پاکستان زیر دام نہیں آیا
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ٹاسک فورس کی کوششوں کو غیر موثر کرنے میں معاونت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے
MANSEHRA:
دہشتگردوں کی مدد کرنے کے الزام پر پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کی امریکی کوشش فی الوقت ناکام نظر آئی ، اسے برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی ، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف مخاصمانہ تگ ودو کو پذیرائی نہ مل سکی اور اسے اگلے تین ماہ (جون) تک کے لیے موخر کردیا گیا، اس طرح پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف اپنی کارکردگی بہتر کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔
اجلاس میں کوشش کے باوجود پاکستان کا نام فہرست میں ڈالنے کی تجویز پر اتفاق نہ ہوسکا، اتفاق ہوتا بھی کیسے کہ عالمی ضمیر امریکی قبضہ قدرت میں تو نہیں، کچھ دوست اور تعاون پر آمادہ ممالک دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کے کلیدی کردار اور اس کی بے مثال انسانی و معاشی قربانیوں کا بھی گہرا ادراک رکھتے ہیں، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا، بھارت اور افغانستان '' محور''کو اس کھلی حقیقت سے چڑ ہے، مگر انھیں آنکھیں کھولنی چاہئیں کہ دنیا آہستہ آہستہ افغان صورتحال کی گمبھیرتا اور وہاں امن عمل میں پاکستان کے خلوص اور تزویراتی اہمیت کو نظر انداز کرنے پر تیار نہیں، کم از کم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حالیہ اجلاس سے تو یہی حقیقت سامنے آئی ہے ۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ٹاسک فورس کی کوششوں کو غیر موثر کرنے میں معاونت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے، یاد رہے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اعلان میں پاکستان پر دہشتگردوں کی معاونت کا سنگین الزام لگایا تھا اور خطیر امریکی رقم دینے کا طعنہ دیتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ پاکستان کو مالی امداد دینے کا صلہ امریکا کو دغا بازی اور جھوٹ کی شکل میں ملا جو پاک امریکا تعلقات کے تاریخی باب اور دہشتگردی جنگ کے خلاف فرنٹ لائن ملک سے انکل سام کی سرد مہری کا الم ناک رویہ تھا۔ واضح رہے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس( ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وفد پیرس پہنچ چکا تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا 6 روزہ اجلاس 23 فروری تک جاری رہے گا جس میں پاکستانی وفد کی قیادت ڈی جی فنانس مانیٹرنگ یونٹ منصور شاہ کررہے ہیں جب کہ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی پیرس پہنچے تھے۔اجلاس میں امریکا اور برطانیہ کی اس تجویز پر فیصلہ کیا جانا تھا کہ پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام میں تعاون نہ کرنے والے ملکوں میں شامل کیا جائے، چنانچہ اگر پاکستان کے خلاف فیصلہ ہوتا تو اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑسکتے تھے ، اسی اجلاس میں اس کے شرکا کو پاکستان کے حالیہ اقدامات سے آگاہ بھی کیا جانا تھا جس میں اس نے اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا تھا۔
ادھر امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن نے امریکا کی جانب سے پاکستان کودہشت گردوں سے تعاون کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تجویزکو یکسر مستردکردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے سے امریکی پریشانیوں میں کمی نہیں آئے گی، ایسا کرنے سے امریکا اسلام آباد کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کے لیے مجبور نہیں کر سکتا اور نہ امریکا افغانستان میں اپنے ممکنہ مقاصد کے حصول ہی میں کامیاب ہوسکے گا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق واشنگٹن میں اسکول آف پبلک افیئرز کے اسسٹنٹ پروفیسرا سٹیفن ٹینکل نے تجزیہ پیش کیا کہ پاکستان کو دہشت گردوںکا سہولت کار قراردینا انتہائی خطرناک ہے، اس طرزعمل سے خطے میں پیدا کردہ امریکی صورتحال کے خاتمے کی گنجائش ختم ہوجائیگی،جب کہ واشنگٹن میں بروکنگزانسٹی ٹیوشن سے منسلک ڈاکٹر مدیحہ افضال نے بھی امریکی تجویز مسترد کی اورکہا کہ امریکا کواپنا رویہ بدلنا ہوگا اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے چین کے ساتھ بات کرنی پڑے گی تاکہ پاکستان افغانستان کے معاملے پر امریکا کی سنے اور یقیناً وہ توجہ دے گا۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے پر مبنی الزام سے متعلق قرارداد منطور کی جاتی تو فہرست میں نام ڈالے جانے کے مضمرات سنگین اور اس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات بھی مرتب ہوسکتے تھے ، حیرت ہے کہ متعدد عالمی ایشوز پر پاکستان کے موقف کی حمایت پر رضاکارانہ طور پر تیار جرمنی، برطانیہ اور فرانس بھی امریکی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے قرارداد کی حمایت پر کمربستہ تھے، اس انداز سیاست سے ہمارے ارباب اختیار اور وزارت و دفتر خارجہ کے حکام کوہمہ وقت باخبر رہنا چاہیے۔
