باہمی اتحاد… وقت کی ضرورت
سیاسی عمل مروجہ جمہوری اصولوں کی روشنی میں جاری رہے تو اس میں تشویش ناک بات نہیں۔
جب ریاست اور جمہوری طرز حکمرانی کسی بحرانی صورتحال سے دوچار ہوتی ہے تو مفکرین سیاست اکثر ایک سوال کرتے ہیں کہ بحران کی اصل وجہ کیا ہے؟ پھر ان کا وجدان کہتا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں تصادم کی بنیادی وجہ آئیڈیلزم یا مروجہ پارلیمانی روایات سے انحراف اس کا سبب تو نہیں۔
بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے مابین ٹکراؤ کی لہر ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی سمت بڑھ رہی ہے جسے روکنے کی نہ صرف اشد ضرورت ہے بلکہ زیادہ دیر کی تو جمہوریت کسی بھی سانحہ کا شکار ہو سکتی ہے، اس وقت کثیر جہتی کشیدگی، الزام تراشی، قیاس آرائی اور ڈیڈلاک کے امکانات سمیت نظام میں تضادات آئینی سقوم کے ازالہ اور عدم برداشت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف عدالتوں میں بے شمار ہائی پروفائل مقدمات زیر سماعت ہیں، عدالتوں پر کام کا سخت دباؤ ہے، انصاف بھی دینا ہے، اسی سیاق و سباق میں میڈیا کی کوریج اعصاب کو جھنجھوڑتی ہے، سنجیدہ سیاسی حلقے سیاسی صورتحال کے بارے میں یقین سے کچھ امید افزا بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں، اندیشوں نے عقل و دانش کے چراغ مدھم کردیے ہیں، یہاں تک کہ دریدہ دہنی عام اور دلکش طرز تکلم کی نفاستیں ناپید ہوگئی ہیں، ایک لاؤڈازم اور دشنام طرازی چھائی ہوئی ہے، شائستہ پارلیمانی ڈیبیٹ نہ معلوم کہاں چلی گئی۔
ٹی وی ٹاکس میں لاحاصل اور بلاجواز تلخ گوئی ہر چیزکو ملیا میٹ کررہی ہے، جلسوں میں منشور ، سسٹم میں تبدیلی اور عوام کو ریلیف کی باتیں نہں ہوتیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ڈور لگی ہوئی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارٹی سربراہوں، وزرا اور سیاسی رہنماؤں کی عدالتی فیصلوں پر تنقید میں بھی بنیادی اخلاقیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، چنانچہ گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو کہنا پڑا کہ ''کہا تھا سارے لیڈر مقدم ہیں، آبزرویشن مفروضہ پر مبنی تھی مگر میڈیا نے کیا سے کیا بنا دیا۔''
سیاسی مقدمات کے تناظر میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ن لیگ کے مزاحمتی بیانیے کا تسلسل جاری ہے، بلاشبہ جلسے جلوس سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر ملکی حالات کا ادراک اولین سیاسی ذمے داری ہے، سیاستدان اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ سیاست میں کچھ غلطیوں کی گنجائش ہوتی ہے اور کچھ غلطیوں کی گنجائش نہیں ہوتی جن میں لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن کر قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔
سیاسی عمل مروجہ جمہوری اصولوں کی روشنی میں جاری رہے تو اس میں تشویش ناک بات نہیں لیکن اداروں میں تصادم کے کھلم کھلا اعلانات جاری اور نشر ہونے لگیں تو نظام و ریاست کو کسی ریاست مخالف خود کش بمبار کی ضرورت نہیں رہتی۔ تاہم یہ اطلاع خوش آئند ہے کہ اسی سیاسی کشاکش میں تحریک انصاف نے پارٹی آئین پر جامع انداز میں نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی آئندہ الیکشن کی تیاریوں پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے فوقیت منشور کے جامع نکات کو حاصل ہونی چاہیے، دمادم مست قلندر والی سیاست ملکی مفاد میں ہر گز نہیں۔
ادھر سعودی عرب کو پاک فوج کے مزید دستے بھجوانے کے معاملے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ایک بار پھر بحث شروع ہوگئی ہے جب کہ چیئرمین سینیٹ نے وزیر دفاع کو پیر کو طلب کر لیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ سعودی عرب فوج بھیجنے کے اہم معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، ان کا یہ گلہ بلاجواز نہیں، پارلیمنٹ اگر بالادست ہے تو اتنے اہم ایونٹ کی بات پہلے ایوان میں ہونی چاہیے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کی نئی ترجیحات کیا ہیں، دریں اثنا پاکستانی فوجی دستوں کی تازہ کھیپ کی سعودی عرب میں تعیناتی پر سیکیورٹی ذرائع نے بر وقت اس تاثر کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ یمن کی سرزمین پر کسی پاکستانی فوج کا قدم نہیں جائے گا۔
میڈیا کو اس معاملہ پر معروضی انداز نظر کے ساتھ بحث کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کو قتل کرنے پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوارکی حفاظتی ضمانت واپس لیتے ہوئے سندھ پولیس کو انھیںگرفتار کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل نصیر اللہ بابر نے ایم کیوایم کے خلاف جو آپریشن کیے تھے ان میں 54 ایس ایچ اوز نے حصہ لیا تھا ان میں سے 53 مارے گئے ہیں، ان میں سے ایک راؤ انوار ہی بچا ہوا ہے، اسی طرح وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے سینیٹ کو بتایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان 00کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
یاد رہے ملکی معیشت کی صورتحال بھی قیاس آرائیوں کی زد میں ہے، قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خارجہ امور نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کا نام ممکنہ طور پر واچ لسٹ میں شامل کرنے کے معاملہ پر کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری داخلہ سے بریفنگ طلب کر لی، پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا حجم 89 بلین ڈالر کی حد کو چھونے لگا ہے۔احتیاط دامن گیر رہے، کسی قسم کی مہم جوئی ملکی مفاد میں نہیں، ضرورت متحد رہنے اور جمہوری اسپرٹ کے مظاہرہ کی ہے۔ یہ کوئی کم امتحان نہیں۔
بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے مابین ٹکراؤ کی لہر ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی سمت بڑھ رہی ہے جسے روکنے کی نہ صرف اشد ضرورت ہے بلکہ زیادہ دیر کی تو جمہوریت کسی بھی سانحہ کا شکار ہو سکتی ہے، اس وقت کثیر جہتی کشیدگی، الزام تراشی، قیاس آرائی اور ڈیڈلاک کے امکانات سمیت نظام میں تضادات آئینی سقوم کے ازالہ اور عدم برداشت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف عدالتوں میں بے شمار ہائی پروفائل مقدمات زیر سماعت ہیں، عدالتوں پر کام کا سخت دباؤ ہے، انصاف بھی دینا ہے، اسی سیاق و سباق میں میڈیا کی کوریج اعصاب کو جھنجھوڑتی ہے، سنجیدہ سیاسی حلقے سیاسی صورتحال کے بارے میں یقین سے کچھ امید افزا بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں، اندیشوں نے عقل و دانش کے چراغ مدھم کردیے ہیں، یہاں تک کہ دریدہ دہنی عام اور دلکش طرز تکلم کی نفاستیں ناپید ہوگئی ہیں، ایک لاؤڈازم اور دشنام طرازی چھائی ہوئی ہے، شائستہ پارلیمانی ڈیبیٹ نہ معلوم کہاں چلی گئی۔
ٹی وی ٹاکس میں لاحاصل اور بلاجواز تلخ گوئی ہر چیزکو ملیا میٹ کررہی ہے، جلسوں میں منشور ، سسٹم میں تبدیلی اور عوام کو ریلیف کی باتیں نہں ہوتیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ڈور لگی ہوئی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پارٹی سربراہوں، وزرا اور سیاسی رہنماؤں کی عدالتی فیصلوں پر تنقید میں بھی بنیادی اخلاقیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، چنانچہ گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو کہنا پڑا کہ ''کہا تھا سارے لیڈر مقدم ہیں، آبزرویشن مفروضہ پر مبنی تھی مگر میڈیا نے کیا سے کیا بنا دیا۔''
سیاسی مقدمات کے تناظر میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ن لیگ کے مزاحمتی بیانیے کا تسلسل جاری ہے، بلاشبہ جلسے جلوس سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر ملکی حالات کا ادراک اولین سیاسی ذمے داری ہے، سیاستدان اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ سیاست میں کچھ غلطیوں کی گنجائش ہوتی ہے اور کچھ غلطیوں کی گنجائش نہیں ہوتی جن میں لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن کر قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔
سیاسی عمل مروجہ جمہوری اصولوں کی روشنی میں جاری رہے تو اس میں تشویش ناک بات نہیں لیکن اداروں میں تصادم کے کھلم کھلا اعلانات جاری اور نشر ہونے لگیں تو نظام و ریاست کو کسی ریاست مخالف خود کش بمبار کی ضرورت نہیں رہتی۔ تاہم یہ اطلاع خوش آئند ہے کہ اسی سیاسی کشاکش میں تحریک انصاف نے پارٹی آئین پر جامع انداز میں نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی آئندہ الیکشن کی تیاریوں پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے فوقیت منشور کے جامع نکات کو حاصل ہونی چاہیے، دمادم مست قلندر والی سیاست ملکی مفاد میں ہر گز نہیں۔
ادھر سعودی عرب کو پاک فوج کے مزید دستے بھجوانے کے معاملے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ایک بار پھر بحث شروع ہوگئی ہے جب کہ چیئرمین سینیٹ نے وزیر دفاع کو پیر کو طلب کر لیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ سعودی عرب فوج بھیجنے کے اہم معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، ان کا یہ گلہ بلاجواز نہیں، پارلیمنٹ اگر بالادست ہے تو اتنے اہم ایونٹ کی بات پہلے ایوان میں ہونی چاہیے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کی نئی ترجیحات کیا ہیں، دریں اثنا پاکستانی فوجی دستوں کی تازہ کھیپ کی سعودی عرب میں تعیناتی پر سیکیورٹی ذرائع نے بر وقت اس تاثر کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ یمن کی سرزمین پر کسی پاکستانی فوج کا قدم نہیں جائے گا۔
میڈیا کو اس معاملہ پر معروضی انداز نظر کے ساتھ بحث کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کو قتل کرنے پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوارکی حفاظتی ضمانت واپس لیتے ہوئے سندھ پولیس کو انھیںگرفتار کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل نصیر اللہ بابر نے ایم کیوایم کے خلاف جو آپریشن کیے تھے ان میں 54 ایس ایچ اوز نے حصہ لیا تھا ان میں سے 53 مارے گئے ہیں، ان میں سے ایک راؤ انوار ہی بچا ہوا ہے، اسی طرح وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے سینیٹ کو بتایا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان 00کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
یاد رہے ملکی معیشت کی صورتحال بھی قیاس آرائیوں کی زد میں ہے، قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خارجہ امور نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کا نام ممکنہ طور پر واچ لسٹ میں شامل کرنے کے معاملہ پر کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری داخلہ سے بریفنگ طلب کر لی، پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا حجم 89 بلین ڈالر کی حد کو چھونے لگا ہے۔احتیاط دامن گیر رہے، کسی قسم کی مہم جوئی ملکی مفاد میں نہیں، ضرورت متحد رہنے اور جمہوری اسپرٹ کے مظاہرہ کی ہے۔ یہ کوئی کم امتحان نہیں۔