قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کی جانچ پڑتال شروع
سندھ میں قائم کمیٹی نے کراچی کے 9 تعلیمی اداروں کادورہ کرلیا،کسی بھی ادارے کی صورتحال پر100فیصداطمینان بخش نہیں، کمیٹی
چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت پر قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کے تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لیے پاکستان بھر سمیت سندھ میں تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے قانون کے تعلیمی اداروں کا معیار، استعداد، اساتذہ کی صلاحیت، تعلیمی ماحول اور تعلیم بہتر بنانے کے لیے جانچ پڑتال شروع کردی ہے۔
قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کا معیار اور تعلیمی بہتری کے لیے چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے گئے کمیشن نے سندھ میں جو کمیٹی تشکیل دی اس میں جسٹس رٹائرڈ خلجی عارف حسین، ریجنل ڈائریکٹر اعلیٰ تعلیمی کمیشن سندھ جاوید علی میمن، پاکستان بار کونسل کے رکن اختر حسین، سندھ بار کونسل کے رکن عبدالوہاب سمیت 6 ممبران شامل ہیں کمیٹی کے اراکین جانچ کررہے ہیں کہ قانون کی جامعات، لاکالجوں اور لا انسٹیٹیوٹس میں فیکلٹی اراکین کتنے ہیں اور اساتذہ کا تعلق کہاں سے ہے طلبہ کی انرولمنٹ کتنی ہے۔
ایل ایل بی اور ایل ایل ایم سمیت دیگر کورسز میں کتنی جگہ موجود ہے درسگاہوں میں لائبریری ہے یا نہیں، اگر ہے تو کتنی بڑی ہے، کتنے کمپوٹرز ہیں، کون کون سی کتابیں موجود ہیں اور کتابوں کا معیار کیا ہے، کلاس روم کتنی ہیں، تعلیمی اداروں کا انفرا اسٹرکچر اورمعیار تعلیم کیسا ہے۔
ذرائع کے مطابق سندھ میں شہید ذوالفقار بھٹو علی یونیورسٹی آف لا، دادابھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کراچی، ہمدرد یونیورسٹی، جامعہ کراچی، اسلامیہ لاکالج، سندھ مسلم لا کالج، گورنمنٹ لا کالج خیرپور، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور، مہران انسٹیٹیوٹ آف لا جامشورو سمیت قانون کی تعلیم دینے والے تمام اداروں میں تعلیم کے معیار اور انفرااسٹرکچر کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مرتب کرکے سپریم کورٹ کی جانب سے غیرمعیاری لا کالجوں کی بہتری اور قانون کی تعلیم کا معیار بہتر کرنے کے لیے معروف قانون دان حامد خان کی سربراہی میں قائم کے گئے کمیشن کو پیش کرے گی سندھ میں قائم کمیٹی نے اب تک کراچی میں ہمدرد یونیورسٹی، دادابھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، کراچی یونیورسٹی، سندھ مسلم لا کالج، شہید ذوالفقار بھٹو علی یونیورسٹی آف لا، ملیر لا کالج سمیت 9 تعلیمی اداروں کا دورہ کیا ہے اور کسی بھی ایک تعلیمی ادارے میں تعلیمی ماحول اور معیار سے مطمئن نہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ شہید بھٹو یونیورسٹی آف لا میں دورے کے دوران بریفنگ دی گئی کہ ایک کلاس میں 70 طلبہ زیر تعلیم ہیں لیکن جب عملی طور پر کلاس کا دورہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کلاس میں صرف30 سے 35 طلبہ بیٹھے ہوئے تھے واضح رہے کہ جنوری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے غیر معیاری لا کالجوں کی بہتری اور قانون کی تعلیم کا معیار بہتر کرنے کے لیے کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کا معیار اور تعلیمی بہتری کے لیے چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے گئے کمیشن نے سندھ میں جو کمیٹی تشکیل دی اس میں جسٹس رٹائرڈ خلجی عارف حسین، ریجنل ڈائریکٹر اعلیٰ تعلیمی کمیشن سندھ جاوید علی میمن، پاکستان بار کونسل کے رکن اختر حسین، سندھ بار کونسل کے رکن عبدالوہاب سمیت 6 ممبران شامل ہیں کمیٹی کے اراکین جانچ کررہے ہیں کہ قانون کی جامعات، لاکالجوں اور لا انسٹیٹیوٹس میں فیکلٹی اراکین کتنے ہیں اور اساتذہ کا تعلق کہاں سے ہے طلبہ کی انرولمنٹ کتنی ہے۔
ایل ایل بی اور ایل ایل ایم سمیت دیگر کورسز میں کتنی جگہ موجود ہے درسگاہوں میں لائبریری ہے یا نہیں، اگر ہے تو کتنی بڑی ہے، کتنے کمپوٹرز ہیں، کون کون سی کتابیں موجود ہیں اور کتابوں کا معیار کیا ہے، کلاس روم کتنی ہیں، تعلیمی اداروں کا انفرا اسٹرکچر اورمعیار تعلیم کیسا ہے۔
ذرائع کے مطابق سندھ میں شہید ذوالفقار بھٹو علی یونیورسٹی آف لا، دادابھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کراچی، ہمدرد یونیورسٹی، جامعہ کراچی، اسلامیہ لاکالج، سندھ مسلم لا کالج، گورنمنٹ لا کالج خیرپور، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور، مہران انسٹیٹیوٹ آف لا جامشورو سمیت قانون کی تعلیم دینے والے تمام اداروں میں تعلیم کے معیار اور انفرااسٹرکچر کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مرتب کرکے سپریم کورٹ کی جانب سے غیرمعیاری لا کالجوں کی بہتری اور قانون کی تعلیم کا معیار بہتر کرنے کے لیے معروف قانون دان حامد خان کی سربراہی میں قائم کے گئے کمیشن کو پیش کرے گی سندھ میں قائم کمیٹی نے اب تک کراچی میں ہمدرد یونیورسٹی، دادابھائی انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، کراچی یونیورسٹی، سندھ مسلم لا کالج، شہید ذوالفقار بھٹو علی یونیورسٹی آف لا، ملیر لا کالج سمیت 9 تعلیمی اداروں کا دورہ کیا ہے اور کسی بھی ایک تعلیمی ادارے میں تعلیمی ماحول اور معیار سے مطمئن نہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ شہید بھٹو یونیورسٹی آف لا میں دورے کے دوران بریفنگ دی گئی کہ ایک کلاس میں 70 طلبہ زیر تعلیم ہیں لیکن جب عملی طور پر کلاس کا دورہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کلاس میں صرف30 سے 35 طلبہ بیٹھے ہوئے تھے واضح رہے کہ جنوری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی جانب سے غیر معیاری لا کالجوں کی بہتری اور قانون کی تعلیم کا معیار بہتر کرنے کے لیے کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