نگراں وزیر اعظم کا صائب فیصلہ
نگراں حکومت کو کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس کی وجہ سے آنے والی حکومت کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو۔
نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو نے وزارت خزانہ کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ مالیات کے عالمی ادارے انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے کوئی نیا قرضہ نہ لیا جائے۔
واضح رہے کہ ہفتے کو نگراں وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں ملکی معاشی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اندازہ یہی ہے کہ اس بریفینگ کا مقصد غالباً یہ تھا کہ انھیں آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے پر آمادہ کیا جاسکے لیکن نگراں وزیر اعظم نے نہ صرف اس کی اجازت دینے سے انکار کیا بلکہ یہ تنبیہ کی کہ عالمی مالیاتی ادارے کے در پہ جانے کی بجائے اپنے غیر ضروری اخراجات کو قابو میں لایا جائے اور اپنے وسائل کے اندر گزارہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ نگراں وزیر اعظم نے ایف بی آر کو2126 ارب روپے کے نظر ثانی شدہ ریونیو ہدف میں مزید کٹوتی کی منظوری دینے سے بھی انکار کر دیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق نگراں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ توانائی کے بحران، دہشت گردی اور دیگر عوامل کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے مالی سال2012-13ء کے 9 ماہ کے دوران سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اہداف پورے نہیں ہو سکے جب کہ مہنگائی میں بے تحاشا اضافے کے نتیجے میں عام آدمی کی قوت خرید شدت سے متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے درآمدات میں کمی ہونے سے کسٹم و امپورٹ ڈیوٹی اہداف بھی پورے ہونے سے قاصر ہیں۔
یوں اقتصادی سست روی اور معاشی بحران کے باعث رواں مالی سال کے دوران نظر ثانی شدہ ہدف کاحصول بھی مشکل ہے۔ جب کہ ریونیو ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں نگراں وزیر اعظم کو متبادل آپشن کے سوال پر وزارت خزانہ کے حکام نے آئی ایم ایف کا دروازہ ایک بار پھر کھٹکھٹانے کی تجویز پیش کی تو نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو نے وزارت خزانہ کے حکام کو آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے سے سختی سے روک دیا۔
نگراں وزیراعظم کا یہ فیصلہ صائب ہے۔ نگراں حکومت کو کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس کی وجہ سے آنے والی حکومت کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کی بنیادی وجہ ارباب اختیار کا ملکی خزانے کو غیر ضروری اخراجات کی نذر کرنا ہے۔ بیوروکریسی کی مراعات پر قومی خزانے کا بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح تحلیل ہونے والی اسمبلیوں کے اراکین، وزرا اور مشیران کی تنخواہوں اور مراعات پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوئی ہے۔ قوم کے منتخب نمائندوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی مراعات سے دستبرداری کا نہیں سوچا البتہ اپنی مراعات میں اضافہ کرکے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ضرور کردیا۔
پاکستان آج توانائی کے جس بحران کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ قومی خزانے کا بڑا حصہ تو غیرترقیاتی کاموں پر خرچ ہو جاتا ہے جب کہ قومی ضرورت کے منصوبوں کے لیے رقم ہی نہیں بچتی۔ اگر جمہوری حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرتی تو توانائی کے لیے رقم بچائی جا سکتی تھی لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب بیورو کریسی بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی تیار کرتی ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسر چونکہ عوام کی مشکلات کا ادراک نہیں رکھتے اس لیے وہ صرف دفتروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیں جن میں عوام سے ریونیو اکٹھا کرنے کے نت نئے طریقے تو موجود ہوتے ہیں لیکن عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔
افسر شاہی کی سوچ اب بھی حاکمانہ ہے۔ کوئی سیکریٹری لیول کا افسر خود کو ملازم نہیں سمجھتا بلکہ وہ خود کو حکمران سمجھتا ہے۔ سرکاری گھروں میں رہتا ہے لیکن خود کو مالک مکان سمجھتا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے اپنے وسائل میں رہنے کا فیصلہ کر کے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ نگراں حکومت کو آنے والی حکومت کے لیے مثال قائم کرنی چاہیے۔ موجودہ نگراں حکومت ماضی کی نگراں حکومتوں سے بالکل مختلف ہے۔ آج کے حالات میں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی امیدوں پر ہی پورا نہ اتریں بلکہ قوم کی اس امید پر بھی پورا اتریں کہ ان کی حکومت سادگی اور ایثار کی عمدہ مثال قائم کرے گی۔
نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو سے چاروں نگراں وزرائے اعلیٰ نے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جمعہ کو ہونے والی ملاقات میں نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ الیکشن کے لیے مرکز اور تمام صوبوں میں غیر جانبدار افسر تعینات کیے جائیں گے۔ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث یا اقربا پروری کرنے والے افسروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ نگراں وزرائے اعلیٰ الیکشن کمیشن کی مشاورت سے تقرر و تبادلے کر سکیں گے۔ ملاقات میں تمام سیاسی رہنمائوں کی سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس موقع پر نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ توقع ہے کہ سرکاری افسر الیکشن کے دوران غیر جانبدار رہیں گے، سرکاری افسروں کے خلاف شکایت پر سخت کارروائی کی جائے گی، وفاق الیکشن کمیشن کی سہولت کے لیے صوبوں کو تمام وسائل دے گا۔ ہمیں الیکشن غیر جانب دارانہ اور شفاف انداز میں کروانا ہیں۔ اجلاس میں نگراں وزراء اعلیٰ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سخت اقدامات کر رہے ہیں۔ نگراں حکومت پر جہاں ملکی معیشت کو درست سمت میں رکھنے کی ذمے داری ہے وہاں امن وامان قائم کرنا بھی اس کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔
پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ من پسند افسران کو من پسند پوسٹوں پر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے قانون وضابطوں کی خلاف ورزی کو بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں امن وامان کی خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سکیورٹی کے ذمے دار اداروں میں ایسے افراد تعینات ہیں جن کا مقصد حکمرانوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ وہ امن وامان کے حوالے سے نہ تو تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انھیں اس سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ نگراں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو اس حوالے سے سخت رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ اسی طریقے سے ملک میں امن وامان قائم رہے گا اور منصفانہ عام انتخابات کی راہ ہموار ہوگی۔
واضح رہے کہ ہفتے کو نگراں وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں ملکی معاشی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اندازہ یہی ہے کہ اس بریفینگ کا مقصد غالباً یہ تھا کہ انھیں آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے پر آمادہ کیا جاسکے لیکن نگراں وزیر اعظم نے نہ صرف اس کی اجازت دینے سے انکار کیا بلکہ یہ تنبیہ کی کہ عالمی مالیاتی ادارے کے در پہ جانے کی بجائے اپنے غیر ضروری اخراجات کو قابو میں لایا جائے اور اپنے وسائل کے اندر گزارہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ نگراں وزیر اعظم نے ایف بی آر کو2126 ارب روپے کے نظر ثانی شدہ ریونیو ہدف میں مزید کٹوتی کی منظوری دینے سے بھی انکار کر دیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق نگراں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ توانائی کے بحران، دہشت گردی اور دیگر عوامل کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے مالی سال2012-13ء کے 9 ماہ کے دوران سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اہداف پورے نہیں ہو سکے جب کہ مہنگائی میں بے تحاشا اضافے کے نتیجے میں عام آدمی کی قوت خرید شدت سے متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے درآمدات میں کمی ہونے سے کسٹم و امپورٹ ڈیوٹی اہداف بھی پورے ہونے سے قاصر ہیں۔
یوں اقتصادی سست روی اور معاشی بحران کے باعث رواں مالی سال کے دوران نظر ثانی شدہ ہدف کاحصول بھی مشکل ہے۔ جب کہ ریونیو ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں نگراں وزیر اعظم کو متبادل آپشن کے سوال پر وزارت خزانہ کے حکام نے آئی ایم ایف کا دروازہ ایک بار پھر کھٹکھٹانے کی تجویز پیش کی تو نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو نے وزارت خزانہ کے حکام کو آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے سے سختی سے روک دیا۔
نگراں وزیراعظم کا یہ فیصلہ صائب ہے۔ نگراں حکومت کو کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس کی وجہ سے آنے والی حکومت کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کی بنیادی وجہ ارباب اختیار کا ملکی خزانے کو غیر ضروری اخراجات کی نذر کرنا ہے۔ بیوروکریسی کی مراعات پر قومی خزانے کا بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے۔ اسی طرح تحلیل ہونے والی اسمبلیوں کے اراکین، وزرا اور مشیران کی تنخواہوں اور مراعات پر اچھی خاصی رقم خرچ ہوئی ہے۔ قوم کے منتخب نمائندوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی مراعات سے دستبرداری کا نہیں سوچا البتہ اپنی مراعات میں اضافہ کرکے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ضرور کردیا۔
پاکستان آج توانائی کے جس بحران کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ قومی خزانے کا بڑا حصہ تو غیرترقیاتی کاموں پر خرچ ہو جاتا ہے جب کہ قومی ضرورت کے منصوبوں کے لیے رقم ہی نہیں بچتی۔ اگر جمہوری حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرتی تو توانائی کے لیے رقم بچائی جا سکتی تھی لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب بیورو کریسی بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی تیار کرتی ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسر چونکہ عوام کی مشکلات کا ادراک نہیں رکھتے اس لیے وہ صرف دفتروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیں جن میں عوام سے ریونیو اکٹھا کرنے کے نت نئے طریقے تو موجود ہوتے ہیں لیکن عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔
افسر شاہی کی سوچ اب بھی حاکمانہ ہے۔ کوئی سیکریٹری لیول کا افسر خود کو ملازم نہیں سمجھتا بلکہ وہ خود کو حکمران سمجھتا ہے۔ سرکاری گھروں میں رہتا ہے لیکن خود کو مالک مکان سمجھتا ہے۔ نگراں وزیراعظم نے اپنے وسائل میں رہنے کا فیصلہ کر کے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ نگراں حکومت کو آنے والی حکومت کے لیے مثال قائم کرنی چاہیے۔ موجودہ نگراں حکومت ماضی کی نگراں حکومتوں سے بالکل مختلف ہے۔ آج کے حالات میں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی امیدوں پر ہی پورا نہ اتریں بلکہ قوم کی اس امید پر بھی پورا اتریں کہ ان کی حکومت سادگی اور ایثار کی عمدہ مثال قائم کرے گی۔
نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو سے چاروں نگراں وزرائے اعلیٰ نے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جمعہ کو ہونے والی ملاقات میں نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ الیکشن کے لیے مرکز اور تمام صوبوں میں غیر جانبدار افسر تعینات کیے جائیں گے۔ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث یا اقربا پروری کرنے والے افسروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ نگراں وزرائے اعلیٰ الیکشن کمیشن کی مشاورت سے تقرر و تبادلے کر سکیں گے۔ ملاقات میں تمام سیاسی رہنمائوں کی سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس موقع پر نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ توقع ہے کہ سرکاری افسر الیکشن کے دوران غیر جانبدار رہیں گے، سرکاری افسروں کے خلاف شکایت پر سخت کارروائی کی جائے گی، وفاق الیکشن کمیشن کی سہولت کے لیے صوبوں کو تمام وسائل دے گا۔ ہمیں الیکشن غیر جانب دارانہ اور شفاف انداز میں کروانا ہیں۔ اجلاس میں نگراں وزراء اعلیٰ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سخت اقدامات کر رہے ہیں۔ نگراں حکومت پر جہاں ملکی معیشت کو درست سمت میں رکھنے کی ذمے داری ہے وہاں امن وامان قائم کرنا بھی اس کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔
پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ من پسند افسران کو من پسند پوسٹوں پر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے قانون وضابطوں کی خلاف ورزی کو بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں امن وامان کی خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سکیورٹی کے ذمے دار اداروں میں ایسے افراد تعینات ہیں جن کا مقصد حکمرانوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ وہ امن وامان کے حوالے سے نہ تو تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انھیں اس سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ نگراں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو اس حوالے سے سخت رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ اسی طریقے سے ملک میں امن وامان قائم رہے گا اور منصفانہ عام انتخابات کی راہ ہموار ہوگی۔