22کروڑ عوام کا قصور بتا دیں
آزاد انتخابات کی ضمانت نہ دی گئی تو پیپلز پارٹی انتخابات کا بائیکاٹ کردے گی
5جولائی 1977 کی صبح ریڈیو اور اخبارات کے خصوصی ضمیموں سے عوام کو خبر ملی کہ فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے، وزیر اعظم بھٹو کو دیگر سیاسی رہنماؤں سمیت گرفتار کر کے مری منتقل کردیا گیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کی دوپہر کی نشریات میں ایک اعلان نشر کیا گیا:''چیف آف دی آرمی اسٹاف نے پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ہے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور معطل رہے گا۔
قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں۔ وزیر اعظم، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت ، وزیر اعظم کے مشیر ،قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر، سینیٹ کے چیئرمین اور وائس چیئرمین، صوبائی گورنر، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزیر اپنے عہدوں پر قائم نہیں رہے۔ صدر پاکستان اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔ پورا ملک مارشل لاء کے تحت آگیا ہے۔5جولائی کی رات 8بجے ریڈیو اور ٹی وی پر جنرل ضیاء کا قوم سے پہلا خطاب شروع ہوا۔ قرآنی آیات کے ساتھ جنرل ضیاء نے اپنی تقریر میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوچکی ہے، اس کی جگہ درمیانی مدت کے لیے فوج نے حکومت سنبھال لی ہے۔ میں( جنرل ضیاء) چیف آف دی آرمی اسٹاف اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے فرائض انجام دوں گا۔ میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں اور اکتوبر1977میں نئے انتخابات کرانا میرا واحد مقصد ہے۔ انتخابات کے بعد اقتدار عوامی نمایندوں کو منتقل کردیا جائے گا، وغیر ہ وغیرہ۔
سیاسی اجتماعات پر پابندی لگادی گئی، فوجی عدالتوں کا قیام ہوا اور پھر ''بلی نے تھیلے سے باہر آنا شروع کردیا''27جولائی کو جنرل ضیاء نے دوسری بار قوم سے خطاب کیا اور اعلان کیا کہ یکم اگست 1977 کوسیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہوگی اور اکتوبر 1977میں عام انتخابات منعقد ہوں گے۔28جولائی کو جنرل ضیاء نے بھٹو اور مولانا مفتی محمود سے ملاقات کی اور اسی روز شام کو تمام ''زیر حراست'' سیاسی رہنما رہا کردیے گئے اور بھٹو اسلام آباد پہنچ گئے۔
29جولائی جناب بھٹو پاک فضائیہ کے ایک خصوصی طیارے میں لاڑکانہ آگئے۔ ان کے ساتھ جناب ممتاز علی بھٹو بھی لاڑکانہ آئے۔ انتخابات کا اعلان ہوا اور اسی دوران بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی دائر کر دیا گیا۔ بھٹو کا عدالتی ٹرائل شروع ہوا تو اس کی تحریک اور جارحانہ پن میں تیزی آگئی۔ بھٹو بذریعہ طیارہ ملتان روانہ ہوتے ہیں۔ ملتان ایئرپورٹ پر ان کا شاندار استقبال ہوتا ہے۔ ایئرپورٹ سے 3میل لمبے جلوس میں جناب بھٹو اپنی قیام گاہ پر پہنچتے ہیں۔ یہ صورت حال مارشل لاء حکام کے لیے غیر متوقع تھی۔
ملتان میں ایک روزہ قیام کے بعد 8اگست 1977 کو جناب بھٹو لاہور پہنچتے ہیں۔ لاہور ایئرپورٹ پر تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود ہزاروں کارکن خیر مقدم کے لیے موجود تھے اور پورے لاہور شہر میں جناب بھٹو کے استقبال کے لیے عوام سڑکوں پر تھے حالانکہ جلسے جلوس پر پابندی تھی۔بھٹو جہاں بھی گئے وہاں اُن کو بہت زیادہ پذیرائی ملی، پولیس کی جانب سے کئی جگہ پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا، اور بھٹو نے اس موقع پر مارشل لا حکام کو خبر دار کیا کہ اگر مکمل غیر جانبداری نہ برتی گئی اور آزاد انتخابات کی ضمانت نہ دی گئی تو پیپلز پارٹی انتخابات کا بائیکاٹ کردے گی ۔
جس کے جواب میں جنرل ضیاء نے دھمکی دی اگر کسی جماعت یا کسی لیڈر نے ہمارے مشن کو ناکام بنانے کی کوشش کی تو اس کو ملک دشمن تصوّر کیا جائے گا۔جنرل ضیاء کے اس بیان کے بعد پارٹی کارکن زیادہ متحرک ہوئے اور ہر جگہ بھٹو کے بڑے بڑے استقبال اور اجتماعات سے جنرل ضیاء اور اس کے ''رفقاء''خوف زدہ ہوچکے تھے۔ اس سارے عمل میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ بھٹو کے خلاف پیش پیش رہی، جنرل ضیاء کے ان ''اقدامات '' کی وجہ سے امریکا و یورپ میں اُن کو خوب شہرت نصیب ہوئی مگر پاکستان میں مکمل صورت حال واضح ہوگئی کہ امریکی سیکریٹری خارجہ ہنری کیسنجر کے تحریر کردہ اسکرپٹ پر کام شروع ہوچکا تھا۔
تاریخ کی اس سرسری صورتحال کو چند پیراگراف میں بیان کرنے کا مقصد آج کے حالات سے موازنہ کرنا ہے کہ آج تلخ حقیقت یہ ہے کہ سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف کی مقبولیت کا گراف ، ان کے جارحانہ پن کی وجہ سے اوپر جا رہا ہے۔
اور ایک ''نااہل وزیر اعظم'' کی مقبولیت بڑھانے میں ہمارے اداروں کی ناقص حکمت عملی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ اور اب اگر میاں نواز شریف کو جیل میں ڈالا گیا تو حالات مزید بگڑ جائیں گے، پھر یورپ امریکا کے خلاف تیل کی اسٹرائیک اور ساتھ ایٹم بم بنانے کے آغاز نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کے خلاف کر دیا تھا۔ لیکن اب عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ نواز شریف کے ساتھ ہے جس میں امریکا اور دیگر اتحادی ممالک شامل ہیں۔ اور بادی النظر میں کسی حد تک امریکا کی نوازشریف کو مکمل سپورٹ نظر آرہی ہے۔ اس لیے آگے چل کر ہمارے حکمرانوں نے جو بھی فیصلے کرنے ہیں وہ ذرا سوچ سمجھ کر کیے جائیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج جس طرح نواز شریف اداروں کو بدنام کر رہا ہے اور ادارے کچھ کرنے سے قاصر ہیں تو کیا ایسی حکمت عملی نہیں بنانی چاہیے تھی کہ جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو اس پر اسی وقت پابندی لگا دی جاتی ۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت اس لڑائی میں ملک کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کا کون ذمے دار ہے۔
اے خاک وطن اب تو وفاؤں کا صلا دے
میں ٹوٹتی سانسوں کی فصیلوں پہ کھڑا ہوں
اور رہی بات نوازشریف کی ساکھ کی تو وہ آج کشتیاں جلا کر بیٹھے ہیں۔ انھوں نے اپنا آپ، اپنی پارٹی اور اپنے قرب و جوار کے لوگوں حتیٰ کہ سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے ، اس لیے انھیں نہ تو عدالتوں کی پروا ہے، نہ کسی ادارے کی نہ کسی نیب اورنہ کسی احتساب کورٹ کی۔ لہٰذاہمیں مل بیٹھ کر ملک کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈالنے کے لیے عالمی قوتیں اکٹھی ہورہی ہیں، افغانستان میں بھی بڑی قوتوں کا ورلڈ کپ شروع ہونے والا ہے۔
جس میں طالبان بمقابلہ داعش ہونے والا ہے، داعش کی بیک پر امریکا اور نیٹو ہے، اور طالبان کے پیچھے دوسرا دھڑا روس ، چین ایران اور اب پاکستان کابھی نام لیا جا رہا ہے۔ بھارت چاہ بہار پر قدم جما چکا ہے۔ پاکستان کی تقدیر بدلنے والا بڑا منصوبہ سی پیک خطرے میں ہے اور اگر سب کچھ ہی داؤ پر لگانا ہے اور ملک کی پروا کسی نے نہیں کرنی تو خدارا اس 22کروڑ عوام کا کیا قصور ہے جو ان کم ظرف حکمرانوں سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے اور وطن عزیز سے سوال کر رہی ہے کہ
ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے