انٹرنیشنل کھیلوں کی بحالی حکومتی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں

اسپورٹس سے وابستہ اہم شخصیات کی ’’ایکسپریس‘‘ فورم میں گفتگو۔

سلمان سرور بٹ، خاور شاہ، پرویز سعید میر، امجد علی نون، عثمان انور، خواجہ ادریس، خلیل احمد۔ فوٹو: ریاض احمد

PESHAWAR:
دہشت گردی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ اقوام عالم کا مسئلہ ہے مگر اس جنگ میں مرکزی کردار نے ہمیں دنیا کے کسی بھی اور ملک سے زیادہ متاثر کیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکا سمیت عالمی برادری ہماری قربانیوں کا اعتراف تو کرتی ہے لیکن دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھتا، تنہائی کا یہ عفریت پاکستان کے ہرشعبے کی طرح کھیلوں کے میدانوں کی رونقیں بھی نگل گیاہے، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ سمیت ہماری کوتاہیاں نظر انداز نہیں کی جاسکتیں، دوسری طرف اسپورٹس فیڈریشنز کا کمزور کردار بھی انٹرنیشنل ٹیموں کی آمد میں بڑی رکاوٹ ہے۔

کسی بھی ملک کی بدحالی کے بڑے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے نوجوان نسل کو کھیلوں جیسی مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا ضروری ہوتا ہے، بدقسمتی سے بحرانوں کی ذمے دار قیادت کو اپنے داخلی اختلافات سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ قوم کو کوئی اجتماعی شعور دینے کا سوچ سکیں، کھیلوں کی چند نتظیموں کی انفرادی کوشش سے چند قومی اور بین الاقوامی ایونٹس ضرور ہوئے ہیں مگر اسپورٹس کلچر سے ہم کوسوں دور نظر آتے ہیں، اس حوالے سے مختلف امور پر بات کرنے کے لیے ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں کئی جانے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

خالد محمود (سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ)

پاکستان ماضی میں بھی کبھی مغربی ٹیموں کا پسندیدہ وینیو نہیں رہا، 80 اور90 کی دہائی میں بھی کئی آسٹریلوی اور انگلش کرکٹرز یہاں آنے سے ہچکچاتے تھے، انگلینڈ کا آل رائونڈر بوتھم کہا کرتا تھا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں پر اپنی ساس کو یکطرفہ ٹکٹ دے کر بھیج دینا چاہیے، اس صورتحال کے باوجود کھلاڑیوں کو یہاں آکر کھیلنے سے انکار کے لیے اپنے بورڈز اور آئی سی سی کے سامنے جواز پیش کرنا پڑتے،بہر طور کسی نہ کسی انداز میں ملکی میدانوں کی رونقیں بحال تھیں، سری لنکن ٹیم پر حملے نے سب ٹیموں کو کھل کر انکار کا موقع فراہم کردیا،اس بدقسمت گھڑی کے بعد ایک تو حالات قابو میں نہیں رہے۔

دوسرے غیر ملکی ٹیموں کو ملک میں لانے کے لیے پی سی بی کے سابق عہدیداروں کا کردار بھی حوصلہ افزاء نہیں رہا، بھارتی بورڈ مضبوط لابی کی وجہ سے آج دنیا کا ایک بڑا منافع حاصل کرنے والا ادارہ ہے مگر پی سی بی نے دیگر ملکوں کے حکام کی ناراضگی مول لے کر مسائل کھڑے کئے، کرکٹ کی عالمی باڈی کی نائب صدارت کے انتخابات میں سابق چیئرمین اعجاز بٹ نے آسٹریلوی امیدوار کو ووٹ دینے کی حامی بھری مگر بعدازاں انکار کردیا، ایسے نامناسب فیصلوں نے بھی پاکستان کو تنہا کرنے میں کافی حد تک کردار ادا کیا ہے، ملک میں ناقص سیکیورٹی صورتحال کو رد نہیں کیا جاسکتامگر مشکلات کے باوجود کرکٹ بورڈ دنیا میں دوست بنائے تو بحالی کا راستہ آسان ہو سکتا ہے۔

