شامی افواج کی وحشیانہ بمباری 200 سے زائد افراد ہلاک

شامی افواج کے فضائی حملے میں شدید جانی نقصان ہوا ہے جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔


ویب ڈیسک February 21, 2018
شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں بمباری کے بعد ایک شخص بچے کو دوڑتے ہوئے محفوظ مقام تک پہنچارہا ہے۔ فوٹو: بشکریہ سی این این

شامی افواج کی وحشیانہ فضائی بمباری کے نئے سلسلے میں اب تک 200 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مشرقی غوطہ میں لگاتار بمباری کی گئی ہے جس میں بڑے پیمانے پر تباہی کے علاوہ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

اس علاقے کے متعلق کہا جارہا ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں شامی حکومت کے باغی سرگرم ہیں تاہم یہاں بڑی تعداد میں عام افراد رہتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر ہم بمباری سے نہ مرے تو بھوک سے ہلاک ہوجائیں گے کیونکہ اس علاقے کا محاصرہ ہوچکا ہے اور اشیائے خورونوش ختم ہوچکی ہیں۔



مشرقئ غوطہ کی ایک خاتون شمس نے بتایا کہ کل سے اب تک شامی افواج نے علاقے میں ہرلمحے ہر طرح کی بمباری کی ہے، لڑاکا طیاروں کی مسلسل پرواز جاری ہے جب فوج بمباری روکتی ہے تو طیاروں سے میزائل فائر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

لگاتار گولہ باری کے بعد غوطہ کا علاقہ خوف، تباہی اور ہیبت کی تصویر پیش کررہا ہے۔ یہاں موجود ایک ڈاکٹر خالد ابولعبد نے کہا کہ 2013ء سے وہ یہاں محصور ہے اور اب صورتحال تباہ کن اور وحشیانہ ہوچکی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شامی افواج اسکول، اسپتال، بازار، رہائشی علاقوں اور ہر جگہ کو نشانہ بنارہی ہیں جس سے لوگوں کی بڑی تعداد ہلاک اور زخمی ہوئی ہے۔

شام کی انسانی حقوق کی تنظیم سیریا آبزوریٹری کے مطابق اتوار کے بعد سے اب تک 200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں 20 بچے شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہے۔ اب اس علاقے میں زندگی کے آثار ختم ہوتے جارہے ہیں ۔ یہاں رہنے والے چار لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں کیونکہ ادویہ اور غذا ختم ہوچکی ہیں۔

بشار الاسد کی افواج نے اتوار کی صبح سے اس علاقے کو نشانہ بنانا شروع کیا اور عینی شاہدین نے اس منظر کو بموں کی برسات قرار دیا۔ دوسری جانب سخت محاصرے کی وجہ سے اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے ان علاقوں میں امداد پہنچانے سے قاصر ہیں جہاں بمباری سے بچنے والے لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ تین سال میں شام میں ایک روز میں مرنے والوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