جوتا چور
دھرنے والے علامہ صاحب کے بعد انھیں ایک نئی تفریح مل گئی ہے اور وہ خوب مزے لے رہے ہیں۔
آج کا موضوع ہاتھ باندھ کے میرے سامنے کھڑا ہے۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ آنکھیں نیچی، گال پر انگلیوں کے واضح اور انمٹ نشان ہیں اور وہ کھسیانے پن میں الٹے پاؤں کے انگوٹھے سے زمین پر لکیریں بنا رہا ہے۔ چاہوں تو میں بھی اپنے حصے کی دو چپیڑیں لگاؤں اور جی ٹھنڈا کرلوں لیکن پچھلی اتوار کے بعد سے اس کی اتنی درگت بن چکی ہے کہ مجھے اس پر ترس آرہا ہے۔
ایک روز میں تقریباً بھاگتا ہوا مغرب کی نماز میں شامل ہونے کے لیے ایک مسجد میں داخل ہوا۔ جوتا اتار رہا تھا تو مجھے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ بائیں طرف وضو خانے کی طرف دیکھا تو وہاں ایک کھڑکی کی سلاخوں سے ایک رسی بندھی تھی اور اس کے دوسرے سرے پر ایک میلا کچیلا سا لڑکا بہت مضبوطی سے بندھا ہوا تھا۔ اس کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور وہ زمین پر گرا ہوا تھا۔ اوپر کھڑکی کے دائیں جانب ایک پوسٹر لگا تھا جس پر انتہائی خوش خطی سے لکھا تھا ''جوتا چور''۔
میں تھوڑا سا کنفیوژ ہوا لیکن پھر جماعت چھوٹ جانے کے خیال سے تیزی سے اندر چلا گیا۔ باہر نکلا تو منظر خاصا بدل چکا تھا۔ اب وہ لڑکا کراہنے کی بجائے چیخ رہا تھا اور اس کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ جوتا پہننے سے پہلے اسے اس لڑکے کے بدن پر زور زور سے جھاڑتے تھے۔ وہ اس کام سے فارغ ہوجاتے تو ان کی جگہ نئے لوگ آجاتے۔ انھیں اپنا مجرم مل گیا تھا۔ اس شہر کی ساری محرومیاں، خرابیاں اور وارداتیں اسی نے کی تھیں۔
اس موضوع کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس کی خوب درگت بن رہی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ مجھے اس پر ترس بلاوجہ آرہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب کوئی میری توہین کرتا ہے تو مجھے سکون مل جاتا ہے اور میں مطمئن ہوجاتا ہوں کیونکہ پھر میں ایک قید سے آزاد ہوجاتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے بااخلاق اور شائستہ رہنے کی اداکاری نہیں کرنا پڑتی۔۔۔۔ اور اطلاعاً عرض ہے کہ اس مہینے کی 24 تاریخ کو میں اس پابندی سے آزاد ہوگیا۔ اس روز ایک ایسی شخصیت نے قدم رنجہ فرمایا ہے جس نے نوبرس تک جی بھر کے میری دھرتی کی توہین کی ہے۔ اسی کی آمد وہ موضوع ہے جس پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سارے ہاتھ درے برسا رہے ہیں۔
دھرنے والے علامہ صاحب کے بعد انھیں ایک نئی تفریح مل گئی ہے اور وہ خوب مزے لے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص انتخابات میں حصہ لینے کو آیا ہے اور ایک سنہری سیاسی مستقبل کے خواب دیکھ رہا ہے جسے قومی اسمبلی کی سیٹوں جتنے لوگ بھی ہوائی اڈے پر لینے نہیں آئے تھے۔ باقی ساری جماعتیں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہیں لیکن اس کے کوئی قریب بھی نہیں پھٹک رہا۔ روز ایسے بیانات آرہے ہیں ، وضاحتیں آرہی ہیں کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی پرانا تعلق یاد دلایا جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ جان بوجھ کے نام بھی غلط لیتے ہیں، جیسے کوئی تہمت ہو۔
وطن لوٹنے کے بعد ان صاحب نے جو پہلی پریس کانفرنس کی ہے وہ بھی خاصے کی چیز تھی۔ میں سرعام اقرار جرم کرتا ہوں کہ میں نے بذات خود وہ پریس کانفرنس ٹی وی پر پوری کی پوری دیکھی ہے اور اپنی وہ شام برباد کی ہے۔ اس شام ہر سوال کنندہ نے انتہائی سنجیدگی سے مزاحیہ سوالات پوچھے تھے۔ جوابات ان سے بھی بڑھ کر تھے۔ انھوں نے خود پر لگائے جانے والے ہر الزام کو اپنا کارنامہ قرار دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دور آمریت دراصل دور جمہوریت ہوتا ہے اور ایک آمر مطلق بالکل بے اختیار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے کیے ہوئے ہر جرم کی سزا کسی تھانیدار یا سپاہی کو دی جائے۔ موصوف نے اپنی انتخابی حکمت عملی پر اس شان سے روشنی ڈالی کہ مجھے قائل ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔ اب مجھے یقین ہے کہ جب وہ اپنی سیاسی مہم کا آغاز کریں گے تو کچھ نامعلوم جگہوں سے ان کے نام لیوا لاکھوں کی تعداد میں اچانک نکل کے آجائیں گے اور ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے سامنے جلوہ افروز ہوگا۔
اس طرح کی باتیں لکھتے ہوئے مجھے رسی کے ایک سرے پر بندھا ہوا وہ ''جوتا چور'' لڑکا پھر سے یاد آرہا ہے جو میلا کچیلا تھا، جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جو کراہ رہا تھا۔ لہٰذا میری اپنے ساتھیوں سے درخواست ہے کہ اگر کوئی شخص لوٹ کے آگیا ہے، اس نے کسی نہ کسی طرح ضمانت بھی کروالی ہے، اس کے پاس دولت بھی بے حساب ہے، وہ مقدمات بھگتنے کو بھی تیار ہے اور کھسکنے کی کوشش بھی نہیں کررہا تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ اسے فی الحال نظرانداز کردیں۔ کسی کونے کھدرے میں بیٹھا دہی کھاتا ہے تو کھالینے دیں۔ مکافات عمل آخر ایک حقیقت ہے۔ پہلا جوتا تو پڑ بھی چکا۔
آخر میں سیاسی لیڈروں سے میری ایک عرض ہے۔ نامزدگی کے کاغذات جمع کروانے کے بعد انھوں نے جلسے پر جلسہ شروع کردینا ہے اور ہم نے ریموٹ ہاتھ میں پکڑ کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جانا ہے کہ کوئی خطاب چھوٹ نہ جائے۔ مہربانی فرما کر اس وقت ہمیں بور مت کریں۔ بیانات کے جو کارتوس آپ برسوں پہلے چلاچکے وہ آپ کو بہت پسند ہیں تو انھیں کسی عجائب خانے میں رکھوا دیں اور کوئی نئی بات کریں۔ ایک ہی بات جگہ بدل کے دہرانے سے نئی نہیں ہوجاتی۔ بھئی! ہمیں پتہ ہے کہ موٹروے کس نے بنوایا تھا اور ایٹمی دھماکا کس نے کیا تھا۔ یہ بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ کلنٹن کے کتنے فون آئے تھے۔
بھٹو کی پھانسی کے بارے میں بھی سب جانتے ہیں اور بی بی کہاں اور کب شہید ہوئی تھیں اس کا بھی اچھی طرح پتہ ہے۔ بی بی کی تصویر بھی دیکھی ہوئی ہے۔ یہ بھی پتہ ہے کہ کرکٹ کا ورلڈ کپ آپ نے اکیلے کھیل کے جیتا تھا اور شوکت خانم اسپتال بھی آپ نے اپنی جیب خاص سے بنوایا تھا اور آپ کے سارے کے سارے پیسے بھی کسی پاکستانی بینک میں پڑے ہیں۔ قبلہ! آپ کی سوئی جب ریکارڈ پر ایک ہی جگہ اٹک جاتی ہے تو ہمیں آپ سے ڈر لگنے لگتا ہے۔ اور یہ تو آپ کو پتہ ہی ہوگا کہ جہاں محبت ہو وہاں خوف نہیں رہ سکتا اور جہاں خوف ہو وہاں محبت نہیں رہ سکتی۔