منتخب حکومت کے پانچ سال کیا کھویا کیا پایا…آخری حصہ
امن و امان کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکامی اور خراب طرز حکومت، جمہوریت کی ناکامی نہیں ہے۔
طرز حکمرانی کے حوالے سے یہ بات درست ہے کہ حکومت نا اہل ثابت ہوئی۔ عوام کے اصل مسائل دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ و نسلی بنیاد پر قتل و غارت گری، امن و امان کی ابتر صورت حال اور تمام حکومتی اداروں میں بہتر گورننس کی فراہمی ہے۔
یہ مسائل جمہوریت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئے، یہ اس وجہ سے اکٹھے ہوئے کہ اس معاشرے میں جمہوریت کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ جمہوری اتفاق رائے ہی ہے جس نے عسکری اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے تقویت دی۔ یہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ اتفاق رائے ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو چیلنج اور فرقہ وارانہ تقسیم کو کم کرنا ہے۔ تاہم کراچی میں امن و امان بحال کرنے میں ناکامی کی ذمے داری تمام اتحادی شراکت داروں پر یکساں عائد ہوتی ہے۔
امن و امان کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکامی اور خراب طرز حکومت، جمہوریت کی ناکامی نہیں ہے۔ بہت سے ممالک کو ان مسائل کا سامنا ہے مگر وہاں اس بدانتظامی کا الزام اس سوال کے بجائے کہ ملک میں جمہوریت ہونی چاہیے یا نہیں، حکومت کو دیا جاتا ہے۔ ان مسائل کا حل جمہوریت میں مضمر ہے جو ووٹروں کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں کو ذمے داری ادا کرنے پر مجبور کریں۔ اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ووٹروں کو اختیار ہے کہ وہ دوبارہ انھیں منتخب نہ کریں۔ اس کے برعکس آمریت میں نہ تو آپ بیوروکریٹس کو مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ووٹ کے ذریعے انھیں نکال باہر کرسکتے ہیں۔
سبکدوش ہونے والی جمہوری حکومت پر جن بڑی ناکامیوں کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے وہ یہ ہیں: بد عنوانی، توانائی کا بحران، بیروزگاری میں اضافہ، بہت زیادہ افراط زر، ٹیکس ریونیو کی کم وصولی، معیشت پر سرکاری شعبے کے تباہ کن اثرات، پچھلے پانچ سال میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 58 فیصد کمی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکن صورت حال اور مجموعی قومی پیداوار کی کم افزائش۔ کرپشن کو روکنا، جس نے ترقیاتی کاموں اور سماجی شعبے میں عوام کے لیے خدمات کی فراہمی کو متاثر کیا، اتحادی حکومت کی ذمے داری تھی، اس لیے یہ الزام اسے قبول کرنا ہوگا۔ اس کے باوجود کہ میڈیا برہم ہوکر چیختا رہا، کرپشن کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ گزشتہ فوجی حکومت کے مقابلے میں پچھلے پانچ سال کے دوران بدعنوانی کی سطح میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
توانائی کا بحران اتحادی حکومت کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ 2004 میں ہی یہ بحران کھل کر سامنے آگیا تھا۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے محسوس کرلیا تھا کہ 2010 تک ہمیں بجلی کے بہت زیادہ استعمال کے اوقات میں 5000 میگا واٹ کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مشن شروع کیا گیا تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جائے، مگر منظوری کا عمل سست تھا اور چونکہ نجی شعبہ 8-9 سینٹ فی یونٹ پر اصرار کر رہا تھا اس لیے بیورو کریسی نئے منصوبوں کو منظور کرنے سے بہت زیادہ گھبرا رہی تھی۔
چنانچہ بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں تاخیر ہوئی۔ لیکن یہ سب باتیں اتحادی حکومت کو اس الزام سے نہیں بچا سکتیںکہ وہ بجلی پیدا کرنے کے وسائل کا انتظام کرنے میں ناکام رہی۔ بجلی کی قلت کے بڑے اسباب یہ ہیں: نا اہل سرکاری شعبے کا بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس چلانا، بجلی کی بہت زیادہ چوری، حکومت اور سیاسی طور پر بااثر افراد کی طرف سے واجبات کی عدم ادائیگی اور بجلی کے subsidized نرخ، جن سے امیر لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ قدرتی گیس کی کمی کا ہے۔ یہ بات بھی سابق حکومت کے دور میں واضح ہوگئی تھی کہ CNG کی شکل میں گیس کا ضیاع زیادہ عرصہ نہیں چلے گا۔ گیس کی کمی کو پورا کرنے کی صرف تین صورتیں ہیں: پائپ لائن کے ذریعے گیس کی درآمد جو کہ ایک طویل المدت حل ہے؛ ایل این جی کی درآمد سے ایک مختصر نظام الاوقات میں دبائو کچھ کم ہو سکتا ہے اور پاکستان میں تیل اور گیس کے ذخائرکی تلاش و پیداوار میں مزید سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام اقدامات بیک وقت کرنا ہوں گے۔ حکومت نے ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے ابھی تک جو موقف اختیار کر رکھا ہے وہ جرأت مندانہ ہے، مگر حکومت کے تجارتی معاہدوں میں بعض قوتوں کی مداخلت نے بھی ایل این جی درآمد کرنے کے پروجیکٹ پر عمل درآمد کی رفتار سست کی ہے۔
بیروزگاری بڑھنے کے متعدد محرکات ہیں۔ آبادی میں اضافے کی شرح ابھی تک ناقابل برداشت ہے اور یہ ہماراسنگین ترین مسئلہ ہے۔ فطری وراثتی تقسیم سے زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جانے اور کھیتی باڑی کے مشینی طریقوں نے گائوں دیہات کی فاضل محنت کو شہروں کا رخ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ شہروں میں امن و امان کی صورت حال اور جمہوری نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی رفتار سست ہوگئی ہے، اس لیے ضرورت کے مطابق ملازمت کے مواقع حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں عالمی حالات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بیروزگاری کی شرح پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔
اسی طرح افراط زر بھی عالمی حالات کے تابع ہے۔ اسی عرصے کے دوران باقی دنیا میں بھی خوراک اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ یہ بات درست ہے کہ اس سے عام آدمی متاثر ہو رہا ہے لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کیا جائے، کیونکہ اس سے کاشتکار متاثر ہوتے ہیں جن کے پاس 42 فیصد افرادی قوت روزی کماتی ہے۔ سبکدوش ہونے والی اتحادی حکومت نے ایسی پالیسیوں پر عمل کیا جن کے نتیجے میں پیسہ شہری علاقوں سے دیہی علاقوں میں منتقل ہوا۔ اس پالیسی کا فائدہ زیادہ نقدآور فصلوں کی پیداوار کی شکل میں ہوا، جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں کے عوام کی قوت خرید بڑھ گئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، داخلی طور پر بے گھر ہوجانے والے لوگوں کی دوبارہ آباد کاری اور ایک کے بعد ایک آنیوالے دو بڑے سیلابوں سے جو تباہی ہوئی، اس کو بھی بھولنا نہیں چاہیے۔
ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مزاحمت کی وجہ سے حکومت ریگولیٹری جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے میں ناکام رہی۔ ان دونوں جماعتوں کو کاروباری لوگوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی حکومتیں بھی ٹیکس چوری کرنے والوں کو پکڑنے میں ناکام رہی تھیں۔ چنانچہ اس کے لیے جمہوریت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اصل وجہ سابق حکومتوں کا کمزور عزم تھا۔ اگرچہ بدانتظامی اور لاتعداد دوسرے ایسے خارجی عوامل کی وجہ سے، جو کسی بھی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں، سرکاری معیشت کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکی، تاہم متوازی معیشت اس تیزی سے پھلی پھولی کہ مجموعی قومی پیداوار کے 100 فیصد کے مساوی آگئی۔ اس سے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے اور اشیائے صرف کی صنعت کے فروغ کی راہ ہموار ہورہی ہے۔
اقتصادی محاذ پر سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ بے زمین کسانوں اور اجرت پر کام کرنے والے محنت کشوں کا ابھی تک استحصال ہورہا ہے مگر اس معاملے پر ڈرائنگ رومز اور ٹاک شوز میں بحث نہیں کی جاتی۔ اگر تبدیلی لانی ہے تو شروع میں ہمارا وار بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور زرعی کارکنوں کے لیے بنائے گئے لیبر لاز کے عدم نفاذ کے خلاف ہونا چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوریت کے غم میں ہلکان ہونے والے، ناہمواری اور استحصال کے خلاف جدوجہد میں شامل نہیں ہوتے۔ وہ اپنے ایئرکنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر کسی مہربان مسیحا کی آس میں صرف جمہوریت اور سیاست دانوں پر لعن طعن کرتے ہیں۔