اصل ڈیوٹی
صاحب! سچ بتاؤں تو اِس حساب سے ہماری اصل ڈیوٹی گھر جاکر شروع ہوتی ہے، گھر سے باہر نہیں
''کیا مصیبت ہے؟ گھر میں قدم بعد میں رکھو، فرمائشیں پہلے شروع ہوجاتی ہیں۔ سارا دن کا تھکا ہارا بندہ گھر آرام کرنے آتا ہے لیکن آتے ہی فرمائشیں شروع ہو جاتی ہیں۔'' میں غصہ میں نجانے کیا کچھ بولے جارہا تھا۔ ''اوہو نافع! کیا ہوگیا ہےآپ کو؟ پھر شروع ہوگئے ہیں۔ ابھی تو آپ گھر آئے ہیں اورغصہ شروع۔ پتا ہے بیچارہ صبح سے آپ کا انتظار کررہا تھا،'' میری بیوی حسب معمول مجھے سمجھانے لگی۔
''یہی تو کہہ رہا ہوں ابھی تو گھر آیا ہوں۔ جوتے بھی نہیں اتارے اور حضرت نے فرمائشوں کی پوٹلی کھول کررکھ دی ہے۔''
''تو اور کس سے کہے؟''
''تو تم خود اس کے ساتھ چلی جاتیں۔ ٹیکسی یا رکشہ منگوا لیتیں،'' میں نے اسے مشورہ دیا۔
''بہت اچھے... اب باہر کے کام بھی میں ہی کروں؟ پہلے ہی سارا دن بچوں کے اتنے کام ہوتے ہیں کہ ٹائم ہی نہی ملتا۔''
''کہاں اتنے کام ہوتے ہیں؟ سارا دن تو فارغ رہتی ہو۔ کام تو میں کرتا ہوں سارا دن باہر،'' میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
''ویسے تو آپ کی غیرت بڑی جاگتی ہے؟ ایسے میں باہر جاؤں گی تب تو برا نہیں لگے گا آپ کو؟'' میری بیوی نے کہا۔
''بے پردہ باہر جاؤ گی تو برا لگے گا ہی۔''
''اچھا! اب میرے پردے پر نہ جائیے! جا کر اسے چیز دلوا لائیے، اتنی دیر میں کھانا نکالتی ہوں۔''
''کوئی ضرورت نہیں اتنا تردد کرنے کی۔ مجھے نہیں کھانا کچھ۔۔ میں باہر سے کھالیتا ہوں،'' میں اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔
''نافع بیٹا کہاں جارہے ہو؟'' میری والدہ نے مجھے آواز دی۔
''بس ماں جی وہی روز کی کھٹ پٹ۔ گھر آتے ہی فرمائشیں شروع،'' میں نے چھوٹے بچے کی طرح ماں سے شکایت لگائی۔
''ہائے کیا زمانہ آگیا ہے! تمارے اباجی گھر آتے تو سب بچوں کو کہہ دیتی کہ انہیں کوئی کچھ نہ کہے، سارے دن کے تھکے ہارے آئے ہیں۔ اور اب دیکھو، بیویوں کو خیال ہی نہیں۔''
یہ بات سننی تھی کہ میری بیوی کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ دانت پیستے ہوئے بولی، ''بس انہی باتوں نے تو ان کی عادت خراب کی ہے۔''
''اور ایسی باتوں سے تم اپنے بچے کی عادت نہیں خراب کررہیں؟'' میں نے بھی فوراً جواب دیا۔
''ہائے ہائے! کیسے زبان چلاتی ہے تو لڑکی اپنے بچوں کے باپ کے سامنے! توبہ توبہ۔''
''ماں جی! بس کیا کریں۔ اب وہ زمانہ کہاں جب شوہروں کی عزت ہوتی تھی۔''
''چل آجا میں تمہیں روٹی بنادیتی ہوں،'' امی نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔
''نہیں، میری تو بھوک ہی مرگئی ہے۔ میں باہر جارہا ہوں۔''
میں جلدی سے باہر نکلا اور پیچھے سے ساس بہو کی آوازیں گلی تک آرہی تھیں۔ جاتے ہوئے یہ بھی خیال نہیں آیا کہ موٹرسائیکل کی چابی لیتا جاؤں اور نہ ہی ہمت جتا پایا کہ گھر واپس جاکر چابی لے آؤں۔
