موسیقی پختونوں کی رگ رگ میں رچی بسی ہے
پشتو کے اُبھرتے ہوئے نوجوان گلوکار علی خان سواتی سے مکالمہ۔
GILGIT:
پشتوکے معروف شاعررحمت شاہ سائل کے ایک شعرکا مفہوم ہے کہ''یہ الگ بات ہے کہ اسے کسی نے گل دستہ بننے نہیں دیااگرچہ یہ مٹی فکربہارسے اٹی ہوئی ہے''۔
وادی سوات جو قدرت کے حسین مناظراورخوب صورت نظاروں کی بدولت پوری دنیامیں اپنی مثال آپ ہے اورپھر فن موسیقی کے حوالے سے توپورے صوبہ خیبرپختون خوا میں ''محلہ بنڑ''نے عظیم گلوکاروں اورموسیقاروں کوجنم دیاہے محلہ ''بنڑ'' سوات کا وہ مشہور محلہ ہے جسے سابق والی سوات نے صرف پیشہ ور فن کاروں کے لیے مختص کررکھا تھا تاکہ یہاں آباد فن کار برادری اکھٹی رہ سکے اور دیگر لوگوں کو بھی ان کی رات گئے تک ریاضت اور محفل موسیقی کی وجہ سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، پشتو کی کئی معروف خواتین گلوکاراوں نے اسی محلے میں جنم لیا ہے جن میں گل ناز، عقل مینہ ،نازیہ اقبال اورمرحومہ غزالہ جاوید خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
اسی دھرتی سے تعلق رکھنے والے سُریلی آوازکے مالک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان گلوکارعلی خان سواتی اپنی خداداد صلاحیتوں اور فن موسیقی سے اپنی کمٹ منٹ کی بنا پرآہستہ آہستہ اپنی میٹھی آوازکا جادو جگارہے ہیں اوران کی خوب صورت آوازاور معیاری گیتوں اورغزلوں کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوجوان جدید پشتو گائیکی میں بہت جلد اپنے لیے ایک الگ منفرد نام اور مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کیوں کہ ایک جانب اگر قدرت نے انہیں سُریلی آواز اور سُر سنگیت جیسی نعمت سے نوازا ہے تودوسری جانب انہیں خوب صورت قدوقامت بھی بخشی ہے وہ علم موسیقی کی تاریخ سے''باخبر'' اور سنجیدہ گلوکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
فن برائے زندگی کی سوچ رکھنے کی وجہ سے انہوں نے شعوری طور پراس کلام کا انتخاب کیاہے جس میں تخیل اور ترقی پسندسوچ کے پکے اورآفاقی رنگ ہیں، وہ ان شاعروں کے کلام کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جن کی تخلیق میں امن اورمحبت کے ساتھ ساتھ مظلوم انسانیت کا دردوغم اوران کی عکاسی اور ترجمانی کی گئی ہو، انہی خصوصیات کی بدولت وہ ہر مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والوں میں یکساں مقبول اور پسند کیے جارہے ہیں، علی خان سواتی کا پہلا البم ''رنڑا'' ( روشنی) نے پشتو شائقین موسیقی کے دل جیت لیے ہیں۔
مذکورہ البم میں پشتوکے معروف شعراء غنی خان،حنیف قیس، عزیزمانیروال، اباسین یوسف زئی،انورمانیروال،سعیداللہ خادم اورخودعلی خان کی ایک خوب صورت نظم کے علاوہ پشتو کے مشہور ٹپے بھی شامل ہیں،البم کی موسیقی معروف موسیقارشاہ جی اوراستادامانت علی گوگی نے ترتیب دی ہے ان کے اس پہلے البم کوشائقین موسیقی کی جانب سے خوب پزیرائی بخشی جارہی ہے، سوات کے ایک گائوں سین( فتح پور) سے تعلق رکھنے والے علی خان سواتی بچپن سے ہی فن موسیقی سے لگائورکھتے ہیں،آلات موسیقی میں وہ رباب خودبجاتے ہیں انہوں نے فن موسیقی کے تمام رموزواسرار استادمحفوظ کھوکھرسے سیکھے ہیں۔
وہ کوئی پیشہ وار گائیک نہیں بل کہ اس فن کو ایک مقصد کے تحت اپنائے ہوئے ہیں اور وہ ہے موسیقی کے ذریعے اپنی قوم کو امن،محبت اورانسانیت کا پیغام پہنچانا،علی خان سواتی نے نمل یونی ورسٹی پشاور سے اردومیں ماسٹرکیاہواہے وہ دوسال تک اسلامیہ کالج میں بطورلکچرر اردو مضمون پڑھاتے رہے، ایم فل اسلامک انٹرنیشنل یونی ورسٹی اسلام آباد سے کیا ہوا ہے ان کے تھیسس کا موضوع '' فرہنگ فیض'' ہے اوراب وہ پشاوریونی ورسٹی سے اردوزبان میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں' اب تک انہوں نے معیاری گیت گاکر سننے والوں کے دل میں اپنے لیے جگہ بنا ڈالی ہے، وہ موسیقی کو ایک ایسا فن گردانتے ہیں جو سائنس کا بھی ایک اہم حصہ ثابت ہوچکا ہے۔
علی خان نے''ایکسپریس'' کوبتایا کہ میراپہلا البم''رنڑا'' پشتوموسیقی کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا اور اس سے پشتوموسیقی اور پشتوزبان کوبہت فائدہ ہوگا کیوں کہ مذکورہ البم میں امن،محبت، بھائی چارے اورانسانیت سے پیار کے موضوع پرمبنی شاعری پیش کی گئی ہے ان کے بقول راگ رنگ کے بغیر کسی بھی قوم کی ثقافت مکمل نہیں سمجھی جاتی، ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی پھول کی خوشبو کو قید رکھنے کے مترادف عمل ہے جو ناممکن ہے، انہوں نے بتایا کہ اپنے فن کے آغاز سے ہی مجھے ایک اچھا ماحول اور تربیت یافتہ موسیقاروں اورگلوکاروں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
پشتوآلات موسیقی میں نت نئی تبدیلیوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ دنیا کی ہر قوم کی موسیقی کی اپنی ایک منفرد روح ہوتی ہے جو اپنے مخصوص جغرافیے، ماحول اور آب و ہوا سے جنم لیتی ہے جب تک آپ اس ''روح'' کو اپنے ہی اس مخصوص ماحول کی آب و ہوا اور خوراک نہیں دیں گے، اس کے مخصوص مزاج اور نفسیات کا خیال نہیں رکھیں گے، وہ دن بدن کم زور ہوتی جائے گی یہاں تک کہ وہ اپنی موت آپ مر جائے گی لہٰذا آلات موسیقی جو بھی ہوں ان میں اصل چیز اپنی ثقافت کی ''روح'' کو مجروح و مفتوح ہونے سے بچانا ہے۔
بحیثیت ایک قدیم اور تاریخی قوم کے ہمارے تمام فنون کی اپنی ایک الگ روح ہے خصوصاً شاعری اور موسیقی تو پختونوں کی رگ رگ میں رچی بسی ہے، یہ الگ بات ہے کہ داخلی طور پر تو ایک غنائی مزاج رکھتے ہیں لیکن معاشرے کے خوف سے اس کا برملا اظہار نہیں کرسکتے یہی وجہ ہے کہ فن و آرٹ کے بارے میں آج بھی ہم ایک معاشرتی دباؤ اور نفسیاتی تضاد کا شکار ہیں، پشتو موسیقی کی موجودہ رفتار اور معیار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمارے نئے تعلیم یافتہ گلوکاروں اور موسیقاروں کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آج کے تقاضے کچھ اور ہیں اور دنیا کی دیگر قوموں کے ساتھ فن و ثقافت کے میدان میں شانہ بشانہ چلنے کے لیے ہمیں اپنی موسیقی میں ایک انقلابی جدت لانے کی ضرورت ہے۔
ایک ایسی جدت اور تبدیلی جس میں ہماری موسیقی کی اپنی اصل روح اور شناخت بھی برقرار رہے اور جدید آلات موسیقی کے ذریعے اس میں جدت بھی پیدا کی جا سکے یہی وجہ ہے کہ آج پشتو موسیقی کو پشتو نہ سمجھنے والے بھی بڑے شوق سے سنتے اور پسند کرتے ہیں،علی خان سواتی نے بتایا کہ پشتو موسیقی کا مستقبل نہایت روشن اور شان دار نظر آرہا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اس ضمن میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ہمیں ثقافتی محاذ پر دیگر قوموں سے مقابلہ کرنے کے لیے میڈیا کے ہتھیار کی سخت ضرورت ہے ،سی ڈیزڈراموں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کلچر نے پشتوثقافت کوکافی نقصان پہنچایا یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے، ڈراموں میں صرف اسلحہ کی نمائش دکھائی جاتی ہے جب کہ ہمیں قلم اور کتاب سمیت امن،محبت اورانسانیت سے پیارکرنے کی ضرورت ہے۔
پشتوکے معروف شاعررحمت شاہ سائل کے ایک شعرکا مفہوم ہے کہ''یہ الگ بات ہے کہ اسے کسی نے گل دستہ بننے نہیں دیااگرچہ یہ مٹی فکربہارسے اٹی ہوئی ہے''۔
وادی سوات جو قدرت کے حسین مناظراورخوب صورت نظاروں کی بدولت پوری دنیامیں اپنی مثال آپ ہے اورپھر فن موسیقی کے حوالے سے توپورے صوبہ خیبرپختون خوا میں ''محلہ بنڑ''نے عظیم گلوکاروں اورموسیقاروں کوجنم دیاہے محلہ ''بنڑ'' سوات کا وہ مشہور محلہ ہے جسے سابق والی سوات نے صرف پیشہ ور فن کاروں کے لیے مختص کررکھا تھا تاکہ یہاں آباد فن کار برادری اکھٹی رہ سکے اور دیگر لوگوں کو بھی ان کی رات گئے تک ریاضت اور محفل موسیقی کی وجہ سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، پشتو کی کئی معروف خواتین گلوکاراوں نے اسی محلے میں جنم لیا ہے جن میں گل ناز، عقل مینہ ،نازیہ اقبال اورمرحومہ غزالہ جاوید خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
اسی دھرتی سے تعلق رکھنے والے سُریلی آوازکے مالک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان گلوکارعلی خان سواتی اپنی خداداد صلاحیتوں اور فن موسیقی سے اپنی کمٹ منٹ کی بنا پرآہستہ آہستہ اپنی میٹھی آوازکا جادو جگارہے ہیں اوران کی خوب صورت آوازاور معیاری گیتوں اورغزلوں کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوجوان جدید پشتو گائیکی میں بہت جلد اپنے لیے ایک الگ منفرد نام اور مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کیوں کہ ایک جانب اگر قدرت نے انہیں سُریلی آواز اور سُر سنگیت جیسی نعمت سے نوازا ہے تودوسری جانب انہیں خوب صورت قدوقامت بھی بخشی ہے وہ علم موسیقی کی تاریخ سے''باخبر'' اور سنجیدہ گلوکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
فن برائے زندگی کی سوچ رکھنے کی وجہ سے انہوں نے شعوری طور پراس کلام کا انتخاب کیاہے جس میں تخیل اور ترقی پسندسوچ کے پکے اورآفاقی رنگ ہیں، وہ ان شاعروں کے کلام کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جن کی تخلیق میں امن اورمحبت کے ساتھ ساتھ مظلوم انسانیت کا دردوغم اوران کی عکاسی اور ترجمانی کی گئی ہو، انہی خصوصیات کی بدولت وہ ہر مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والوں میں یکساں مقبول اور پسند کیے جارہے ہیں، علی خان سواتی کا پہلا البم ''رنڑا'' ( روشنی) نے پشتو شائقین موسیقی کے دل جیت لیے ہیں۔
مذکورہ البم میں پشتوکے معروف شعراء غنی خان،حنیف قیس، عزیزمانیروال، اباسین یوسف زئی،انورمانیروال،سعیداللہ خادم اورخودعلی خان کی ایک خوب صورت نظم کے علاوہ پشتو کے مشہور ٹپے بھی شامل ہیں،البم کی موسیقی معروف موسیقارشاہ جی اوراستادامانت علی گوگی نے ترتیب دی ہے ان کے اس پہلے البم کوشائقین موسیقی کی جانب سے خوب پزیرائی بخشی جارہی ہے، سوات کے ایک گائوں سین( فتح پور) سے تعلق رکھنے والے علی خان سواتی بچپن سے ہی فن موسیقی سے لگائورکھتے ہیں،آلات موسیقی میں وہ رباب خودبجاتے ہیں انہوں نے فن موسیقی کے تمام رموزواسرار استادمحفوظ کھوکھرسے سیکھے ہیں۔
وہ کوئی پیشہ وار گائیک نہیں بل کہ اس فن کو ایک مقصد کے تحت اپنائے ہوئے ہیں اور وہ ہے موسیقی کے ذریعے اپنی قوم کو امن،محبت اورانسانیت کا پیغام پہنچانا،علی خان سواتی نے نمل یونی ورسٹی پشاور سے اردومیں ماسٹرکیاہواہے وہ دوسال تک اسلامیہ کالج میں بطورلکچرر اردو مضمون پڑھاتے رہے، ایم فل اسلامک انٹرنیشنل یونی ورسٹی اسلام آباد سے کیا ہوا ہے ان کے تھیسس کا موضوع '' فرہنگ فیض'' ہے اوراب وہ پشاوریونی ورسٹی سے اردوزبان میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں' اب تک انہوں نے معیاری گیت گاکر سننے والوں کے دل میں اپنے لیے جگہ بنا ڈالی ہے، وہ موسیقی کو ایک ایسا فن گردانتے ہیں جو سائنس کا بھی ایک اہم حصہ ثابت ہوچکا ہے۔
علی خان نے''ایکسپریس'' کوبتایا کہ میراپہلا البم''رنڑا'' پشتوموسیقی کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا اور اس سے پشتوموسیقی اور پشتوزبان کوبہت فائدہ ہوگا کیوں کہ مذکورہ البم میں امن،محبت، بھائی چارے اورانسانیت سے پیار کے موضوع پرمبنی شاعری پیش کی گئی ہے ان کے بقول راگ رنگ کے بغیر کسی بھی قوم کی ثقافت مکمل نہیں سمجھی جاتی، ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی پھول کی خوشبو کو قید رکھنے کے مترادف عمل ہے جو ناممکن ہے، انہوں نے بتایا کہ اپنے فن کے آغاز سے ہی مجھے ایک اچھا ماحول اور تربیت یافتہ موسیقاروں اورگلوکاروں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
پشتوآلات موسیقی میں نت نئی تبدیلیوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ دنیا کی ہر قوم کی موسیقی کی اپنی ایک منفرد روح ہوتی ہے جو اپنے مخصوص جغرافیے، ماحول اور آب و ہوا سے جنم لیتی ہے جب تک آپ اس ''روح'' کو اپنے ہی اس مخصوص ماحول کی آب و ہوا اور خوراک نہیں دیں گے، اس کے مخصوص مزاج اور نفسیات کا خیال نہیں رکھیں گے، وہ دن بدن کم زور ہوتی جائے گی یہاں تک کہ وہ اپنی موت آپ مر جائے گی لہٰذا آلات موسیقی جو بھی ہوں ان میں اصل چیز اپنی ثقافت کی ''روح'' کو مجروح و مفتوح ہونے سے بچانا ہے۔
بحیثیت ایک قدیم اور تاریخی قوم کے ہمارے تمام فنون کی اپنی ایک الگ روح ہے خصوصاً شاعری اور موسیقی تو پختونوں کی رگ رگ میں رچی بسی ہے، یہ الگ بات ہے کہ داخلی طور پر تو ایک غنائی مزاج رکھتے ہیں لیکن معاشرے کے خوف سے اس کا برملا اظہار نہیں کرسکتے یہی وجہ ہے کہ فن و آرٹ کے بارے میں آج بھی ہم ایک معاشرتی دباؤ اور نفسیاتی تضاد کا شکار ہیں، پشتو موسیقی کی موجودہ رفتار اور معیار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمارے نئے تعلیم یافتہ گلوکاروں اور موسیقاروں کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آج کے تقاضے کچھ اور ہیں اور دنیا کی دیگر قوموں کے ساتھ فن و ثقافت کے میدان میں شانہ بشانہ چلنے کے لیے ہمیں اپنی موسیقی میں ایک انقلابی جدت لانے کی ضرورت ہے۔
ایک ایسی جدت اور تبدیلی جس میں ہماری موسیقی کی اپنی اصل روح اور شناخت بھی برقرار رہے اور جدید آلات موسیقی کے ذریعے اس میں جدت بھی پیدا کی جا سکے یہی وجہ ہے کہ آج پشتو موسیقی کو پشتو نہ سمجھنے والے بھی بڑے شوق سے سنتے اور پسند کرتے ہیں،علی خان سواتی نے بتایا کہ پشتو موسیقی کا مستقبل نہایت روشن اور شان دار نظر آرہا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اس ضمن میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ہمیں ثقافتی محاذ پر دیگر قوموں سے مقابلہ کرنے کے لیے میڈیا کے ہتھیار کی سخت ضرورت ہے ،سی ڈیزڈراموں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کلچر نے پشتوثقافت کوکافی نقصان پہنچایا یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے، ڈراموں میں صرف اسلحہ کی نمائش دکھائی جاتی ہے جب کہ ہمیں قلم اور کتاب سمیت امن،محبت اورانسانیت سے پیارکرنے کی ضرورت ہے۔