سیاسی جلسے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں
سیاسی درجہ حرارت میں تناؤ کو تحمل، افہام وتفہیم سے ہی دور کرنے کی سعی ہونی چاہیے۔
ملک میں جمہوری عمل کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ سیاسی سرگرمیاں پورے زور و شور سے شروع ہوگئی ہیں، مین اسٹریم سیاسی جماعتیں اپنے جلسے منعقد کرتے ہوئے نہ صرف قومی اور بین الاقومی ایشوز پر روشنی ڈال رہی ہیں بلکہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے مخالفین کو مقابلے کا چیلنج بھی روادارانہ طریقہ سے دے رہی ہیں۔
گرما گرمی ضرور ہے جو جمہوریت میں ناگزیر بھی ہے تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کسی کو دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی قوم کی تقدیر نہیں، اس مسئلہ کا حل بھی سیاسی بات چیت اور مفاہمانہ سیاسی و جمہوری مکالمہ سے تلاش کیا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ اسی لیے بالادست قرار دی جاتی ہے کہ ملکی مسائل اور قومی ایشوز کا سب سے مثالی فورم پارلیمنٹ ہی ہے۔
سیاست دان اپنے معاملات یا تو انتخاباتی جلسوں میں زیر بحث لانے کا جمہوری حق رکھتے ہیں یا پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے لیے پیداشدہ تنازعات، آئینی معاملات اور اہم مسائل کو قومی امنگوں کی روشنی میں طے کرنے کی پارلیمانی روایت کو برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے۔
اگر سیاسی سرگرمیوں کا مقصد قومی تعمیر و ترقی اور بحران و چیلنجزسے نمٹنا ہے تو قومی ایشوز کے تصفیہ کے لیے سیاست دانوں کی اجتماعی بصیرت اور کس دن کام آئیگی، لہٰذا سیاسی درجہ حرارت میں تناؤ کو تحمل، افہام وتفہیم سے ہی دور کرنے کی سعی ہونی چاہیے، اور جلسے وہ پلیٹ فارم مہیا کرسکتے ہیں جہاں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز ایک نئے جمہوری کلچر اور صحتمند اختلاف رائے کی معقول روایت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ جلسوں کا پرامن انعقاد اس ضمن میں اہم قدم ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی جلسوں کی بہار ملکی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے، ن لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ 70 سال سے جوکھیل کھیلا جا رہا ہے اسے ختم کرینگے، مریم نواز شریف نے کہا کہ ہمارا نظام عدل ہر اس شخص کا مقروض ہے جس نے ووٹ ڈالا، انھوں نے اتوار کو شیخوپورہ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ڈیرہ اللہ یار کے جلسہ میں کہا کہ بلوچستان کے مسائل پیپلز پارٹی ہی حل کریگی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حیدرآباد کے جلسہ میں کہا کہ ہم ملک کے ساتھ ہیں، ملک کے اداروں کو ان کی آئینی ذمے داریوں تک محدود دیکھنا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے کہا ہے کہ انھوں نے پانچ سال عوامی توقعات کے مطابق عوام کی حقیقی خدمت اور اُن کو درپیش مسائل کے حل کے لیے صرف کیے ہیں، وہ زخئی یونین کونسل کڑوی میں جلسے اور امان گڑھ میں تقریب سے خطاب کررہے تھے،مسلم لیگ فنکشنل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر سید صبغت اللہ شاہ المعروف پیر پگارا نے اندرون سندھ متاثر کن جلسہ کیا جس میں انھوں نے کہا کہ جو کام حکمرانوں کو کرنا چاہیے تھا وہ کام پاک فوج اور عدلیہ کررہی ہے، ہم آنے والے الیکشن میں عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آئیں گے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ نواز شریف چار مرتبہ حکومت میں رہے، عدالتی نظام کیوں ٹھیک نہیں کیا؟ ان خیالات کا اظہار انھوں نے نوشہرہ میں جلسہ عام سے خطا ب کرتے ہوئے کیا، وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس لغاری نے مانہ احمدانی، کوٹ چھٹہ میں گیس فراہمی کے منصوبے کے افتتاح کے بعد جلسہ عام سے خطاب کیا۔
