ڈیووس ورلڈ اکنامک فورم میں ’’پاکستانی پویلین‘‘ نے دنیا کے سامنے پاکستان کی نئی تصویر پیش کی

پویلین کی سرگرمیاں بھارت کو ایک آنکھ نہ بھائیں، بھارت نے پاکستانی پویلین کی ویب سائٹ کو ہیک کیا۔

فورم میں پاکستان کے معاشی استحکام ، خواتین کو با اختیار بنانے اور پاک امریکا تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فوٹو: ایکسپریس

دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، مختلف ممالک کے ایک دوسرے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی تعلقات کہیں بن رہے ہیں تو کہیں مضبوط سے مضبوط تر ہورہے ہیں ۔ یہ سب اس وجہ سے ہورہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنی بات بتاکر اور دوسرے کی سن کر آگے بڑھتے ہیں۔ عالمی سطح پر اپنے ملک کی مثبت تصویر پیش کرنا بہت ضروری ہے تاکہ عالمی برادری آپ کی طرف متوجہ ہو۔

یوں تو عالمی سطح پر بہت سے پلیٹ فارم اور فورم موجود ہیں جہاں دنیا بھر کے ممالک کی نمائندگی ہوتی ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوئیٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والا ورلڈ اکنامک فورم (World Economic Forum) خاص اہمیت کا حامل ہے۔رواں سال جنوری میں ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کا انعقاد کیا گیا، اس بار خاص بات یہ تھی کہ جہاں وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے پاکستان کی نمائندگی کی وہاں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے۔

اس کے علاوہ پاکستان پویلین نے دنیا بھر کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کے حوالے سے اس بار ایک اور خاص بات یہ ہوئی کہ پہلی بار پاکستانی پویلین کا انعقاد کیا گیا جس سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر شخصیات نے خطاب کیا اور اپنا موقف پیش کیا اور سوالات و جواب کے سیشن میں بھی پاکستان کا امیج بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان پویلین اور ناشتہ کا سہرا ممتاز دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ پاکستان بریک فاسٹ اور پویلین کا اہتمام کیا۔

اکرام سہگل گزشتہ 24سال سے ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کررہے ہیں اور گزشتہ17سال سے دنیا بھر کے اہم مندوبین کے اعزاز میں ناشتہ کا اہتمام کررہے ہیں اور اس سال پہلی مرتبہ پاکستانی پویلین قائم کرکے ایک اور سنگ میل عبور کیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ عالمی فورم پر پاکستان کے تشخص کو اجاگر کرنے میں کتنی مدد ملی ؟ اور اس حوالے سے مزید کیا کیا جاسکتا ہے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات لے کر ایکسپریس نے اکرام سہگل اور ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کرنے والی پاکستانی شخصیات کے ساتھ ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا جس کی روداد نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی(ماہر عالمی امور، ایسوسی ایٹ ڈین آئی بی اے)

وررلڈ اکنامک فورم کوئی نیا پلیٹ فارم نہیں اکرام سہگل 24 سال سے حصہ لے رہے ہیں اور17سال سے ناشتہ کا اہتمام کررہے ہیں۔ اس مرتبہ نئی بات یہ ہوئی کہ اکرام سہگل صاحب کی کاوشوں سے پہلی مرتبہ پاکستانی پویلین قائم کیا گیا جس کے ذریعے پاکستان کا بیانیہ دنیا کے سامنے موثر انداز میں پیش کیا گیا اور پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی اس سال ایک نئی بات ہوئی اور ایک فٹ پرنٹ چھوڑنے کی کوشش کی۔ پاکستانی پویلین میں ایک ڈنر کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور ہم نے ورلڈ اکنامک فورم میں تھوڑی جگہ بنانے کی کوشش کی اس موقع پر پاکستان کی معیشت، خارجہ پالیسی اور خواتین کو بااختیار اور مضبوط بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں سمیت پاکستان کی ساکھ کی بہتری، امریکا سے تعلقات اور بین الاقوامی دبائوکے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ان لوگوں نے بات کی جو صورتحال کو کوئی سیاسی رخ نہیں دیتے اور بامقصد بات کرتے ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نیا موڑ آیا ہے اور پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اب پاکستان دنیا میں جیو پالیٹکل اسٹیٹ کے بجائے جیو اکنامکل اسٹیٹ کے طور پر پہچانا جائے ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری اس کی ایک وجہ بنی اور دیگر عوامل بھی شامل ہیں کیونکہ آج کل کی جنگیں معاشی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں۔ اس سوچ کو لے کر خارجہ پالیسی میں لائی جانے والی تبدیلی کو دنیا کے سامنے لانا ضروری ہے اور ورلڈ اکنامک فورم ایک موثر ذریعہ بن چکا ہے جسے اب نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خارجہ پالیسی کی تبدیلی کے لیے زمینی حقائق بھی ضروری ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس مرتب پاکستانی پویلین کی وجہ سے ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کی نمائندگی موثر بنانے میں مدد ملی ہے اور مزید بہتری لائی جاسکتی ہے۔ورلڈ اکنامک فورم اور بالخصوص ناشتہ کی تقریب سے پاکستان نے اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے واضح کیا ، وزیر اعظم اور بلاول بھٹو زرداری کی ایک ساتھ شرکت نے بہت مثبت پیغام دیا۔ دراصل ناشتہ کی یہ تقریب اس لحاظ سے بھی بہت اہم تھی کہ دنیا کے 250سے زائد اہم ترین لوگ اور غیرملکیوں کی بڑی نمائندگی موجود تھی اس موقع پر بہت سے سوالات آئے تاہم وزیر اعظم پاکستان نے تمام سوالات کا بہت اچھے انداز میں جواب دیا اور پاکستان کو بھرپور موقف دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم میں امریکی صدر ٹرمپ اتنی توجہ حاصل نہ کرسکے جتنی چین اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے ذریعے پاکستان کے حصے میں آئی۔ ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کا نیا چہرہ دنیا کے سامنے لایا گیا امریکا اور دیگر عالمی جریدوں نے بھی اس بات کی توثیق کی کہ ورلڈ اکنامک فورم میں چین اور پاکستان توجہ کا مرکز بنے رہے۔ پاکستان پویلین کی ابھی شروعات ہوئی ہے اس کو موثر بنانے کے لیے ایکسپریس میڈیا گروپ کی طرح تمام میڈیا ہائوسز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس پویلین کو سپورٹ فراہم کرنا ہوگی۔ یہاں پاکستان کے نجی شعبے کو جو بہت متحرک ہے سامنے آنا ہوگا اگرچہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستانی پویلین کے بارے میں کہا کہ اسے حکومتی سطح پر منعقد نہیں کیا جاسکتا یہ نجی شعبے کا کام ہے اور اسی کو کرنا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اس اقدام کی سرپرستی ضرور کی جاسکتی ہے ۔


یہ بات بہت اہم تھی اور بار بار سننے کو ملی کہ کیا پاکستان چین کے ہاتھوں اپنی خود مختاری کھو رہا ہے لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور بلاول بھٹو سمیت پاکستان کے مندوبین نے دوٹوک انداز میں پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا اور دنیا کو بتایا کہ چین اور پاکستان کے تعلقات بہت گہرے اور اعتماد کے رشتہ سے منسلک ہیں۔ فورم کے ذریعے وزیر اعظم نے پاکستان کی معاشی اور داخلی خود مختاری کے بارے میں واضح پیغام دیا جبکہ بلاول بھٹو نے بھی جو انٹرویو دیے وہ بہت واضح اور موثر پیغام تھے جن کی گونج نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت تک سنائی دی گئی۔ ورلڈ اکنامک فور م پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ امیروں کا اور طاقت ور طبقے کا فورم ہے جس کے لیے فیٹ کیٹس کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے لیکن ہمیں ان ہی لوگوں کو اپنا موقف بتانا ہوا ہے کیونکہ یہہی لوگ ہمارے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔ اگر ہم بھارت اور پاکستان کی موجودگی کا موازنہ کریں تو ہم دس فیصد اور بھارت نوے فیصد تھا اس کے باوجود پاکستان کے پویلین کی ویب سائٹ بھارت نے ہیک کرلی۔ پاکستان کے پانچ وزیر فورم میں شریک تھے لیکن ان میں سے کسی نے ناشتہ میں شرکت نہیں کی میں پوچھتی ہوں کہ کیا پاکستانی پویلین کا قیام اتنا چھوٹا اقدام تھا جو بھارت کو تو کھٹک رہا تھا لیکن پاکستانی وزراء نے شکل دکھانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔

اقبال غازی(بانی صدر سن کنسلٹنگ)

ڈاکٹر ہما بقائی نے بہت مفصل طریقے سے ورلڈ اکنامک فورم کے اغراض و مقاصد اور پاکستان کے لیے افادیت کو اجاگر کیا ہے میں صرف اتنا کہوں گا کہ دنیا کی اشرافیہ کی موجودگی میں پاکستان کی نمائندگی بہت موثر انداز میں کی گئی۔ وزیر اعظم نے بلاول بھٹو کی پذیرائی کی پویلین کے انعقاد کو بھی سراہا ۔ پاکستانی مندوبین نے اپنے خرچ پر فورم میں شرکت کی جس کا مقصد پاکستان کی بہتر تصویر اور سافٹ امیج دنیا کے سامنے رکھنا تھا۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ذریعے پاکستان نے دنیا کو اپنے بارے میں ایک ایسی حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ پاکستان اور پاکستانی قوم دنیا کی مخیر ترین قوم ہے ترقی یافتہ ملکوں میں جو آپریشن اور علاج معالجہ لاکھوں روپے میں ہوتا ہے پاکستان کے اسپتالوں میں مفت کیا جاتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کو اکرام سہگل کی کوششوں سے مزید موثر بنایا جائے اور دنیا کو احساس دلایا جائے کہ ہم کتنی مخیر قوم ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم میں وزیر اعظم کے ساتھ بلاول بھٹو کی موجودگی نے بہت اچھا تاثر قائم کیا وزیر اعظم نے بلاول بھٹو کی تعریف میں کلمات ادا کیے کہ میں ان سے کبھی ملا نہیں لیکن ان کے نانا اور والدہ کے ساتھ کام کرچکا ہوں اس کے بعد وہ اپنی تقرر ختم ہونے پر بلاول بھٹو سے خود آکر ملے جس سے دنیا کو پیغام ملا کہ پاکستانی قوم مل کر اپنے مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وزیر اعظم نے دو باتیں واضح کیں جن کی وضاحت عالمی اشرافیہ کو درکار بھی تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل جاری رہے گا الیکشن وقت پر ہوں گے اور حکومت کی تبدیلی کے باوجود پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ پاکستان کے استحکام اور عالمی برادری کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے ہمیںدنیا کو بار بار یہ احساس دلانا ہوگا کہ کوئی بھی حکومت ہو پالیسی کا تسلسل جاری رہے گا تو حکومتیں ہمیں سنجیدگی سے لیں گی اور سرمایہ کار بھی راغب ہوں گے۔ فور م میں شرکت کے دوران وزیر اعظم وقت کے بہت پابند رہے۔ ہمیں حیرت ہوتی تھی کہ ڈیووس میں اتنے سارے سربراہان مملکت اور اہم شخصیات کی موجودگی میں سارا انتظام کس خوبی سے چلتا رہا۔

پاکستان کے بارے میں دنیا جاننا چاہتی ہے کہ سی پیک منصوبوں سے عوام کو ثمرات ملیں گے یا نہیں خود میں بھی یہ سوال پوچھتا رہتا ہوں اور آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہیں کیونکہ گزشتہ ستر سال کے دوران پاکستان کو کئی مواقع ملے لیکن اس کے ثمرات عوام تک منتقل نہ ہوسکے ۔ فور م میں شریک عالمی مندوبین نے وزیر اعظم سے بھی یہ سوال کیا کہ چین جس نے اس صدی کا سب سے بڑا سماجی معرکہ سر کیا اور 20سے 25سال میں اپنی 50کروڑ آبادی کو غربت کی لکیر سے اوپر نکال دیا تو ہم نے چین کی دوستی سے کیا سیکھا۔ ہم نے ایسی کیا پالیسی بنائی تاکہ معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک منتقل ہوسکیں۔

مصطفی کمال قاضی(سابق سفیر سوئٹزرلینڈ)

ورلڈ اکنامک فورم میں حکومت کی سطح سے بڑی مضبوط نمائندگی رہی سترہ سال سے اکرام سہگل بریک فاسٹ میٹنگ کرے رہے ہیں انھیں پورے ملک کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے اکرام سہگل نے پویلین قائم کیا گیا۔جاوید آکھائی نے بھی اپنا کردار ادا کیا اس پویلین کے ذریعے پورے پاکستان کے کاروباری اداروں کو پروموٹ کیا گیاجو بہت خوش آئند ہے اور تمام اداروں نے اپنے پروفائل پیش کیے۔ یہ وہاں پہلے سے ہوتا رہا ہے اور ہر ملک کا اپنا ایک فورم ہوتا تھا مجھے حیرت ہے کہ پاکستان کا نجی شعبہ اتنے سالوں میں کوئی پرائیویٹ فورم متعارف نہ کراسکا۔ اکرام سہگل کی کاوشیں بہت قابل تعریف ہیںتمام اداروں اور حکومت کو چاہیے کہ اکرام سہگل اور جاوید آکھائی کے ہاتھ مضبوط کریں۔ ورلڈ اکنامک فورم میں معیشت پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے لیکن ہماری تاریخ ہے کہ ہم سیاست کو اہمیت دیتے رہے اب نجی شعبے کا اقدام ایک نیا قدم ہے ۔ وزیر اعظم کے سامنے بھی یہ بات اٹھائی گئی کہ کیا حکومت اپنا کردار ادا کرے گی یا نہیں انھوں نے کہا کہ بہتر ہے کہ نجی شعبہ کرے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی پویلین اکرام سہگل اور جاوید آکھائی کی کاوشوں سے بہت کامیاب رہا۔ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کا ہی نہیں روس کا بھی پویلین تھا جبکہ انڈیا کی موجودگی بے تحاشہ نمایاں رہی نئے کاروباری آئیڈیاز پید کیے گئے جیسے کرپٹو کرنسی اور بلاک چین وغیرہ ان نئے تصورارت پر نوجوان نسل کو توجہ دینا ہوگا۔ روس کے فورم میں امریکا کے ساتھ تمام امور پر بات چیت کی گئی دونوں ملکوں کی اہم شخصیات موجود تھیں۔ یہ فورم ایک پروفیسر نے ستر کے اوائل میں نجی طور پر متعارف کرایا اب یہ ایک عالمی میلہ بن چکا ہے جس میں سیاسی قائدین اور کاروباری اداروں کے سربراہان شرکت کرتے ہیں ۔حکومت کی نمائندگی تو کئی سال سے ہورہی ہے لیکن اب نجی شعبے کو آگے آنا چاہیے تاکہ ہم حکومت پر انحصار نہ کریں۔ میں پاکستان کی حکومت کو مشورہ دوں گا کہ معاشی پالیسیوں پر زیادہ توجہ دی جائے ملکوں کے مابین تعلقات میں بھی معاشی روابط کو اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا میں وسیع پیمانے پر تبدیلی آرہی ہے ان چیزوں کو بغور دیکھنے کی ضرورت ہے اور اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلقات میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ ملکوں کے تعلقات اور سفارت کاری کے بنیادی مقاصد اپنے لیے امکانات کو فروغ دینا ہے میرے خیال سے ہم ایک جمود کی حالت کا شکار ہیں ستر سال سے دوستیاں اور دشمنیاں یکسوئی سے نبھارہے ہیں۔ ہم ایران کے ساتھ تعلقا ت کو اہمیت نہیں دے رہے بھارت کے ساتھ ایران کی سرحد نہیں ملتی لیکن ان کے ایران کے ساتھ معاشی تعلقات ہم سے زیادہ مضبوط ہیں پورا خطہ ایران سے توانائی حاصل کررہا ہے ترکمانستان، ترکی اور عراق بھی ایران کے وسائل سے استفادہ کررہا ہے لیکن ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ التواء کا شکا رہے۔ ہم خود کو انرجی کی راہداری اور گیٹ وے کہتے ہیں لیکن ہم نے خود اس گیٹ وے کو بند رکررکھا ہے کب تک خطے میں اپنے تعلقات کو افغانستان کے حالات سے منسلک کرتے رہیں گے۔ ہمیں اپنے آپشنز بڑھانے کی ضرورت ہے یہ تمام موضوعات بین الاقوامی فورمز پر اٹھانا ضروری ہیں۔ اس حوالے سے روس میں بھی سینٹ پیٹرزبرگ فورم ہورہا ہے یہ پاکستان کے لیے موثر ہوسکتا ہے اکرام سہگل صاحب وہاں بھی پاکستان کی نمائندگی بڑھانے پر غور کریں۔

اکرام سہگل(دفاعی تجزیہ کار، چیئرمین پاتھ فائنڈر گروپ)

میں ایکسپریس میڈیا گروپ کا بے حد مشکور ہوں جنھوں نیورلڈ اکنامک فورم کے حوالے سے اس گفتگو کا اہتمام کیا۔ دراصل لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک کوئی علاقہ ہوتا ہے لیکن اس ملک یا علاقہ میں رہنے والے لوگ اسے ملک بناتے ہیں۔میں یہاں اپنی کمپنی کے جانثار اور فرض شناس گارڈز کی ضرور مثال دوں گا جنہوں نے ایک نجی بینک کے کروڑوں روپے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور گولیوں سے سینہ چھلنی ہونے کے باوجود مرتے ہوئے گارڈ نے روپے سے بھرا بیگ برانچ میں واپس پھینک دیا اور اس دوران دیگر گارڈز اور ڈرائیور کی جانثاری کی وجہ سے یہ ڈکیتی ناکام بنادی گئی حالانکہ مجرموں کے پاس گارڈز سے زیادہ خود کار ہتھیار تھے یہاں جذبہ زیادہ طاقت ور تھا اسی جذبہ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ہم نے ورلڈ اکنامک فور م میں بھی اسی جذبہ کے تحت کام کیا وہاں ہمارے لیے کام کرنے والے پاکستانی ڈرائیور چار پانچ گھنٹے آرام کرتے اور کہتے کہ یہ ہم پاکستان کے لیے کررہے ہیں۔ میں نے جب دیکھا کہ بھارت کو ورلڈ اکنامک فورم میں غلبہ حاصل ہے تو میں نے خود چھوٹے انداز میں پاکستان کی نمائندگی بڑھانے کا فیصلہ کیا جس میں پہلے سابق صدر مشرف، وزیر اعظم شوکت عزیز اور عمران خان نے بھی شرکت کی۔پاکستان میں بہت صلاحیت ہے ہم خوراک اور کپڑے لتے میں خود کفیل ہیں دنیا میں کوئی ابھرتا ہوا یا ترقی پذیر ملک وسائل کے لحاظ سے ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ پاکستان دنیا میں کاپر اور تانبے کے ذخائر کا دوسرا بڑا ملک، کوئلے کے ذخائر کا تیسرا، کپاس اور کپاس کی صنعت کا حامل چوتھا دودھ کی پیداوار کا حامل پانچوں ، چاول کی پیداوار کا چھٹا گندم کی پیداوار کاساتوواں بڑا ملک ہے اور نیوکلیئر طاقت کا حامل ہے۔ ہم اپنی لڑائیوں میں مصروف رہے اور ملک کا پوٹینشل سامنے نہ لاسکے۔ مجھے بہت سے لوگوں اور دوستوں نے تعاون کی پیش کش کی لیکن میں خود یہ خدمت انجام دیتا رہا اس سال جاوید آکھائی شریک ہوگئے ہیں۔ میں پویلین کو کامیاب بنانے میں ہما بقائی، مصطفی کمال قاضی، ڈاکٹرعشرت حسین، منیر کمال، ڈاکٹر عشرت حسین ، سیف الدین زومکا والا ، سدرہ اقبال اور دیگر کا مشکور ہوں۔ پاکستانی میڈیا نے بھی اپنا فعال کردار ادا کیا بالخصوص ایکسپریس ٹریبیون کے صحافی شہباز رانا وہاں سے تجزیے اور رپورٹس شایع کرتے رہے۔ میڈیا کی بھرپور کوریج حاصل ہوئی یہ کام ایک یا دو دن میں نہیں ہوسکتا دراصل پاکستان کی اہمیت اس وقت سے شرو ع ہوئی جب جنر ل راحیل شریف نے فورم میں شرکت کی ایک جگہ ان سے سوال کیا گیا کہ ملٹری کورٹس انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں جس پر راحیل شریف نے جواب دیا کہ جب میں نے اپنے دو افسروں کے کٹے ہوئے سر دہشت گردوں کے ہاتھوں میں دیکھے اور تیسرے افسر کے سر سے وہ فٹ بال کھیل رہے تھے تو کہاں کے انسانی حقوق۔۔اس بات پر وہاں شرکاء نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو دنیا کی اشرافیہ ہیں اور کارپوریشنز کو میڈیا اور انڈسٹری کو کنٹرول کرتے ہیں اس موقع پردنیا کی اشرافیہ نے تسلیم کیا کہ دنیا بکواس کرتی ہے حقیقت میں دہشت گردوں سے پاکستانی قوم اور افواج پاکستان مقابلہ کررہی ہیں۔ وزیر اعظم نے جو موقف اختیار کیا میں بہت مطمئن ہوںمشرف کی ڈیلیوری بہت اچھی تھی شوتک عزیز عمران خان وغیرہ لیکن پہلی مرتبہ شاہد خاقان پاکستان کے وزیر اعظإ نے اپنی ڈیلیوی بہت اچھی طریقے سے کی ، سوال جواب میں بہت اتنے اچھیدے کہ حران کن تھے۔۔ بلاول کو تعریف کرانا سراہانا بہت اچھی بات تھی۔ سب سے بڑی بات چ نیو یارک ٹائمز کی ہیڈنگ تھی ، اس نے ہیڈ لائن دی چائنا ان ٹرمپ آئوٹ۔۔۔ چین نے اپنا ایک آفیشل سفیر بھیجا جس نے کہا کہ میں بات کرنا چاہتا ہوں لیکن میں نیم عذرتے کرلی لیکن اس نے کہا کہ بولنا ضرور ہے۔۔۔ فلور سیب ولنے کی اجازت دی سی اپیک کے لیے سپورٹ وضاحت کی۔
Load Next Story