انتہا پسندی اور ہمارے لیڈر
کئی کئی دفعہ کے آزمودہ اس بار پھر اکھاڑے میں اتر گئے ہیں، نیا کیا ہے؟ صرف ایک عمران خان۔
یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ انسان کسی دوسرے انسان سے مذہب، زبان اور مسلک کی بناء پر نفرت کیسے کر سکتا ہے؟ میں تو کسی سے نفرت نہیں کر سکتی۔ خواہ وہ میرا مخالف ہی کیوں نہ ہو، نفرت تو جھنجھلاہٹ، کمزوری اور احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی کہ جس ماحول میں آدمی پرورش پاتا ہے، اس میں نفرت رچی بسی ہوتی ہے، میں نے اور میرے بہن بھائیوں نے ہمیشہ گھر میں یہ ماحول دیکھا کہ والدین کے ملنے جلنے والوں اور دوست احباب میں ہر مذہب اور مسلک کے لوگ شامل تھے۔
میرے والد نے انگریزوں کے ساتھ کام کیا، ہندوؤں کے محلوں میں رہے۔ پارسی، یہودی اور سکھ بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہر انسان اور ہر مذہب کی اچھائیاں دیکھو، کوئی بھی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا۔ دراصل اس مذہب کے پیروکار اپنی ذاتی خباثتوں کو مذہب کی چادر میں لپیٹ کر اپنا کام نکالتے ہیں۔ میرے بڑے دونوں بھائی تقسیم سے پہلے کے زمانے کو بہت یاد کرتے تھے۔ جب ان کا لڑکپن تھا۔ وہ ہولی اور دیوالی ہندوؤں کے ساتھ مل کر مناتے تھے۔ دیوالی کی رات دونوں بھائی پڑوسیوں کے گھروں کی منڈیروں پر دیئے جلاتے تھے۔
والدہ ان کے گھر مٹھائی اور خستہ کچوریاں بھجواتی تھیں۔ گھر میں والد کے دوستوں کی دعوتیں ہوتی تھیں۔ جن میں وہ لوگ مٹن بریانی اور کباب بہت شوق سے کھاتے تھے۔ وہ لوگ بھی عید، بقر عید پر مٹھائیاں، سویاں اور مزیدار کھانے بھجواتے تھے۔ ثقافت اور تہذیب کے یہ رنگ آپس میں بہت ملے جلے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دکھ درد اور پریشانیوں میں بھی یہ ہمسائے اور اہل محلہ ایک دوسرے کے شریک اور رازوں کے امین تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میری دادی، والدہ اور بہن بھائیوں کی زندگی والد کے ہندو بنگالی دوست کی مرہون منت ہے۔ ورنہ وہ سب بھی وحشی سکھوں اور متعصب ہندوؤں کی تلواروں اور چھروں کی نذر ہو جاتے۔
میرے والد اور والدہ کبھی اس احسان کو نہیں بھولے اور انھوں نے ہمیشہ مرتے دم تک ان دوستوں کو یاد رکھا جنھوں نے والد کی غیر موجودگی کے باوجود ان کی فیملی کو بحفاظت پاکستان بھجوا دیا تھا۔ خاندانی آدمی کبھی کسی کا احسان نہیں بھولتا۔ ہمارے والدین نے بھی ہمیں یہ یاد دلائے رکھا کہ پیار زندگیوں کو آسان بناتا ہے اور یہ کہ ساری دنیا کے لوگ صرف خدا کے بندے ہیں۔ بالکل سفید بے داغ کاغذ کی طرح پاکیزہ۔ اس سفید کاغذ پر ماحول اور وراثت کے اثرات اپنی جگہ بناتے ہیں۔ شائستہ، مہذب، تعلیم یافتہ اور روشن خیال گھرانوں کے بچے یہی امن اور دوستی کی روایت لے کر بڑے ہوتے ہیں۔ جب کہ غیر مہذب، اجڈ، گنوار اور جہالت کے پروردہ نفرت اور تعصب کے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر جوان ہوتے ہیں۔
حسن بن صباح جسے اقبالؔ نے ''ساحر الموط'' کہا ہے۔ اس نے اپنے فرقے کے فروغ اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عالموں اور دانش وروں کو سب سے پہلے اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے ایسے مفلس، قلاش اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے نوجوانوں کو ایک جھوٹی جنت اور حوروں کا جھانسہ دے کر اپنے جال میں پھنسایا، جو پہلے ہی ناقدر شناسی کا شکار تھے اور اپنے اندر سماج کے خلاف نفرت کا جوالا مکھی چھپائے بیٹھے تھے۔ حسن نے ان کی محرومیوں کو خوب بڑھاوا دیا اور پھر ان کے ذریعے کئی علماء کو قتل کروا دیا۔ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور عداوت پیدا کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ آج یہی ہو رہا ہے۔
مذہبی دہشت گردی میں ملوث جو بچے اور نوجوان پکڑے جاتے ہیں وہ سب اسی محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور آسانی سے ایسے لوگوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں، جن کا اصل مقصد انتشار پھیلانا ہوتا ہے تا کہ وہ ان قوتوں پر اثر انداز ہو سکیں، جن کے پاس اقتدار کے خزانے کی چابی ہے۔ دراصل مفلسی اور بے روزگاری وہ بلائیں ہیں جو اندھی ہوتی ہیں۔ اسی لیے کسی جگہ بم دھماکے کرنے والوں کو صرف اپنی ضروریات یاد رہتی ہیں۔ نفرت اور بے انصافی کا لاوا جو ان کے وجود میں سلگتا ہے اس کو دہشت گرد اور ہوا دیتے ہیں اور نتیجے میں جنت اور 70 حوروں کی بشارت دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے حسن بن صباح نے نوجوانوں کو برگ حشیش کا عادی بنا کر اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اقبال نے ایک جگہ کہا ہے:
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ
ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر ' سمجھا اسے شاخ نبات
نسل' قومیت' کلیسا' سلطنت' تہذیب رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات
پاکستان اس وقت تمام دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔ ہر طرح کی دہشت گردی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ جن کے پاس وسائل ہیں وہ بوریا بستر سمیٹ سکون کی تلاش میں ملک سے باہر چلے گئے، لیکن وہ کیا کریں جن کا جینا مرنا اسی ملک سے وابستہ ہے، وہ لوگ کیا کریں جو دھڑکتے دلوں کے ساتھ باہر نکلتے ہیں، خوف کے سائے جن کا پیچھا کرتے رہتے ہیں؟ کبھی وہ عیسائی ہونے کی وجہ سے مار دیے جاتے ہیں، کبھی ہندو ہونے کی وجہ سے ، اور کبھی مارنے کی کوئی بھی وجہ نہیں ہوتی۔ یہ سب یونہی ہوتا رہے گا، ہمارے نام نہاد لیڈر چہرے بدل بدل کر نئے نئے نعروں اور نئی نئی تقاریر رٹ کر ووٹ مانگنے آتے رہیں گے، دنگل سجتے رہیں گے، کچھ لوگ اپنی روزی روٹی پکی کرنے کے لیے پیچھے پیچھے ڈھول تاشے بجاتے چلتے رہیں گے۔
کئی کئی دفعہ کے آزمودہ اس بار پھر اکھاڑے میں اتر گئے ہیں، نیا کیا ہے؟ صرف ایک عمران خان۔ انھیں ایک موقع ضرور ملنا چاہیے، اکثریت یہی کہہ رہی ہے، لیکن اکثریت تو عوام کی ہے، لیکن عوام کی اوقات کیا ہے؟ جسے پیا چاہیں گے لال جوڑا پہنا کر سہاگن بنا دیں گے۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے ذرا یہ بتائیں کہ پہلے جب آپ اقتدار میں رہے تو کون سا تیر مارا تھا، جو اب کچھ کر لیں گے؟ سب کی اصلیت لوگ جانتے ہیں، لیکن کیا کریں؟ جو ہونا ہے وہ تو ہوکر رہے گا۔ ہزار لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر کسی ''نئے'' کو ووٹ دیں، لیکن نتیجہ تو وہی نکلے گا جس کی بازگشت میں نے اپریل 2012ء میں اسلام آباد میں سنی تھی کہ پنچوں کا یہی حکم ہے، خلق خدا کے راج کرنے کا زمانہ کبھی نہیں آئے گا۔
چور، لٹیرے، ڈاکو اور ساہوکار سب ملی بھگت سے کئی بار خزانہ خالی کر چکے ہیں۔ اب معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے، اسٹیٹ بینک صرف کاغذی نوٹ چھاپ رہا ہے۔ اس معاملے پر اسٹیٹ بینک اور حکومتی حلقوں میں اختلاف بھی ہوا ہے۔ اگر پوری سچائی سے سونے کے ذخائر اور اس کے مقابل زر کا جائزہ لیا جائے تو خوفناک حد تک تلخ سچائی سامنے آ جائے گی۔ افراط زر سے کن قوتوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور معیشت کا گراف نیچے ہی نیچے کہاں جا رہا ہے؟ یہ ماہر معاشیات بخوبی بتا سکتے ہیں، کسی بھی ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے بے روزگاری کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔
جب پیٹ بھر کر کھانا مل رہا ہو گا، تن پر کپڑا ہو گا اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے مناسب رقم، تو کوئی بھی اپنے ہی جیسے انسانوں کو لقمہ اجل بنانے کے لیے بم دھماکے نہیں کرے گا، لیکن افسوس کہ عام آدمی کو روٹی اور روزی مہیا کرنے کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں صرف اپنی اولاد کے لیے کرپشن کے دروازے کھول دیتی ہیں۔ جس جماعت کو بھی اقتدار ملتا ہے وہ فوراً ہی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو جاتی ہے اور عوام ان کے لیے شجر ممنوعہ۔ قومی خزانے کو خالی کرنے اور اپنے خزانے بھرنے کے لیے ایسے لوگ منتخب کیے جاتے ہیں جو علی بابا چالیس چور کے کرداروں کو زندہ کر سکیں۔
حج کرپشن سے لے کر دیگر بڑے بڑے کارنامے ''سنہرے حروف'' سے اخبارات کی زینت بنے ہیں۔ اب آگے کیا ہو گا؟ وہی جو 65 سال سے ہوتا آیا ہے۔ سر پیٹیے، ماتم کیجیے۔ یہاں کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں وہ جو ''ووٹ' سے تبدیلی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ کیا کریں؟ انھیں کسی خفیہ قوت نے اسی کام پر لگایا ہوا ہے کہ صرف جمہوریت کا راگ الاپو، اور کرسی کرسی کا کھیل رچاؤ۔۔۔۔!