اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
وہ نہ ڈری، نہ جھکی بلکہ آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارتی رہیں۔
''سوگئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے۔'' 11 فروری 2018 کے دن عاصمہ جہانگیر نے دنیا چھوڑی، 13 فروری کو لندن سے بیٹی آئی اور ہزاروں افراد عاصمہ کے گھر سے پیدل چلے۔ ایمبولینس میں عاصمہ اپنے جنازے میں لیٹی ہوئی تھی، بس دو کلو میٹر کا فاصلہ تھا، جہاں نماز جنازہ ادا ہونا تھی۔
ایمبولینس کے آگے ''سلام عاصمہ جہانگیر'' سرخ گلابوں پر زرد پھولوں سے لکھا تھا، یہ الوداعی سلام اٹھائے عاصمہ کی بیٹیاں اور سنگی ساتھی چل رہی تھیں۔ ہزاروں مرد عورتیں قذافی اسٹیڈیم کے باہر موجود تھے۔ ممبران اسمبلی، سینیٹ، وکلا، جج صاحبان، صحافی، سیاست دان، طلبا، مزدور، کسان تنظیموں والے اور سب سے بڑھ کر عاصمہ کے چاہنے والے عوام۔ مولانا مودودی کے بیٹے حیدر فاروقی مودودی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ دعا کی اور جنازہ لحد کی طرف چل دیا۔ ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ بیدیاں کے علاقے میں عاصمہ کا فارم ہاؤس ہے۔ عاصمہ کی وصیت کے مطابق وہیں لحد تیار کی گئی ہے۔
آج 13 فروری 2018 ہے اور آج سے 35 سال پہلے 12 فروری 1983 کا واقعہ مجھے یاد آرہا ہے۔ مجھے تو واقعہ یاد آیا ہے، مگر نہایت مناسب ہوگا کہ قارئین یہ واقعہ حبیب جالب سے سنیں۔ جالب اپنی آپ بیتی کے صفحہ 167 پر بیان کرتے ہیں ''خواتین نے ایک احتجاجی جلوس نکالا تھا، جسے ہال روڈ (لاہور) پر روک لیا گیا، اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال تھے، خواتین نے چیف جسٹس صاحب کو ایک یادداشت پیش کرنا تھی، اور وہ ہائی کورٹ آنا چاہتی تھیں، لیکن پولیس نے ہال روڈ پر ہی روک لیا۔ پولیس نے گھیرا ڈال لیا تھا اور وہ خواتین وہیں دھرنا مار کر بیٹھ گئیں۔
عاصمہ جہانگیر ہائی کورٹ آئیں، اس وقت میں بھی وہاں موجود تھا، عابد حسن منٹو، سید افضل حیدر اور اعتزاز احسن بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے صورتحال سے آگاہ کیا اور یہ Suggest کیا کہ ''حبیب جالب کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، یہ ہمیں وہاں اپنا کلام سنا دینگے کیونکہ پولیس ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہی ہے'' میں ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔ اب کار اسٹارٹ ہوئی تو ایک لہر میرے ذہن میں آئی کہ یہ جلوس اگر نہ نکلا تو احتجاج رک جائے گا اور وہ بے اثر ہوجائے گا۔ میں نے سوچا کہ میرا کام تو جلوس کو اور Movement کو جاری رکھنے کا ہے۔ یہی میرا فریضہ ہے کہ احتجاج کا عمل جاری رہے۔
میں وہاں پہنچ گیا جہاں خواتین دھرنا دیے بیٹھی تھیں۔ میں نے ایک مختصر سی تقریر کی، اس کے بعد خواتین کے بارے میں کچھ نظمیں سنانا شروع کیں۔ جب میں نظمیں سنا رہا تھا تو ان کے چہروں پر جیسے خوشی کی چمک تھی۔ ایک حوصلہ جھلک رہا تھا۔ میرا کلام سنانے کا مقصد بھی ان کے حوصلے بڑھانا تھا۔
اس دوران ایک پولیس افسر میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا ''جالب صاحب! ادھر آئیے ذرا ہماری بات سنیے۔'' خواتین نے یک زبان ہوکر کہا ''اس کی بات مت سنیے۔'' میں نے کہا ''نہیں کوئی بات نہیں، میں اسے کیمپ جیل سے جانتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو سن لینی چاہیے۔'' میں اس کے پاس گیا اور پوچھا ''ہاں فرمائیے!'' وہ کہنے لگا ''ان خواتین کو وین میں بٹھا کر ہائی کورٹ لے چلتے ہیں'' میں نے کہا کہ ''آخر پولیس والے ہی نکلے!'' میں جانتا ہوں کہ تم ان کو بٹھا کر سول لائن تھانے لے جاؤ گے'' پھر میں نے اس سے کہا ''اب ہٹ جاؤ۔''
میں پھر اسی دائرے میں آگیا جہاں خواتین بیٹھی تھیں، میں نے پھر نظمیں سنانا شروع کردیں، تمام خواتین جوش و خروش کے ساتھ کھڑی ہوئی اور میں نے کہا ''ہٹو پولیس والو! اور چلو بیبیو!'' میں نے ان کا رخ مال روڈ کی طرف کردیا۔ وہ ہائی کورٹ کی طرف جا رہی تھیں کہ پولیس والوں نے انھیں پھر روک لیا اور زد و کوب کرنا شروع کردیا۔ میں نے یہ صورتحال دیکھی تو وہاں موجود ایک ڈی ایس پی سے کہا کہ ''یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہٹاؤ ان پولیس والوں کو۔''
میرا یہ کہنا تھا کہ ڈی ایس پی نے ایک انسپکٹر کو اشارہ کیا اور کہا ''پکڑو اس حبیب جالب کو۔'' انسپکٹر نے مجھے پکڑ لیا۔ اس کے ساتھ چوہڑ کانے کے پندرہ بیس پولیس والے تھے (یہ بات مجھے کسی نے بتائی تھی کہ سپاہی چوہڑ کانے کے تھے) اب انھوں نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ بوٹوں سے پنڈلیوں پر ضربات لگا رہے تھے اور ڈنڈے میری پیٹھ پر برسا رہے تھے۔ ڈان کے بیورو چیف نثار عثمانی وہاں موجود تھے۔ ہائی کورٹ کے سیکریٹری وسیم چوہدری نے مجھے پولیس والوں کی گرفت سے چھڑوایا، اور پھر پولیس والوں نے وسیم چوہدری کے ساتھ دھینگا مشتی شروع کردی۔
اس روز احتجاج میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مائیں، بہنیں، بیٹیاں تھیں، اعتزاز احسن کی والدہ تھیں، ان کی بیگم بشریٰ اعتزاز تھیں، ایس ایم ظفر کی بیگم تھیں، جنرل مٹھا کی بیٹیاں تھیں، سیاسی ورکرز شاہدہ جبیں اور کنیز میر کے ساتھ مزدوروں کی خواتین تھیں اس جلوس کی رپورٹنگ کے لیے بی بی سی کی صحافی خواتین بھی موجود تھیں، انھوں نے یہ سب مناظر دیکھے۔''
حبیب جالب صاحب نے جو واقعہ بیان کیا۔ تب جنرل ضیا الحق چوتھے مارشل لا کے ساتھ ملک پر قابض تھے۔ یہ ایسا زمانہ تھا کہ جب باغیوں کو بطور سزا کوڑے بھی مارے جاتے تھے اور ایک خوف و ہراس کا عالم تھا، مگر عاصمہ جہانگیر کسی خوف، کسی ڈر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آمر ضیا الحق کے خلاف میدان میں ڈٹی رہی۔ سچ کہتی رہی اور مجبور و بے کس لوگوں کے ساتھ کھڑی رہی۔
نہ ڈری، نہ جھکی بلکہ آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارتی رہیں۔ وہ ملک غلام جیلانی کی بیٹی تھی، وہ ملک غلام جیلانی جو جنرل ایوب کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھا، وہ ملک غلام جیلانی جس نے مجیب الرحمن کو پاکستان کا اکثریتی رہنما مانا اور جنرل یحییٰ کے خلاف تحریک کا حصہ بنا اور جیل گیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان پر بڑے بڑے سیاستدان گمراہ ہوگئے اور اکثریتی رہنما مجیب الرحمن سربراہ عوامی لیگ جس کی سارے پاکستان میں قومی اسمبلی میں 150 سے زیادہ نشستیں تھیں، مگر اقتدار حق دار کو نہ دیا گیا۔ پاکستان! قائد اعظم کا پاکستان! توڑ دیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی ان گنے چنے لوگوں میں شامل تھے، جو صحیح بات کر رہے تھے کہ اقتدار مجیب الرحمن کو دے دو۔
مجھے اس وقت جنرل پرویز مشرف بھی یاد آگیا ہے۔ جس نے ججوں کو گرفتار کرکے گھروں میں نظربند کردیا۔ تب عاصمہ جہانگیر نے پاکستان بھر کے وکلا کا محاذ سنبھال لیا اور بندوقوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوکر ظالموں کو للکارا، سینہ تان کر غیظ و غضب کے عالم میں کہا ''چلاؤ گولی! چلاؤ گولی!''
عاصمہ جہانگیر، حبیب جالب کی ساتھی تھیں۔ ان کو بڑا مانتی تھیں۔ سپریم کورٹ کی بحالی کی تحریک جاری تھی، عاصمہ جہانگیر نے نوجوان وکلا سے کہا ''اوئے منڈیو! جاؤ۔۔۔۔کتھوں جالب کو لب کے لے آؤ'' (یعنی اوئے لڑکو! جاؤ کہیں سے جالب کو ڈھونڈ کر لے آؤ) اور پھر سب نے دیکھا کہ جالب کی نظمیں اور زیادہ شدت کے ساتھ تحریک میں پڑھی جانے لگیں۔ جالب بھی عاصمہ کے بہت معترف تھے۔ جالب کی نظم ملاحظہ ہو:
عاصمہ جہانگیر کی نذر
پکارتی ہیں اے خدا! تجھے غریب عورتیں
سسک رہی ہیں محبسوں میں کم نصیب عورتیں
نہ ان کو ڈر ہے موت کا' نہ ان کو زندگی عزیز
نبرد آزما ہیں ظلم سے عجیب عورتیں
یہ واقعہ ہے اس کا بھی کوئی علاج بیبیو
کہ عورتوں کے ہیں خلاف کچھ مہیب عورتیں
مساویانہ زندگی بسر کریں گی ایک دن
برائے حق ہیں سر بکف سرِ صلیب عورتیں
علم اٹھائے پھر رہی ہیں عدل کا جو رات دن
بہارِ دائمی کی ہیں یہی نقیب عورتیں
غزل سرا ہیں گلستانِ زاغ شاخ شاخ پر
لبوں پہ خامشی لیے ہیں عندلیب عورتیں
ستارہ اوج پر ہے آج عورتوں کا چین میں
یہاں بھی آسماں چھوئیں گی عنقریب عورتیں
ایمبولینس کے آگے ''سلام عاصمہ جہانگیر'' سرخ گلابوں پر زرد پھولوں سے لکھا تھا، یہ الوداعی سلام اٹھائے عاصمہ کی بیٹیاں اور سنگی ساتھی چل رہی تھیں۔ ہزاروں مرد عورتیں قذافی اسٹیڈیم کے باہر موجود تھے۔ ممبران اسمبلی، سینیٹ، وکلا، جج صاحبان، صحافی، سیاست دان، طلبا، مزدور، کسان تنظیموں والے اور سب سے بڑھ کر عاصمہ کے چاہنے والے عوام۔ مولانا مودودی کے بیٹے حیدر فاروقی مودودی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ دعا کی اور جنازہ لحد کی طرف چل دیا۔ ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ بیدیاں کے علاقے میں عاصمہ کا فارم ہاؤس ہے۔ عاصمہ کی وصیت کے مطابق وہیں لحد تیار کی گئی ہے۔
آج 13 فروری 2018 ہے اور آج سے 35 سال پہلے 12 فروری 1983 کا واقعہ مجھے یاد آرہا ہے۔ مجھے تو واقعہ یاد آیا ہے، مگر نہایت مناسب ہوگا کہ قارئین یہ واقعہ حبیب جالب سے سنیں۔ جالب اپنی آپ بیتی کے صفحہ 167 پر بیان کرتے ہیں ''خواتین نے ایک احتجاجی جلوس نکالا تھا، جسے ہال روڈ (لاہور) پر روک لیا گیا، اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال تھے، خواتین نے چیف جسٹس صاحب کو ایک یادداشت پیش کرنا تھی، اور وہ ہائی کورٹ آنا چاہتی تھیں، لیکن پولیس نے ہال روڈ پر ہی روک لیا۔ پولیس نے گھیرا ڈال لیا تھا اور وہ خواتین وہیں دھرنا مار کر بیٹھ گئیں۔
عاصمہ جہانگیر ہائی کورٹ آئیں، اس وقت میں بھی وہاں موجود تھا، عابد حسن منٹو، سید افضل حیدر اور اعتزاز احسن بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے صورتحال سے آگاہ کیا اور یہ Suggest کیا کہ ''حبیب جالب کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، یہ ہمیں وہاں اپنا کلام سنا دینگے کیونکہ پولیس ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہی ہے'' میں ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔ اب کار اسٹارٹ ہوئی تو ایک لہر میرے ذہن میں آئی کہ یہ جلوس اگر نہ نکلا تو احتجاج رک جائے گا اور وہ بے اثر ہوجائے گا۔ میں نے سوچا کہ میرا کام تو جلوس کو اور Movement کو جاری رکھنے کا ہے۔ یہی میرا فریضہ ہے کہ احتجاج کا عمل جاری رہے۔
میں وہاں پہنچ گیا جہاں خواتین دھرنا دیے بیٹھی تھیں۔ میں نے ایک مختصر سی تقریر کی، اس کے بعد خواتین کے بارے میں کچھ نظمیں سنانا شروع کیں۔ جب میں نظمیں سنا رہا تھا تو ان کے چہروں پر جیسے خوشی کی چمک تھی۔ ایک حوصلہ جھلک رہا تھا۔ میرا کلام سنانے کا مقصد بھی ان کے حوصلے بڑھانا تھا۔
اس دوران ایک پولیس افسر میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا ''جالب صاحب! ادھر آئیے ذرا ہماری بات سنیے۔'' خواتین نے یک زبان ہوکر کہا ''اس کی بات مت سنیے۔'' میں نے کہا ''نہیں کوئی بات نہیں، میں اسے کیمپ جیل سے جانتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو سن لینی چاہیے۔'' میں اس کے پاس گیا اور پوچھا ''ہاں فرمائیے!'' وہ کہنے لگا ''ان خواتین کو وین میں بٹھا کر ہائی کورٹ لے چلتے ہیں'' میں نے کہا کہ ''آخر پولیس والے ہی نکلے!'' میں جانتا ہوں کہ تم ان کو بٹھا کر سول لائن تھانے لے جاؤ گے'' پھر میں نے اس سے کہا ''اب ہٹ جاؤ۔''
میں پھر اسی دائرے میں آگیا جہاں خواتین بیٹھی تھیں، میں نے پھر نظمیں سنانا شروع کردیں، تمام خواتین جوش و خروش کے ساتھ کھڑی ہوئی اور میں نے کہا ''ہٹو پولیس والو! اور چلو بیبیو!'' میں نے ان کا رخ مال روڈ کی طرف کردیا۔ وہ ہائی کورٹ کی طرف جا رہی تھیں کہ پولیس والوں نے انھیں پھر روک لیا اور زد و کوب کرنا شروع کردیا۔ میں نے یہ صورتحال دیکھی تو وہاں موجود ایک ڈی ایس پی سے کہا کہ ''یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہٹاؤ ان پولیس والوں کو۔''
میرا یہ کہنا تھا کہ ڈی ایس پی نے ایک انسپکٹر کو اشارہ کیا اور کہا ''پکڑو اس حبیب جالب کو۔'' انسپکٹر نے مجھے پکڑ لیا۔ اس کے ساتھ چوہڑ کانے کے پندرہ بیس پولیس والے تھے (یہ بات مجھے کسی نے بتائی تھی کہ سپاہی چوہڑ کانے کے تھے) اب انھوں نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ بوٹوں سے پنڈلیوں پر ضربات لگا رہے تھے اور ڈنڈے میری پیٹھ پر برسا رہے تھے۔ ڈان کے بیورو چیف نثار عثمانی وہاں موجود تھے۔ ہائی کورٹ کے سیکریٹری وسیم چوہدری نے مجھے پولیس والوں کی گرفت سے چھڑوایا، اور پھر پولیس والوں نے وسیم چوہدری کے ساتھ دھینگا مشتی شروع کردی۔
اس روز احتجاج میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مائیں، بہنیں، بیٹیاں تھیں، اعتزاز احسن کی والدہ تھیں، ان کی بیگم بشریٰ اعتزاز تھیں، ایس ایم ظفر کی بیگم تھیں، جنرل مٹھا کی بیٹیاں تھیں، سیاسی ورکرز شاہدہ جبیں اور کنیز میر کے ساتھ مزدوروں کی خواتین تھیں اس جلوس کی رپورٹنگ کے لیے بی بی سی کی صحافی خواتین بھی موجود تھیں، انھوں نے یہ سب مناظر دیکھے۔''
حبیب جالب صاحب نے جو واقعہ بیان کیا۔ تب جنرل ضیا الحق چوتھے مارشل لا کے ساتھ ملک پر قابض تھے۔ یہ ایسا زمانہ تھا کہ جب باغیوں کو بطور سزا کوڑے بھی مارے جاتے تھے اور ایک خوف و ہراس کا عالم تھا، مگر عاصمہ جہانگیر کسی خوف، کسی ڈر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آمر ضیا الحق کے خلاف میدان میں ڈٹی رہی۔ سچ کہتی رہی اور مجبور و بے کس لوگوں کے ساتھ کھڑی رہی۔
نہ ڈری، نہ جھکی بلکہ آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارتی رہیں۔ وہ ملک غلام جیلانی کی بیٹی تھی، وہ ملک غلام جیلانی جو جنرل ایوب کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھا، وہ ملک غلام جیلانی جس نے مجیب الرحمن کو پاکستان کا اکثریتی رہنما مانا اور جنرل یحییٰ کے خلاف تحریک کا حصہ بنا اور جیل گیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان پر بڑے بڑے سیاستدان گمراہ ہوگئے اور اکثریتی رہنما مجیب الرحمن سربراہ عوامی لیگ جس کی سارے پاکستان میں قومی اسمبلی میں 150 سے زیادہ نشستیں تھیں، مگر اقتدار حق دار کو نہ دیا گیا۔ پاکستان! قائد اعظم کا پاکستان! توڑ دیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی ان گنے چنے لوگوں میں شامل تھے، جو صحیح بات کر رہے تھے کہ اقتدار مجیب الرحمن کو دے دو۔
مجھے اس وقت جنرل پرویز مشرف بھی یاد آگیا ہے۔ جس نے ججوں کو گرفتار کرکے گھروں میں نظربند کردیا۔ تب عاصمہ جہانگیر نے پاکستان بھر کے وکلا کا محاذ سنبھال لیا اور بندوقوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوکر ظالموں کو للکارا، سینہ تان کر غیظ و غضب کے عالم میں کہا ''چلاؤ گولی! چلاؤ گولی!''
عاصمہ جہانگیر، حبیب جالب کی ساتھی تھیں۔ ان کو بڑا مانتی تھیں۔ سپریم کورٹ کی بحالی کی تحریک جاری تھی، عاصمہ جہانگیر نے نوجوان وکلا سے کہا ''اوئے منڈیو! جاؤ۔۔۔۔کتھوں جالب کو لب کے لے آؤ'' (یعنی اوئے لڑکو! جاؤ کہیں سے جالب کو ڈھونڈ کر لے آؤ) اور پھر سب نے دیکھا کہ جالب کی نظمیں اور زیادہ شدت کے ساتھ تحریک میں پڑھی جانے لگیں۔ جالب بھی عاصمہ کے بہت معترف تھے۔ جالب کی نظم ملاحظہ ہو:
عاصمہ جہانگیر کی نذر
پکارتی ہیں اے خدا! تجھے غریب عورتیں
سسک رہی ہیں محبسوں میں کم نصیب عورتیں
نہ ان کو ڈر ہے موت کا' نہ ان کو زندگی عزیز
نبرد آزما ہیں ظلم سے عجیب عورتیں
یہ واقعہ ہے اس کا بھی کوئی علاج بیبیو
کہ عورتوں کے ہیں خلاف کچھ مہیب عورتیں
مساویانہ زندگی بسر کریں گی ایک دن
برائے حق ہیں سر بکف سرِ صلیب عورتیں
علم اٹھائے پھر رہی ہیں عدل کا جو رات دن
بہارِ دائمی کی ہیں یہی نقیب عورتیں
غزل سرا ہیں گلستانِ زاغ شاخ شاخ پر
لبوں پہ خامشی لیے ہیں عندلیب عورتیں
ستارہ اوج پر ہے آج عورتوں کا چین میں
یہاں بھی آسماں چھوئیں گی عنقریب عورتیں