اب نااہلوں کی عقل پرماتم ہی کیا جا سکتا ہے
سیاست تو عبادت کا درجہ رکھتی ہے کہ یہ سراسر عوام کی خدمت کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں اور مساعی جمیلہ کی بدولت پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ ہماری اجتماعی بد قسمتی ہے کہ پاکستان بنتے ہی ہم قائد اعظم، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر ایسے عظیم اور دیانتدار سیاستدانوں سے محروم ہو گئے۔ یہ وہ بے مثال سیاستدان تھے جنھوں نے اِس ملک کی تشکیل اور پھر اِسے مضبوط بنانے کے لیے اپنی خاندانی اور حلال کی کمائی سے سیاست کی۔
بد عنوانی اور کرپشن اُن کی پرچھائیں کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتی تھی۔یہاں تک کہ بھٹو ایسا سیاستدان جن کے ساتھ بہت سے معاملات میں اختلاف کیا جاسکتا ہے، کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات سے محفوظ رہا۔ پھر تو بعد ازاں ہماری سیاسیات کی دنیا میں ایسی ہوا اور وبا چلی کہ خدا کی پناہ۔ مقتدر سیاستدانوں نے اتنی لوٹ مار کی، ملک کے اندر اور ملک کے باہر لوٹ کا اتنا پیسہ جمع کر لیا کہ شمار قطار سے باہر۔ اُن کی کرپشنوں کی غضب کہانیاں ملک کے ہر شہری کی زبان پر چڑھ گئی ہیں۔
سیاست تو عبادت کا درجہ رکھتی ہے کہ یہ سراسر عوام کی خدمت کا نام ہے۔ لیکن اِسے مفاد پرست اور لالچی عناصر نے آلودہ کرکے رکھ دیا۔ استشنائی صورتحال تو بہرحال موجود رہی لیکن سیاست کا اجتماعی چہرہ گہنا کر رہ گیا۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ایسے عالمی اداروں نے بھی ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کی بداعمالیوں کی بِنا پر پاکستان کو کرپٹ ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا۔ اِس نے پاکستان کے وقار اور اعتبار کو شدید دھچکے پہنچائے ہیں۔
ہمارے کرپٹ عناصر اتنے سرکش اور بے مہار ہو چکے تھے کہ وہ عدالتوں کو بھی للکارنے لگے۔ اُنہیں یقین سا ہو چلا تھا کہ اُن کے پاس کالا دَھن اتنا بے پناہ ہے کہ وہ اس ناجائز دولت کے بَل پر عدالتوں کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں۔ ایسے مایوس کن اور گھمبیر حالات میں پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی ذاتِ گرامی سامنے آئی۔ اُنہوں نے بگڑے حالات کا درست انداز میں ادراک کیا ہے۔ پانی سر کے اوپر سے گزر رہا ہے۔
قوم، ملک اور پاک سرزمین کے بچانے اور اس کے تحفط کے لیے لازم اور ناگزیر ہو گیا تھا کہ کرپٹ، بدعنوان گروہوں اور سماج و سیاست کی کالی بھیڑوں کے خلاف فوری اور تاریخ ساز فیصلے صادر کیے جائیں۔ قوم کے صاف جَل میں پنپنے اور پروان چڑھنے والی گندی مچھلیوں کا صفایا بھی از حد ضروری ہو چکا تھا تاکہ قوم میں امید کے چراغ بھی روشن ہوں اور مایوسی کی گھٹائیں بھی چھَٹ جائیں۔اور یہ بھی کہ بائیس کروڑ عوام کے اس ملک کو یہ بھی احساس ہو کہ انصاف اور نیائیں کا ترازو تھامنے والے ابھی موجود بھی ہیں اور انصاف کرنے کی جرأت ِ رندانہ بھی رکھتے ہیں۔
الحمد للہ۔ وطنِ عزیز کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کو عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہل قرار دیا جانا اِسی بے مثال، تاریخ ساز اور جرأتِ رندانہ کا عملی مظاہرہ ہے۔ اس فیصلے کی ملک بھر کے اکثریتی عوام نے تعریف بھی کی اور فیصلہ کرنے والوں کی توصیف بھی کی۔ مگر جن کے خلاف نااہلی کا فیصلہ آیا، اُنہیں البتہ اس کی امید تھی نہ توقع۔ اسلیے کہ اُنہوں نے پچھلے پنتیس، چالیس سال سے ہمیشہ ریلیف اور سہولت کی اقتداری سیاست سے لطف اٹھایا تھا۔ کسی نے اُن کی پُرسش کی تھی نہ اُن کا ہاتھ روکا تھا۔ شاید اِسی بِنا پر وہ زیادہ سرکش اور بے مہار ہو گئے تھے۔ بکرے کی ماں مگر کب تک خیر مناسکتی ہے؟
ایک دن تو احتساب کے شکنجے میں جکڑے جانا ہی تھا، سو ہماری قابلِ احترام عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اُنہیں فیصلے کا سامنا کرنا پڑا ہے تو میاں صاحب طیش اور غصے میں آ گئے ہیں۔ اُن کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کا غصہ تو آسمان کو چھو رہا ہے۔ وہ آپے سے اتنی باہر ہورہی ہیں کہ اُن کے عدلیہ کے خلاف بیانات اور ٹویٹس غیر محتاطی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ عوام عدلیہ کے خلاف ان محترمہ کی باتیں سُنتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
15فروری کو دونوں باپ بیٹی نے ایک بار پھر احتساب عدالت کے باہر جج صاحبان کے بارے میں جو زبان اور لہجہ استعمال کیا ہے، عوام نے اسے پہلے کی مانند ایک بار پھر پسند نہیں کیا ہے۔ نواز شریف صاحب نے فرمایا:''جج حضرات جو زبان استعمال کررہے ہیں، وہ اُنہیں سُوٹ نہیں کرتی۔ یہ لہجہ اُن کے عہدے کی توہین ہے۔''میاں صاحب جج صاحبان پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک چلے گئے کہ اُنہوں نے چیف جسٹس صاحب کے لہجے کو عمران خان کی زبان کے مترادف قرار دے ڈالا اور استفسار بھی کیا کہ دونوں میں کیا فرق رہ گیا ہے؟
جس نے بھی نواز شریف کے یہ تنقیدی اور زہر میں بجھے الفاظ سُنے ہیں، حیران ہی تو رہ گیا ہے۔جو کسر رہ گئی تھی، وہ اُن کی صاحبزادی مریم نواز نے پوری کردی۔ وہ ساتھ ہی کھڑی تھیںاور فرمانے لگیں کہ جنھوں نے آئین توڑا، اُنہیں ملک سے جانے دیا گیا اور اُن کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا۔اُن کا طیش جنرل پرویز مشرف پر تھا۔ گویا اصل غصہ ''نیب'' کی اُس سفارش پر ہے جس میں شریف خاندان کے تینوں افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
میاں صاحب اور اُن کی ''عظیم'' صاحبزادی صاحبہ کو اس بات کا بھی غصہ تھا کہ عدالتِ عظمیٰ نے اُن کی وہ درخواست کیوں مسترد کر دی ہے جس میں شریف خاندان کے تین افراد نے گزارش کی تھی کہ اُنہیں دو ہفتوں کے لیے عدالت میں ذاتی طور پر حاضری سے استثنیٰ دیا جائے کیونکہ وہ لندن جانا چاہتے ہیں۔ شاباش دینی چاہیے ہماری عدلیہ اور دیگر حساس اداروں کو جنھوں نے ہنوز صبر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا ہے اور یہ تاثر نہیں دیا جارہا کہ کسی شخصیت، کسی خاص جماعت اور کسی مخصوص فرد کے خلاف تعصب اور جانبداری برتی جارہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت کا یہ رویہ تاریخی بھی ہے اور تاریخ ساز بھی۔ ہماری عدالتوں پر عوام کا اعتماد اور اعتبار بحال ہو رہا ہے، اسلیے کہ یہ مناظر سامنے آرہے ہیں کہ طاقتوروں اور دولتمندوں پر بھی ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے، اُن کا بھی احتساب کیا جا سکتا ہے، اُنہیں بھی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ابھی تو مزید فیصلے ہونے باقی ہیں؛ چنانچہ عدالتوں کے وقار اور اعتبار کا گراف انشاء اللہ مزید اوپر اُٹھے گا۔
