقیہ موسیقاروں میں، جن کا ہر مجلس میں چرچا تھا سب سے پہلا نمبر عبدالرّئوف کا تھا۔

عبدالرّئوف غالباً محکمۂ رجسٹریشن بلدہ میں سب رجسٹرار تھے، لیکن شوقیہ گاتے تھے۔ گلے میں نور تھا۔ میں نے ان کو مختلف مجلسوں میں گاتے دیکھا ہے، جب وہ سُر کو تال سے ہم آہنگ کرتے تو ہر طرف سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوتیں۔ جب وہ آواز کا جادو جگاتے تو پوری محفل پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی آواز پپیہے کی آواز کی طرح تھی۔

حیرتؔ (شاعر) صاحب کی بدولت میری ان سے رسمی ملاقات تھی۔ آج سے 40 سال پہلے میں نے رفیقانِ حیدرآباد کے عنوان سے نظم کہی تھی جس میں اپنے دوستوں سے شکوہ کیا تھا کہ وہ عہدِ ماضی کو یاد نہیں کرتے۔ ان میں رئوف، میر ابن علی، ماہر، حیرت، جوش، حکیم آزاد انصاری کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔

میر ابن علی، میر محفوظ علی کے صاحبزادے تھے۔ محلہ ملہ پلی میں رہتے تھے۔ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ علم، مجلس اور حاضر جوابی کے ساتھ موسیقی میں بھی دسترس رکھتے۔ موسیقی کی محفلیں ان کے دم سے رونق پاتی تھیں۔ پولیس ایکشن کے بعد وہ مددگار کوتوالی بلدہ ہوگئے تھے۔ ایک گیت جس کے بول تھے، '' کایہ کا پنجرہ ڈولے'' بہت ہی عمدہ گاتے تھے۔ طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم پر جب یہ گیت گاتے تو اہل محفل وارفتہ ہوجاتے۔ میں نے اکثر ان کی محفلوں میں شرکت کی ہے۔

معزالدین صدر محاسبی میں ملازم تھے۔ موسیقی کے رسیا تھے۔ حیرت صاحب سے گہرے مراسم تھے۔ ان کی بدولت میں بھی ایک دو مرتبہ ان کی بزم موسیقی میں شریک ہوا تھا۔ گاتے اچھا تھے۔ ان کے گانے میں بڑا کیف تھا۔

( معروف نثر نگار، شاعر اور تاریخ نویس اعجاز الحق قدوسی (1905 تا 1986) کی کتاب ''میری زندگی کے 75سال'' سے ایک ورق)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں