کیا یہ محض کرپشن کی سزا ہے

خالدہ کے خلاف فیصلہ آتے ہی بھارتی میڈیا خوشی کے ترانے بجاتا نظر آنے لگا تھا۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

KARACHI:
9 فروری 2018ء کی دوپہربنگلہ دیش کے دارالحکومت، ڈھاکا، میں بروئے کار عدالت نے 72 سالہ خالدہ ضیاء کو پانچ سال کے لیے جیل کی سزا سنا دی۔ اُن کے بیٹے، طارق رحمٰن، کو بھی مجرم قرار دے دیا گیا۔ طارق رحمٰن پارٹی کے وائس چیئرمین ہیں اور آجکل لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دونوں ماں اور بیٹے کو سزا سناتے ہُوئے جج، محمد اخترالزماں، نے کہا: ''خالدہ کے جرم کی نوعیت اس امر کی متقاضی تھی کہ انھیں زیادہ لمبی سزا دی جاتی لیکن اُن کی عمر اور خرابی صحت کے پیشِ نظر مختصر سزا دی جا رہی ہے۔'' بعد ازاں سزا یافتہ خالدہ ضیاء کو ڈھاکا کی ناظم الدین روڈ پر واقع پرانی سینٹرل جیل میں لے جایا گیا۔فضا اداس بھی تھی اور مشتعل بھی۔

اس موقع پرخالدہ ضیاء کی لیگل ٹیم کے سربراہ، کھنڈکر محبوب حسین، نے ڈھاکا میں قومی و بین الاقوامی میڈیا سے مخاطب ہوتے ہُوئے کہا: ''ہمیں حسینہ کے ججوں سے انصاف نہیں ملا ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے ہم اعلیٰ ترین عدلیہ کے دروازے پر ضرور دستک دیں گے۔''

خالدہ کے خلاف فیصلہ آتے ہی بھارتی میڈیا خوشی کے ترانے بجاتا نظر آنے لگا تھا جو اس امر کا بھی اظہار ہے کہ بھارت اور بھارتی میڈیا خالدہ ضیاء کے بارے میں کیا اور کس قسم کے احساسات رکھتے ہیں اور یہ کہ اُن دونوں کا واضح جھکاؤ شیخ حسینہ واجد کی طرف ہے۔''انڈین ایکسپریس'' نے لکھا کہ بنگلہ دیشی عدالت نے شاندار اقدام کیا ہے۔ دوسرے بھارتی اخبار(اکنامک ٹائمز) نے اپنے ادارئیے میں خالدہ کے خلاف فیصلے کی تحسین کی ہے۔

محترمہ خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ''بی این پی'' کی سربراہ بھی ہیں اور بنگلہ دیش کی دوبار منتخب وزیر اعظم بھی رہ چکی ہیں۔ وہ بنگلہ دیش میں متحدہ اپوزیشن، جس میں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش بھی شامل ہے، کی متفقہ رہنما بھی ہیں۔ اُن پر الزام تھا کہ انھوں نے ڈھائی لاکھ ڈالر کی رقم، جو یتیموں کے لیے وقف کی گئی تھی، میں خورد برد کرکے بد دیانتی کا بھی مظاہرہ کیا اور ملک کے اعتبار کو بھی نقصان پہنچایا۔ یہ رقم بیرونِ ملک سے بنگلہ دیش آئی تھی تاکہZia Orphanage Trustکے لیے بروئے کار لائی جائے۔

بارہ سال سے یہ مقدمہ زیر سماعت تھا۔ خالدہ ضیاء کا موقف تھا کہ یہ سراسر جھوٹ اور تہمت پر مبنی مقدمہ ہے اور اس کا واحد مقصد اور مدعا یہ ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اپنی سب سے بڑی سیاسی حریف کو گندا کرکے اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں۔

سابق وزیر اعظم بنگلہ دیش کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ انھوں نے ایک ٹکے کی بھی بددیانتی نہیں کی ہے۔ جولوگ بنگلہ دیش کے سیاسی معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، اُن کا متفقہ طور پر کہنا ہے کہ خالدہ ضیاء کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم حسینہ واجد بلا شر کتِ غیرے بنگلہ دیشی سیاست اور اقتدار کی مالکہ بن گئی ہیں۔ اب وہ بنگلہ دیش کی منتخب وزیر اعظم نہیں رہیں بلکہ انھیں ملکہ کا درجہ بھی مل گیا ہے کہ انھوں نے اپنے راستے کاسب سے بڑا کانٹا نکال دیا ہے۔اس فیصلے کے بعد ممکن ہے خالدہ ضیاء اگلے عام انتخابات میں بھی حصہ نہ لے سکیں۔ یہ انتخابات دسمبر2018ء کو ہو رہے ہیں۔

اگر تازہ سنائی گئی سزا کی وجہ سے خالدہ ضیاء، جو بنگلہ دیشی فوج کے سابق آرمی چیف (جنرل ضیاء الرحمٰن) کی بیوہ بھی ہیں، دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی تو شیخ حسینہ واجد کو چوتھی بار وزیر اعظم بننے سے بھی نہیں روکا جا سکے گا۔


برطانوی اخبار ''گارڈین'' کہتا ہے کہ خالدہ کے بغیر اگلے بنگلہ دیشی انتخابات میں حسینہ ڈکٹیٹر بن جائے گی۔ حسینہ واجد کی یہ زبردست کوشش اور خواہش تھی کہ خالدہ ضیاء اس مقدمے سے بچ نہ پائیں۔ انھوں نے اپنے مقاصد اور تمناؤں کے حصول کے لیے اپنی نگرانی میں پارلیمنٹ سے ''اینٹی کرپشن کمیشن'' منظور کروایا ۔ خالدہ ضیاء کے خلاف اِسی کمیشن کے تحت یہ مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ نتیجہ کیا نکلنے والا تھا، اس بارے میں یقین سے پیشگوئیاں کی جارہی تھیں۔نتیجہ نکلا تو یہ اکثریتی بنگلہ دیشیوں کی امیدوں اور توقعات کے منافی اور برعکس نہیں تھا۔

بنگلہ دیشی اور بھارتی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ خالدہ ضیاء کے خلاف تازہ سنائے جانے والے فیصلے کے عقب میں ممکن ہے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور بنگلہ دیشی عدلیہ کا باہم گٹھ جوڑ بھی کارفرما ہو۔یہ شک اتنا بھی بے اساس نہیں ہے۔ اس شبہے کی بنیاد یہ ہے کہ اس سے قبل بھی شیخ حسینہ واجد کے اشارے پر بنگلہ دیشی عدالتیں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے کئی سینئر قائدین کو سزائے موت اور عمر قید کی سخت سزائیں سنا چکی ہیں۔ ان سزا یافتگان میں بعض تو سابق رکن اسمبلی بھی تھے۔

بنگلہ دیش کی جماعتِ اسلامی کے ان نیک دل قائدین پر یہ سنگین الزامات عائد کیے گئے کہ انھوں نے 1971ء کے دوران پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر آزادی پسند بنگالیوں کو قتل بھی کیا، اُن کا ریپ بھی کیا اور اُن کے گھروں کو نذرِ آتش بھی کیا۔ یہ الزامات ثابت نہیں کیے جا سکے تھے کہ نہ تو واضح شہادتیں تھیں اور نہ مستند گواہ۔ لیکن بوگس گواہوں اور جھوٹی و جعلی شہادتوں کی بنیاد پر حسینہ واجد کے ہاتھوں میں کھیلنے والے بنگلہ دیشی ججوں نے جماعتِ اسلامی کے متعدد قائدین کے خلاف سخت سزاؤں پر مشتمل فیصلے سنا دیے۔ اب توکئی بے گناہ افراد کو پھانسیاں بھی دی جا چکی ہیں۔ان فیصلوں کے پسِ پردہ بھارتی لابی بھی کارفرما تھی کہ بھارت دراصل بنگلہ دیشی جماعتِ اسلامی کو حسینہ واجد کا اصل مخالف سمجھتا ہے۔