عثمان انور (ڈی جی پنجاب اسپورٹس بورڈ)

ملکی میدان آباد کرنے کے لیے کھیلوں کی تنظیموں اور حکومت کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا، پنجاب یوتھ فیسٹیول کا کامیاب انعقاد ایسی ہی کامیاب کوشش کا منہ بولتا ثبوت ہے، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان محفوظ نہیں، مربوط حکمت عملی کیساتھ چلیں تو ویران میدانوں کی رونقیں بحال ہوجائیں گی، ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ہمیشہ منفی انداز میں سوچتے ہیں، تنقید برائے تنقید کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، پاکستان کے سونے گرائونڈ آباد کرنے کے لیے سب مل کر نیک نیتی سے کام کریں، کوئی فیڈریشن کسی غیرملکی ٹیم کو بلائے تو حکومت سفری دستاویزات جاری کرنے میں آسانیاں پیدا کرے، سیکیورٹی اور دیگر ایشوز میں فیڈریشنز کا ساتھ دے تو مہمانوںکا اعتماد بحال ہوسکتا ہے، کسی ملک میں کھیلوں کا مضبوط اور وسیع انفراسٹرکچر بیرونی پلیئرز کو اپنی جانب کھنچتا ہے، میدانوں کی بہتات اور وافر سہولیات فراہم کرتے ہوئے ہم پاکستانی میں انٹرنینشل کھیلوں کی واپسی جیسے مشکل کام کو آسانی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔

خالد محمود ( چیف کوآرڈینٹر پی او اے)

پاکستان میں سکیورٹی کے مسائل ضرور ہیں مگر ہمارا کلچر ایسا ہوگیا ہے کہ لوگ اجتماعی مفادات پر ذاتیات کو ترجیح دیتے ہیں، کھیلوں کے میدانوں کی ویرانی کو قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے حکومت اور دیگر متعلقہ ادارے سرجوڑ کر بیٹھیںاور فیصلہ کریں کہ ملک میں انٹرنیشنل اسپورٹس کو ہرصورت لانا ہے، کرکٹ یا ہاکی کو ترجیحات دینے کے بجائے چھوٹے لیول پر کام شروع کیا جائے، کلبز اور اے ٹیموں کو بلا کر انھیں بہترین مہمان نوازی سے متاثر کریں، ایونٹس کے انعقاد کا مقصد کمزور ٹیموں کو بلا کر صرف فتح کا ڈنکا بجانا نہیں بلکہ کھیلوں کو پروان چڑھنا ہو، مشکل کام کو انجام دینے کا آغاز ان ڈور گیمز سے کیا جائے، غیرملکیوں کے ذہن میں پاکستان کا ایسا مثبت نقش چھوڑ دیاجائے کہ پھر کوئی سیکیورٹی کی بات نہ کرے بلکہ پاکستانیوں کی مہمان نوازی کو اہمیت دیتے ہوئے بلا جھجھک سر کے بل دوڑا چلا آئے، ہم بھارتی پراپیگنڈے کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر قریبی ملکوں سے رابطوں کو وسعت دیں تو خوشیاں ہماری دہلیز پر خود دستک دیں گی، یوتھ فیسٹیول میں پنجاب حکومت ستاروں کا جھرمٹ اکٹھا کرسکتی ہے تو باقی کیوں نہیں۔

سلمان سرور بٹ ( سابق منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان سپر لیگ)

کسی بھی اسپورٹس ایونٹ میں عوام تفریح ، سپانسرز اپنی مصنوعات کے لیے پلیٹ فارم اور میڈیا کے افراد کوریج کے لیے مواد کے متلاشی ہوتے ہیں، سب چیزوں پر مشتمل ایک پیکیج بناکر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، کھیلوں کے مقابلے ملکی سطح پر بھی ہوں تو چند غیر ملکی کلبز یا کھلاڑیوں کی شمولیت ممکن بناکر حالات میں بہتری کے سفر کا آغاز کیا جاسکتا ہے، ایک بار سلسلہ شروع ہوگیا تو بتدریج انٹرنیشنل مقابلوں کی واپسی کے راستے بھی نکل آئیں گے۔

عبدالرزاق (ٹیسٹ کرکٹر)

پاکستان میں سکیورٹی کے حالات غیر ملکی پلیئر کے ذہن میں نقش ہوچکے ہیں، ان کا خوف دور نہیں ہورہا، کسی بھی بڑی ٹیم کامیاب دورہ ہی مثبت امیج کو بحال کرسکتاہے، ہمیں دوسری ٹیموں اور کھلاڑیوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پہلے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے پر کام کرنا ہوگا، پاکستانی عوام تحفظ محسوس کریں گے تو دوسرے ملکوں کو یقین دلاناآسان ہو جائے گا۔انھوں نے کہا کھلاڑی ملک و قوم کے سفیر ہیں اور ہر سطح پر پاکستان کا تاثر بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر ہم انتظامی مشکلات دور کر لیں تو دوسرے ملکوں کے پلیئرز کو قائل کرنے کے لیے کیس مضبوط ہوجائے گا،حالات کی بہتری کے لیے قوم کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ پر ذمے دارانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم کھیلوں کی طرح دوسرے شعبوں میں بھی تنہائی کا شکار ہوتے جائیں گے۔

ملک امجد نون (صدر پنجاب اسکواش ایسوسی ایشن)

بھارت کی دشمنی اور ہماری کمزوریاں کھیلوں کی دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کا سبب بن گئی ہیں، کھیلوں سے وابستہ لوگوں کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ بین الاقوامی فورم پر پاکستان کا موقف درست انداز میں بیان کرسکیں،ہم ایشیائی سطح پر اپنا وجود منوانے میں کامیاب رہے ہیں اور نائب صدارت کا عہدہ حاصل کرکے ملک میں کھیلوں کی بحالی کے مواقع تلاش کررہے ہیں مگر حکومت جب تک ساتھ نہیں ہوگی سونے میدان آباد کرنا بہت دشوار ہوگا، اسکواش جیسے انفرادی اور انڈور کھیل کو مثال بناتے ہوئے ماضی جیسی رونقیں بحال کی جاسکتی ہیں، حکومت فنڈز دے تو ہم بہت سارے انٹرنیشنل ایونٹ کروا کر غیر ملکی ستاروں کو پاکستان میں لا سکتے ہیں۔

گذشتہ برس لاہور میں انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کا انعقاد کرکے چیف ہنٹ، پامر اور رامے عاشور سمیت 9 لیجنڈز کو پاکستان بلا کر مثبت تاثر دینا کے سامنے لائے، مئی میں اسلام آباد میں ایشیا کپ کے کامیاب انعقاد سے مزید بہتر نتائج سامنے آئیں گے، ماضی کی اسکواش سپر پاور ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی اب بھی بہت قدر کی جاتی ہے، ہر پلیئر جہانگیر خان اور جان شیر خان کے دیس میں آکر کھیلنے پر راضی ہوسکتا ہے، ساتھ ہی ملک وقار کا باعث بننے والے پلیئرز کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، نقد انعامات اور بڑوں کی حوصلہ افزائی نوجوانوں میں شیر کا دل پیدا کرتی ہے، ہمیں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

خواجہ ادریس (صدر پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن)