جن چوروں کی ڈاڑھی میں تنکے ہیں، وہ عدالتوں کے متوقع فیصلے سے پہلے ہی ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔ ایسا مگر اب ہونے نہیں دیا جائے گا۔ مذاق کے دن لَد گئے جناب والا۔ قوم و ملک کے بعض مبینہ چور ریفرنسوں سے پریشان اور پشیمان ہیں۔ اُن کی پریشانیاں دیدنی ہیں، شاید اِسی لیے محترمہ مریم نواز یہ کہتے ہُوئے سنائی دے رہی ہیں کہ ''ایک کے بعد ایک ریفرنس، ثبوت ہے کہ کچھ ملا نہ نکلا۔'' تو کیا آپ حسبِ سابق عدالت کو للکار رہی ہیں؟ثبوت نہیں ملے؟ کون کہتا ہے؟
آپ بیقرار ی اور شتابی کا مظاہرہ نہ فرمائیے۔ سب کچھ عدالت اور عوام کے سامنے آنے والا ہے جو یقیناً آپ، آپ کے والد گرامی اور آپ کے شوہرِ نامدار کے لیے ندامت اور شرمندگی کا باعث بنے گا اور عوام اور ہماری قابلِ فخر عدالتیں سرخرو ہوں گی۔ ابھی تو ''نیب'' نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کی سفارش کی ہے تو چیخیں بلند ہونے لگی ہیں۔ ''نیب'' کے اس اقدام کی ستائش کی جانی چاہیے۔
اس اقدام نے ممکنہ فراریوں کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔ پاکستان کی بقا، استحکام اور مضبوطی کے لیے از بس ضروری ہے کہ پاکستان میں احتساب نہایت شفاف بھی ہو، غیر جانبدار بھی ہو اور کڑا بھی۔ کسی سے کوئی رُو رعائیت نہیں۔ احتساب کرنے والے ادارے کو اپنے اندر بھی مگر احتساب کا ترازو تھامنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔جو شکایات لیک ہو کر باہر آرہی ہیں، وہ کسی کے دامن داغدار کر سکتی ہیں؛ چنانچہ لازم ہے کہ احتسابی ادارے کو مشکوک اور مشتبہ افراد سے پاک کر دیا جائے۔
باپ، بیٹی اور داماد کے خلاف (ای سی ایل کے حوالے سے) ''نیب'' کی مذکورہ بالا سفارش پر کس طرح عمل کیا جاتا ہے، یہ دراصل وزارتِ داخلہ کا بھی امتحان ہے اور وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال کا بھی۔ احسن اقبال(جو شریف خاندان سے پکی وفاداری کے صلے میں دو تگڑی وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں)کی بھی زیادہ آزمائش ہے کہ وہ اپنے محسنوں کے نام کس طرح ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرتے ہیں!!کوشش تو وہ یقینی طور پر یہی کریں گے کہ اپنے محسنوں اور منعموں کو بچا لے جائیں لیکن لگتا یہی کہ اللہ کی پکڑ اب اتنی سخت ہے کہ فرار کے سارے راستے بند ہیں۔
غالباً اِسی لیے تو نواز شریف براہِ راست جج صاحبان کو ہدفِ تنقید بنانے سے باز نہیں آرہے۔ اُن کے الفاظ کی شدت اور حدت ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے؛ چنانچہ ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اگلے روز لاہور کی جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر راغب نعیمی کی دادی جان کی تعزیت کے لیے گئے تو وہاں بھی جج صاحبان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے رک نہ سکے۔ جناب نے کہا: ''انصاف کی کرسی پر بیٹھے لوگوں کی اللہ کے حضور سب سے زیادہ پوچھ گچھ ہو گی۔''
اُن کا اشارہ ہماری عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان کی طرف ہے۔ میاں صاحب درست کہتے ہیں لیکن اُنہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے جن لوگوں پر کرم نوازی کرتے ہُوئے تین تین بار کسی ملک کا وزیر اعظم بنایا، اُن کی بھی اللہ کی طرف سے سخت پوچھ گچھ ہو گی۔ اُن کی ملک و عوام دشمن حرکتوں اور کرپشن کو اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی مملکتِ خداداد کے جج صاحبان۔لگتا یہی ہے کہ ملک سے بے وفائی کرنے، ملک کا پیسہ ہڑپ کرنے اور اپنی آل اولاد کے معاشی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے جن لوگوں نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ناجائز دولت کے انبار لگائے، مہنگی جائیدادیں خریدیں، اب اُن کا یومِ حساب بھی قریب آلگا ہے۔ کچھ ہونے والا ضرور ہے۔ کوئی غیر معمولی واقعہ۔
عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے حکماً اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف کو ملک سے باہر جانے سے روک دیا ہے۔ اس اقدام کو غیر معمولی کہا جانا چاہیے۔ نااہلی مدت کیس کا فیصلہ بھی تو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی کئی افراد کے دلوں کی دھڑکنیں تیز تر ہو گئی ہیں۔ تلوار سر پر لٹک رہی ہے ۔ جنھوں نے گاجریں کھا رکھی ہیں، پیٹ میں مروڑ بھی اُنہی کے اُٹھ رہے ہیں اور عوام خوش ہیں۔سپریم کورٹ نے نہایت شاندار الفاظ میں استفسار کیا ہے کہ ''جو شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا، وہ پارٹی کا صدر اور سربراہ کیسے بن سکتا ہے؟
کیا کسی چور کو پارٹی سربراہ بنایا جا سکتا ہے؟ ایک شخص چوری کرتے پکڑا جائے اور اُسے سزا بھی ہو جائے تو اُسے پارٹی کاسربراہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ عمر قید کا مجرم جیل سے پارٹی کیسے چلائے گا؟ سیاسی جماعتوں کی سربراہی سزا یافتہ افراد کو کیسے دی جا سکتی ہے؟۔''
جنھوں نے سونے کی گاجریں کھا رکھی ہیں، امکان یہی ہے کہ وہ تاحیات ہی نااہل رہیں گے۔ ممکن ہے بعض کو زندان کی ہوا بھی دیکھنی اور چکھنی پڑجائے۔ لیکن ابھی یہ سب کچھ پردۂ غیب میں پوشیدہ ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور اُن کی بڑی صاحبزادی کا خیال یہ تھا کہ وہ عدلیہ پر دباؤ بڑھا کر، ججوں کو متنازع بنانے کی (ناکام) کوشش کرکے، طعن و تشنیع سے کام لے کر اور اشارے کنائے کرکے بچ جائیں گے۔ لیکن اِس بار ایسا ہوتانظر نہیں آرہا۔
اس بار بجلی ''آشیانے'' پر گرتی نظر آرہی ہے کہ فطرت نے بھی بہت دنوں قومی مفادات کا سودا کرنے والوں کو برداشت کیا۔ اب تو ''سیچوریشن پوائنٹ'' آ چکا ہے۔ اِسے پنجابی میں ''اَت خدا دا وَیر'' بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کو کبھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دراصل اللہ کی مطلق حاکمیت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن بھلا اللہ کو چیلنج کرکے کون سروائیو کر سکتا ہے؟
اللہ کی زمین پر بہت سے لوگوں کو اقتدار عطا کیا گیا لیکن جنھوں نے خدا کی زمین پر خدا کے دیے گئے اقتدار پر خود خدا بننا چاہا تو اللہ جلّ شانہ نے اُسے کبھی معاف نہیں کیا ہے۔ وقت کے کئی فرعون اِسی طرح اللہ کے غضب کا شکار بن کر وقت کے سمندر میں غرقاب ہو گئے۔آج وہ سب کہاں ہیں؟اُن کا کوئی نام ہے نہ نشان۔ سونے چاندی کے ظروف میں کھانا کھانے والے، عوام کے حقوق غصب کرکے محلات میں رہنے والے اور جواہرات میں کھیلنے والے سب معدوم ہو گئے۔
ہر زمانے میں کچھ فرعون اٹھتے ہیں، عوام پر ظلم ڈھاتے ہیں اور بے کسوں کے حقوق غصب کرتے ہیں اور پھر ایک روز اُن کا اقتداری آفتاب غروب ہو جاتا ہے۔ اب پھر کئی ''آفتاب'' غروب ہونے والے ہیں۔ شاباش دینی چاہیے عدالتِ عظمیٰ میں بیٹھے عظیم اور بے بدل عزت مآب جج صاحبان کو جو پورے قد اور پوری طاقت سے ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک کی فضا ایسی بن گئی ہے کہ ہمارے معزز جج صاحبان کو پاکستان بھر کے عوام کی پشت پناہی، شاباش اور اعانت حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے فیصلے پاکستان کو نئی رفعتوں اور عظمتوں کی جانب لے جائیں گے۔ نئے سنگِ میل قائم ہوں گے۔ بلند توقعات کی ایک لہر ہے جس نے ملک بھر میں سر اٹھا رکھا ہے۔سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ نون کے سینئر ترین سیاستدان چوہدری نثار علی خان بھی ایسے ہی انصاف پسند لوگوں میں شامل ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اب انصاف ہو جانا چاہیے۔ کھرے کو کھوٹے سے علیحدہ کر دینا چاہیے۔ اُنہوں نے اُس لیک کو بھی بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس نے ہماری سیکیورٹی کو گزند پہنچانے اور دنیا میںہمیں بحثیتِ مجموعی بے وقار کرنے کی جرأت وجسارت کی تھی اور غیروں تک یہ پیغام پہنچانے کی ناکام کوشش کی تھی کہ ''ہم تو آپ کی بہت خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے بعض ادارے ہمارے بس میں نہیں ہیں۔''
چوہدری نثار نے درست کہا ہے کہ اگر اس لیک کے اصل مجرموں کو سامنے نہ لایا گیا اور اصل رپورٹ کو شائع نہ کیا گیا تو وہ خود ''کچھ کریں گے۔''چوہدری صاحب کو معلوم ہے کہ یہ رپورٹ تو شائع نہیں ہوگی، اسلیے اُنہیں اب خود ہی آگے بڑھ کر قوم کے مجرموں کے چہروں سے نقاب اُلٹ دینا چاہیے۔ یہ بہت بڑی قومی خدمت ہوگی۔اگر وہ حسبِ سابق مصلحتوں کا شکار بن گئے تو آئندہ کوئی اُن پر اعتبار نہیں کرے گا۔اُنہوں نے ''شاہانہ سیاسی وراثت'' کے خلاف علَم بلند کرتے ہُوئے جس طرح مریم نواز شریف کو اپنا قائد اور لیڈر تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، اُن کی اس جرأت کو سراہا گیا ہے۔
سوال مگر یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے ''لِیک'' کے اصل مجرموں کو سامنے لانے کا جو مطالبہ کیا ہے، اسے نتیجہ خیز بنانے میں کیا عملی اقدام کر سکیں گے؟ اِسی پر اُن کی ساکھ کا انحصار بھی ہے اور اعتبار بھی۔میاں نواز شریف جس طرح ہر حالت میں محترمہ مریم نواز کو پارٹی پر مسلّط کرنے کا عہد کرچکے ہیں، چوہدری نثار نے اس فیصلے کے خلاف منہ پھیر کر ایک اصولی اور کھری با ت کی ہے۔
واقعی معنوں میں یہ مناظر افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک ہیں کہ نسلی اور خاندانی وراثت کو تحفظ دینے کے لیے تقریباً ہر سیاسی و مذہبی جماعت اپنی اولاد کو پارٹی کی سربراہی سونپ دینا چاہتی ہے۔ اس بد اطواری میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے، مسلم لیگ قاف بھی، طاہر القادری کی جماعت بھی اور جمیعت علمائے اسلام کے دونوں دھڑے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ جمہوریت کی بات کہنے والے دراصل شہنشاہیت چاہتے ہیں۔ اس فکر اور سوچ کی اب حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
اِسی غلط روایت کے منفی اثرات ہیں کہ سینیٹ کے نئے ممبران کے انتخاب کے لیے کھلم کھلا خرید وفروخت ہو رہی ہے اور ہمارے اہلِ سیاست میں سے اکثریت کو شرم نہیں آرہی۔دوسرا حکمران جماعت نے ایسے ایسے مہاکلا کاروں کو سب سے بڑے ایوان سینیٹ کے ٹکٹ دیے ہیں جن سے لازمی سینیٹ کے وقار کا جنازہ نکل جائے گا۔ کیا ہماری جمہوریت اور سیاست میں پنپنے کی یہی باتیں رہ گئی ہیں؟جو شخص کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا، ہمارے ایوانِ بالا کارکن بنے گا، اُس سے یہ کیسے توقع وابستہ کی جا سکتی ہے کہ وہ اصول اور دیانت کی سیاست بھی کر سکے گا؟ ایں خیال است و محال است!!