جیب سے موبائل نکالا، کار بکنگ ایپ سے موٹرسائیکل منگوائی اور مین روڈ پر کھڑا اس کا انتظار کرنے لگا۔
چند لمحوں کے بعد موبائل پر نوٹیفیکیشن آیا کہ آپ کا ڈرائیور آگیا ہے۔
اردگرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ کوئی موٹرسائیکل سوار نہ کھڑا تھا سوائے ایک موٹرسائکل سوار کے۔ اور اُس کی حالت سے نہیں لگتا تھا کہ ڈرائیور ہے۔ کپڑے گرد سے بھرے ہوئے، ٹوٹی پھوٹی موٹرسائیکل۔
عمومی طور پر تو ان کمپنیوں کے ڈرائیور تو بڑی اچھی حالت میں ہوتے ہیں۔ جیب سے فون نکالا اور ڈرائیور کو فون کیا تو خلاف توقع اسی موٹرسائیکل سوار نے اٹھایا۔
اس کی کانپتی اور لڑ کھڑاتی آواز سن کر تو اور حیرانی ہوئی۔ محسوس ہوا کہ کہیں اس نے نشہ تو نہیں کیا ہوا؟
اس کے پاس گیا تو اُس نے شائستگی لیکن لڑکھراتی ہوئی آواز میں ''السلام علیکم سر'' کہا۔
موٹرسائیکل پر نمبر دیکھا تو ایپ پر لکھے نمبر سے مختلف تھا۔ لیکن تصریر تو اُس کی ہی لگی ہوئی تھی۔
دل کو تسلی ہوئی کہ نہیں بندہ تو وہی ہے۔
اُس نے میری پریشانی بھانپی اور بولا ''سر میں دوسری موٹرسائیکل لایا ہوں۔ جس کا نمبر لکھا ہوا ہے وہ خراب ہوگئی تھی اس لیے نہیں لایا۔''
میں نے اثبات میں سرہلایا اور پوچھا ''بھائی خیر تو ہے ناں، آپ اتنا کانپ کیوں رہے ہیں؟''
''سر میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا، ابھی اسپتال سے ہوکر آیا ہوں،'' اُس نے اپنی آستین اُوپر کرکے دکھایا تو واقعی وہاں ڈرپ کی سوئیوں کے نشانات موجود تھے۔
''سر،آپ کک ماردیجیے۔ میری ٹانگ پر بھی چوٹ لگی ہوئی ہے۔''
اس کی بات سن کر میرا تھوڑا سا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ لیکن کک والی بات سُن کر پھر دوبارہ پارہ چڑھ گیا کہ اگر یہ کام بھی مجھے کرنا ہے تو موٹرسائیکل بھی خود ہی چلا لیتا ہوں! اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب کینسل کی تو اس کے بھی پیسے دینے پڑجائیں گے۔
کک ماری اور اُس کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار ہوگیا۔
اُس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اُس کے منہ سے نکلتے ہوئے ''ہائے اللہ'' اور ''یااللہ تیرا شکر'' کے الفاظ اُس کی تکلیف کا احساس دلارہے تھے۔
اُس کی حالت دیکھ کر ترس بھی آرہا تھا اور اپنے آپ پر غصہ بھی، کہ اگر چابی لے آیا ہوتا تو کم ازکم اس کی موٹرسائیکل پر سوار ہوکر اپنی جان جوکھوں میں نہ ڈالتا۔
''بھائی آپ کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا؟'' تھوڑی دیر خاموشی کے بعد میں نے اُس سے پوچھا۔
''سر، آپ سے پہلے ایک رائڈ (ride) لینے جارہا تھا کہ ایک تیز رفتارگاڑی نے ٹکر ماردی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اسپتال میں ہوں۔''
''بے احتیاطی سے چلارہے تھے؟''
''نہیں سر، میں بہت احتیاط سے چلا رہا تھا۔''
''تو پھر کیسے ایکسیڈنٹ ہوگیا؟''
''سر، مجھے گھر سے میرے بیٹے کا فون آیا تھا۔ فون کان پر نہیں لگایا ہوا تھا بلکہ ہینڈ فری لگایا ہوا تھا۔ کہہ رہا تھا، پاپا مجھے برگر کھانا ہے، آتے ہوئے لیتے آئیے گا۔''
''بچے بھی بس ایسے ہی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں۔ اس کی فرمائش کے چکر میں اللہ کو پیارے ہوجانا تھا'' اس کا جواب سن کر تسلی ہوئی کہ چلو دنیا میں کوئی اور بھی ہے جو ان باتوں سے تنگ ہے۔
''صاحب جی، یہ ہم سے نہ فرمائش کریں تو اور کس سے کریں؟ ہم کماتے بھی تو اِن ہی کےلیے ہیں۔''
مجھے اِس کا جواب سن کر حیرانی ہوئی کہ وہ اب بھی اُسی کی طرف داری کررہا تھا۔ اس کے جواب نے مجھے مایوس کیا۔
''تو گھر والوں کو پتا ہے ایکسیڈنٹ کا؟'' میں نے پوچھا۔
''نہیں سر، گھر پر بتادیتا تو وہ پریشان ہوجاتے،'' اس نے جواب دیا۔
''تو اسپتال سے سیدھے گھر چلے جاتے۔''
''سر، سوچا تو یہی تھا لیکن کسی نامراد نے میرے بٹوے سے سارے پیسے نکال لیے۔ کوئی 560 روپے کے قریب تھے۔ ظالم نے وہ بھی نکال لیے۔ ایکسیڈنٹ بھی ہوا اور پیسے بھی گئے، ایسی حالت میں بھلا کیسے گھر جاسکتا تھا؟''
میں نے دل میں سوچا کیسا بے وقوف ہے۔ ہڈیاں تڑوانے کے بعد بھی اُن ہی کا خیال آرہا ہے؟
''تو ایسے ہی گھر چلے جاتے۔ آرام کرتے،'' میں نے اسے مشورہ دیا۔
''سر آپ بات تو ٹھیک کررہے ہیں مگر ایسے گھر جاتا تو خود بھی بھوکا سوتا اور بچے بھی۔ بچے نے برگر کا کہا ہے اب تو ساری رات بھی باہر رہ کر کمانا پڑا تو کماؤں گا۔''
''عجیب بندے ہو بھائی!'' مجھے اس کی بات سن کر حیرت ہوئی۔
''سر عجیب والی بات تو کوئی نہیں۔ آپ پڑھے لکھے ہیں، آپ تو جانتے ہوں گے کہ مرد کا اصل کام تو گھر والوں کی پرورش کےلیے وسائل کا انتظام کرنا ہے۔''
''کیا مطلب؟ اب اس کےلیے کیا بندہ موت کے منہ میں چلاجائے؟ ان بچوں کو بس چیزوں سے مطلب ہوتا ہے، باپ کی حالت سے نہیں۔''
''سر یہ تو پرورش کی بات ہے ناں۔ اگر بچوں کو پیار دو گے تو پیار لو گے۔ مادی چیزوں سے ان کا پیٹ بھرو گے تو بدلے میں ویسا ہی برتاؤ ملے گا۔ مکافات عمل اسی کا نام ہے ناں سر جی۔''
''پیار دو تب بھی آگے سے کچھ نہیں ملتا،'' میں نے کہا۔
''یہ تو اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔''
اس کا جواب سن کر مجھے غصہ آرہا تھا کہ یہ کیا بھاشن دینے لگ گیا ہے۔
میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پھر بولا ''دیکھیے سر جی! یہ جو ہم سارا دن خوار ہوتے ہیں، اپنے جوتے رگڑتے ہیں، لوگوں کی باتیں سنتے ہیں، یہ ہماری نوکری کا تقاضا نہیں ہوتا۔ دراصل یہ سب ہم اپنے گھر والوں کےلیے برداشت کرتے ہیں تاکہ اُن کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ سچ بتاؤں تو اِس حساب سے ہماری اصل ڈیوٹی گھر جاکر شروع ہوتی ہے، گھر سے باہر نہیں۔''
