ترقیاتی منصوبوں کا چوکیدار حکمران
حکومت نے یا اس کے امیدوار نے اس کے بعد مشکل سے ہی ملنا ہے اس لیے جتنا ترقیاتی کام کرایا جا سکتا ہے وہ کرا لیا جائے۔
HANOVER, GERMANY:
ملک کی سیاسی قیادت اور مقتدر قوتیں سبھی نواز لیگ کو سیاسی طور پر ملکی سیاست سے آؤٹ کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس بات کی بہت زیادہ توقع کی جا رہی تھی کہ نواز لیگ انتشار کا شکار ہو جائے گی اور اس کے منتخب ارکان اپنی مستقبل کی سیاست کے لیے کسی اور شاخ کا چناؤ کر لیں گے۔ لیکن سیاسی پنڈتوں کی قیاس آرائیاں وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ چکی ہیں۔
میں نواز شریف کے بارے میں پہلے بھی کسی کالم میں یہ ذکر کر چکا ہوں کہ وزیر اعظم کی کرسی پر ملکی قوانین کی پاسداری میں جکڑا نواز شریف جب رائے ونڈ میں قیام پذیر ہو گا تو زیادہ خطر ناک ثابت ہو گا اور وقت نے اس بات کی کسی حد تک تائید کر دی ہے کہ نواز شریف کی جارحانہ سیاست نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال برپا کیا ہوا ہے۔
ان کے اس طرز سیاست سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے ان کے رویئے پر تنقید بھی ہو رہی ہے لیکن نواز شریف کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ اپنی نااہلی کے بعد مکمل خاموشی اختیار کر لیتے اور برطانیہ میں جا کر لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ اور ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کرتے، دوسری صورت صرف یہی تھی کہ وہ ملک میں رہ کر اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرتے اور اپنی پارٹی اور سیاست کو بچا لیتے۔ انھوں نے اسی دوسرے راستے کاسفر اختیار کیا اور بھر پور عوامی مہم شروع کر دی۔
ان کی ملکی اداروں کے بارے میں رائے سے اختلاف رکھنے کے باوجود یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک زندہ حقیقت ہے کہ پچھلے چند ماہ میں وہ عوام اور نواز لیگ کی حکومت کے درمیان دوریاں ختم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اس کا ثبوت وہ چند ضمنی الیکشن ہیں جو کہ اس مدت کے درمیان ہوئے اور حکمران جماعت اس میں کامیاب رہی۔
نواز شریف کو اس بات کا بھی فائدہ حاصل رہا کہ وہ خود تو نااہل ہوگئے لیکن اس بار ان کی پارٹی برسر اقتدار رہی اور خاص طور میں پنجاب میں ان کے برادر خورد شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے منصب پر ڈٹے ہوئے ہیں، جن کی انتظامی صلاحیتیوں کا ان کے سیاسی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے پنجاب میں بھر میں پایہ تکمیل اور زیر تکمیل عوامی منصوبے نواز لیگ کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں ۔
برسر اقتدار پارٹی ہونے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کے نتائج عموماًحکمران پارٹی کے حق میں ہی نکلتے ہیں۔ حکومتی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے کر اسمبلی بھیجنا ہی عوام کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے اور اگر حلقہ دیہاتی علاقے کا ہو تو چونکہ دیہات میں ترقیاتی کام شہروں کی نسبت کم ہوئے ہوتے ہیں اس لیے اس حلقے کے مکینوں کی ضمنی الیکشن کی صورت میں قسمت کھل جاتی ہے اور وہ حکومت کے ترقیاتی کاموں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے یا اس کے امیدوار نے اس کے بعد مشکل سے ہی ملنا ہے اس لیے جتنا ترقیاتی کام کرایا جا سکتا ہے وہ کرا لیا جائے تا آنکہ مستقبل میں کوئی اور غیر متوقع ضمنی الیکشن ان کے حصے میں آجائے۔
اس طرح کے کئی ضمنی الیکشنوں کا میں خود گواہ ہوں اور موجودہ دور میں میرے آبائی حلقے میں ضمنی الیکشن ہو چکا ہے جس کی رونقیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور پھر ان چراغوں میں روشنی نہ رہی کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ خوشاب کے اس اہم ترین حلقے کو اسی طرح بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا کہ جیسے یہ کسی دشمن کی سر زمین ہو۔ وہ تو بھلا ہو متوقع عام انتخابات کا جن کی وجہ میرے علاقے کی مرکزی شاہراہ خوشاب سکیسر روڈ کی سنی گئی اور اب اس پر کام جاری ہے جو کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن سے قبل تکمیل تک پہنچنے کی توقع ہے ورنہ عوام اپنے پسندیدہ نمائندوں کو منتخب کراکے اس دفعہ ان سے بہت شاکی نظر آتے ہیں۔
خوشاب مسلم لیگ نواز کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ترقیاتی کام اور وہ بھی خاص طور پر سڑکوں اور پلوں کے معاملے میں جس طرح کا شہرہ مسلم لیگ نواز کی حکومت اور خاص طور پر میاں شہباز شریف اس معاملے میں جیسی شہرت رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تو لگتا تھا کہ اس دوردراز علاقے تک حکمران کی نگاہ نہیں پہنچ سکی کیونکہ مرکزی سڑکوں کے علاوہ ہماری خوبصورت وادی سون کے حصے میں میاں شہباز شریف کا خادم پنجاب دیہی روڈز پروگرام کاایک کلومیٹر بھی ہمیں نصیب نہ ہو سکا اور جب بھی گاؤں کا چکر لگا تو میرے گھر سے گزرتے ہوئے گاؤں کے پہاڑوں میں بل کھاتی ہوئی کھیتوں سے مرکزی شاہراہ تک زرعی اجناس پہنچانے والی میاں نواز شریف کے نام سے منسوب سڑک جو کہ نواز شریف کی وزرات اعلیٰ کے دور میں میری درخواست پر بنائی گئی تھی اور اس کے بعد سے اس کو کسی نے مرمت کرنے کا نہیں سوچا، انتہائی خستہ حالی کی شکار ہے۔
اس لیے میری میاں شہباز شریف سے گزارش ہے کہ وادیٔ سون کی مرکزی شاہراہ سے منسلک میرے گاؤں کی اس چند کلو میٹر ذیلی شاہراہ کو بھی کسانوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے خادم پنجاب پروگرام میں سے چند کلو میٹر کا ٹکڑا عنایت کر دیں گے تو اس مسلم لیگی حلقے کے سادہ لوح اعوان آپ کو مزید دعائیں دیں گے۔
شہباز شریف سے لاکھ شکائتیں ہو سکتی ہیں لیکن صوبہ پنجاب کی ترقی کے لیے جو معیار انھوںنے مقرر کر دیے ہیں ان کے بعد میں آنے والوں کے لیے وہ مشعل راہ تو تب ہوں گے جب وہ ان تک پہنچ پائیں گے۔ کیونکہ دن رات کی محنت اور نت نئے منصوبوںکی بنیاد اگر پاکستان کے کسی صوبے میں رکھی گئی ہے اور ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا گیا ہے تو یہ کریڈٹ بھی میاں شہباز کا ہی ہے جو کہ منصوبے بنا کر ان کا ایک چوکیدار کی طرح پہرہ دیتے ہیں اور بعض منصوبے تو قبل از وقت مکمل بھی کر ا لیتے ہیں۔
ضمنی الیکشن کے فوائد سے شروع ہونے والی بات شہباز شریف کی طرف نکل گئی، لودھراں میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن میں غیر متوقع طور پر نواز لیگ نے میدان مار لیا جس کی توقع مرکزی قائدین کو بھی نہیں تھی چونکہ اس حلقے میں تحریک انصاف کا اثر زیادہ تھا اور جنرل الیکشن بھی قریب ہیں اس لیے عمومی توقع یہی تھی کہ تحریک انصاف با آسانی اس ضمنی الیکشن میں کامیاب ہو جائے گی لیکن لودھراں کے عوام کو میاں شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے اس علاقے میں مکمل اور جاری ترقیاتی کام اپنا اثر دکھا گئے اور انھوں نے اس پر لبیک کہا اور ایک یقینی ہار کو جیت میں بدل کر یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ اگر ایک حکمران عوام کی ترقی پر توجہ دے تو عوام اس کا بدلہ ضرور دیتے ہیں اور لودھراں کے عوام نے شہباز شریف کا یہ قرض نقد و نقد چکا دیا ہے۔
ملک کی سیاسی قیادت اور مقتدر قوتیں سبھی نواز لیگ کو سیاسی طور پر ملکی سیاست سے آؤٹ کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس بات کی بہت زیادہ توقع کی جا رہی تھی کہ نواز لیگ انتشار کا شکار ہو جائے گی اور اس کے منتخب ارکان اپنی مستقبل کی سیاست کے لیے کسی اور شاخ کا چناؤ کر لیں گے۔ لیکن سیاسی پنڈتوں کی قیاس آرائیاں وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑ چکی ہیں۔
میں نواز شریف کے بارے میں پہلے بھی کسی کالم میں یہ ذکر کر چکا ہوں کہ وزیر اعظم کی کرسی پر ملکی قوانین کی پاسداری میں جکڑا نواز شریف جب رائے ونڈ میں قیام پذیر ہو گا تو زیادہ خطر ناک ثابت ہو گا اور وقت نے اس بات کی کسی حد تک تائید کر دی ہے کہ نواز شریف کی جارحانہ سیاست نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال برپا کیا ہوا ہے۔
ان کے اس طرز سیاست سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے ان کے رویئے پر تنقید بھی ہو رہی ہے لیکن نواز شریف کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو وہ اپنی نااہلی کے بعد مکمل خاموشی اختیار کر لیتے اور برطانیہ میں جا کر لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ اور ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کرتے، دوسری صورت صرف یہی تھی کہ وہ ملک میں رہ کر اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرتے اور اپنی پارٹی اور سیاست کو بچا لیتے۔ انھوں نے اسی دوسرے راستے کاسفر اختیار کیا اور بھر پور عوامی مہم شروع کر دی۔
ان کی ملکی اداروں کے بارے میں رائے سے اختلاف رکھنے کے باوجود یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک زندہ حقیقت ہے کہ پچھلے چند ماہ میں وہ عوام اور نواز لیگ کی حکومت کے درمیان دوریاں ختم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اس کا ثبوت وہ چند ضمنی الیکشن ہیں جو کہ اس مدت کے درمیان ہوئے اور حکمران جماعت اس میں کامیاب رہی۔
نواز شریف کو اس بات کا بھی فائدہ حاصل رہا کہ وہ خود تو نااہل ہوگئے لیکن اس بار ان کی پارٹی برسر اقتدار رہی اور خاص طور میں پنجاب میں ان کے برادر خورد شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے منصب پر ڈٹے ہوئے ہیں، جن کی انتظامی صلاحیتیوں کا ان کے سیاسی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے پنجاب میں بھر میں پایہ تکمیل اور زیر تکمیل عوامی منصوبے نواز لیگ کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں ۔
برسر اقتدار پارٹی ہونے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کے نتائج عموماًحکمران پارٹی کے حق میں ہی نکلتے ہیں۔ حکومتی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے کر اسمبلی بھیجنا ہی عوام کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے اور اگر حلقہ دیہاتی علاقے کا ہو تو چونکہ دیہات میں ترقیاتی کام شہروں کی نسبت کم ہوئے ہوتے ہیں اس لیے اس حلقے کے مکینوں کی ضمنی الیکشن کی صورت میں قسمت کھل جاتی ہے اور وہ حکومت کے ترقیاتی کاموں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے یا اس کے امیدوار نے اس کے بعد مشکل سے ہی ملنا ہے اس لیے جتنا ترقیاتی کام کرایا جا سکتا ہے وہ کرا لیا جائے تا آنکہ مستقبل میں کوئی اور غیر متوقع ضمنی الیکشن ان کے حصے میں آجائے۔
