مہاجر ووٹ بینک کی تقسیم۔فائدہ کسے ہو گا
1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے سفر شروع کرنے والی جماعت ایم کیو ایم سے اب تک 5 جماعتیں جنم لے چکی ہیں
سندھ کے شہری علاقوں سے متوسط طبقے کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ مارچ 2016 سے یکے بعد دیگرے لگنے والے جھٹکوں سے سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی، مہاجروں کے نام پر اپنی سیاست کا آغاز کرنے والی ایم کیو ایم آج بدترین تنظیمی بحران سے گزر رہی ہے۔
بانی متحدہ کی متنازع تقریر کے بعد جب ایم کیو ایم پر پابندی کی تلوار لٹک رہی تھی تو فاروق ستار نے پارٹی کو اس بھنور سے نکالا، اور ایم کیو ایم مائنس ون فارمولے کے تحت اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی لیکن اب فاروق ستار کی قیادت پر ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی تقسیم کا عمل بظاہر تو کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے معاملے سے شروع ہوا لیکن پھر یہ بات کھلی اور واضح ہوگئی کہ اصل مسئلہ پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے، فاروق ستار پارٹی صدر کی حیثیت سے ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی کے تمام اہم فیصلے کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے جس کے لیے وہ پارٹی آئین میں موجود کنوینر کے اختیارات کا حوالہ دیتے رہے جب کہ رابطہ کمیٹی کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر رضامند نہیں ہوئی اور اس کے ارکان کھل کر فاروق ستار کے مدمقابل آگئے۔
پہلے رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے فارغ کرکے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کنوینر نامزد کیا، تھوڑی دیر بعد فاروق ستار نے کارکنوں کے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب میں رابطہ کمیٹی سمیت تمام تنظیمی ڈھانچے کو فارغ کرکے ان کے اختیارات ختم کردیے۔گزشتہ دو ہفتے سے جاری اس کھینچا تانی میں دونوں گروپوں کی جانب سے مفاہمت کے لیے مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے جن میں بار بار یہ واضح کیا گیا کہ پارٹی میں اختلاف رائے ہے، تقسیم نہیں، یہاں تک کہا گیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ایک تھی اور ایک رہے گی، بیانات کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ شاید بحران ٹل گیا ہے مگر فاروق ستار کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جانے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی تقسیم کا عمل مکمل ہوگیا 'پارٹی عملی طور پر 2حصوں میں بٹ گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے خالد مقبول کے دستخطوں کے ساتھ جاری ہونیوالے سینیٹ کے پارٹی ٹکٹ قانونی طور پرتسلیم کر لیے ہیں چنانچہ رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنے سے متعلق فاروق ستار کے اعلان کی بادی النظر میں کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد فاروق ستار نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے جب کہ ایم کیو ایم بہادرآباد گروپ اور رابطہ کمیٹی نے انٹرا پارٹی الیکشنز کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کردیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کسے تسلیم کرتا ہے اور کسے نہیں۔ کمیشن جسے تسلیم کرے گا اس کا پلڑا بھاری رہے گاکیونکہ اسے پارٹی کا پرچم اور انتخابی نشان پتنگ وراثت میں ملے گا جس کے ساتھ کارکن جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں۔
1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے سفر شروع کرنے والی جماعت ایم کیو ایم سے اب تک 5 جماعتیں جنم لے چکی ہیں۔ 1992 میں ایم کیو ایم حقیقی کا دھڑا الگ ہوا، 1997میں مہاجر کا لفظ حذف کرکے اس کا نام متحدہ قومی موومنٹ رکھا گیا، مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کے بطن سے مصطفی کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی کا جنم ہوا، باقی ماندہ متحدہ قومی موومنٹ 23 اگست 2016 کے بعد ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن میں بٹ گئی۔ اب ایم کیو ایم پاکستان بھی 2 دھڑوں بہادر آباد اور پی آئی بی میں تقسیم ہوگئی ہے۔ تقسیم کے اس عمل کے بعد ایم کیو ایم پاکستان جو سینیٹ کے الیکشن میں 2سے 3نشستیں جیت سکتی تھی اب اس کے امکانات بھی معدوم ہوگئے ہیں، ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر لگنے والی منڈی میں ایم کیو ایم نے 35 سال سے اپنے اراکین اسمبلی کو اس منڈی سے دور رکھا، مگر اب وہ اپنے ارکان اسمبلی کو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے نہیں روک سکے گی۔
سب سے زیادہ افسوسناک اور نقصان دہ عمل یہ ہے کہ تقسیم در تقسیم کے اس عمل نے مضبوط مہاجر ووٹ بینک کو بھی تقسیم کردیا ہے اور اس کا سیاسی ٹائی ٹینک ڈوبتا نظر آرہا ہے، تقسیم کے اس عمل کا بدترین خمیازہ اس کے ووٹرز کو بھگتنا پڑے گا، کارکنان اور ووٹرز تذبذب اور پریشانی کا شکار نظر آرہے ہیں، وہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی پہلا الیکشن آیا ہے اور یہ حال ہوگیا، سینیٹ کی نشستوں پر چند ٹکٹیں جاری کرنے پر یہ عالم ہے تو آنے والے عام انتخابات میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے درجنوں ٹکٹوں کے اجراء پر کیا ہوگا؟ کارکنان، ووٹرز اور اردو بولنے والے مایوسی اور بددلی کا شکار نظر آرہے ہیں۔
شکست و ریخت کے اس تمام تر عمل کے باوجود ایم کیو ایم اب بھی سندھ میں دوسری اور قومی اسمبلی میں چوتھی بڑی جماعت ہے لیکن یہ جھگڑا اگر یونہی چلتا رہا تو اس سے ووٹ بینک تقسیم ہوجائے گا، ایک اردو بولنے والا جب ووٹ ڈالنے جائے گا تو تذبذب کا شکار ہوگا کہ کس کو ووٹ دے، فاروق ستار کی ایم کیو ایم کو، بہادر آباد، پی ایس پی یا پھر ایم کیو ایم حقیقی کو کیونکہ یہ سب مہاجروں کے حقوق کی دعویدار ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پرانی مہاجر رابطہ کونسل جس نے 1992 اور1995 کے مشکل اوقات میں ایم کیو ایم اور اس کے بانی کو سپورٹ کیا تھا، وہ بھی الیکشن سے قبل متحرک نظر آئے گی۔ اگلے انتخابات میں پتہ چلے گا کہ مہاجر ووٹ بینک کتنا تقسیم ہوا ہے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں متحدہ کے لیے چیزیں بدستور تاریک ہیں اور اگر اس نے ان پر قابو نہ پایا اور نوشتہ دیوار نہ پڑھا تو پارٹی یا تحریک جو ''ایم کیو ایم'' کہلاتی ہے اپنے لیے عام انتخابات میں کوئی جگہ نہیں بنا سکے گی'اس کا ووٹ بینک مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اس تنظیم سے ہمدردی رکھنے والوں کی خواہش ہو گی کہ پی آئی بی اور بہادر آباد کیمپ کے رہنما اپنی قوم کے وسیع تر مفاد میں اختلافات کو دور کریں، صورتحال کی نزاکت کا احساس کریں اور اصل مسائل پر توجہ دیں، جھگڑے سے کسی کوفائدہ نہیں ہوگا، مخالف سیاسی جماعتیں طنز کررہی ہیں کہ جو پارٹی اپنے سینیٹ کے ٹکٹ کا مسئلہ حل نہیں کرسکتی، وہ عوام کے مسائل کیا حل کرے گی؟ ویسے بھی ایم کیو ایم ایک عرصے سے اردو بولنے والوں کے مسائل سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور بلدیاتی اداروں کو اختیارات دلانے کے حوالے سے کام کرنے کے بجائے اپنے ہی معاملات میں الجھی رہی ہے اور اب اس تقسیم سے یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اور پس منظر میں چلے جائیں گے، جس سے ان قوتوں کی منشاء پوری ہوجائے گی جو ان مسائل کو حل کرنا ہی نہیں چاہتیں۔
یہاں غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم کی منقسم صورتحال میں دوسری سیاسی جماعتیں کتنا فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ تحریک انصاف نے تو کراچی پر پہلے بھی زیادہ توجہ نہیں دی اور اب بھی اس سے کوئی خاص امید نہیں ہے، البتہ پیپلز پارٹی اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے، اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اشارہ دے چکے ہیں کہ کراچی میں جہاں ہوسکے گا موقع سے فائدہ اٹھائیں گے اورہر جگہ سے اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ ایم کیو ایم میں موجودہ انتشار سے فائدہ اٹھائے مگر اس کے لیے پیپلز پارٹی کو مہاجروں کا دل جیتنے کے لیے زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے ، گزشتہ 10سال میں پیپلز پارٹی نے جو اقدامات کیے ہیں۔
اس سے اردو بولنے والوں کا احساس محرومی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا ہے، کوٹہ سسٹم جو صرف ایک مخصوص مدت کے لیے نافذ کیا گیا تھا ابھی تک مسلط ہے اور ہر آنے والی حکومت نے اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، اس سے کراچی کے مسائل مزید بڑھ گئے ' حکمرانوں نے کبھی دیہی و شہری تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی، اس کے برعکس مسئلے کو سیاسی رنگ دیا اورسیاسی مقاصد کے لیے مزید تقسیم پیدا کی، موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی اگر کوٹہ سسٹم کو ختم کرکے میرٹ کا نظام لاگو کرے، بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل کرے تو کراچی شہرکے ان علاقوں میں بھی اپنا ووٹ بینک بڑھا سکتی ہے جہاں سے فی الوقت اسے بہت کم ووٹ ملتے ہیں۔
بانی متحدہ کی متنازع تقریر کے بعد جب ایم کیو ایم پر پابندی کی تلوار لٹک رہی تھی تو فاروق ستار نے پارٹی کو اس بھنور سے نکالا، اور ایم کیو ایم مائنس ون فارمولے کے تحت اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی لیکن اب فاروق ستار کی قیادت پر ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی تقسیم کا عمل بظاہر تو کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے معاملے سے شروع ہوا لیکن پھر یہ بات کھلی اور واضح ہوگئی کہ اصل مسئلہ پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے، فاروق ستار پارٹی صدر کی حیثیت سے ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی کے تمام اہم فیصلے کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے جس کے لیے وہ پارٹی آئین میں موجود کنوینر کے اختیارات کا حوالہ دیتے رہے جب کہ رابطہ کمیٹی کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر رضامند نہیں ہوئی اور اس کے ارکان کھل کر فاروق ستار کے مدمقابل آگئے۔
پہلے رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے فارغ کرکے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کنوینر نامزد کیا، تھوڑی دیر بعد فاروق ستار نے کارکنوں کے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب میں رابطہ کمیٹی سمیت تمام تنظیمی ڈھانچے کو فارغ کرکے ان کے اختیارات ختم کردیے۔گزشتہ دو ہفتے سے جاری اس کھینچا تانی میں دونوں گروپوں کی جانب سے مفاہمت کے لیے مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے جن میں بار بار یہ واضح کیا گیا کہ پارٹی میں اختلاف رائے ہے، تقسیم نہیں، یہاں تک کہا گیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ایک تھی اور ایک رہے گی، بیانات کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ شاید بحران ٹل گیا ہے مگر فاروق ستار کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جانے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی تقسیم کا عمل مکمل ہوگیا 'پارٹی عملی طور پر 2حصوں میں بٹ گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے خالد مقبول کے دستخطوں کے ساتھ جاری ہونیوالے سینیٹ کے پارٹی ٹکٹ قانونی طور پرتسلیم کر لیے ہیں چنانچہ رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرنے سے متعلق فاروق ستار کے اعلان کی بادی النظر میں کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد فاروق ستار نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے جب کہ ایم کیو ایم بہادرآباد گروپ اور رابطہ کمیٹی نے انٹرا پارٹی الیکشنز کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کردیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کسے تسلیم کرتا ہے اور کسے نہیں۔ کمیشن جسے تسلیم کرے گا اس کا پلڑا بھاری رہے گاکیونکہ اسے پارٹی کا پرچم اور انتخابی نشان پتنگ وراثت میں ملے گا جس کے ساتھ کارکن جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں۔
1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے سفر شروع کرنے والی جماعت ایم کیو ایم سے اب تک 5 جماعتیں جنم لے چکی ہیں۔ 1992 میں ایم کیو ایم حقیقی کا دھڑا الگ ہوا، 1997میں مہاجر کا لفظ حذف کرکے اس کا نام متحدہ قومی موومنٹ رکھا گیا، مارچ 2016 میں ایم کیو ایم کے بطن سے مصطفی کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی کا جنم ہوا، باقی ماندہ متحدہ قومی موومنٹ 23 اگست 2016 کے بعد ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن میں بٹ گئی۔ اب ایم کیو ایم پاکستان بھی 2 دھڑوں بہادر آباد اور پی آئی بی میں تقسیم ہوگئی ہے۔ تقسیم کے اس عمل کے بعد ایم کیو ایم پاکستان جو سینیٹ کے الیکشن میں 2سے 3نشستیں جیت سکتی تھی اب اس کے امکانات بھی معدوم ہوگئے ہیں، ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر لگنے والی منڈی میں ایم کیو ایم نے 35 سال سے اپنے اراکین اسمبلی کو اس منڈی سے دور رکھا، مگر اب وہ اپنے ارکان اسمبلی کو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے نہیں روک سکے گی۔
سب سے زیادہ افسوسناک اور نقصان دہ عمل یہ ہے کہ تقسیم در تقسیم کے اس عمل نے مضبوط مہاجر ووٹ بینک کو بھی تقسیم کردیا ہے اور اس کا سیاسی ٹائی ٹینک ڈوبتا نظر آرہا ہے، تقسیم کے اس عمل کا بدترین خمیازہ اس کے ووٹرز کو بھگتنا پڑے گا، کارکنان اور ووٹرز تذبذب اور پریشانی کا شکار نظر آرہے ہیں، وہ سوچ رہے ہیں کہ ابھی پہلا الیکشن آیا ہے اور یہ حال ہوگیا، سینیٹ کی نشستوں پر چند ٹکٹیں جاری کرنے پر یہ عالم ہے تو آنے والے عام انتخابات میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے درجنوں ٹکٹوں کے اجراء پر کیا ہوگا؟ کارکنان، ووٹرز اور اردو بولنے والے مایوسی اور بددلی کا شکار نظر آرہے ہیں۔
شکست و ریخت کے اس تمام تر عمل کے باوجود ایم کیو ایم اب بھی سندھ میں دوسری اور قومی اسمبلی میں چوتھی بڑی جماعت ہے لیکن یہ جھگڑا اگر یونہی چلتا رہا تو اس سے ووٹ بینک تقسیم ہوجائے گا، ایک اردو بولنے والا جب ووٹ ڈالنے جائے گا تو تذبذب کا شکار ہوگا کہ کس کو ووٹ دے، فاروق ستار کی ایم کیو ایم کو، بہادر آباد، پی ایس پی یا پھر ایم کیو ایم حقیقی کو کیونکہ یہ سب مہاجروں کے حقوق کی دعویدار ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پرانی مہاجر رابطہ کونسل جس نے 1992 اور1995 کے مشکل اوقات میں ایم کیو ایم اور اس کے بانی کو سپورٹ کیا تھا، وہ بھی الیکشن سے قبل متحرک نظر آئے گی۔ اگلے انتخابات میں پتہ چلے گا کہ مہاجر ووٹ بینک کتنا تقسیم ہوا ہے۔
موجودہ سیاسی منظر نامے میں متحدہ کے لیے چیزیں بدستور تاریک ہیں اور اگر اس نے ان پر قابو نہ پایا اور نوشتہ دیوار نہ پڑھا تو پارٹی یا تحریک جو ''ایم کیو ایم'' کہلاتی ہے اپنے لیے عام انتخابات میں کوئی جگہ نہیں بنا سکے گی'اس کا ووٹ بینک مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اس تنظیم سے ہمدردی رکھنے والوں کی خواہش ہو گی کہ پی آئی بی اور بہادر آباد کیمپ کے رہنما اپنی قوم کے وسیع تر مفاد میں اختلافات کو دور کریں، صورتحال کی نزاکت کا احساس کریں اور اصل مسائل پر توجہ دیں، جھگڑے سے کسی کوفائدہ نہیں ہوگا، مخالف سیاسی جماعتیں طنز کررہی ہیں کہ جو پارٹی اپنے سینیٹ کے ٹکٹ کا مسئلہ حل نہیں کرسکتی، وہ عوام کے مسائل کیا حل کرے گی؟ ویسے بھی ایم کیو ایم ایک عرصے سے اردو بولنے والوں کے مسائل سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور بلدیاتی اداروں کو اختیارات دلانے کے حوالے سے کام کرنے کے بجائے اپنے ہی معاملات میں الجھی رہی ہے اور اب اس تقسیم سے یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اور پس منظر میں چلے جائیں گے، جس سے ان قوتوں کی منشاء پوری ہوجائے گی جو ان مسائل کو حل کرنا ہی نہیں چاہتیں۔
یہاں غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم کی منقسم صورتحال میں دوسری سیاسی جماعتیں کتنا فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ تحریک انصاف نے تو کراچی پر پہلے بھی زیادہ توجہ نہیں دی اور اب بھی اس سے کوئی خاص امید نہیں ہے، البتہ پیپلز پارٹی اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے، اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اشارہ دے چکے ہیں کہ کراچی میں جہاں ہوسکے گا موقع سے فائدہ اٹھائیں گے اورہر جگہ سے اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ ایم کیو ایم میں موجودہ انتشار سے فائدہ اٹھائے مگر اس کے لیے پیپلز پارٹی کو مہاجروں کا دل جیتنے کے لیے زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے ، گزشتہ 10سال میں پیپلز پارٹی نے جو اقدامات کیے ہیں۔
اس سے اردو بولنے والوں کا احساس محرومی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا ہے، کوٹہ سسٹم جو صرف ایک مخصوص مدت کے لیے نافذ کیا گیا تھا ابھی تک مسلط ہے اور ہر آنے والی حکومت نے اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، اس سے کراچی کے مسائل مزید بڑھ گئے ' حکمرانوں نے کبھی دیہی و شہری تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی، اس کے برعکس مسئلے کو سیاسی رنگ دیا اورسیاسی مقاصد کے لیے مزید تقسیم پیدا کی، موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی اگر کوٹہ سسٹم کو ختم کرکے میرٹ کا نظام لاگو کرے، بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل کرے تو کراچی شہرکے ان علاقوں میں بھی اپنا ووٹ بینک بڑھا سکتی ہے جہاں سے فی الوقت اسے بہت کم ووٹ ملتے ہیں۔