پاکستانی عوام امن پسند اور کھیلوں سے محبت کرنے والے ہیں، پنجاب یوتھ فیسٹیول کے کامیاب انعقاد سے ثابت ہوگیا کہ پرکشش معاوضہ اور مراعات دی جائیں تو مزید غیر ملکی ٹیمیں بھی پاکستان آسکتی ہیں ، دنیا کی تاریخ ہے کہ وطن پر مشکل وقت آئے تو عوام کا رخ کھیلوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے مگر ہمارے سیاستدان عجیب و غریب حرکتوں سے قوم کی الجھنیں کم کرنے کی بجائے بڑھا رہے ہیں۔ زیر تکمیل اسپورٹس منصوبوں کے فنڈز روک لیے جاتے ہیں، اگر سب کھیلوں کی بحالی چاہتے ہیں تو مضبوط انفراسٹکچر پہلی ترجیح ہونی چاہیے، نئے میدان اور اسپورٹس جمنیزیم بنائے جائیں، آپس کی لڑائی اور عہدوں کی چپقلش چھوڑ کر ایک نقطہ پر متفق ہوجائیں کہ ملکی میں انٹرنیشنل مقابلے کیسے بحال ہونگے۔ بھارت کے منفی رویے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ملکی وقارسب سے پہلے ہونا چاہیے اور وعدہ کرکے مکر جانے والوںکے سامنے بچھنے کی بجائے دیگر دوست ملکوں سے مدد مانگی چاہیے۔

خاور شاہ (سیکریٹری پاکستان بیس بال فیڈریشن)


پاکستان میں سیکیورٹی سے زیادہ بڑا مسئلہ سیاسی رکاوٹیں ہیں، وسائل کی فراہمی میں تعاون ہو، غیر ملکی کھلاڑیوں کو بہتر ماحول اور حکومتی سطح پر تحفظ کی ضمانت دی جائے تو دنیا کی ہر ٹیم پاکستان لاسکتے ہیں، تنظمیوں کے سربراہ میدان آباد نہیں کرسکتے تو عہدے چھوڑ دیں، تھنک ٹینک بھی کرکٹ اور ہاکی پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے اسپورٹس بحالی کے لیے چھوٹی گیمز کو ذریعہ بنائے، اعتماد بحال ہوجائے تو کرکٹ اور ہاکی کی واپسی کے لیے اس چیز کو کیش کروایا جاسکتا ہے، غیرملکی ٹیمیوں اور پلیئرز کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تو حالات خود بخود درست سمت کی طرف گامزن ہو جائیں گے۔

گذشتہ برس سارک بیس بال کپ میں سری لنکا، نیپال، افغانستان اور خطے کی دیگر ٹیموں کو بلایا، سب نے سیکیورٹی پر خدشات ظاہر کئے مگر فیڈریشنز سے ماضی کے مضبوط تعلقات کے ذریعے انھیں آنے پر قائل کیا، ساری صورتحال میں ملکی امیج اور کھیلوں سے عوام کی محبت کو آشکار کرنے کے لیے غیر ملکی کھلاڑیوں کو لبرٹی لے گئے، سری لنکن کرکٹرز کی حفاظت کے لیے جان دے دینے والوں کی یادگار دکھائی اور لاہور کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا، بعدازاں جب بھی ان سے پاکستان آکر کھیلنے کے لیے رابطہ کیا تو کسی نے انکار نہیں کیا، حکومت 50 فیصد فنڈز ہی مہیا کردے تو ہم کامن ویلتھ ایونٹ کا انعقاد کرواسکتے ہیں، آسٹریلیا، انگلینڈ اور کینیڈا سمیت دینا کی ہرٹیم کو پاکستان لاسکتے ہوں، ہم مجبور ہیں کہ صرف فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے لیے عظیم کارنامہ انجام دینے سے محروم ہیں۔

خواجہ جنید (سابق ہاکی اولمپئن)