بھارت خالدہ ضیاء کے برعکس شیخ حسینہ واجد کا زبردست حامی اور پشت پناہ ہے کہ حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی بھی ہیں۔ بھارت شیخ مجیب الرحمٰن،جو غدارِ پاکستان اور بھارتی ایجنٹ تھا، کا بھی پُشت پناہ رہا تھا۔ بھارتی سرپرستی ہی میں تو شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کو ''بنگلہ دیش'' میں ڈھالا تھا۔ تب سے اب تک بھارت مسلسل شیخ مجیب کی بیٹی،شیخ حسینہ واجد، کو بھی ہر محاذ اور ہر میدان میں مدد فراہم کرتا آرہا ہے۔

بھارتی اشیر واد پا کر حسینہ واجد پاکستان کے خلاف زبان درازی کرنے سے بھی باز نہیں آتیں۔خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد سیاسی طور پر ایک دوسرے کی مخالف تو ہیں ہی، دونوں کے درمیان خاندانی دشمنیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ بھارت خالدہ ضیاء کو پاکستان کا حامی اور دوست خیال کرتا ہے، اس لیے اغلب گمان یہ ہے کہ خالدہ ضیاء کے خلاف تازہ عدالتی فیصلے کے پیچھے بھارتی لابیوں کا بھی اثرو رسوخ ہو سکتا ہے۔ بھارت بھی یہی چاہتا ہے کہ حسینہ واجد کا ہی اقتدار بنگلہ دیش میں طول کھنچتا رہے اور کوئی رکاوٹ اُن کی راہ میں کبھی حائل نہ رہے۔

سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے خلاف تازہ عدالتی فیصلے کے بعدبھارت اور شیخ حسینہ واجد کی مشترکہ خواہشیں بروقت پوری ہوتی نظر آرہی ہیں۔بھارت خالدہ ضیاء کی اس لیے بھی ہر مقام اور ہر فورم پر مخالفت کرتا ہے کیونکہ خالدہ ضیاء اور اُن کی متحدہ اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلتوں اور زیادتیوں کے سامنے بند باندھنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔ بھارت کو خالدہ ضیاء کی یہ مزاحمت اور مخالفت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ صحیح معنوں میں اس وقت بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنا چکا ہے۔

بنگلہ دیشی سیاست، صحافت اور معیشت پر بھارت کی آہنی گرفت ہے۔ خالدہ ضیاء کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں ہر جگہ ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ خالدہ کے خلاف سنایا گیا یہ فیصلہ تعصب، عناد اور بغض کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

جنوبی ایشیا کے اکثر تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ خالدہ ضیاء کے خلاف سنایا جانے والا یہ فیصلہ بنگلہ دیش کو نئے فسادات، ہنگاموں، آتشزنی، انارکی اور بدامنی کی لپیٹ میں لینے والا ہے۔ خالدہ کی پارٹی(بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی)کے سیکڑوں سینئر لیڈر گرفتار ہیں اورڈھاکا میں حالات خاصے دگرگوں شکل اختیار کرچکے ہیں۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کی یہ بھی کوشش ہے کہ لندن میں جلاوطن خالدہ ضیاء کے بیٹے، طارق رحمن، کو بھی کسی طرح گرفتار کرکے ملک واپس لایا جائے تاکہ یہ امکان بھی سرے ہی سے ختم کردیا جائے کہ خالدہ ضیاء کے خاندان کا کوئی فرد حسینہ واجد کی جگہ لے سکتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کے ہر اُس شخص یا سیاسی جماعت کو راستے سے ہٹا دینا چاہتی ہیں جس کے دل یا دماغ میں پاکستان کے لیے کوئی ہلکا سا بھی نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔خالدہ ضیاء اِسی لیے اُن کا تازہ شکار بنی ہیں۔
Load Next Story