ان عوامی اجتماعات سے سیاست کا رخ بھی باہمی مخاصمت، محاذ آرائی، الزام تراشی اور اشتعال انگیز بیانات سے رواداری اور شائستہ طرز سیاست کی طرف موڑا جاسکتا ہے، ملکی سیاست میں انتخابی ماحول کی سازگاری کی اشد ضرورت اشد ہے، ملک ایک غیر معمولی ٹرانزیشن اور افقی و عمودی جمہوری ٹرانسفارمیشن کے عمل سے گزر رہا ہے، اور بادی النظر میں ایک انتخابی ماحول بنتا بھی نظر آرہا ہے، سیاسی مبصرین کے مطابق یہ خوش آیند پیش رفت کہی جاسکتی ہے جو شعلہ نوائی سے ماورا ایک سنجیدہ جمہوری رویے کو فروغ دے کر پرجوش عوام میں ہر قسم کی بے یقینی اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
یہ نیک شگون ہے کہ منعقدہ عوامی جلسوں میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہورہی ہے، اس لیے یہ ٹرن آؤٹ اس بات کا پیغام ہے کہ عوام ملکی سیاست سے مایوس نہیں ہیں۔ مقتدر سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ جلسوں میں پارٹی منشور کی بات کریں، قوم کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کے لیے اپنے آیندہ کے پروگراموں پر روشنی ڈالیں، سیاست مخالفت برائے مخالفت کا دور گزر گیا، ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں خطے کے چیلنجز سے قوم کو آگاہ کریں۔
مسلم لیگ، پی ٹی آئی، پی پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں آج سے یہ طے کرلیں کہ ان کی سیاست قومی خوابوں کی تعبیرسے مشروط ہوگی، دنیا کو ایک مثبت اور غیرمتزلزل پیغام دے گی کہ پاکستانی قوم جمہوریت سے کمیٹڈ ہے، پاک فوج نے عوامی حمایت سے دہشتگردی کے خلاف ملکی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑی ہے۔ سیاست دان ہی عوام میں پھیلی ہوئی بے یقینی کا ازالہ کرسکتے ہیں، قومی سیاسی مفاہمت وقت کا تقاضہ اور تمام ریاستی اداروں کے استحکام اور ان کے وقار و استقامت کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔
گرما گرمی ضرور ہے جو جمہوریت میں ناگزیر بھی ہے تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کسی کو دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی قوم کی تقدیر نہیں، اس مسئلہ کا حل بھی سیاسی بات چیت اور مفاہمانہ سیاسی و جمہوری مکالمہ سے تلاش کیا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ اسی لیے بالادست قرار دی جاتی ہے کہ ملکی مسائل اور قومی ایشوز کا سب سے مثالی فورم پارلیمنٹ ہی ہے۔
سیاست دان اپنے معاملات یا تو انتخاباتی جلسوں میں زیر بحث لانے کا جمہوری حق رکھتے ہیں یا پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے لیے پیداشدہ تنازعات، آئینی معاملات اور اہم مسائل کو قومی امنگوں کی روشنی میں طے کرنے کی پارلیمانی روایت کو برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے۔
اگر سیاسی سرگرمیوں کا مقصد قومی تعمیر و ترقی اور بحران و چیلنجزسے نمٹنا ہے تو قومی ایشوز کے تصفیہ کے لیے سیاست دانوں کی اجتماعی بصیرت اور کس دن کام آئیگی، لہٰذا سیاسی درجہ حرارت میں تناؤ کو تحمل، افہام وتفہیم سے ہی دور کرنے کی سعی ہونی چاہیے، اور جلسے وہ پلیٹ فارم مہیا کرسکتے ہیں جہاں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز ایک نئے جمہوری کلچر اور صحتمند اختلاف رائے کی معقول روایت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ جلسوں کا پرامن انعقاد اس ضمن میں اہم قدم ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی جلسوں کی بہار ملکی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے، ن لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ 70 سال سے جوکھیل کھیلا جا رہا ہے اسے ختم کرینگے، مریم نواز شریف نے کہا کہ ہمارا نظام عدل ہر اس شخص کا مقروض ہے جس نے ووٹ ڈالا، انھوں نے اتوار کو شیخوپورہ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ڈیرہ اللہ یار کے جلسہ میں کہا کہ بلوچستان کے مسائل پیپلز پارٹی ہی حل کریگی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حیدرآباد کے جلسہ میں کہا کہ ہم ملک کے ساتھ ہیں، ملک کے اداروں کو ان کی آئینی ذمے داریوں تک محدود دیکھنا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے کہا ہے کہ انھوں نے پانچ سال عوامی توقعات کے مطابق عوام کی حقیقی خدمت اور اُن کو درپیش مسائل کے حل کے لیے صرف کیے ہیں، وہ زخئی یونین کونسل کڑوی میں جلسے اور امان گڑھ میں تقریب سے خطاب کررہے تھے،مسلم لیگ فنکشنل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر سید صبغت اللہ شاہ المعروف پیر پگارا نے اندرون سندھ متاثر کن جلسہ کیا جس میں انھوں نے کہا کہ جو کام حکمرانوں کو کرنا چاہیے تھا وہ کام پاک فوج اور عدلیہ کررہی ہے، ہم آنے والے الیکشن میں عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آئیں گے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ نواز شریف چار مرتبہ حکومت میں رہے، عدالتی نظام کیوں ٹھیک نہیں کیا؟ ان خیالات کا اظہار انھوں نے نوشہرہ میں جلسہ عام سے خطا ب کرتے ہوئے کیا، وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس لغاری نے مانہ احمدانی، کوٹ چھٹہ میں گیس فراہمی کے منصوبے کے افتتاح کے بعد جلسہ عام سے خطاب کیا۔
ان عوامی اجتماعات سے سیاست کا رخ بھی باہمی مخاصمت، محاذ آرائی، الزام تراشی اور اشتعال انگیز بیانات سے رواداری اور شائستہ طرز سیاست کی طرف موڑا جاسکتا ہے، ملکی سیاست میں انتخابی ماحول کی سازگاری کی اشد ضرورت اشد ہے، ملک ایک غیر معمولی ٹرانزیشن اور افقی و عمودی جمہوری ٹرانسفارمیشن کے عمل سے گزر رہا ہے، اور بادی النظر میں ایک انتخابی ماحول بنتا بھی نظر آرہا ہے، سیاسی مبصرین کے مطابق یہ خوش آیند پیش رفت کہی جاسکتی ہے جو شعلہ نوائی سے ماورا ایک سنجیدہ جمہوری رویے کو فروغ دے کر پرجوش عوام میں ہر قسم کی بے یقینی اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
یہ نیک شگون ہے کہ منعقدہ عوامی جلسوں میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہورہی ہے، اس لیے یہ ٹرن آؤٹ اس بات کا پیغام ہے کہ عوام ملکی سیاست سے مایوس نہیں ہیں۔ مقتدر سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ جلسوں میں پارٹی منشور کی بات کریں، قوم کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کے لیے اپنے آیندہ کے پروگراموں پر روشنی ڈالیں، سیاست مخالفت برائے مخالفت کا دور گزر گیا، ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں خطے کے چیلنجز سے قوم کو آگاہ کریں۔
مسلم لیگ، پی ٹی آئی، پی پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں آج سے یہ طے کرلیں کہ ان کی سیاست قومی خوابوں کی تعبیرسے مشروط ہوگی، دنیا کو ایک مثبت اور غیرمتزلزل پیغام دے گی کہ پاکستانی قوم جمہوریت سے کمیٹڈ ہے، پاک فوج نے عوامی حمایت سے دہشتگردی کے خلاف ملکی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑی ہے۔ سیاست دان ہی عوام میں پھیلی ہوئی بے یقینی کا ازالہ کرسکتے ہیں، قومی سیاسی مفاہمت وقت کا تقاضہ اور تمام ریاستی اداروں کے استحکام اور ان کے وقار و استقامت کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