نوازشریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل سپریم کورٹ کا فیصلہ
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار
سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے نتیجے میں نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ 4 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حاکمیت اللہ تعالی کے پاس ہے اور اختیار اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت سیاسی جماعت بنانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ اختیار ملک کی سلامتی ،خود مختاری ،بقا اور اخلاقیات کے تابع ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں پارٹی صدر کو کلیدی مقام حاصل ہے اس لئے ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر نہیں بنایا جاسکتا۔
عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ ہر وہ شخص جو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اہل نہیں وہ پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل ہے اور یہ پابندی نااہلیت کے دن سے شروع ہوگی اور جب تک نااہلیت برقرار ہے گی وہ پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔ کوئی نااہل شخص پارٹی صدر نہیں ہوسکتا، 28 جولائی 2017 کو نااہل ہونے کے بعد بطور صدر پارٹی نواز شریف کے تمام اقدمات، اعمال اور ان کے جاری کردہ دستاویزت غیر قانونی ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ مجریہ 2017 کی شق 203 اور 23 کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے ساتھ مربوط کرکے پڑھا جائے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : نہیں مان سکتا ڈکیت پارٹی صدر بن کر حکومت کرے
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعت بنانے کا حق آئین فراہم کرتا ہے اورآئین کے کسی دوسرے آرٹیکل سے اس بنیادی حق کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں جبکہ صدر سے منظوری کے بعد قانون کا جائزہ مختلف تین بنیادوں پر لیا جاتا ہے قانون سازی بنیادی حقوق کے منافی ہو تو جوڈیشل نظر ثانی ہوسکتی ہے۔ آئین کی بنیاد جمہوریت ہے آئین کے آرٹیکل 17 کے آگے کسی دوسرے آئینی آرٹیکل کی رکاوٹ نہیں لگائی جاسکتی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا مطلب ہے عدالت صرف آرٹیکل 17 کو مدنظر رکھے، رانا وقار نے جواب دیا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کی اجازت دیتا ہے آرٹیکل 17 کے ذیلی آرٹیکل 2 پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ملکی سالمیت کے خلاف بنے تو اس پر پابندی لگ سکتی ہے؟۔ آرٹیکل 63 اے سربراہ سیاسی جماعت سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ ذہن میں سوال ہیں لیکن پوچھ نہیں سکتے۔
شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے جواب الجواب دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ ربڑ اسٹمپ نہیں ہوسکتا کیونکہ پارٹی سربراہ کاعہدہ بہت اہم ہوتاہے تمام چیزیں پارٹی سربراہ کے گرد گھومتی ہیں لوگ اپنے لیڈر کے لیے جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں ہمارے کلچر میں سیاسی جماعت کے سربراہ کی بہت اہمیت ہے امریکا میں شاید پارٹی سربراہ کی اہمیت نہ ہو یہاں بہت ہے۔
فروغ نسیم نے سوال اٹھایا کہ کیامحدود اختیارات والے عہدے پر بے ایمان شخص لگایا جا سکتا ہے؟ نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے سے پارلیمانی سسٹم تباہ ہوجائے گا۔
فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہوئے تو جسٹس اعجازالاحسن نے استفسارکیا کہ سیاسی جماعت ملکی سالمیت کے خلاف ہو تو کیا اس پرکوئی قدغن نہیں؟ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں سے متعلق ہے ، آرٹیکل 62 ،63 اور 63 اے کو ایک ساتھ پڑھا جائے گا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 62 ون ایف کی قدغن کو نظرانداز کردیں، کیا کسی آرٹیکل کی قدغن کو آرٹیکل 17 کا بنیادی حق قراردیکر نظراندازکردیں؟ ہم توسوال بھی نہیں پوچھ سکتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ سیاسی جماعت میں شمولیت پارلیمنٹ کا حصہ بننے کیلئے دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تین روز سے جمہوریت کو پڑھ رہا ہوں جمہوریت میں پارٹی سربراہ کے کردارکا بھی جائزہ لیا ہے۔
