منتشر معاشرہ
اس وقت معاشرہ میں ہرسطح پرجھوٹ کی عملداری ہے۔
ضروی نہیں کہ قیامت صرف یہی ہوکہ پہاڑ زمین بوس ہوجائیں اور کائنات عدم توازن کا شکار ہوجائے۔ قیامت تو برحق ہے لیکن ہمارے ملک میں انفرادی یااجتماعی طورپرجو ظلم،ناانصافی اورجبر ہے، وہ بھی کسی قیامت سے کم نہیں۔
اگر یہ سب کچھ کسی قوم کا شعاربن جائے توجان لیجیے کہ ملک قیامت یا تباہی کی نذرہوگیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا ملک بھنورکی آنکھ میں سانس لے رہاہے۔ کوئی سچ سننے کو تیار نہیں۔جھوٹ کوسچ بنانا دائیں ہاتھ کاکمال ہے۔ لوگوں کوسمجھ ہی نہیں آنے دی جارہی کہ ان کامستقبل اورحال گروی رکھ دیاگیاہے۔
طبقاتی تقسیم کی طرف آئیے۔آپ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔سب خوفزدہ ہیں ۔امیرکوخوف ہے کہ اس کی دولت چھین نہ لی جائے کیونکہ ننانوے فیصدلوگ اپنی جائیداد اوردولت کاحساب نہیں دے سکتے۔اس میں سیاستدان، سرکاری ملازم، پروفیشنلز اورکاروباری طبقہ سب شامل ہیں۔ غریب اپنی ضروریات کی آگ میں جل رہا ہے۔اس کی نظر ہر خوشحال انسان پر ہے۔ اسے بڑی گاڑیوں، محلات اور لگژری ہوٹلز سے نفرت ہے کیونکہ اس غریب کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔
میں پہلے سمجھتا تھا کہ اسے سماجی عدم توازن کانام دوں مگریہ لفظ معاملے کی سنجیدگی کی عکاسی نہیں کرپاتا۔ملک اس وقت ایسے زاویے پراَٹکاہواہے جہاں معمولی ساکوئی واقعہ آگ بھڑکا کر ہر چیز کوبھسم کرسکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے تیونس میں ایک بیروزگارنوجوان کی خودسوزی نے مضبوط ترین بلکہ مستقل صدرکوحرفِ غلط کی طرح مٹادیاتھا۔
آج وہ مردِآہن زین العابدین کس حال میں ہے،کسی کوجاننے کی تمنا نہیں۔اس کی اہلیہ یاملکہ جو آئس کریم لانے کے لیے سرکاری طیارہ پیرس بھجواتی تھی۔آج کس حال میں ہے،کسی کومعلوم نہیں۔ عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ہرذی شعورکواندازہ ہے کہ ملک کھائی میں گرچکاہے مگرجھوٹ کاسہارا لے کر شانداردکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس وقت معاشرہ میں ہرسطح پرجھوٹ کی عملداری ہے۔ ہرشہری کو اس جھوٹ کوتسلیم کرنے پرزبردستی آمادہ کیاجارہا ہے۔ہرطریقہ سے، اشتہارات کی جنگ ہو،میڈیاکی دھڑے بندی ہویا پیسے سے فکرکی خریداری ہو،ہرحربہ استعمال کیاجارہاہے تاکہ جواصل میں ہورہاہے،اس کی خبر کسی کوکانوں کان خبرنہ ہو۔
ویسے تو انسان دوستی کی مثالیں ہرجگہ ملتی ہیں مگرحکومتی سطح پرڈنمارک،سویڈن اورناورے دنیاکے وہ ممالک ہیں جن میں مثالی سماج اوراقتصادی نظام بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔وہاں امیرہونے پرکوئی پابندی نہیں۔ مگرزیادہ دولت کمانے کے بعد اس شخص پریہ فرض ہے کہ زیادہ ٹیکس ادا کرے۔سوال ہے کہ کیوں؟ دولت تواس نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔
جوازصرف ایک ہے کہ کوئی بھی شخص اگر امیر ہے تواس کی سماجی ذمے داری اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کی دولت پرمعاشرہ کے غریب طبقے کاحق،حکومت زیادہ ٹیکس کی صورت میں وصول کرتی ہے۔پھراسے غریب آدمی پرخرچ کرتی ہے۔اگریقین نہیں توان قوموں کو جاکر دیکھ لیجیے۔اقتصادی انصاف کوعملاًدیکھ پائیں گے۔ سویڈن متعدد بارجاچکاہوں۔ہرباران کے قوانین اورحکومت کی پالیسیاں دیکھ کرششدررہ جاتاہوں۔
قطعاًیہ عرض نہیں کر رہا کہ وہاں ہرچیزٹھیک ہے۔مگران کی حکومتوں نے ہر معاملہ، مکمل ایمانداری،جی ہاں مکمل ایمانداری سے درست کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔عملی ایمانداری مجھے اپنے ملک میں کہیں نظرنہیں آتی۔ کیاوجہ ہے کہ ہمارا رویہ اس درجہ منافقانہ ہے۔بہت سی وجوہات ہیں۔ ہر طبقے کی اپنی توجہہ ہے۔ مگر بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم سچ بولنے اورسچ سننے کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔جوبھی سچائی کی راہ پرچلنے کی کوشش کریگا، اسے نشانِ عبرت بنادیاجائیگا۔
میری بات پریقین نہ فرمائیے۔تنقیدی نظرسے دیکھیے۔بات سمجھ میں آجائیگی۔جس قانون کی حکمرانی کے لیے ہم سارادن بحث کرتے ہیں،وہ شروع ہی جھوٹ سے ہوتی ہے۔کوئی واردات ہوجائے۔مثال کے طورپرقتل ہو جائے۔ تھانہ سے پولیس کولانے کے لیے گاڑی کا انتظام مقتول کے ورثاء کوکرناپڑتاہے۔پوسٹ مارٹم پرلاش لیجانے کے لیے بھی اکثراوقات،ورثاء کوہی ویگن کرائے پرلینی پڑتی ہے۔
ایف آئی آرلکھوانے کے لیے اسٹیشنری تک بازارسے خود منگواکر دینی ہوتی ہے۔اس کے بعد F.I.R کے اندر ہر طریقے کا جھوٹ لکھاجاتاہے۔کوشش کی جاتی ہے کہ اگر دشمنی کی وجہ سے قتل ہواہے،توحریف کے پورے خاندان کا نام ایف آئی آرمیں لکھوایا جائے۔ ہرتحصیل میں ایسے قانون دان موجود ہیں، جوجھوٹی رپورٹ لکھوانے کے ماہرگردانے جاتے ہیں۔ اس کے بعدکورٹ،کچہری اور دیگر معاملات ہیں۔
ہرطرف پیسہ کمانے والی انسانی مشینیں بیٹھی ہوئی ہیں۔پولیس کوصرف ایک استعارہ سمجھ کراستعمال کیجیے۔پوری مشینری کاایک جیساحال ہے۔یہ ہر طرف، ہر وقت ہورہاہے۔کوئی اس پرانگلی اس وقت تک نہیں اُٹھاتا جب تک اس کانام جھوٹی ایف آئی آرمیں درج نہیں ہوتا۔ آپ نے آج تک کسی وزیراعلیٰ، وزیراعظم یاصدرکو اس بے انصافی کے نظام پرکاری ضرب لگاتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ بیانات کی بات نہیں کر رہا۔
ایساکیوں ہے کہ انصاف کے نظام میں بھی جھوٹ شامل ہے۔صرف اس لیے کہ جب آپ حاکم ہوں،توتمام سرکاری ادارے آپ کی لونڈی بن جاتے ہیں۔مخالفین کو جھوٹے پرچوں میں پھنسوانا۔ان کوغلط سزا دلوانا۔ان کی آل اولادکوبربادکرنا، یہ سب کچھ جس تندہی سے سرکاری ادارے کرسکتے ہیں،کوئی اورنہیں کرسکتا۔چنانچہ اگر آپ حاکم ہیں، تویہی بے انصافی کے ادارے آپ کو اچھے لگتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ حکمران کاجھوٹ بھی سچ بن جاتا ہے۔ عام لوگوں کامکمل سچ بھی فراڈ بن جاتا ہے۔
یہاں تک عرض کروںگاکہ ہمارے ملک میںکوئی جرم،جرم نہیں رہا۔اس پورے خطے میں ناانصافی پرکبھی بغاوت نہیں ہوئی۔ہرکوئی اپنے گھرمیں ڈرکربیٹھنے کوعملیت پسندی کانام دیتاہے۔عوام کی بات چھوڑئیے۔ملک کی اعلیٰ ترین نوکری یعنیC.S.Sکی عرض کرتاہوں۔میڈیکل کالج کے طالبعلم ہونے کے بعدجب سول سروسزاکیڈمی میں بطوراسسٹنٹ کمشنرآیا،تونوکری کرنے کے آداب کابالکل پتہ نہیں تھا۔
صرف ایک لگن تھی کہ انتظامی عہدوں پربے بس اورمجبورلوگوں کی مددکرنی ہے۔آج تک کررہاہوں۔مگرجن بیوروکریٹس نے حددرجہ ترقی کی،ان کے نزدیک یہ فلسفہ بالکل غلط تھااورہے۔یہاں جب تک آپ بطورسرکاری ملازم، کسی مضبوط دھڑے،گروپ یاخاندان سے منسلک نہیں ہوتے،پوری زندگی دھکے کھاتے رہتے ہیں۔آپ کو مناسب یااچھی پوسٹنگ نہیں دی جاتی۔سرکارکی دنیامیں ایمانداروہ ہے،جسے وزیراعلیٰ یا وزیراعظم ایماندار کہے۔
بیشک وہ افسرکرپشن میں غرق ہو۔مگرہربندہ اس جیسی ایمانداری کی سندکومقدم سمجھے گا۔ سرکاری ملازمین کو بھرپور تنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے۔لوگوں کواندازہ ہی نہیں کہ پچانوے فیصداعلیٰ سرکاری ملازمین تو بے بس زندگی گزار کر ریٹائرہوجاتے ہیں۔ہاں،جھوٹ کے دربارمیں جو درباری، اپنے آقاپربیعت کرلیتے ہیں،ان کی نسلیں سنورجاتی ہیں۔ سرکاری زندگی میں بھی سچ بولنے کی اجازت نہیں۔ پرائیویٹ سیکٹرمیں بھی یہی حال ہے۔جوسیٹھ کی ہرضرورت کا خیال کرے گا، بے حد نوازا جائے گا۔
خیر، ملکی نظام کی بات ہورہی تھی۔جب بالائی سطح پر غتربودکانظام رائج ہوگا تونچلی ترین سطح پرموجودہرشخص بے ایمانی کرناجائزسمجھے گا۔ریڑھی پرپھل بیچنے والا،پھلوں کوجعلی رنگ سے خوبصورت بنائے گا۔سبزی فروش، ریڑھی پر موجود ادرک کوتیزاب سے دھوکرلائیگا تاکہ دیدہ زیب نظرآئے۔ دودھ بیچنے والا،گائے بھینسوں کوانجکشن ضرورلگائے گا تاکہ مریل جانوربھی غیرقدرتی طریقے سے دودھ زیادہ دے۔ میڈیکل اسٹورپر جعلی دوائیاں ہرقیمت پر فروخت ہوںگی کیونکہ اصل دوائی بیچنے میں مالی نقصان ہے۔
شائد میں پہلا لکھاری ہوں،جس نے ایک سال پہلے،دل کے مریضوں میں ڈالے جانے والے جعلی اسٹنٹ کے متعلق لکھا تھا۔ چندہفتے پہلے،اس کی بازگشت پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں سنی۔مگربازارمیں جعلی دھندہ اسی شان سے جاری ہے۔ ڈاکٹراورتاجر دراصل موت فروخت کررہے ہیں۔لوگ اسے رضائے الہی سمجھ کرقبول کررہے ہیں۔شائداورکوئی حل بھی نہیں ہے۔شائدآپ کے لیے اچھنبے کی بات ہو۔ہمارا ملک پوری دنیا میں جعلی دوائیاں بنانے والے ملکوں میں اوّل نمبرپرہے۔چلیے کسی میدان میں توہم اوّل نمبرپر آئے۔ ہر طرف بالکل ایک جیسے حالات ہیں۔
غریب کی حالت بہتر کرنے کے بجائے اسے محض دلاسہ دیاجاتاہے کہ دنیاتو تیرے لیے امتحان ہے، ہرآسائش مرنے کے بعدملے گی۔ بالکل درست بات ہے،صائب ہے۔مگرامیرآدمی اس امتحان میں پرچہ دیے بغیرکیسے پاس ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا پورامعاشرہ خطرناک حدتک تقسیم اورجھوٹ کاشکار ہے۔اس منتشرمعاشرے کوکیسے ٹھیک کیاجائے۔ شائداب کسی کے بھی بس میں نہیں!