ریٹائرڈ ملازمین
چیف جسٹس ثاقب نثارکے فوری سوموٹو ایکشن سے زندہ ملازمین کے لیے امید کی معمولی سی کرن نظر تو ضرور آئی ہے۔
بیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے کہ امیر بینکوں کے ملازمین کے مقدمات انصاف کے دہلیز پر حسرت و یاس کی تصویر بنے باریابی اور انصاف کے منتظر ہیں ۔ اس ضمن میں ثانوی اور اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے تا حال کسی حتمی فیصلے کے انتظار میں ان ملازمین کے لیے امید بہار کی جگہ امید خاک ہی ثابت ہوا ہے۔
عربی کہاوت مشہور ہے کہ ''جس کے پاس صحت ہے اس کی امیدیں بھی زندہ ہیں اور جس کے پاس امید ہے اس کے پاس سب کچھ ہے'' بہرحال چیف جسٹس ثاقب نثارکے فوری سوموٹو ایکشن سے زندہ ملازمین کے لیے امید کی معمولی سی کرن نظر تو ضرور آئی ہے۔
مقامی بینک کی ایک ریٹائرڈ ملازمہ کو ملنے والی ماہانہ قلیل رقم پینشن کی مد میں وصولی کے مقدمے کی پیروی کے دوران فاضل عدالت کے رو بروحیران اور تجسس پیدا کرنے والے انکشاف پر پنشنرز کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تمام بینکس کے صدورکو عدالت عظمیٰ میں طلب کرلیا۔ ان کو ہدایات جاری کیں کہ اس معاملے کو بنیادی انسانی حقوق کے تحت جامع منصفانہ حکمت عملی تیارکرکے اس کو جلد سے جلد نافذ کیا جائے اور پینشرز کو ان سے طے شدہ سروس رولزکے تحت ادائیگی کو ممکن بنایا جائے جنھوں نے اپنی عمرکا طویل حصہ ان اداروں کی ترقی کے لیے صرف کیا اورعمرکے اس حصے میں ان کوبے یارو مددگار چھوڑنا سراسر ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔ تاحال رپورٹ کے مطابق متعلقہ صدور نے باہمی مشاورت کے لیے فاضل عدالت سے پندرہ دن کی مہلت مانگ لی ہے جو بآسانی دے دی گئی۔
ان بینکوں کی جانب سے مقدمات کی پیروی میں وکلا ، صنعتی تعلقات کے قانونی مشیران اپنے قانونی پیشہ کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتظامیہ اور ملازمین (جونیر افسران) (لیبر یونین کے معاملا ت الگ ہیں) کے درمیان محاذ آرائی میں ارب پتی بن گئے کیونکہ انھوں نے بینکوں سے سروس چارجزکی مد میں بھاری رقوم حاصل کرچکے ہیں۔
بینکوں کی انتظامیہ کا مزاج بن چکاہے کہ کوئی بھی بینک ملازم ایک یا دولاکھ روپے کا حق قانونی طریقہ سے حاصل کرنا بھی چاہے تواس کی درخواست کو مسترد کروانے میں بینک انتظامیہ پوری طاقت کے ساتھ مطلوبہ رقم سے کہیں زیادہ ان ایڈوکیٹس کو ادا کر دیتا ہے ، یوں بے چارہ ملازم سالہا سال عدالتوں کے چکرکاٹتا رہتا ہے اور انصاف کے جلد یا بدیر حصول سے محروم رہتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پیسہ ہی آپ کی کامیاب زندگی کا مخفی راز ہے۔ جہاں پیسہ ہی سب کچھ ہو وہاں بے کس، بے سہارا ریٹائرڈ ملازمین ان طاقتور، بے ایمان ظالم، ناانصاف اشرافیہ کا مقابلہ کیونکرکرسکتے ہیں ؟ ایسی صورتحال میں کیا ہم اپنے ملک کی معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام یا کارپوریٹ کلچرکا نام دے سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں، ماسوائے ٹھیکیداری نظام کو رائج کرتے ہوتے لوٹ مارکا بازار گرم کرکے اس نظام کو ارتکاز دولت (ملک کی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجائے) کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مرکزی بینک اور بینکنگ محتسب کا کردار بھی خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ ان ہی قوتوں کی مداخلت سے بھی حل کیا جاسکتا تھا۔ بہت معذرت کے ساتھ ، کیا مرکزی بینک کا کردار صرف نوٹ چھاپنا اور افراط زروتفریط زرکے بچاؤکے لیے زری پالیسی کی تشکیل تک ہی محدود کردیا گیا ہے، کیا ان فروخت شدہ بینکوں کی انتظامیہ ان سرکاری قوتوں سے زیادہ سکت رکھتی ہے کہ اپنی من مانی کرتے ہوئے جو چاہیں کریں۔ بینکنگ ایک نہایت ہی حساس شعبہ ہے جو ملک کی معیشت وتجارت اور ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ماضی قریب میں ہمارا معاشرہ بینک کی نوکری کو قابل رشک، قابل فخر، قابل عزت واحترام سمجھتا تھا جو یقینا لوگوں کے روپے پیسے کے امین تھے اور مزے کی بات دیکھیں، بینک کے ملازمین بھی نہایت جانفشانی اور ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمے داری بحسن خوبی انجام دیا کرتے تھے۔ ہر ملازم کو اپنی ڈیوٹی اپنے گھر اور خاندان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ بینک میں نوکری دوسرے اداروں کی نسبت آئیڈیل سمجھی جاتی تھی۔
ریٹائرمنٹ کے وقت اسے کہیں بھی اڈے کا مزدور بننے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی جتنی کہ آج ہے۔ بینک میں آنے کا ٹائم ضرور تھا مگر گھر واپسی کا کوئی ٹائم نہیں ہوا کرتا تھا اور دوسری طرف بینک کی فراخدل انتظامیہ کی طرف سے دی جانے والی بے شمار مراعات بھی مثالی تھیں۔ یوں سمجھیں کہ ہر ملازم اپنے خاندان و دیگر افراد کے ساتھ باعزت اورخوشحال زندگی بسر کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ جو لوگ سرکاری محکموں میں ملازم ہوا کرتے تھے ان کے خواب، خواہش اور ترجیحات بینک کی نوکری تھی۔ بینک میں ملازمت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لڑکے کے رشتے کے وقت لڑکی والوں کو صرف یہ بتا دیا جاتا کہ لڑکا بینک میں ملازمت کرتا ہے تو لڑکی والے مزید سوال کرنے کی جسارت کرنے کی بجائے حامی بھرنے میں تاخیر نہیں کرتے تھے ، خواہ لڑکا بینک میں چپراسی ہی کیو ں نہ ہو اور لڑکی لڑکے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو۔
ملک کے دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی پر مامور بینک ملازمین تو ایک سے زائد بیگمات کے مالک بھی تھے۔ بلاسود مکان کے قرضہ جات، سال میں تین سے زائد بونس کی ادائیگی، شادی کی گرانٹ، بچے کی پیدائش کے اخراجات (گھر یا اسپتال دونوں) ، بچوں کے لیے تعلیمی وظائف، علاج معالجے کی بہترین سہولیات آپ بشمول بیوی اور آ پ کے بچے اور آپ کے والدین، گاڑی و موٹرسائیکل کے حصول کے لیے بلا مشروط و بلاسود قرضہ جات جس کی ماھانہ آسان اقساط میں کٹوتی ہوتی رہتی تھی۔
سالانہ انکریمنٹ، ماہانہ رخصت، اگلے گریڈ میں ترقیاں وغیرہ وغیرہ۔ آپ کی ماہرانہ پیشہ ورانہ (courtesy based) خدمات ہی Deposits کے حصول کی اصل ضمانت تھی۔ یہ وہی سنہرا دورتھا جس میں بینکس ہر انڈور اور آوٹ ڈورکھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتا تھا بلکہ ہر معاشرتی، سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا ۔ ادب کے شعبے میں بھی مالی امداد کے ذریعے اپنے وجود کو شامل حال رکھتا تھا۔بینکوں ہی کی کاوش تھی کہ ملک میں نامی گرامی ہر کھیل میں عالمی سطح کے ہیرو متعارف کروائے۔
اب صورتحال بالکل برعکس ہے ، بینک کا ریٹائرد ہر افسر اڈے والے مزدورکی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بینک میں بینکنگ کی بجائے مارکیٹنگ اور سیلز ہی رہ گئی ہے جس کو کنزیومر بینکنگ کا نام دیا گیا ہے جس سے کسی پرچون کی دکان یا یتیم خانے کے روپ کا شائبہ ہوتا ہے۔ جو ملازمین حاضر سروس ہیں وہ بھی اس ذہنی کوفت کا شکار ہیں کہ کب نوکری سے فارغ کر دیے جائیں۔
یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہر سال بینک انتظامیہ تین صفحوں پر مشتمل ثقیل اور لچھے دار انگریزی زبان میں (Sexual Harrassment) کا سرکولرکا اجرا کیوں کرتی ہے؟ اجلے پینٹ شرٹس، فرنگیانہ ٹائی اورگلے کا غلامانہ طوق بینک کا شناختی کارڈ جو آپ کے گلے کی زینت ہونا شرط بن چکا ہے ، خلاف ورزی کی صورت میں ڈسیپلینری ایکشن لیا جاسکتا ہے۔بینکوں کی انتظامیہ نے اپنے ملازمین کو نجی انشورنس کمپنی سے ا نشورڈ کرا لیا ہے تاکہ علاج معالجے کی صورت میں بیمہ پالیسی سے تھوڑی بہت رقوم حاصل کی جاسکیں۔
علاج معالجے کا ٹھیکہ نجی انشورنس کمپنیاں کچھ لوکچھ دو کی بنیاد پر معاملا ت طے کریں گیں ۔ فیڈرل گورنمنٹ کا ادارہ " Old Age Employees Benefit Institution " صنعتی کارکنان کی سبکدوشی یا ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی مالی اعانت کے لیے کام کر رہا ہے۔ بینک ملازمین کو بھی اسی کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اونچی دکان پھیکا پکوان۔ نام بڑے درشن چھوٹے۔ بقیہ اس عنوان کا تسلسل مورخہ 26 نومبر 2017 کے اسی اخبار کے کالم بعنوان ''بچت کا تصور پیوست خاک کیوں'' ملاحظہ فرمائیں۔
یاد رکھیے اگر ملک میں صنعتی اور زرعی انقلاب برپا کرنا ہے تو بینکاری نظام کو ترجیحی بنیادوں پر ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہمارا ملک قدرتی و معدنی وسائل کی بے پناہ دولت سے ما لا مال ہے۔ ہمیں فخرکرنا چاہیے کہ ہم دنیا میں کسی سے بھی کمتر نہیں۔ ضرورت ہے تو صرف باشعور ، ایماندار اور مخلص سیاسی جمہوری لیڈران کی۔