فروغ نسیم نے کہاکہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان پر ایماندارلوگ حکومت کریں لیکن یہاں دلیل دی جارہی ہے کہ بنیادی حقوق کو ترجیح دی جائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہمارا سیاسی نظام کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے، سینیٹ کے ٹکٹ اس شخص نے جاری کیے جو نااہل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی پارلیمینٹیرین کو چور اچکا نہیں کہا، ہم نے کہا تھا کہ ہماری لیڈر شپ اچھی ہے ہم اپنے لیڈرز کے لئے چور کالفظ کیوں کر استعمال کرسکتے ہیں، ہمیں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن ان سوالات پر جوردعمل آیا وہ قابل قبول نہیں۔
بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیلسن منڈیلا کی اہلیہ نے پارٹی اور تحریک چلائی اور نیلسن منڈیل انے بعد میں اہلیہ کو طلاق دے دی، اہلیہ نے نہیں کہا کہ مجھے کیوں نکالا، عدالت میں کسی کو نام لے کر چور نہیں کہا گیا لیکن اب کہا گیا نیامحاذ کھولاجائے گا۔
پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کا اختیار عدالت کوعوام نے دیا ہے، نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ عدالت کا نہیں عوام کا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت بنانے کامقصد حکومت بنانا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ لطیف کھوسہ آپ لاہور میں جلسہ کریں کتنے لوگ آئیں گے اور آپ کی سیاسی جماعت کا لیڈر جلسہ کرے تو لوگ زیادہ آئیں گے ؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سیاسی جماعتوں میں ون مین شو نہیں ہوتا، عام لیڈر اور پارٹی سربراہ کے جلسے میں فرق ہوتا ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وفاقی وزرا کی فوج ایک ملزم کے دفاع میں جاتی ہے، وفاقی وزیر داخلہ بھی ملزم کے دفاع کے لیے جاتے ہیں، اس لئے وفاقی وزرا کو ملزم کے دفاع سے روکاجائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تعصب پر مبنی ہے، اس میں صرف ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا، مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس فیصلے کا مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف پر کوئی اثر نہیں ہوگا، نواز شریف جس پر ہاتھ رکھیں گے وہ وزیر اعظم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن کسی کی بھی وجہ سےملتوی ہوئے وہ پاکستان اور جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں، پاکستان میں قوانین کی سربلندی ہونی چاہئے، نواز شریف کی جانب سے اداروں کو گندہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، آج سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے قائد تھے اور رہیں گے، نواز شریف فیصلے سے پہلے بھی عوام کے لیڈر تھے اور فیصلے کے بعد بھی لیڈر ہیں، پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد غور کرنا چاہیے، ہر ادارہ اپنی عزت کی بات کرتا ہے مگر پارلیمنٹ اداروں کو تحلیق کرتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر دیکھیں گے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک آئینی اور ریاستی ادارہ ہے، اسی ادارے نے آج نوازشریف کو پارٹی سربراہ کی حیثیت سے نا اہل قرار دیا ہے، مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو اس فیصلے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن آئینی ادارے کے فیصلے کو ماننا اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آج کا فیصلہ ہر پہلو سے تاریخی اور سپریم کورٹ تحسین کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنے تاریخی فیصلے کے ذریعے اہم اصول طے کیا ہے کہ ایک بددیانت، خائن اور عدالت سے سزا یافتہ شخص کو پارٹی صدارت پر بٹھانا آئین و قانون کے ساتھ مذاق تھا، ایک شخص کی کرپشن بچانے کیلئے ملک اور پوری سیاست داؤ پر نہیں لگائی جاسکتی، مسلم لیگ (ن) نے ایک نااہل شخص پر پارٹی صدارت کا دروازہ کھول کر سیاست کے دامن میں آلائشیں ڈالنے کی کوشش کی، مسلم لیگ (ن) اپنے لئے نئے لیڈر کا انتخاب کرے اور سیاست کو آگے بڑھنے دے۔
وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی نے عدالتی فیصلے پر ٹوئٹ کی ہے کہ میری پارٹی میرا لیڈر ، میاں نواز شریف۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کرپشن کے مقدمات میں عدالتی محاذ پر شکست کھانے کے بعد تصادم کی سیاست کا آغاز کیا، انہوں نے جس طریقے سے عدلیہ اور دوسرے اداروں کے لئے اشتعال بڑھایا، وہ سب کو محسوس ہو گیا تھا، پاناما کیس کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) حواس باختہ ہوکر اداروں سے تصادم کی راہ پر چل پڑی ہے، مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو روندا تھا، جس کا یہ نتیجہ تو نکلنا تھا، مسلم لیگ (ن) تصادم کرکے سینیٹ اورعام انتخابات کا التوا چاہ رہی تھی، اب (ن) لیگ عدالتی فیصلے کی آڑ میں انتخابات کے التوا کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرے گی، تحریک انصاف کو معاملے کے سنجیدگی اور حساسیت کا احساس ہی نہیں اور اس فیصلے کے دوررس اثرات سے ناواقف ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ میاں صاحب اور درباریوں کی دھمکیاں اور دباؤ ناکام ہوگئیں، فیصلہ آخر کار قانون کے مطابق ہی آیا ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ جج اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں، کرتے رہو تقریریں، سو لوہار کی تو ایک سُنار کی۔
انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری سے پہلے عدالت سے نااہل قرار دیا گیا شخص کسی سیاسی جماعت میں عہدے کا اہل نہیں ہوسکتا تھا، نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اکتوبر 2017 میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی شق 203 میں ترمیم کی، جس کے بعد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کی صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں، اس ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائر کی گئیں۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ 4 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حاکمیت اللہ تعالی کے پاس ہے اور اختیار اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت سیاسی جماعت بنانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ اختیار ملک کی سلامتی ،خود مختاری ،بقا اور اخلاقیات کے تابع ہے، پارلیمانی نظام حکومت میں پارٹی صدر کو کلیدی مقام حاصل ہے اس لئے ایک نااہل شخص کو پارٹی صدر نہیں بنایا جاسکتا۔
عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ ہر وہ شخص جو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اہل نہیں وہ پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل ہے اور یہ پابندی نااہلیت کے دن سے شروع ہوگی اور جب تک نااہلیت برقرار ہے گی وہ پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔ کوئی نااہل شخص پارٹی صدر نہیں ہوسکتا، 28 جولائی 2017 کو نااہل ہونے کے بعد بطور صدر پارٹی نواز شریف کے تمام اقدمات، اعمال اور ان کے جاری کردہ دستاویزت غیر قانونی ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ مجریہ 2017 کی شق 203 اور 23 کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے ساتھ مربوط کرکے پڑھا جائے گا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : نہیں مان سکتا ڈکیت پارٹی صدر بن کر حکومت کرے
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعت بنانے کا حق آئین فراہم کرتا ہے اورآئین کے کسی دوسرے آرٹیکل سے اس بنیادی حق کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں جبکہ صدر سے منظوری کے بعد قانون کا جائزہ مختلف تین بنیادوں پر لیا جاتا ہے قانون سازی بنیادی حقوق کے منافی ہو تو جوڈیشل نظر ثانی ہوسکتی ہے۔ آئین کی بنیاد جمہوریت ہے آئین کے آرٹیکل 17 کے آگے کسی دوسرے آئینی آرٹیکل کی رکاوٹ نہیں لگائی جاسکتی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا مطلب ہے عدالت صرف آرٹیکل 17 کو مدنظر رکھے، رانا وقار نے جواب دیا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کی اجازت دیتا ہے آرٹیکل 17 کے ذیلی آرٹیکل 2 پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ملکی سالمیت کے خلاف بنے تو اس پر پابندی لگ سکتی ہے؟۔ آرٹیکل 63 اے سربراہ سیاسی جماعت سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ ذہن میں سوال ہیں لیکن پوچھ نہیں سکتے۔
شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے جواب الجواب دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ ربڑ اسٹمپ نہیں ہوسکتا کیونکہ پارٹی سربراہ کاعہدہ بہت اہم ہوتاہے تمام چیزیں پارٹی سربراہ کے گرد گھومتی ہیں لوگ اپنے لیڈر کے لیے جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں ہمارے کلچر میں سیاسی جماعت کے سربراہ کی بہت اہمیت ہے امریکا میں شاید پارٹی سربراہ کی اہمیت نہ ہو یہاں بہت ہے۔
فروغ نسیم نے سوال اٹھایا کہ کیامحدود اختیارات والے عہدے پر بے ایمان شخص لگایا جا سکتا ہے؟ نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے سے پارلیمانی سسٹم تباہ ہوجائے گا۔
فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہوئے تو جسٹس اعجازالاحسن نے استفسارکیا کہ سیاسی جماعت ملکی سالمیت کے خلاف ہو تو کیا اس پرکوئی قدغن نہیں؟ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں سے متعلق ہے ، آرٹیکل 62 ،63 اور 63 اے کو ایک ساتھ پڑھا جائے گا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 62 ون ایف کی قدغن کو نظرانداز کردیں، کیا کسی آرٹیکل کی قدغن کو آرٹیکل 17 کا بنیادی حق قراردیکر نظراندازکردیں؟ ہم توسوال بھی نہیں پوچھ سکتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ سیاسی جماعت میں شمولیت پارلیمنٹ کا حصہ بننے کیلئے دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تین روز سے جمہوریت کو پڑھ رہا ہوں جمہوریت میں پارٹی سربراہ کے کردارکا بھی جائزہ لیا ہے۔
فروغ نسیم نے کہاکہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان پر ایماندارلوگ حکومت کریں لیکن یہاں دلیل دی جارہی ہے کہ بنیادی حقوق کو ترجیح دی جائے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ہمارا سیاسی نظام کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے، سینیٹ کے ٹکٹ اس شخص نے جاری کیے جو نااہل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی پارلیمینٹیرین کو چور اچکا نہیں کہا، ہم نے کہا تھا کہ ہماری لیڈر شپ اچھی ہے ہم اپنے لیڈرز کے لئے چور کالفظ کیوں کر استعمال کرسکتے ہیں، ہمیں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں لیکن ان سوالات پر جوردعمل آیا وہ قابل قبول نہیں۔
بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیلسن منڈیلا کی اہلیہ نے پارٹی اور تحریک چلائی اور نیلسن منڈیل انے بعد میں اہلیہ کو طلاق دے دی، اہلیہ نے نہیں کہا کہ مجھے کیوں نکالا، عدالت میں کسی کو نام لے کر چور نہیں کہا گیا لیکن اب کہا گیا نیامحاذ کھولاجائے گا۔
پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کا اختیار عدالت کوعوام نے دیا ہے، نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ عدالت کا نہیں عوام کا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت بنانے کامقصد حکومت بنانا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ لطیف کھوسہ آپ لاہور میں جلسہ کریں کتنے لوگ آئیں گے اور آپ کی سیاسی جماعت کا لیڈر جلسہ کرے تو لوگ زیادہ آئیں گے ؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سیاسی جماعتوں میں ون مین شو نہیں ہوتا، عام لیڈر اور پارٹی سربراہ کے جلسے میں فرق ہوتا ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وفاقی وزرا کی فوج ایک ملزم کے دفاع میں جاتی ہے، وفاقی وزیر داخلہ بھی ملزم کے دفاع کے لیے جاتے ہیں، اس لئے وفاقی وزرا کو ملزم کے دفاع سے روکاجائے۔
فیصلہ تعصب پر مبنی ہے، مریم اورنگزیب
سپریم کورٹ کے فیصلے پر وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تعصب پر مبنی ہے، اس میں صرف ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا، مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس فیصلے کا مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف پر کوئی اثر نہیں ہوگا، نواز شریف جس پر ہاتھ رکھیں گے وہ وزیر اعظم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے الیکشن کسی کی بھی وجہ سےملتوی ہوئے وہ پاکستان اور جمہوریت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔
فیصلہ نواز شریف کے منہ پر طمانچہ ہے،نعیم الحق
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں، پاکستان میں قوانین کی سربلندی ہونی چاہئے، نواز شریف کی جانب سے اداروں کو گندہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، آج سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے۔
نواز شریف قائد تھے اور رہیں گے، مشاہد اللہ
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے قائد تھے اور رہیں گے، نواز شریف فیصلے سے پہلے بھی عوام کے لیڈر تھے اور فیصلے کے بعد بھی لیڈر ہیں، پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد غور کرنا چاہیے، ہر ادارہ اپنی عزت کی بات کرتا ہے مگر پارلیمنٹ اداروں کو تحلیق کرتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر دیکھیں گے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔
آئینی ادارے کا فیصلہ ماننا چاہیے، فاروق ستار
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک آئینی اور ریاستی ادارہ ہے، اسی ادارے نے آج نوازشریف کو پارٹی سربراہ کی حیثیت سے نا اہل قرار دیا ہے، مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو اس فیصلے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن آئینی ادارے کے فیصلے کو ماننا اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ تحسین کی حقدار، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آج کا فیصلہ ہر پہلو سے تاریخی اور سپریم کورٹ تحسین کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنے تاریخی فیصلے کے ذریعے اہم اصول طے کیا ہے کہ ایک بددیانت، خائن اور عدالت سے سزا یافتہ شخص کو پارٹی صدارت پر بٹھانا آئین و قانون کے ساتھ مذاق تھا، ایک شخص کی کرپشن بچانے کیلئے ملک اور پوری سیاست داؤ پر نہیں لگائی جاسکتی، مسلم لیگ (ن) نے ایک نااہل شخص پر پارٹی صدارت کا دروازہ کھول کر سیاست کے دامن میں آلائشیں ڈالنے کی کوشش کی، مسلم لیگ (ن) اپنے لئے نئے لیڈر کا انتخاب کرے اور سیاست کو آگے بڑھنے دے۔
احتجاج احتجاج احتجاج، عابد شیر علی
وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی نے عدالتی فیصلے پر ٹوئٹ کی ہے کہ میری پارٹی میرا لیڈر ، میاں نواز شریف۔
مسلم لیگ (ن) تصادم کی راہ پر چل پڑی، مولا بخش چانڈیو
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کرپشن کے مقدمات میں عدالتی محاذ پر شکست کھانے کے بعد تصادم کی سیاست کا آغاز کیا، انہوں نے جس طریقے سے عدلیہ اور دوسرے اداروں کے لئے اشتعال بڑھایا، وہ سب کو محسوس ہو گیا تھا، پاناما کیس کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) حواس باختہ ہوکر اداروں سے تصادم کی راہ پر چل پڑی ہے، مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو روندا تھا، جس کا یہ نتیجہ تو نکلنا تھا، مسلم لیگ (ن) تصادم کرکے سینیٹ اورعام انتخابات کا التوا چاہ رہی تھی، اب (ن) لیگ عدالتی فیصلے کی آڑ میں انتخابات کے التوا کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرے گی، تحریک انصاف کو معاملے کے سنجیدگی اور حساسیت کا احساس ہی نہیں اور اس فیصلے کے دوررس اثرات سے ناواقف ہے۔
سو سنار کی ایک لو ہار کی، اسد عمر
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ میاں صاحب اور درباریوں کی دھمکیاں اور دباؤ ناکام ہوگئیں، فیصلہ آخر کار قانون کے مطابق ہی آیا ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ جج اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں، کرتے رہو تقریریں، سو لوہار کی تو ایک سُنار کی۔
الیکشن ایکٹ 2017 کیس کا پس منظر
انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری سے پہلے عدالت سے نااہل قرار دیا گیا شخص کسی سیاسی جماعت میں عہدے کا اہل نہیں ہوسکتا تھا، نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے اکتوبر 2017 میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی شق 203 میں ترمیم کی، جس کے بعد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کی صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں، اس ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائر کی گئیں۔