نظریے کی ماں …ضرورت
خان صاحب کے اس ’’بے نقاب‘‘ کرنے والے نظریے کا سب سے پہلا شکار غالباً متحدہ قوی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین تھے
عمران خان اپنی سیاست کے بارے میں ہمیشہ سے اصولوں اور قاعدوں کی بات کرتے رہے ہیں۔ اسی بات کا پرچار ہر بار تحریک انصاف نے کیا کہ ان کے خان صاحب ہر سطح پر ''کرپشن'' سے پاک واحد نظریاتی لیڈر ہیں۔ پھر خود خان صاحب نے بارہا اس عزم کا اعادہ فرمایا کہ وہ اپنی پارٹی میں صاف ستھرے لوگوں کو ہی لیں گے اور ساتھ ہی ملک کے طول و عرض میں پھیلے روایتی سیاستدانوں کو بے نقاب بھی کرتے رہیں گے۔
خان صاحب کے اس ''بے نقاب'' کرنے والے نظریے کا سب سے پہلا شکار غالباً متحدہ قوی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین تھے۔ جن کے خلاف ثبوت لے کر خان صاحب لندن یاترا کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ پھر ایک دم خان صاحب کو یہ احساس ہو گیا کہ اندرون سندھ میں جیالوں کو قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور دوسری طرف وہ کراچی میں ایم کیو ایم سے تعلقات بگاڑ کر سیاسی سرگرمیاں تو درکنار شاید ایک جلسہ بھی منعقد نہیں کر سکتے۔ اس طرح نظریاتی سیاست نے ضرورت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ اور خان صاحب کا متحدہ قومی موومنٹ کے بارے نظریہ تاریخ کی گرد میں کہیں گم ہو گیا۔
ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ خان صاحب ہمیشہ سے ''اسٹیٹس کو'' کے خلاف برسرپیکار رہے۔ مگر تحریک انصاف نے مقبولیت حاصل کی تو ملک کی کچھ ''قوتوں'' نے خان صاحب کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے ساتھ کچھ بڑے سیاسی راہنمائوں کو شامل کریں۔ عام تاثر یہ ملا کہ شاید Electables کو بھرتی کر کے خان صاحب سیاست کے میدان میں سرپٹ دوڑنے کی جلدی میں ہیں تاہم میرا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے۔ جو جماعت سیاست کے روایتی سورمائوں کو للکارنے سے نوجوانوں میں 71ء کی پیپلز پارٹی جیسی مقبول ہو رہی تھی، اس کے کرتا دھرتا اتنے معصوم نہیں تھے کہ وہ یہ نہ جانتے کہ ان روایتی سیاستدانوں کو تحریک انصاف کی کشتی میں سوار کر کے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار لیں گے۔
مبینہ طور پر اس بنیادی نظریے کی تبدیلی کے پیچھے خان صاحب یا ان کے قریب ترین ساتھیوں کے بجائے چند غیر سیاسی لوگ کارفرما تھے۔ یہ سیاسی سے غیر سیاسی لوگ اکثر پاکستان کی سیاست میں ہوش کے بجائے جوش والی پالیسیاں بنوا کر ملک کی کشتی کو منجدھار میں پھنساتے رہے ہیں۔ شاید خان صاحب کو اس بار بھی اپنے سیاسی نظریے پر قائم رہنے سے زیادہ ان طاقت کے سوداگروں کی آشیرباد حاصل کرنے کی ضرورت زیادہ محسوس ہوئی۔ نتیجتاً تحریک انصاف میں دھڑا دھڑ ''چلے ہوئے کارتوس'' آنا شروع ہوئے۔ اور آج یہ وقت ہے کہ ملک کو جاگیرداروں اور سرمایہ دارں کے چنگل سے آزاد کروانے کا نعرہ لگانے والی پارٹی کے جلسے میں اسٹیج پر ملک کے نامور جاگیردار اور صنعت کار براجمان دکھائی دیتے ہیں۔ بہاولپور کے نواب سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ اس بات کی حالیہ واضح مثال ہے۔
اسی طرح پنجاب میں اپنی سیاسی قوت منوانے کے بعد خان صاحب کو خیبر پی کے میں دھاک بٹھانے کا مشکل مرحلہ درپیش تھا۔ اسی لیے خان صاحب نے بھرپور مہم چلا کر بارہا یہ بات بارآور کرانے کی کوشش کی کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے اس دہشت گردی کا مستقل خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ خیبر پختونخوا میں طالبا ن کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے افراد کی تعداد بے شک زیادہ ہے اسی لیے عمران خان نے کبھی کھلم کھلا طالبان کی مخالفت میں کوئی واضح بیان نہیں دیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ خان صاحب اپنی ایک بھارت یاترا کے دوران شدت پسند عناصر کے بارے میں لب کشائی نہ کرنے کے پیچھے بنیادی وجہ اپنی اور اپنے پارٹی کارکنوں کی جان کی حفاظت کی ضرورت بیان کرتے سنے گئے۔ تو پھر کیا خان صاحب کا طالبان کے بارے میں نقطہ نظر حفظان جان کی ضرورت پر مبنی ہے یا نظریے پر؟ یہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
دوسری طرف یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ میں طالبان کے حوالے سے اپنا اثر و رسوخ اور اہمیت ثابت کرنا موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات میں بہت اہم ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس ''ثالثی'' کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب عمران خان نے وزیرستان کی طرف مارچ کیا تواپنے ساتھ بین الاقوامی میڈیا بھی لے گئے۔ اس وقت مولانا صاحب کو لگا کہ شاید ''ثالثی'' کا یہ ترپ کا پتہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ پھر ممکنہ طور پر خان صاحب کو اس ''ثالثی'' سے دور رکھنے کے لیے مولانا صاحب نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ نتیجتاً خان صاحب کا جنوبی وزیرستان کا سفر منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ خان صاحب نے بارہا اپنا سفر مختصر کرنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب وہ منزل مقصود کے قریب پہنچے تو حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔
ان بدلتے ہوئے ''حالات'' کے پیچھے مبینہ طور پر مولانا صاحب کا اثر و رسوخ کار فرما تھا۔ مولانا صاحب نے اپنے اثر و رسوخ کا ایک جلوہ اس وقت دکھایا جب طالبان نے حکومت کو مذاکرات کے لیے پیش کردہ ناموں میں مولانا فضل الرحمن کو تو شامل کیا مگر عمران خان کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا۔ یہ پاکستانی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لیے واضح پیغام تھا کہ طالبان کے ساتھ کسی بھی سطح پرمذاکرات کی کنجی ابھی بھی خود مولانا صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ خان صاحب کا وزیرستان مارچ کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح پر طالبان اور باقی دنیا کے مابین ''پل'' بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ خان صاحب اکثر اپنا یہ غم غلط کرتے ہوئے مولانا صاحب کے ان جملوں کو دہراتے ہیں کہ خان صاحب کا وزیرستان مارچ یہود ونصاریٰ کی سازش تھی۔
اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی ملکی امن و امان کی صورتحال آل پارٹیز کانفرنس سے تحریک انصاف کا بائیکاٹ اسی کشمکش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پھر حال ہی میں خان صاحب اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان اس ثالثی کے ''کلیدی کردار'' کی رسہ کشی نے ایک اور موڑ لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اہم طالبان کمانڈروں کے استاد گھرانے یعنی مولانا سمیع الحق سے انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔ دوسری طرف خان صاحب نے ترکی با ترکی جواب دیتے ہوے طالبان کے لیے انتہائی نرم گوشہ رکھنے والے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کو رام کر لیا ہے۔ اور اب تحریک انصاف' جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے۔ ایک بار پھر تحریک انصاف کے بہت سے ''لبرل'' متوالے اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر تعجب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ شاید وہ تبدیلی کے متوالے خان صاحب کے ''نظریات'' کے پیچھے کارفرما ''ضروریات'' سے ابھی تک نابلد ہیں۔