اُس کی لڑکھڑاتی اور کانپتی آواز میں کہی گئی یہ بات سیدھی میرے دل پر جاکر لگی۔
وہ بولا ''یہ تو سر جی! بیوقوفی ہوئی کہ جن کےلیے ہم کماتے ہیں، اُن پر ہی گھر آکر غصہ اتارتے ہیں۔ اور اللہ کے نبیﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔ اب اگر ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی اچھے نہ ہوئے، اُن پر ہی اپنا غصہ اتارتے رہے تو بھلا ہم ایک اچھے انسان کیسے ہوئے؟''
میں اُس کی باتیں سُن کر لاجواب ہوگیا۔
وہ مزید بولا ''سر جی! اللہ کے نبیﷺ نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ بدترین شخص وہ ہے جس کے غصے کی وجہ سے لوگ اس سے بات نہ کریں۔ اب اگر میں گھر جاتا تو سارا غصہ اپنے گھر والوں پر نکالتا۔''
اس کی بات سن کر میں کانپ گیا۔ اب تک جتنی بار گھر آکر غصہ ہوا تھا، وہ سب میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگا اور غلطی مجھے اپنی ہی محسوس ہوئی۔
میرے گھر آنے کے بعد جتنی بھی لڑائیاں امی اور بیوی میں ہوئیں، ان کا اصل ذمہ دار میں ہی تھا۔ مجھے اپنے آپ سے شرم آنے لگی۔
اس سے پہلے وہ مجھے کچھ بولتا میں نے اُس سے گھر کی طرف موڑنے کو کہا۔
''سر جی! اب تو ہم پہنچنے والے ہیں۔''
''نہیں بھائی! اب میری ڈیوٹی کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ میں لیٹ ہورہا ہوں۔''
وہ ہلکا سا مسکرایا اور میرے گھر کی طرف موٹرسائیکل کو موڑ لیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''یہی تو کہہ رہا ہوں ابھی تو گھر آیا ہوں۔ جوتے بھی نہیں اتارے اور حضرت نے فرمائشوں کی پوٹلی کھول کررکھ دی ہے۔''
''تو اور کس سے کہے؟''
''تو تم خود اس کے ساتھ چلی جاتیں۔ ٹیکسی یا رکشہ منگوا لیتیں،'' میں نے اسے مشورہ دیا۔
''بہت اچھے... اب باہر کے کام بھی میں ہی کروں؟ پہلے ہی سارا دن بچوں کے اتنے کام ہوتے ہیں کہ ٹائم ہی نہی ملتا۔''
''کہاں اتنے کام ہوتے ہیں؟ سارا دن تو فارغ رہتی ہو۔ کام تو میں کرتا ہوں سارا دن باہر،'' میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
''ویسے تو آپ کی غیرت بڑی جاگتی ہے؟ ایسے میں باہر جاؤں گی تب تو برا نہیں لگے گا آپ کو؟'' میری بیوی نے کہا۔
''بے پردہ باہر جاؤ گی تو برا لگے گا ہی۔''
''اچھا! اب میرے پردے پر نہ جائیے! جا کر اسے چیز دلوا لائیے، اتنی دیر میں کھانا نکالتی ہوں۔''
''کوئی ضرورت نہیں اتنا تردد کرنے کی۔ مجھے نہیں کھانا کچھ۔۔ میں باہر سے کھالیتا ہوں،'' میں اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔
''نافع بیٹا کہاں جارہے ہو؟'' میری والدہ نے مجھے آواز دی۔
''بس ماں جی وہی روز کی کھٹ پٹ۔ گھر آتے ہی فرمائشیں شروع،'' میں نے چھوٹے بچے کی طرح ماں سے شکایت لگائی۔
''ہائے کیا زمانہ آگیا ہے! تمارے اباجی گھر آتے تو سب بچوں کو کہہ دیتی کہ انہیں کوئی کچھ نہ کہے، سارے دن کے تھکے ہارے آئے ہیں۔ اور اب دیکھو، بیویوں کو خیال ہی نہیں۔''
یہ بات سننی تھی کہ میری بیوی کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ دانت پیستے ہوئے بولی، ''بس انہی باتوں نے تو ان کی عادت خراب کی ہے۔''
''اور ایسی باتوں سے تم اپنے بچے کی عادت نہیں خراب کررہیں؟'' میں نے بھی فوراً جواب دیا۔
''ہائے ہائے! کیسے زبان چلاتی ہے تو لڑکی اپنے بچوں کے باپ کے سامنے! توبہ توبہ۔''
''ماں جی! بس کیا کریں۔ اب وہ زمانہ کہاں جب شوہروں کی عزت ہوتی تھی۔''
''چل آجا میں تمہیں روٹی بنادیتی ہوں،'' امی نے میرا بازو پکڑ کر کہا۔
''نہیں، میری تو بھوک ہی مرگئی ہے۔ میں باہر جارہا ہوں۔''
میں جلدی سے باہر نکلا اور پیچھے سے ساس بہو کی آوازیں گلی تک آرہی تھیں۔ جاتے ہوئے یہ بھی خیال نہیں آیا کہ موٹرسائیکل کی چابی لیتا جاؤں اور نہ ہی ہمت جتا پایا کہ گھر واپس جاکر چابی لے آؤں۔
جیب سے موبائل نکالا، کار بکنگ ایپ سے موٹرسائیکل منگوائی اور مین روڈ پر کھڑا اس کا انتظار کرنے لگا۔
چند لمحوں کے بعد موبائل پر نوٹیفیکیشن آیا کہ آپ کا ڈرائیور آگیا ہے۔
اردگرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ کوئی موٹرسائیکل سوار نہ کھڑا تھا سوائے ایک موٹرسائکل سوار کے۔ اور اُس کی حالت سے نہیں لگتا تھا کہ ڈرائیور ہے۔ کپڑے گرد سے بھرے ہوئے، ٹوٹی پھوٹی موٹرسائیکل۔
عمومی طور پر تو ان کمپنیوں کے ڈرائیور تو بڑی اچھی حالت میں ہوتے ہیں۔ جیب سے فون نکالا اور ڈرائیور کو فون کیا تو خلاف توقع اسی موٹرسائیکل سوار نے اٹھایا۔
اس کی کانپتی اور لڑ کھڑاتی آواز سن کر تو اور حیرانی ہوئی۔ محسوس ہوا کہ کہیں اس نے نشہ تو نہیں کیا ہوا؟
اس کے پاس گیا تو اُس نے شائستگی لیکن لڑکھراتی ہوئی آواز میں ''السلام علیکم سر'' کہا۔
موٹرسائیکل پر نمبر دیکھا تو ایپ پر لکھے نمبر سے مختلف تھا۔ لیکن تصریر تو اُس کی ہی لگی ہوئی تھی۔
دل کو تسلی ہوئی کہ نہیں بندہ تو وہی ہے۔
اُس نے میری پریشانی بھانپی اور بولا ''سر میں دوسری موٹرسائیکل لایا ہوں۔ جس کا نمبر لکھا ہوا ہے وہ خراب ہوگئی تھی اس لیے نہیں لایا۔''
میں نے اثبات میں سرہلایا اور پوچھا ''بھائی خیر تو ہے ناں، آپ اتنا کانپ کیوں رہے ہیں؟''
''سر میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا، ابھی اسپتال سے ہوکر آیا ہوں،'' اُس نے اپنی آستین اُوپر کرکے دکھایا تو واقعی وہاں ڈرپ کی سوئیوں کے نشانات موجود تھے۔
''سر،آپ کک ماردیجیے۔ میری ٹانگ پر بھی چوٹ لگی ہوئی ہے۔''
اس کی بات سن کر میرا تھوڑا سا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ لیکن کک والی بات سُن کر پھر دوبارہ پارہ چڑھ گیا کہ اگر یہ کام بھی مجھے کرنا ہے تو موٹرسائیکل بھی خود ہی چلا لیتا ہوں! اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب کینسل کی تو اس کے بھی پیسے دینے پڑجائیں گے۔
کک ماری اور اُس کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار ہوگیا۔
اُس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اُس کے منہ سے نکلتے ہوئے ''ہائے اللہ'' اور ''یااللہ تیرا شکر'' کے الفاظ اُس کی تکلیف کا احساس دلارہے تھے۔
اُس کی حالت دیکھ کر ترس بھی آرہا تھا اور اپنے آپ پر غصہ بھی، کہ اگر چابی لے آیا ہوتا تو کم ازکم اس کی موٹرسائیکل پر سوار ہوکر اپنی جان جوکھوں میں نہ ڈالتا۔
''بھائی آپ کا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا؟'' تھوڑی دیر خاموشی کے بعد میں نے اُس سے پوچھا۔
''سر، آپ سے پہلے ایک رائڈ (ride) لینے جارہا تھا کہ ایک تیز رفتارگاڑی نے ٹکر ماردی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اسپتال میں ہوں۔''
''بے احتیاطی سے چلارہے تھے؟''
''نہیں سر، میں بہت احتیاط سے چلا رہا تھا۔''
''تو پھر کیسے ایکسیڈنٹ ہوگیا؟''
''سر، مجھے گھر سے میرے بیٹے کا فون آیا تھا۔ فون کان پر نہیں لگایا ہوا تھا بلکہ ہینڈ فری لگایا ہوا تھا۔ کہہ رہا تھا، پاپا مجھے برگر کھانا ہے، آتے ہوئے لیتے آئیے گا۔''
''بچے بھی بس ایسے ہی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں۔ اس کی فرمائش کے چکر میں اللہ کو پیارے ہوجانا تھا'' اس کا جواب سن کر تسلی ہوئی کہ چلو دنیا میں کوئی اور بھی ہے جو ان باتوں سے تنگ ہے۔
''صاحب جی، یہ ہم سے نہ فرمائش کریں تو اور کس سے کریں؟ ہم کماتے بھی تو اِن ہی کےلیے ہیں۔''
مجھے اِس کا جواب سن کر حیرانی ہوئی کہ وہ اب بھی اُسی کی طرف داری کررہا تھا۔ اس کے جواب نے مجھے مایوس کیا۔
''تو گھر والوں کو پتا ہے ایکسیڈنٹ کا؟'' میں نے پوچھا۔
''نہیں سر، گھر پر بتادیتا تو وہ پریشان ہوجاتے،'' اس نے جواب دیا۔
''تو اسپتال سے سیدھے گھر چلے جاتے۔''
''سر، سوچا تو یہی تھا لیکن کسی نامراد نے میرے بٹوے سے سارے پیسے نکال لیے۔ کوئی 560 روپے کے قریب تھے۔ ظالم نے وہ بھی نکال لیے۔ ایکسیڈنٹ بھی ہوا اور پیسے بھی گئے، ایسی حالت میں بھلا کیسے گھر جاسکتا تھا؟''
میں نے دل میں سوچا کیسا بے وقوف ہے۔ ہڈیاں تڑوانے کے بعد بھی اُن ہی کا خیال آرہا ہے؟
''تو ایسے ہی گھر چلے جاتے۔ آرام کرتے،'' میں نے اسے مشورہ دیا۔
''سر آپ بات تو ٹھیک کررہے ہیں مگر ایسے گھر جاتا تو خود بھی بھوکا سوتا اور بچے بھی۔ بچے نے برگر کا کہا ہے اب تو ساری رات بھی باہر رہ کر کمانا پڑا تو کماؤں گا۔''
