ملکۂ غزل فریدہ خانم کے اعزاز میں تقریب
فریدہ خانم کو ان کی فنی خدمات پر سب سے بڑا سرکاری اعزاز پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔
ISLAMABAD:
فریدہ خانم غزل گائیکی کا ایک بڑا معتبر نام ہے، جنہیں ہر انداز کی گائیکی پر مکمل عبور حاصل ہے جبکہ غزل میں انہوں نے جو اسلوب اور انداز اپنایا وہ پاک وہند کی کسی اور خاتون گائیکہ کو نصیب نہیں ہو سکا۔
ان کی فنی خدمات پر سب سے بڑا سرکاری اعزاز پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے، مگر چند روز قبل الحمراء لاہور آرٹس کونسل نے اس لیجنڈ گلوکارہ کے اعزاز میں الحمرا2 میں پروقار تقریب کا انعقاد کیا ۔جس کے مہمان خصوصی نگران وزیراعلی نجم سیٹھی تھے جو اپنی اہلیہ جگنو محسن کے ہمراہ تشریف لائے۔ان کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری انفارمیشن طاہر رضا ہمدانی، ڈاکٹر عمر عادل، ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد علی بلوچ، ڈپٹی ڈائریکٹر ذوالفقار علی زلفی اور کارٹونسٹ جاوید اقبال سمیت دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ پروگرام کی میزبانی ارشد محمود کررہے تھے۔
جنہوں نے تما م شرکاء اور مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہا اور ملکہ غزل فریدہ خانم کو سٹیج پرآنے کی دعوت دی تو ہال میں موجود شرکاء اورمہمانان گرامی نے کھڑے ہوکر تالیاں بجا کر لیجنڈ گلوکارہ کا استقبال کیا۔جس پر فریدہ خانم نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ محبتیں اور پیار ہی میرا سرمایہ ہیں، میرے لئے اس سے زیادہ خوشی اور کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ مجھے اتنی والہانہ محبت کرنے والے ملے ہیں، یہ آپ لوگوں کی دعائیں اورپیار ہی ہے کہ آج یہاں آپ سب کے درمیان ہوں۔ میزبان ارشد محمود نے جب ان سے کہا کہ اپنے بارے میں کچھ بتائیے تو فریدہ خانم نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت روشن آراء بیگم کا بڑا نام تھا ، اور مجھے بھی گانے کا شوق تھا جس کی باقاعدہ تربیت استاد عاشق علی خان سے لی۔
جو جس پر دست شفقت رکھ دیتے تو وہ اپنی منزل پالیتا، میں بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں کہ جنہیں استاد عاشق علی خان جیسا استاد ملا۔پاکستان آنے کے بعدمیری خواہش ہوئی کہ میں بھی فلموں میں کام کروں ، جس کے لئے میں نے سٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کردئیے، جہاں صبح سے لے کر شام تک بیٹھ بیٹھ کر آجاتی ، مگر کسی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر نے کوئی رسپانس نہ دیا ۔کوئی کہتا کہ اس کی شکل بچیوں جیسی ہے اور کوئی کہتا کہ یہ ہیروئن نہیں لگتی ۔
تین سے چار سال ناکامی کے بعد میں نے اداکاری کرنے کا خیال ذہن سے ہی نکال دیا اور ساری توجہ گائیکی پر دینے لگی ۔ سب سے پہلے ریڈیو پاکستان سے گانا شروع کیا ،جہاں معاوضہ بہت کم ملتا تھا،50 روپے کاچیک ملتا جو میرے لئے نہ ہونے کے برابر ہوتے، کیونکہ میں ایسی پرآسائش زندگی گزارانا چاہتی تھی جس میں زندگی کی ہر چیز میسر ہو ، اسی دوران میری شادی ہو گئی جس کے بعد گھر داری اور گائیکی تک محدود ہو گئی۔ غزل اورلائیٹ گائیکی میری ہمیشہ اولین ترجیح رہی مگر اس کے علاوہ ہر قسم کا گانا بھی گایا ، مگر مجھے زیادہ شہرت غزل اور لائٹ گائیکی سے ہی ملی۔ آج جب کامیابیوں پر نظر ڈالتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ جس نے مجھ ناچیز کو اتنا نوازا ہے کہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔
دریں اثناء گلوکار غلام عباس نے فریدہ خانم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محسن نقوی اور ناصرکاظمی کی غزلیں پیش کیں جنہیں حاضرین نے بے حد سراہا۔ اس موقع پر غلام عباس نے کہا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ فریدہ خانم جیسی گائیکہ کے دور میں ہیں، برصغیر میں غزل گائیکی میں بہت سے نام ہیں ،مگر خواتین کی غزل گائیکی میں فریدہ خانم کا کوئی مقابل نہیں ہے۔گلوکارہ فریدہ خانم نے نئی گلوکارہ بنیش پرویز کو پرفارم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک باصلاحیت نوجوان گلوکارہ ہے جو مستقبل میں غزل اور لائیٹ موسیقی کا ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہوگی۔ گلوکارہ بنیش رشید نے دو آئٹمز سنا کر سما ں باندھ دیا ۔
تقریب کے آغاز میں حمید ہارون نے فریدہ خانم کو الحمراء لاہور آرٹس کونسل کی طرف سے پانچ لاکھ روپے کا چیک اور گولڈ میڈل پیش کیا جبکہ نگران وزیر اعلی پنجاب نجم سیٹھی نے گلدستہ پیش کیا اور کہا کہ فریدہ خانم ہمارے دلوں میں ہیں ان کیلئے جان بھی حاضر ہے۔ انہوں نے کہا فریدہ خانم کی رہائش میرے گھر کے قریب ہی ہے مگر اب ان کا ہمارے گھر آنا جانا بھی ہے کیونکہ میرا بیٹا علی ان سے گلوکاری سیکھ رہا ہے اور اسی نے ہی مجھے موسیقی کے بارے میں اتنا کچھ بتا دیا ہے کہ میں اچھی موسیقی سننے کے قابل ہوگیا ہوں۔ یہاں اس تقریب میں آکر بے حد خوشی ہوئی ہے اور میری دعا ہے کہ یہ سدا خوش اور سلامت رہیں۔
میزبان ارشد محمود نے الحمراء لاہور آرٹس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمدعلی بلوچ ، ڈپٹی ڈائریکٹر ذوالفقار علی زلفی سمیت تمام انتظامیہ کو بہترین اور یادگار پروگرام کرنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ اس طرح کی تقریبات کے انعقاد سے نوجوان نسل کو اپنے لیجنڈ کے بارے میں آگاہی ملنے سے انہیں پتہ چلے گا کہ ان کی ثقافت میں بھی کیسے کیسے نگینے موجود ہیں کہ جن کی چمک اور روشنی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات نمایاں ہیں۔یہ تقریب تین گھنٹے تک جاری رہی اور نگران وزیراعلی آخر تک پروگرام سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔
فریدہ خانم غزل گائیکی کا ایک بڑا معتبر نام ہے، جنہیں ہر انداز کی گائیکی پر مکمل عبور حاصل ہے جبکہ غزل میں انہوں نے جو اسلوب اور انداز اپنایا وہ پاک وہند کی کسی اور خاتون گائیکہ کو نصیب نہیں ہو سکا۔
ان کی فنی خدمات پر سب سے بڑا سرکاری اعزاز پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے، مگر چند روز قبل الحمراء لاہور آرٹس کونسل نے اس لیجنڈ گلوکارہ کے اعزاز میں الحمرا2 میں پروقار تقریب کا انعقاد کیا ۔جس کے مہمان خصوصی نگران وزیراعلی نجم سیٹھی تھے جو اپنی اہلیہ جگنو محسن کے ہمراہ تشریف لائے۔ان کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری انفارمیشن طاہر رضا ہمدانی، ڈاکٹر عمر عادل، ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد علی بلوچ، ڈپٹی ڈائریکٹر ذوالفقار علی زلفی اور کارٹونسٹ جاوید اقبال سمیت دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ پروگرام کی میزبانی ارشد محمود کررہے تھے۔
جنہوں نے تما م شرکاء اور مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہا اور ملکہ غزل فریدہ خانم کو سٹیج پرآنے کی دعوت دی تو ہال میں موجود شرکاء اورمہمانان گرامی نے کھڑے ہوکر تالیاں بجا کر لیجنڈ گلوکارہ کا استقبال کیا۔جس پر فریدہ خانم نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ محبتیں اور پیار ہی میرا سرمایہ ہیں، میرے لئے اس سے زیادہ خوشی اور کامیابی کیا ہوسکتی ہے کہ مجھے اتنی والہانہ محبت کرنے والے ملے ہیں، یہ آپ لوگوں کی دعائیں اورپیار ہی ہے کہ آج یہاں آپ سب کے درمیان ہوں۔ میزبان ارشد محمود نے جب ان سے کہا کہ اپنے بارے میں کچھ بتائیے تو فریدہ خانم نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت روشن آراء بیگم کا بڑا نام تھا ، اور مجھے بھی گانے کا شوق تھا جس کی باقاعدہ تربیت استاد عاشق علی خان سے لی۔
جو جس پر دست شفقت رکھ دیتے تو وہ اپنی منزل پالیتا، میں بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں کہ جنہیں استاد عاشق علی خان جیسا استاد ملا۔پاکستان آنے کے بعدمیری خواہش ہوئی کہ میں بھی فلموں میں کام کروں ، جس کے لئے میں نے سٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کردئیے، جہاں صبح سے لے کر شام تک بیٹھ بیٹھ کر آجاتی ، مگر کسی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر نے کوئی رسپانس نہ دیا ۔کوئی کہتا کہ اس کی شکل بچیوں جیسی ہے اور کوئی کہتا کہ یہ ہیروئن نہیں لگتی ۔
تین سے چار سال ناکامی کے بعد میں نے اداکاری کرنے کا خیال ذہن سے ہی نکال دیا اور ساری توجہ گائیکی پر دینے لگی ۔ سب سے پہلے ریڈیو پاکستان سے گانا شروع کیا ،جہاں معاوضہ بہت کم ملتا تھا،50 روپے کاچیک ملتا جو میرے لئے نہ ہونے کے برابر ہوتے، کیونکہ میں ایسی پرآسائش زندگی گزارانا چاہتی تھی جس میں زندگی کی ہر چیز میسر ہو ، اسی دوران میری شادی ہو گئی جس کے بعد گھر داری اور گائیکی تک محدود ہو گئی۔ غزل اورلائیٹ گائیکی میری ہمیشہ اولین ترجیح رہی مگر اس کے علاوہ ہر قسم کا گانا بھی گایا ، مگر مجھے زیادہ شہرت غزل اور لائٹ گائیکی سے ہی ملی۔ آج جب کامیابیوں پر نظر ڈالتی ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ جس نے مجھ ناچیز کو اتنا نوازا ہے کہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔
دریں اثناء گلوکار غلام عباس نے فریدہ خانم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محسن نقوی اور ناصرکاظمی کی غزلیں پیش کیں جنہیں حاضرین نے بے حد سراہا۔ اس موقع پر غلام عباس نے کہا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ فریدہ خانم جیسی گائیکہ کے دور میں ہیں، برصغیر میں غزل گائیکی میں بہت سے نام ہیں ،مگر خواتین کی غزل گائیکی میں فریدہ خانم کا کوئی مقابل نہیں ہے۔گلوکارہ فریدہ خانم نے نئی گلوکارہ بنیش پرویز کو پرفارم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک باصلاحیت نوجوان گلوکارہ ہے جو مستقبل میں غزل اور لائیٹ موسیقی کا ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہوگی۔ گلوکارہ بنیش رشید نے دو آئٹمز سنا کر سما ں باندھ دیا ۔
تقریب کے آغاز میں حمید ہارون نے فریدہ خانم کو الحمراء لاہور آرٹس کونسل کی طرف سے پانچ لاکھ روپے کا چیک اور گولڈ میڈل پیش کیا جبکہ نگران وزیر اعلی پنجاب نجم سیٹھی نے گلدستہ پیش کیا اور کہا کہ فریدہ خانم ہمارے دلوں میں ہیں ان کیلئے جان بھی حاضر ہے۔ انہوں نے کہا فریدہ خانم کی رہائش میرے گھر کے قریب ہی ہے مگر اب ان کا ہمارے گھر آنا جانا بھی ہے کیونکہ میرا بیٹا علی ان سے گلوکاری سیکھ رہا ہے اور اسی نے ہی مجھے موسیقی کے بارے میں اتنا کچھ بتا دیا ہے کہ میں اچھی موسیقی سننے کے قابل ہوگیا ہوں۔ یہاں اس تقریب میں آکر بے حد خوشی ہوئی ہے اور میری دعا ہے کہ یہ سدا خوش اور سلامت رہیں۔
میزبان ارشد محمود نے الحمراء لاہور آرٹس کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمدعلی بلوچ ، ڈپٹی ڈائریکٹر ذوالفقار علی زلفی سمیت تمام انتظامیہ کو بہترین اور یادگار پروگرام کرنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ اس طرح کی تقریبات کے انعقاد سے نوجوان نسل کو اپنے لیجنڈ کے بارے میں آگاہی ملنے سے انہیں پتہ چلے گا کہ ان کی ثقافت میں بھی کیسے کیسے نگینے موجود ہیں کہ جن کی چمک اور روشنی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات نمایاں ہیں۔یہ تقریب تین گھنٹے تک جاری رہی اور نگران وزیراعلی آخر تک پروگرام سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