پاکستان میں حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ غیر ملکی ٹیموں کو بلایا جائے، خدا نخواستہ اب کوئی حادثہ ہو گیا تو کھیلوں کے میدان طویل عرصہ کیلیے ویران ہو جائیں گے،موجودہ صورتحال میں ہمارا اصل ہدف بہترین کارکردگی پر ہونا چاہیے، جب تک حالات سازگار نہیں ہو جاتے نیوٹرل وینیوز پر کھیلنے میں کوئی حرج نہیں ، ماضی کے سنہری دور میں دنیا کے ہر پلیئر کی خواہش تھی کہ وہ گرین شرٹس لیجنڈز کیساتھ کھیلے، وہی دور واپس لے آئیں آسٹریلیا، جرمنی کیا ہر ملک یہاں کھیلنے آئے گا، دیگر ملکوں کی طرح لیگ کروائی جائے جس میں کئی انٹرنیشنل کھلاڑی شامل ہونگے، آہستہ آہستہ اپنے لڑکوں کی کارکردگی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کا اعتماد بھی بحال ہوجائے گا، اس سارے کام کو انجام دینے کے لیے باصلاحیت اور تجربہ کار لوگوں کو آگے لایا جائے۔

ڈاکٹر اسد عباس (فزیو پاکستان ہاکی ٹیم)

دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے، ہم جتنا بھی کہیں کہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہیں مگر میڈیا کے ذریعے ہر کسی کو خبر ہوجاتی ہے کہ ہم کہاں تک سچ بول رہے ہیں، غیر ملکی دورں کے دوران اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کی صورتحال بہتر کیوں نہیں ہورہی، ہم صفائیاں دیتے ہیں کہ وہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا جو پریشانی کا باعث ہو، ساتھ ہی انٹرنیشنل میڈیا پر خبر چل رہی ہوتی ہے کہ وزیرستان میں 2 دھماکوں اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور ملک کے فلاں فلاں شہر میں اتنے شہری جاں بحق ہوگئے، اصل میں کھیلوں کا انعقاد کرنے کا سوچیں تو ہم خود بھی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ نہ کرے کہ کہیں دوبارہ لبرٹی چوک جیسا واقعہ نہ ہو جائے، اگر ہم واقعی ملک میں کھیلوں کی بحالی کیلیے سنجیدہ ہیں تو کلب لیول کی ٹیموں کے تبادلے اور ان ڈور گیمز سے آغاز کیا جائے۔

حکومت غیرملکی کھلاڑیوں کی حفاظت سمیت تمام ذمے داریاں اپنے سر پر لے، ملک میں کھیلوں کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے اور دیگر ملکوں کی طرح بجٹ میں اسپورٹس کے لیے خطیر رقم مختص کی جائے، دنیا بھر میں حکومتیں عوام کی توجہ کھیلوں کی جانب موڑ کر ان کا مسائل کے حوالے سے غم و غصہ کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر ہماری صورتحال بالکل مختلف ہے، جیسے جیسے پاکستان دیگر شعبوں میں پیچھے جارہا ہے اسی طرح اسپورٹس میں بھی زوال شروع ہوچکا ہے، عوام کھیلوں کے شیدائی ہیں، شائقین نے ایشیا کبڈی کپ میں بھرپور دلچسپی دکھائی، اسی طرح کے متعدد مقابلوں کا تسلسل کے ساتھ انعقاد ہونا چاہیے، بڑی ٹیمیں نہیں آتیں تو ایک ایک ملک بلا کر سیریز کھیلی جائے تو دیگر کا بھی اعتماد بحال ہوگا۔

نفیس احمد (کوچ قومی بلائنڈ کرکٹ ٹیم)

ملکی میدان آباد کرنے کے لیے سیاسی اور سفارتی سطح پر کوشیں کرنا ہوںگی، ہم بھارت، نیپال اور سری لنکا کی میزبانی کرچکے،آسٹریلیا، انگلینڈ اور دیگر مغربی ٹیمیں بھی آنا چاہتی ہیں مگر وزارت خارجہ اجازت نہیں دے رہی۔ ملکی میدان آباد کرنے کے لیے حکومت کو آگے آکر کردار ادا کرنا ہوگا، بہترین خارجہ پالیسی سے ہمدردوں اور دوستوں کی تعداد بڑھائی جائے، مسلم ملکوں کو کہا جائے کہ وہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیں، ٹیموں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تو بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے اور ہر ملک اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے کے لیے تیار ہو جائیگا، لیکن اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری حکومتی سطح پر ذمے داری کا احساس ہے۔ اسپورٹس فیڈریشنز بھی اپنے تعلقات بہتر بنا کر غیر ملکی ٹیموں کو قائل کرسکتی ہیں۔

پرویز سعید میر (ڈائریکٹر آپریشنز پاکستان فٹبال فیڈریشن)

کرکٹ اور ہاکی ہی معیار اور مثال نہیں، دیگر کھیلوں کا فروغ بھی نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ دوبڑی گیمز کی ٹیموں کے نہ آنے سے یہ کہنا درست نہیں کہ ملک میںانٹرنیشنل مقابلے نہیں ہورہے، پنجاب یوتھ فیسٹیول میں یمن ، سربیا اورکئی غیرملکی فٹبال ٹیمیںآئیں، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کوئی بھی پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ اپنی کمزوری چھپا رہا ہے ، معاملہ فہم اور انٹرنیشنل معیار کے لیڈر میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنی بات منواسکتا ہے، فٹبال فیڈریشن کے پاس فنڈز کی کمی ہے ورگرنہ دنیا کے بڑے سے بڑے ملک کی ٹیم کو پاکستان میں لے آئیں۔

حکومت مدد دے تو کئی بڑے ایونٹ کا انعقاد کرکے پاکستان کا منفی تاثر زائل کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں 16 یا 20 ملک کرکٹ کھیلتے ہیں، ہاکی کھیلنے والوں کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے مگر 210 ملکوں کے مقبول ترین کھیل فٹبال کو سب پیچھے دھکیل رہے ہیں، جب تک کرکٹ کو ہی کھیل سمجھا جائے گا اس وقت تک پاکستان نہ تو بہت زیادہ میڈل جیت سکتا ہے اور نہ ہی دنیا ہمارے ہاں آنے کو تیار ہوگی۔ مشکل دور سے نکلنے کا واحد حل اسپورٹس تنظیموں کی باگ دوڑ قابل اور دنیا میں مقام رکھنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں سونپنے میں ہے۔

رانا جمیل (صدر ٹگ آف وار ایسوسی ایشن)

پنجاب یوتھ فیسٹیول نے پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کو کافی حد تک دور کردیا ہے۔ ملک میں کھیل نہ ہونے کی اصل وجہ حکومت کی عدم توجہی اور فنڈز کی کمی ہے، عہدوں کی بندر بانٹ اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بھی ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا ہے، جب تک آپس کی لڑائی ختم کرتے ہوئے ملک کے لیے ملکی معاملات کوفوقیت نہیں دی جاتی حالات میں بہتری دیوانے کے خواب کی مانند ہے۔ نیک نیتی ہوتو کوئی کام مشکل نہیں، انڈور مقابلوں کی حوصلہ افزائی بہترین حل ثابت ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ٹگ آف وار کو پاکستان میں ابھی تک گیمز کا درجہ نہیں دیا گیا، کوئی مدد نہیں ملتی مگر اس کے باوجود کئی اعزازت حاصل کررکھے ہیں، بھارت جو پاکستان میں کھیلوں کی تباہی کے درپے ہے اس کو یوتھ فیسٹیول میں بلاکر سب کو بتایا کہ اگر ٹیم ٹاپ پر ہوتو ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آپ سے کھیلے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیکھنے کے مواقع مل سکیں۔ بہت جلد ٹگ آف وار کو اولمپک میں شامل کرلیا جائے گا مگرخدشہ ہے کہ 10 سال سے ملک کی نیک نامی کا باعث بننے والے عہدیداروں کو دیوار سے لگا دیا جائے گا۔

میاں اسلم (سابق آئی سی سی امپائر)

بھارت کسی صورت پاکستان میں کھیلوں کی میدان آباد دیکھنا نہیں چاہتا کئی بار ایسا ہوا کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا پر بھی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے آنے سے روک لیا۔ پاکستانی میدان سونے ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی اسے ہی ہورہا ہے ، پڑوسی ملک کرکٹ اور ہاکی لیگز کروا کر نہ صرف اسپورٹس میں اپنا سکہ جمانے کیلیے کوشاں ہے بلکہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ایونٹس سے دور رکھ کر احساس کمتری میں بھی مبتلا کررہا ہے۔ کھیلوں کی بحالی میں ہم خود بھی رکاوٹیں بنے ہوئے ہیں، لوکل ایونٹس میں چھوٹے لیول کے کھلاڑیوں کو ایسی سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے کہ راستے بند اور شہر منجمند ہوجاتا ہے ، یہ نہیں سوچا جاتا کہ ساری صورتحال کا دنیا کیا اثر لے رہی ہوگی، کھیلوں کی بحالی کا آغاز انڈر19 اور اے ٹیموں کو مدعو کرکے کیا جائے تو بہتر مستقبل کے لیے راستہ کھولا جاسکتا ہے ۔

خلیل احمد (صدر پاکستان جوجٹسو فیڈریشن)

انفرادی کھیلوں کے انٹرنیشنل مقابلے ناممکن نہیں مگر ارباب اختیار کوئی دلچسپی نہیں لیتے، مہمان کھلاڑیوں کے ویزوں سمیت متعلقہ وزارتیں کئی معاملات میں روڑے اٹکاتی ہیں، حکومت سپورٹ کرے تو 40 ملکوں کا ایونٹ کرواسکتے ہیں۔پنجاب یوتھ فیسٹیول میں11 غیر ملکی ٹیموں کو پاکستانی سرزمین پر بلایا، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، امریکا سمیت سب کو لا سکتے ہیں مگر وسائل کی کمی آڑے آ جاتی ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ کھیل بحال ہو جائیں لیکن آگے کوئی نہیں آتا، حکومتی عدم توجہی کے باعث ایشین گمیز کی میزبانی پاکستان کے ہاتھوں سے نکل گئی، اب ایران مقابلے کروائے گا۔ حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ ملک بھر میں جوجٹسو کا صرف ایک جمنیزیم ہے، غیر ملکی پلیئرز کو کہاں کھلائیں، انفراسٹرکچر میں بہتری لائے بغیر کھیلوں کی بحالی کا خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے، پاکستانی کھلاڑی جوجٹسو میں اب تک 31 میڈل قوم کے نام کرچکے،8 گولڈ اتنے ہی سلور ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی اہمیت دیتا ہے نہ پلیئرز کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

تصدق حسین غوری (روحانی معالج)

ہم اپنے ملک میں کئی روایتی ایونٹ سکیورٹی کی بنا پر ملتوی کرکے دنیا کو مثبت پیغام کیسے دے سکتے ہیں، گھر کی حالت بہتر بنائی جائے تو مہمانوں کی خاطر داری اچھی ہوسکے گی، انھوں نے کہا کہ کئی کھلاڑی اپنے مختلف مسائل کے حل کیلئے رجوع کرتے ہیں، میرا ان کو یہی مشورہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنا کردار مضبوط کریں، پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے بھی نیتوں کو ٹھیک کرکے پورے خلوص سے کوشش کرنا ہوگی، اگر ہم اپنی خودداری کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوجائیں تو کھیلوں سمیت کسی میدان میں بھی بھارتی لابی کی سازشیں کامیاب نہیں ہوسکتیں،ذات سے بالا تر ہوکر سوچنے والے رہنما ہی ہمارا مستقبل سنوار سکتے ہیں، اسپورٹس کو بھی ایسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے جو صرف قومی جذبہ سے نوجوان نسل کی بہتری کیلئے کام کریں۔
Load Next Story