''عجیب بندے ہو بھائی!'' مجھے اس کی بات سن کر حیرت ہوئی۔
''سر عجیب والی بات تو کوئی نہیں۔ آپ پڑھے لکھے ہیں، آپ تو جانتے ہوں گے کہ مرد کا اصل کام تو گھر والوں کی پرورش کےلیے وسائل کا انتظام کرنا ہے۔''
''کیا مطلب؟ اب اس کےلیے کیا بندہ موت کے منہ میں چلاجائے؟ ان بچوں کو بس چیزوں سے مطلب ہوتا ہے، باپ کی حالت سے نہیں۔''
''سر یہ تو پرورش کی بات ہے ناں۔ اگر بچوں کو پیار دو گے تو پیار لو گے۔ مادی چیزوں سے ان کا پیٹ بھرو گے تو بدلے میں ویسا ہی برتاؤ ملے گا۔ مکافات عمل اسی کا نام ہے ناں سر جی۔''
''پیار دو تب بھی آگے سے کچھ نہیں ملتا،'' میں نے کہا۔
''یہ تو اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔''
اس کا جواب سن کر مجھے غصہ آرہا تھا کہ یہ کیا بھاشن دینے لگ گیا ہے۔
میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پھر بولا ''دیکھیے سر جی! یہ جو ہم سارا دن خوار ہوتے ہیں، اپنے جوتے رگڑتے ہیں، لوگوں کی باتیں سنتے ہیں، یہ ہماری نوکری کا تقاضا نہیں ہوتا۔ دراصل یہ سب ہم اپنے گھر والوں کےلیے برداشت کرتے ہیں تاکہ اُن کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔ سچ بتاؤں تو اِس حساب سے ہماری اصل ڈیوٹی گھر جاکر شروع ہوتی ہے، گھر سے باہر نہیں۔''
اُس کی لڑکھڑاتی اور کانپتی آواز میں کہی گئی یہ بات سیدھی میرے دل پر جاکر لگی۔
وہ بولا ''یہ تو سر جی! بیوقوفی ہوئی کہ جن کےلیے ہم کماتے ہیں، اُن پر ہی گھر آکر غصہ اتارتے ہیں۔ اور اللہ کے نبیﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔ اب اگر ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی اچھے نہ ہوئے، اُن پر ہی اپنا غصہ اتارتے رہے تو بھلا ہم ایک اچھے انسان کیسے ہوئے؟''
میں اُس کی باتیں سُن کر لاجواب ہوگیا۔
وہ مزید بولا ''سر جی! اللہ کے نبیﷺ نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ بدترین شخص وہ ہے جس کے غصے کی وجہ سے لوگ اس سے بات نہ کریں۔ اب اگر میں گھر جاتا تو سارا غصہ اپنے گھر والوں پر نکالتا۔''
اس کی بات سن کر میں کانپ گیا۔ اب تک جتنی بار گھر آکر غصہ ہوا تھا، وہ سب میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگا اور غلطی مجھے اپنی ہی محسوس ہوئی۔
میرے گھر آنے کے بعد جتنی بھی لڑائیاں امی اور بیوی میں ہوئیں، ان کا اصل ذمہ دار میں ہی تھا۔ مجھے اپنے آپ سے شرم آنے لگی۔
اس سے پہلے وہ مجھے کچھ بولتا میں نے اُس سے گھر کی طرف موڑنے کو کہا۔
''سر جی! اب تو ہم پہنچنے والے ہیں۔''
''نہیں بھائی! اب میری ڈیوٹی کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ میں لیٹ ہورہا ہوں۔''
وہ ہلکا سا مسکرایا اور میرے گھر کی طرف موٹرسائیکل کو موڑ لیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