اس طرح کے کئی ضمنی الیکشنوں کا میں خود گواہ ہوں اور موجودہ دور میں میرے آبائی حلقے میں ضمنی الیکشن ہو چکا ہے جس کی رونقیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور پھر ان چراغوں میں روشنی نہ رہی کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ خوشاب کے اس اہم ترین حلقے کو اسی طرح بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا کہ جیسے یہ کسی دشمن کی سر زمین ہو۔ وہ تو بھلا ہو متوقع عام انتخابات کا جن کی وجہ میرے علاقے کی مرکزی شاہراہ خوشاب سکیسر روڈ کی سنی گئی اور اب اس پر کام جاری ہے جو کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن سے قبل تکمیل تک پہنچنے کی توقع ہے ورنہ عوام اپنے پسندیدہ نمائندوں کو منتخب کراکے اس دفعہ ان سے بہت شاکی نظر آتے ہیں۔
خوشاب مسلم لیگ نواز کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ترقیاتی کام اور وہ بھی خاص طور پر سڑکوں اور پلوں کے معاملے میں جس طرح کا شہرہ مسلم لیگ نواز کی حکومت اور خاص طور پر میاں شہباز شریف اس معاملے میں جیسی شہرت رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے تو لگتا تھا کہ اس دوردراز علاقے تک حکمران کی نگاہ نہیں پہنچ سکی کیونکہ مرکزی سڑکوں کے علاوہ ہماری خوبصورت وادی سون کے حصے میں میاں شہباز شریف کا خادم پنجاب دیہی روڈز پروگرام کاایک کلومیٹر بھی ہمیں نصیب نہ ہو سکا اور جب بھی گاؤں کا چکر لگا تو میرے گھر سے گزرتے ہوئے گاؤں کے پہاڑوں میں بل کھاتی ہوئی کھیتوں سے مرکزی شاہراہ تک زرعی اجناس پہنچانے والی میاں نواز شریف کے نام سے منسوب سڑک جو کہ نواز شریف کی وزرات اعلیٰ کے دور میں میری درخواست پر بنائی گئی تھی اور اس کے بعد سے اس کو کسی نے مرمت کرنے کا نہیں سوچا، انتہائی خستہ حالی کی شکار ہے۔
اس لیے میری میاں شہباز شریف سے گزارش ہے کہ وادیٔ سون کی مرکزی شاہراہ سے منسلک میرے گاؤں کی اس چند کلو میٹر ذیلی شاہراہ کو بھی کسانوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے خادم پنجاب پروگرام میں سے چند کلو میٹر کا ٹکڑا عنایت کر دیں گے تو اس مسلم لیگی حلقے کے سادہ لوح اعوان آپ کو مزید دعائیں دیں گے۔
شہباز شریف سے لاکھ شکائتیں ہو سکتی ہیں لیکن صوبہ پنجاب کی ترقی کے لیے جو معیار انھوںنے مقرر کر دیے ہیں ان کے بعد میں آنے والوں کے لیے وہ مشعل راہ تو تب ہوں گے جب وہ ان تک پہنچ پائیں گے۔ کیونکہ دن رات کی محنت اور نت نئے منصوبوںکی بنیاد اگر پاکستان کے کسی صوبے میں رکھی گئی ہے اور ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا گیا ہے تو یہ کریڈٹ بھی میاں شہباز کا ہی ہے جو کہ منصوبے بنا کر ان کا ایک چوکیدار کی طرح پہرہ دیتے ہیں اور بعض منصوبے تو قبل از وقت مکمل بھی کر ا لیتے ہیں۔
ضمنی الیکشن کے فوائد سے شروع ہونے والی بات شہباز شریف کی طرف نکل گئی، لودھراں میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن میں غیر متوقع طور پر نواز لیگ نے میدان مار لیا جس کی توقع مرکزی قائدین کو بھی نہیں تھی چونکہ اس حلقے میں تحریک انصاف کا اثر زیادہ تھا اور جنرل الیکشن بھی قریب ہیں اس لیے عمومی توقع یہی تھی کہ تحریک انصاف با آسانی اس ضمنی الیکشن میں کامیاب ہو جائے گی لیکن لودھراں کے عوام کو میاں شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے اس علاقے میں مکمل اور جاری ترقیاتی کام اپنا اثر دکھا گئے اور انھوں نے اس پر لبیک کہا اور ایک یقینی ہار کو جیت میں بدل کر یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ اگر ایک حکمران عوام کی ترقی پر توجہ دے تو عوام اس کا بدلہ ضرور دیتے ہیں اور لودھراں کے عوام نے شہباز شریف کا یہ قرض نقد و نقد چکا دیا ہے۔