مزاحمتی رویوں کی بازگشت پہلا حصہ
آج گھر والے انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں لیکن قاتل کیفر کردار تک نہیں پہنچتے۔
اگر چشم باطن سے ہم پوری دنیا اور اس دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس حقیقت کا بہت اچھی طرح ادراک ہوجاتا ہے کہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اور حضرت انسان نے زمین پر قدم رکھا اسی وقت سے یہ انسان ناداں نہ کہ خود مزاحمت اور پریشانی کا شکار ہوا بلکہ دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا سبب بنا۔ اﷲ رب العزت نے قرآن پاک میں اسے جلد باز اور ناشکرا کہہ کر پکارا ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کردی ہے کہ 'قسم ہے زمانے کی انسان بڑے خسارے میں ہے'۔ (سورۃ العصر)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان نے گھاٹے کا سودا کیوں کیا ہے؟ اس کی وجہ نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے، اپنی آرزوؤں کو کامیابی کا رنگ دینے کے لیے بہت سے لوگوں کے حقوق کو غصب کرنے کے مترادف یہ عمل ہے اور یہی جذبہ دوسروں کے لیے اذیت کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں نے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہے۔
حضرت آدمؑ کی پیدائش سے لے کر آج تک ایذا پہنچانے کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس کرۂ ارض پر پہلی نافرمان اولاد حضرت آدمؑ کی تھی، جس نے اپنے عمل سے اپنے باپ، حضرت آدم علیہ السلام کو دلی صدمہ پہنچایا اور پہلا قاتل بھی حضرت آدمؑ کا بیٹا قابیل ہی تھا، جس نے اپنے بھائی ہابیل کو اس لیے قتل کردیا کہ وہ اس لڑکی سے ہی شادی کا خواہش مند تھا جو اﷲ کے حکم کے مطابق ہابیل کی دلہن بننے والی تھی۔
یہی وہ پہلا واقعہ ہے جس کی رو سے مزاحمت کی ابتدا ہوئی اور انسان کے دکھوں، غموں اور شکست کی کہانی کی بنیاد پڑی اور پھر اس کہانی نے فرعون اور اس کے زمانے کو اپنے اندر سمو لیا۔ اور مصر میں نوزائیدہ اولاد نرینہ کو قتل کیا جانے لگا لیکن ذرا اللہ کی قدرت پر نگاہ دوڑایے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پرورش پاتے ہیں اور دائی کے طور پر آپ کی والدہ ماجدہ کو شکم سیری کے لیے رکھ لیا جاتا ہے، اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ممتا جیسی لازوال دولت نصیب ہوجاتی ہے۔
اسی طرح اسلامی جنگیں، واقعہ کربلا میں غداروں اور سازشی عناصر کے ظلم و ستم کی داستان اور طلوع اسلام کے موقع پر کفار کا جارحانہ رویہ ہٹلر اور چنگیز خان کی بربریت، مغلیہ سلطنت کا زوال، انگریزوں کا اقتدار اور ان کا امت مسلمہ کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ، جو پاکستان کے وجود میں آنے اور ستر سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہی امتیازی سلوک جو روز ازل سے چلا آرہا ہے۔
مزاحمت کا عمل ماضی کے کربناک واقعات تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور پوری دنیا میں اس نے پنجے گاڑ لیے ہیں، ملک شام ہو، یا افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے خطے اور بوسنیا و روہنگیا کے خونی واقعات ہوں، ان تمام سانحات میں آگے بڑھنے اور دوسرے انسانوں، خصوصاً مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے کا عمل جاری ہے۔
فلسطینیوں کو ان کے ہی ملک میں رہنے کی جگہ کو تنگ کرنا، مقبوضہ کشمیر میں ان کے حق خودارادیت کو سلب کرنا اور شام میں داخل ہوکر روس اور امریکا کی جنگ لڑنا، آج لاکھوں بچے، جوان، بوڑھے گھروں سے بے دخل پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں، ہزاروں بچے موت کی وادی میں قدم رکھ چکے ہیں اور بے شمار بچے بڑے زخمی حالت میں بھوکے پیاسے در بدر ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں موت کی دلدل میں اتر گئے ہیں۔ ایسا ہی حال میانمار کا ہے، وہ کیمپوں میں بے سہارا پڑے اور کیڑوں، مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، کوئی مسلم حکمران سوائے ترکی کے صدر طیب اردگان کے کوئی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں، کوئی پناہ دینے کو تیار نہیں۔
پہلے طالبان تھے، پھر داعش اپنی چھریاں تیز کرکے مسلمانوں کا خون ناحق بہانے میدان میں اتر گئے۔
گزشتہ اور پیوستہ وقتوں کے حالات یہ ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر ادارے میں مزاحمتی رویے محض اسلام سے دوری اور انسانی اقدار کی پامالی کے نتیجے میں خوب پروان چڑھ رہے ہیں، بچوں کے داخلے سے لے کر یونیورسٹیوں کی سطح تک قدم قدم پر صداقت کی راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وہ کام کیے جاتے ہیں جن سے انسانیت کی توہین ہوتی ہے، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے موقعوں پر اسکولوں اور کالجوں میں یہ افسوسناک رویہ ان حضرات کے ذریعے سامنے آتا ہے جنھیں ہم پرنسپل یا اساتذہ کہتے ہیں۔
رشوت اور تحائف کے خوبصورت پیکٹ لے کر نتائج آسانی سے بدل دیے جاتے ہیں، اس طرح محنتی طالب علموں کی محنت پر بالٹی بھر کر پانی پھینک دیا جاتا ہے، نہ کہ الفاظ گیلے ہوتے ہیں بلکہ طلبا اور ان کے والدین کی آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں۔ایسا ہی حال دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ہے یہاں بھی ڈگریوں کی طرح ملازمتیں بکتی ہیں اور اقربا پروری اور رشوت کا بازار سجتا ہے۔
یہی مزاحمتی رویہ محلوں، گلیوں، کوچوں، شاہراہوں اور سفر کے دوران دیکھنے کو ملتا ہے۔ کوئی کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ حال احوال پوچھنا، سلام میں پہل کرنا بھی گویا بے عزتی تصور کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی فضا اسی لیے مکدر ہے، حکومت اور سیاسی جماعتوں نے بھی مفاد پرستی اور ہوس اقتدار کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچایا۔ آج بے شمار گھرانوں میں موت کا اندھیرا ہے۔ گھر والے انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں لیکن قاتل کیفر کردار تک نہیں پہنچتے۔
مظلوم کو انصاف میسر نہیں آتا۔ پولیس ڈپارٹمنٹ کو کھلی چھوٹ ہے وہ جسے چاہیں سرِ راہ گولیوں سے بھون دیں۔ یا جعلی مقابلوں میں والدین کے جگر کے ٹکڑے کو جان سے مار دیں۔ انصاف کو بے انصافی میں بدلنے اور کامیابی کو ناکامی، فتح کو شکست کا چولا پہنانے والوں کی کمی نہیں ہے، رکاوٹ ڈالنے والے خوشیوں کے قاتل دندناتے پھررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیم کو عام کیا جائے اور ایسا کرنے کے لیے عالم دین، مفتی حضرات، علما اور اساتذہ کرام کے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمے داری ہے۔ جس کا اٹھانا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ (جاری ہے)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان نے گھاٹے کا سودا کیوں کیا ہے؟ اس کی وجہ نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے، اپنی آرزوؤں کو کامیابی کا رنگ دینے کے لیے بہت سے لوگوں کے حقوق کو غصب کرنے کے مترادف یہ عمل ہے اور یہی جذبہ دوسروں کے لیے اذیت کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں نے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہے۔
حضرت آدمؑ کی پیدائش سے لے کر آج تک ایذا پہنچانے کا عمل جاری و ساری ہے۔ اس کرۂ ارض پر پہلی نافرمان اولاد حضرت آدمؑ کی تھی، جس نے اپنے عمل سے اپنے باپ، حضرت آدم علیہ السلام کو دلی صدمہ پہنچایا اور پہلا قاتل بھی حضرت آدمؑ کا بیٹا قابیل ہی تھا، جس نے اپنے بھائی ہابیل کو اس لیے قتل کردیا کہ وہ اس لڑکی سے ہی شادی کا خواہش مند تھا جو اﷲ کے حکم کے مطابق ہابیل کی دلہن بننے والی تھی۔
یہی وہ پہلا واقعہ ہے جس کی رو سے مزاحمت کی ابتدا ہوئی اور انسان کے دکھوں، غموں اور شکست کی کہانی کی بنیاد پڑی اور پھر اس کہانی نے فرعون اور اس کے زمانے کو اپنے اندر سمو لیا۔ اور مصر میں نوزائیدہ اولاد نرینہ کو قتل کیا جانے لگا لیکن ذرا اللہ کی قدرت پر نگاہ دوڑایے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پرورش پاتے ہیں اور دائی کے طور پر آپ کی والدہ ماجدہ کو شکم سیری کے لیے رکھ لیا جاتا ہے، اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ممتا جیسی لازوال دولت نصیب ہوجاتی ہے۔
اسی طرح اسلامی جنگیں، واقعہ کربلا میں غداروں اور سازشی عناصر کے ظلم و ستم کی داستان اور طلوع اسلام کے موقع پر کفار کا جارحانہ رویہ ہٹلر اور چنگیز خان کی بربریت، مغلیہ سلطنت کا زوال، انگریزوں کا اقتدار اور ان کا امت مسلمہ کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ، جو پاکستان کے وجود میں آنے اور ستر سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہی امتیازی سلوک جو روز ازل سے چلا آرہا ہے۔
مزاحمت کا عمل ماضی کے کربناک واقعات تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور پوری دنیا میں اس نے پنجے گاڑ لیے ہیں، ملک شام ہو، یا افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے خطے اور بوسنیا و روہنگیا کے خونی واقعات ہوں، ان تمام سانحات میں آگے بڑھنے اور دوسرے انسانوں، خصوصاً مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے کا عمل جاری ہے۔
فلسطینیوں کو ان کے ہی ملک میں رہنے کی جگہ کو تنگ کرنا، مقبوضہ کشمیر میں ان کے حق خودارادیت کو سلب کرنا اور شام میں داخل ہوکر روس اور امریکا کی جنگ لڑنا، آج لاکھوں بچے، جوان، بوڑھے گھروں سے بے دخل پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں، ہزاروں بچے موت کی وادی میں قدم رکھ چکے ہیں اور بے شمار بچے بڑے زخمی حالت میں بھوکے پیاسے در بدر ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں موت کی دلدل میں اتر گئے ہیں۔ ایسا ہی حال میانمار کا ہے، وہ کیمپوں میں بے سہارا پڑے اور کیڑوں، مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، کوئی مسلم حکمران سوائے ترکی کے صدر طیب اردگان کے کوئی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں، کوئی پناہ دینے کو تیار نہیں۔
پہلے طالبان تھے، پھر داعش اپنی چھریاں تیز کرکے مسلمانوں کا خون ناحق بہانے میدان میں اتر گئے۔
گزشتہ اور پیوستہ وقتوں کے حالات یہ ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر ادارے میں مزاحمتی رویے محض اسلام سے دوری اور انسانی اقدار کی پامالی کے نتیجے میں خوب پروان چڑھ رہے ہیں، بچوں کے داخلے سے لے کر یونیورسٹیوں کی سطح تک قدم قدم پر صداقت کی راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وہ کام کیے جاتے ہیں جن سے انسانیت کی توہین ہوتی ہے، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے موقعوں پر اسکولوں اور کالجوں میں یہ افسوسناک رویہ ان حضرات کے ذریعے سامنے آتا ہے جنھیں ہم پرنسپل یا اساتذہ کہتے ہیں۔
رشوت اور تحائف کے خوبصورت پیکٹ لے کر نتائج آسانی سے بدل دیے جاتے ہیں، اس طرح محنتی طالب علموں کی محنت پر بالٹی بھر کر پانی پھینک دیا جاتا ہے، نہ کہ الفاظ گیلے ہوتے ہیں بلکہ طلبا اور ان کے والدین کی آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں۔ایسا ہی حال دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ہے یہاں بھی ڈگریوں کی طرح ملازمتیں بکتی ہیں اور اقربا پروری اور رشوت کا بازار سجتا ہے۔
یہی مزاحمتی رویہ محلوں، گلیوں، کوچوں، شاہراہوں اور سفر کے دوران دیکھنے کو ملتا ہے۔ کوئی کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ حال احوال پوچھنا، سلام میں پہل کرنا بھی گویا بے عزتی تصور کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی فضا اسی لیے مکدر ہے، حکومت اور سیاسی جماعتوں نے بھی مفاد پرستی اور ہوس اقتدار کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچایا۔ آج بے شمار گھرانوں میں موت کا اندھیرا ہے۔ گھر والے انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں لیکن قاتل کیفر کردار تک نہیں پہنچتے۔
مظلوم کو انصاف میسر نہیں آتا۔ پولیس ڈپارٹمنٹ کو کھلی چھوٹ ہے وہ جسے چاہیں سرِ راہ گولیوں سے بھون دیں۔ یا جعلی مقابلوں میں والدین کے جگر کے ٹکڑے کو جان سے مار دیں۔ انصاف کو بے انصافی میں بدلنے اور کامیابی کو ناکامی، فتح کو شکست کا چولا پہنانے والوں کی کمی نہیں ہے، رکاوٹ ڈالنے والے خوشیوں کے قاتل دندناتے پھررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تعلیم کو عام کیا جائے اور ایسا کرنے کے لیے عالم دین، مفتی حضرات، علما اور اساتذہ کرام کے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمے داری ہے۔ جس کا اٹھانا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ (جاری ہے)