عدالتی احکام غیرآئینی ہیں وزیراعظم ماننے کے پابند نہیں حکومت

راجا پرویز کیخلاف توہین عدالت کا آپشن استعمال نہیں ہوسکتا، پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روکا جاسکتا، مؤقف


سپریم کورٹ خود خط نہیں لکھ سکتی تو وزیراعظم کو ایسا حکم کیوں دے رہی ہے؟ راجا پرویز کیخلاف توہین عدالت کا آپشن استعمال نہیں ہوسکتا، پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روکا جاسکتا، مؤقف

حکومت نے توہین عدالت قانون سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور این آر او عمل درآمد کیس میں 12جون اور 27جولائی کا آرڈر چیلنج کر دیا ہے۔ حکومت نے این آر او عملدرآمد کیس پر نظرثانی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کا عدالتی حکم آئین و قانون کے خلاف ہے۔

آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والا وزیراعظم ایسے عدالتی حکم ماننے کا پابند نہیں۔ سپریم کورٹ کے 12 جولائی 2012 ء کے حکم پر نظرثانی کی درخواست حکومت پاکستان کی طرف سے اٹارنی جنرل عرفان قادر کی طرف سے دائر کی گئی۔ اس میں کہاگیا کہ 7 رکنی بینچ میں جس طرح سابق وزیراعظم کو 3 بار بلایا گیا، وہ آئین و قانون کی بے توقیری ہے، این آر او کیس میں عدالتی حکم ناقابل عمل ہے۔ اس کیس میں ان 8 ہزار لوگوں کو سنا نہیں گیا جن کے مقدمات بحال ہوئے، این آر او کالعدم قرار دینا روئے زمین پر عدالتی تاریخ کا انوکھا فیصلہ ہے۔

سوئس حکام کو خط لکھنے کا حکم قابل عمل نہیں ہے۔ بارہ جولائی اور 27 جون کے عدالتی احکام، غیرقانونی اور غیر مجاز ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 248 ایک کی خلاف ورزی بھی ہے۔ خط لکھ دیاگیا تو یہ آئین کے آرٹیکل 248 ٹو کی خلاف ورزی ہوگا۔ نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سوئس کیسز میں پاکستان کی طرف سے بطور متاثرہ فریق بحال ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یوسف رضا گیلانی کے خلاف استعمال شدہ توہین عدالت کا آپشن راجا پرویز اشرف کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا۔

یوسف رضا گیلانی کیس میں توہین عدالت کا آپشن استعمال ہوچکا ہے، اب راجا پرویز اشرف کے خلاف یہ آپشن استعمال نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ خود سوئس حکام کو خط نہیں لکھ سکتی تو پھر وزیراعظم کو ایسا کیوں کہہ رہی ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے توہین عدالت کے نئے قانون کو کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کیخلاف بھی اپیل دائر کردی۔ وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ نے مقررہ طریقۂ کار کے مطابق قانون کو منظور کیا اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے عبدالشکور پراچہ نے بتایاکہ اپیل میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کو چیلنج کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے توہین عدالت کے دیگر تمام قوانین کو منسوخ کرنے اور نیا قانون رائج کرنے کیلیے گزشتہ ماہ قانون سازی کی تھی۔ توہین عدالت ایکٹ مجریہ 2012 ء کے نام سے اس نئے قانون کو پارلیمنٹ سے منظور ی کے بعد صدرمملکت کے دست خط سے 12 جولائی کو نافذ کردیا گیا تھا۔ نئے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور قانون کے خلاف مختلف نوعیت کی 25 سے زائد درخواستیں دائرکی گئیں جس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی بینچ نے 15 روز کی سماعت کے بعد اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملک میں توہین عدالت کا 2003ء والا قانون رائج ہے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت نے حکومتی اعتراضات کافیصلہ کیے بغیر قانون کو کالعدم قرار دے کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ عدالت صرف آئین میں درج بنیادی حقوق کے اطلاق کی مجاز ہے،عدالت نے کیس سن کر آرٹیکل 25کی خلاف ورزی کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ ریاست کے تینوں ستونوں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کا دائرہ اختیار واضح ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں رو کا جا سکتا۔ عدالت سے فیصلے پر نظر ثانی کرکے غلطی درست کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں