عوامی عدالتوں کے فیصلے

پارٹیاں اپنے دور حکومت کے دوران جو کچھ کرتی رہی ہیں آج ملک وعوام دشمن پالیسیوں سے اپنے آپ کو بری الذمہ قراردے رہی ہیں۔


خالد گورایا February 18, 2018
[email protected]

اگر پورے عوام یہ جان لیتے کہ جاگیردار، سرمایہ دار حکومت حاصل کرنے کے لیے کس حد تک ''مالیاتی'' مقدمات میں جکڑے جانے کے باوجود اپنی فطرت سے باز نہیں آتے ہیں تو ایک ووٹ بھی ان کو نہ ملتا۔ لاعلم عوام کو لاعلم رکھنا بھی جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی ملک و عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ الزامات در الزامات کی سیاست اور پھر عوام کو ہانک کر ٹھپے لگوانے کا کھیل 1947 کے بعد سے آج تک جاری ہے۔

حکومت عوام سے ٹیکس در ٹیکس وصول کرتی ہے، کروڑوں، اربوں اور کھربوں روپے جمع کرتی ہے۔ عوام میں خوشحالی کہیں نظر نہیں آتی۔ سرمایہ کہاں جاتا ہے؟ (1) کتاب Monthly Statistical Bulletin November 2017 جسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شایع کیا ہے۔ اس کے صفحہ 112، 113، 115 کے مطابق عوام یا ملک پر غیر ملکی اور ملکی قرضہ جون 2017 تک 250 کھرب 62 ارب 10 کروڑ روپے تک بڑھادیاگیا تھا۔

کتاب Handbook Of Statistics On Pakistan Economy 2015 جسے اسٹیٹ بینک نے شایع کیا اس کے صفحہ 470 ٹیبل 9.1 دوسری کتاب Statistical Supplement 2009-10 کے صفحہ174 کے مطابق ملک و عوام پر 1961 میں غیر ملکی اور ملکی قرضہ 2 ارب 52 کروڑ 7 لاکھ 53 ہزار روپے چڑھایا تھا۔ 56 سالوں کے دوران جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی حکومتوں نے ملک و عوام پر ملکی اور غیر ملکی ٹوٹل قرضہ 9942 گنا چڑھادیا یا 9 لاکھ 94 ہزار ایک سو 30 فی صد قرضہ بڑھادیاگیا۔

(2) کتاب Statistical Bulletin November 2017 کے صفحہ 156 کے مطابق سال 2017 میں حکومت نے عوام سے ٹیکس کی مد میں consolidated revenue receipts federal cund provincial (آمدنی) ٹیکس وصولی 49 کھرب 36 ارب 70 کروڑ روپے وصول کیے تھے۔ سال 1949-50 کے پیش کردہ بجٹ کے حوالے 1948-49 کا Revised Budget عوام سے ٹیکس وصولی یعنی ریونیو (آمدنی) 95 کروڑ 64 لاکھ روپے وصول کیے گئے تھے۔

69 سالوں کے دوران عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں 5162 گنا اضافہ کردیاگیا یعنی 5 لاکھ 16 ہزار 8 فی صد اضافہ کیا گیا۔ عوام و ملک کے نام پر لیے گئے قرضوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ عوام سے ٹیکس وصولیوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ عوام سے ٹیکس وصولیوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ اتنا سرمایہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی حکومتوں نے حاصل کرکے عوام کو مسلسل معاشی بد حال بنایا اور اسی طبقے کے بیرونی ملکوں کے بینکوں اور اثاثوں میں بے پناہ اضافے ہوتے گئے۔ ان تمام حکومتوں کی خارجہ پالیسیوں اور داخلی پالیسیوں کے نتیجے میں آج پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گہرا ہوا ہے۔

اندرون ملک جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے سیاسی انتشار برپا کیا ہوا۔ ملک دشمن آئے روز دہشت گرد حملے کرارہے ہیں ایسے وقت میں جب ملک میں بد امنی عروج پر پھیلادی گئی ہے معاشی بد حالی انتہائی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ ان میں سے کسی بھی پارٹی کے پاس ملک کو معاشی دلدل میں ڈوبنے سے بچانے کا کوئی پلان نہیں ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کا ''مالیاتی دوزخ'' کبھی بھی نہیں بھرتا ہے۔ (3) کتاب Statistical bulletin november 2017 کے صفحہ94،95 کے مطابق مالی سال 2016-17 کا تجارتی خسارہ 32 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔

روپے کی قیمت 104.8861 روپے فی ڈالر کے حساب سے تجارتی خسارہ 33 کھرب 92 ارب 75 کروڑ 6 لاکھ 77 ہزار روپے تھا۔ کتاب Economy of pakistan 1948-68 کے صفحہ 99،103 کے مطابق مالی سال 1949-50 میں تجارتی خسارہ 7 کروڑ 87 لاکھ روپے ہوا تھا۔ 67 سالوں میں تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ بڑھ کر 43 ہزار ایک سو 10 گنا ہوچکا تھا یا 43 لاکھ 10 ہزار 8 سو 92 فی صد بڑھ گیا تھا۔

مالیاتی تین ڈھانچے (1) عوام سے ٹیکس وصولی میں مسلسل اضافہ در اضافہ کیا گیا، عوام کی خوشحالی میں مسلسل نفی کی گئی۔ (2) ملک و عوام کے نام پر مسلسل ملکی اور غیر ملکی قرضے لیے گئے اور ملکی ترقی کی مسلسل نفی کی گئی۔ بیرونی ملکوں میں پاکستانی وقار کو گرایا گیا۔ (3) سامراجی امریکا کے حکم پر مسلسل روپے کی قیمت گرائی جارہی ہے جس سے ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ملکی برآمدات گرتی گئیں اور غیر ملکی در آمدات بڑھتی جارہی ہیں۔

(4) ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں مسلسل کمی کے نتیجے میں غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیاں چند لاکھ ڈالر لگاکر سستی لیبر سستے وسائل حاصل کرتی گئیں جس سے مزید ملکی صنعتی کلچر میں کمی آتی گئی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوتا گیا۔ (5) عوام ایک طرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی بننے والی حکومتوں کو ٹیکس دے رہے ہیں دوسری طرف روپے کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کے نتیجے میں بیرونی ملک سے آنے والی تمام اشیاؤں پر ڈالر ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ برطانوی سامراج براہ راست غلام انڈیا سے عوام سے ٹیکس وصول کرتا تھا۔ امریکا غلام پاکستان سے ڈالر ٹیکس ملکی غداری حکمرانوں کے ذریعے وصول کر رہا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ ''جمہوریت قانون کی حکمرانی کے ساتھ چلتی ہے۔ ہم قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیںگے۔ اصلاحات کا وقت آگیا ہے جہاں جہاں خامیاں ہیں درست کریںگے'' یہ بالکل درست کہا گیا ہے، لیکن زمینی حقائق سے انکار بھی ممکن نہیں ہے۔ موجودہ جمہوری ڈھانچہ انگریز حکمرانوں اور بعد میں امریکی سامراج کی ضرورتوں کے مطابق جاری و ساری رکھا گیا۔ آج تمام ملکی سیاسی، انتظامی اور معاشی ڈھانچوں کو ملک و عوام کے تابع بنانے کی ضرورت ہے۔

آج یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ہر پارٹی ایک دوسرے پر الزامات لگارہی ہے اور تمام پارٹیاں اپنے اپنے دور حکومت کے دوران جو کچھ کرتی رہی ہیں آج ملک و عوام دشمن پالیسیوں سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہی ہیں۔ اس برطانوی و امریکی جمہوری کلچر میں جاگیردار، سرمایہ دار اپنے اپنے علاقے میں اثاثوں یعنی زور ''زر'' اور علاقے کے تھانہ کچہری پر اپنی مرضی سے چلانے کی قوت کے زور پر عوام کو اپنے اثر و رسوخ کے دباؤ میں لاکر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح ہر انتخابی حلقے میں سرمایہ دار، جاگیردار قبضہ کرلیتے ہیں اور ان کے سردار یعنی پارٹی لیڈران میں سے تمام محکموں پر نا اہل وزیر مقرر کردیتے ہیں ان وزیروں میں ذرا بھر صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ ملکی وسائل اور عوام اور قانون کا استعمال ملک کے مثبت مفاد میں استعمال کرسکیں یہ اپنی پارٹی پالیسی کو سامنے رکھ کر اپنے اپنے ادارے میں سیاسی مداخلت کرتے ہیں۔

اس طرح آج تمام ملکی اداروں کو سیاسی وبا میں مبتلا کردیاگیا ہے۔ آج ہر ادارے کا انچارج کسی نہ کسی سیاسی اثر تلے قید ہے کیا عدالتیں ملکی اور عوامی مفاد میں تمام اداروں کو سیاست سے آزاد کردیں گی۔ کیا مالیاتی لوٹ مار کرنے والے اور مالیاتی غلاظت میں لتھڑے سیاسی خرید و فروخت کے جمہوری کلچر سے عوام و ملک کو نجات دلا دی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں