شہر میں کھلے مقامات، کھیل کے میدانوں اور پارکوں کی کمی سے پتنگ بازی کے شوق میں بھی کمی آنے لگی۔
کراچی میں پتنگ سازی کے کام سے ہزاروں افراد کا روزگار بھی وابستہ ہے تاہم اب پتنگ بازی کا رجحان کم ہونے سے پتنگ سازوں کی آمدن اور روزگار بھی متاثر ہورہا ہے پتنگ ساز ماہر کاری گروں کا کہنا ہے کہ پتنگ سازی کے فن کو زندہ رکھنے کے لیے اس فن کی سرپرستی نہ کی گئی تو کئی دیگر روایتوں کی طرح پتنگ سازی کا فن اور ثقافتی روایت بھی معدوم ہوجائے گی۔
کراچی میں نئی رہائشی عمارتوں اور آبادیوں کی تعمیر سے خالی اراضی تیزی سے ختم ہورہی ہے کچھ عرصہ بیشتر کراچی میں پتنگ بازی کے بڑے مقابلے منعقد ہوتے تھے جس میں شہر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شوقین اور پیشہ ور پتنگ باز شرکت کرتے تھے شہر میں خالی میدانوں کی کمی کی وجہ سے پتنگ بازی کے مقابلے شہر سے باہر منعقد ہورہے ہیں اور شوقین افراد کی بڑی تعداد اب بھی ہفتہ وار تعطیل کے دن شہر سے باہر جاکر اپنے شوق کی تسکین کرتے ہیں۔
کراچی میں سی ویو پر پتنگ بازی کے مقابلے منعقد ہوتے رہے جو انتظامیہ کی پابند ی کے بعد سرجانی ٹائون منتقل ہوگئے تاہم مکانات اور رہائشی پراجیکٹس کی تیزی سے تعمیر کی وجہ سے پتنگ بازی کے مقابلے شہر سے باہر کے علاقوں میں منتقل ہوگئے جن میں تیسر ٹائون اور سعدی ٹاؤن، میمن گوٹھ، روپالی اور ہاکس بے شامل ہیں پتنگ بازوں کے مطابق اب مہنگائی کی وجہ سے پتنگ بازی کا شوق جیب پر بھاری پڑتا ہے۔
شہر کے باہر جانے آنے پر اضافی خرچ آتا ہے اور ان علاقوں میں پولیس بھی پتنگ بازوں کو تنگ کرتی ہے اور ایک دن کوئی مقابلہ منعقد کرنے کے لیے 2 سے 3 ہزار روپے فی پارٹی نذرانہ طلب کیا جاتا ہے اور نذرانہ نہ دینے پر شرط لگاکر پتنگ اڑانے کا الزام عائد کرکے ہراساں کیا جاتا ہے رمضان کے دوران پتنگوں کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے جب نوکری پیشہ اور عام افراد بھی وقت گزاری کے لیے عصر تا مغرب پتنگ اڑاتے ہیں۔
کھلے میدان نہ ہونے سے پتنگ ساز چھوٹی پتنگیں بنانے لگے
شہر میں کھلے مقامات، کھیل کے میدان اور پارک نہ ہونے سے اب زیادہ تر پتنگ ساز چھوٹے سائز کی پتنگیں بنارہے ہیں کراچی میں تین ہٹی کے نزدیک پتنگ بنانے والے مشہور کاریگر شہزاد احمد عرف شدو بھائی گزشتہ 50 سال سے پتنگیں بنانے کے کام سے وابستہ ہیں۔
شہزاد احمد نے بتایا کہ وہ 10 سال کی عمر سے پتنگیں بنارہے ہیں اور اس شوق کے انتہائی عروج کے زمانے دیکھ چکے ہیں انھوں نے پتنگ بنانے کا کام 10 سال کی عمر میں شروع کیا اور اپنے شوق کے لیے پتنگین بناکر اڑاتے رہے بعد میں اس فن میں مہارت حاصل کرلی ا ن کی بنائی گئی پتنگوں نے بڑے بڑے مقابلے جیتے اور ان کی بنائی گئی پتنگیں دو سے تین ہزار میٹر تک کی بلندی پر توازن قائم رکھتی ہیں۔
شہزاد احمد کے مطابق شہر میں کھلے میدانوں کی کمی سے پتنگ سازی کا کام بھی متاثر ہورہا ہے اور اب چھوٹے سائز کی پتنگیں بنائی جارہی ہیں شہر میں اچھی پتنگ بنانے والے کایگر بھی تیزی سے کم ہورہے ہیں اگر اس فن کی سرپرستی نہ کی گئی تو دیگر روایتوں کی طرح یہ روایت بھی معدوم ہوجائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ اب پتنگ بازی کا شوق لانڈھی، ملیر ، کورنگی تک محدود ہوگیا ہے ان علاقوں میں اب بھی بلند عمارتیں کم ہیں اور خالی اراضی اور میدان باقی ہیں اس لیے ان علاقوں میں پتنگ بنانے والوں کا روزگار اب بھی برقرار ہے دیگر علاقوں میں بچوں کا شوق پورا کرنے کے لیے چھوٹی پتنگیں فروخت کی جاتی ہیں جن کی تیاری میں محنت بڑی پتنگ کے برابر ہے لیکن منافع نہ ہونے کے برابر ہے پتنگ بنانے والے کاریگروں کے بچے اب یہ کام نہیں کرنا چاہتے اور دیگر پیشے اختیار کررہے ہیں۔
شہزاد احمد کے مطابق پتنگ کے کاغذ اور بانس کی قیمت بڑھنے سے لاگت بڑھ گئی ہے لیکن خریدار زیادہ قیمت دینے کو تیار نہیں ہیں جو کاغذ ڈھائی سو روپے کا ملتا تھا اب ہزار بارہ سو روپے کا ملتا ہے اسی طرح بانس کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے پہلے بانس کا گٹھا ایک ہزار سے بارہ سو روپے تک ملتا تھا جو اب پندرہ سو روپے کا مل رہا ہے کاغذ کا معیار قیمت بڑھنے کے باوجود خراب ہوگیا ہے جس سے پتنگوں کا معیار بھی خراب ہوتا ہے پتنگ بنانے کے لیے بانس اور کاغذ بھارت سے درآمد ہوتا رہا جو اب بند ہوچکا ہے اب زیادہ تر مقامی کاغذ اور برما سے درآمد شدہ بانس استعمال ہوتا ہے۔
درآمدی بانس میں گانٹھ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے بڑے سائز کی پتنگ کے لیے بھی بغیر گانٹھ والی تیلیاں بن جاتی ہیں اور درآمدی بانس میں پھانس کم ہوتی ہے اور آسانی سے چکنا ہوجاتا ہے درآمدی بانس وزن میں بھی ہلکا ہوتا ہے جس سے پتنگ کا معیار بہتر ہوتا ہے۔
آسمان کی بلندیوں کو چھونے والی پتنگیں 5 مراحل میں بنتی ہیں
آسمان کی بلندیوں کو چھونے والی پتنگیں 5 مراحل سے گزرکر تیار ہوتی ہیں پہلے مرحلے میں مختلف رنگوں کے کاغذ کو مربع شکل میں کاٹا جاتا ہے سائز کے لحاظ سے کٹے ہوئے کاغذوں کی گڈیاں بنائی جاتی ہیں دوسرے مرحلے میں بانس کی پتلی پتلی تیلیاں تیار کی جاتی ہیں ان پتلی تیلیوں کو چھیل کر چکنا کیا جاتا ہے اور مطلوبہ سائز میں کاٹا جاتاہے۔
ان تیلیوں میں سے افقی سمت میں لگائی جانے والی تیلی کو ٹھڈا اور محرابی شکل میں عمودی سمت میں لگی تیلی کو کانپ کہتے ہیں تیسرے مرحلے میں کاغذ پر کانپ اور ٹھڈاچپکایا جاتا ہے چوتھے مرحلے میں کاغذ کے کناروں میں دھاگا پرویا جاتا ہے تاکہ کنارے مضبوط رہیں اور ہوا کے دباؤ کا مقابلہ کرسکیں آخری مرحلے میں پتنگ کے ٹھڈے اور کانپ کو کاغذ کی چیپیوں سے جوڑ کا مضبوط بنایا جاتا ہے اور پتنگ کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے دم لگائی جاتی ہے۔
ایک کاریگر دن میں ساٹھ سے ستر پتنگیں تیار کرتا ہے فی پتنگ ایک سے دو روپے کی مزدوری ملتی ہے جن کاریگروں کے پاس زیادہ کام ہو وہ پانچ سو سے آٹھ سو روپے کی دیہاڑی کمالیتے ہیں شہر کے مشہور کاریگر اور پتنگ ساز بارہ مہینے پتنگ بناتے ہیں جبکہ زیادہ تر کارخانوں اور دکانوں میں سیزن کے تین چا ر مہینوں میں پتنگ بنائی اور فروخت کی جاتی ہے لاہو ر میں بسنت اور پتنگ بازی پر پابندی سے بہت سے کاریگروں نے کراچی کا رخ کرلیا ہے جو سیزن کے دنوں میں روزگار کمانے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔
لاہور میں بنائی گئی پتنگیں مڈل ایسٹ دبئی اور افغانستان تک ایکسپورٹ کی جاتی رہیں تاہم اب ایکسپورٹ بھی بند ہوچکی ہے کاری گروں کے مطابق کراچی میں پتنگ سازی کے کام کی سرپرستی کرکے روزگار کے مواقع مہیاکیے جاسکتے ہیں اور پتنگوں کی ایکسپورٹ سے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے پتنگ بنانے والوں کے مطابق انتخابات کے دنوں میں کراچی میں پتنگ کے کارخانوں میں کام بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایم کیو ایم کا انتخابی نشان پتنگ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پتنگ کے آرڈرز ملتے ہیں۔
بڑے کاروباری ادارے اور مختلف سماجی کلب بھی بہار اور گرما کی آمد کے موقع پر فیسٹیول منعقد کرتے ہیں اور تشہیری مقاصد کیلیے پتنگیں تیار کرواتے ہیں جس سے پتنگ سازوں کو اضافی روزگار ملتا ہے پتنگوں کے مخصوص سائز ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ تین والی پتنگ فروخت ہوتی ہے، ادھی ، پونی اور ڈھائی کی پتنگیں بھی تیار کی جاتی ہیں یہ نام کاغذ کی شیٹ میں سے نکلنے والی پتنگوں کی تعداد کے لحاظ سے دیے گئے ہیں۔