تاہم یہ خوش آیند بات ہے کہ واچ لسٹ کی کارروائی سے پہلے ہی پاکستان اپنی نامزدگی رکوانے کے لیے سرگرم تھا اور اس کوشش کو غیر موثر کرنے کے لیے متعدد ملکوں سے اس کے نتیجہ خیز رابطے تھے، ملک کو اسی نوعیت کی جارحانہ،فعال اور متحرک ڈپلومیسی کی ضرورت ہے، آج کی دنیا اقتصادی طاقت کے محور پر گھوم رہی ہے جس کے لیے جمہوری روابط، اچھی طرز حکمرانی ، داخلی امن اور دہشتگردی کے خلاف غیر متزلزل سفارتی موقف سے ہی دنیا کو قائل کیا جا سکتا ہے۔ابھی پاکستان کے سیاسی ومعاشی استحکام، اور عالمی امیج کی بحالی کا بہت سارا کام باقی ہے، لہذا دشمن کبھی اس چال میں کامیاب نہ ہوں کہ پاکستان ان کی سازشوںکے جال میں پھنس کر بے دم ہوجائیگا۔ایں خیال است و محال است و جنوں۔
دہشتگردوں کی مدد کرنے کے الزام پر پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کی امریکی کوشش فی الوقت ناکام نظر آئی ، اسے برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی ، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف مخاصمانہ تگ ودو کو پذیرائی نہ مل سکی اور اسے اگلے تین ماہ (جون) تک کے لیے موخر کردیا گیا، اس طرح پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف اپنی کارکردگی بہتر کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔
اجلاس میں کوشش کے باوجود پاکستان کا نام فہرست میں ڈالنے کی تجویز پر اتفاق نہ ہوسکا، اتفاق ہوتا بھی کیسے کہ عالمی ضمیر امریکی قبضہ قدرت میں تو نہیں، کچھ دوست اور تعاون پر آمادہ ممالک دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کے کلیدی کردار اور اس کی بے مثال انسانی و معاشی قربانیوں کا بھی گہرا ادراک رکھتے ہیں، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا، بھارت اور افغانستان '' محور''کو اس کھلی حقیقت سے چڑ ہے، مگر انھیں آنکھیں کھولنی چاہئیں کہ دنیا آہستہ آہستہ افغان صورتحال کی گمبھیرتا اور وہاں امن عمل میں پاکستان کے خلوص اور تزویراتی اہمیت کو نظر انداز کرنے پر تیار نہیں، کم از کم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حالیہ اجلاس سے تو یہی حقیقت سامنے آئی ہے ۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ٹاسک فورس کی کوششوں کو غیر موثر کرنے میں معاونت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے، یاد رہے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اعلان میں پاکستان پر دہشتگردوں کی معاونت کا سنگین الزام لگایا تھا اور خطیر امریکی رقم دینے کا طعنہ دیتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ پاکستان کو مالی امداد دینے کا صلہ امریکا کو دغا بازی اور جھوٹ کی شکل میں ملا جو پاک امریکا تعلقات کے تاریخی باب اور دہشتگردی جنگ کے خلاف فرنٹ لائن ملک سے انکل سام کی سرد مہری کا الم ناک رویہ تھا۔ واضح رہے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس( ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وفد پیرس پہنچ چکا تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا 6 روزہ اجلاس 23 فروری تک جاری رہے گا جس میں پاکستانی وفد کی قیادت ڈی جی فنانس مانیٹرنگ یونٹ منصور شاہ کررہے ہیں جب کہ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی پیرس پہنچے تھے۔اجلاس میں امریکا اور برطانیہ کی اس تجویز پر فیصلہ کیا جانا تھا کہ پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام میں تعاون نہ کرنے والے ملکوں میں شامل کیا جائے، چنانچہ اگر پاکستان کے خلاف فیصلہ ہوتا تو اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑسکتے تھے ، اسی اجلاس میں اس کے شرکا کو پاکستان کے حالیہ اقدامات سے آگاہ بھی کیا جانا تھا جس میں اس نے اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا تھا۔
ادھر امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن نے امریکا کی جانب سے پاکستان کودہشت گردوں سے تعاون کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تجویزکو یکسر مستردکردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے سے امریکی پریشانیوں میں کمی نہیں آئے گی، ایسا کرنے سے امریکا اسلام آباد کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کے لیے مجبور نہیں کر سکتا اور نہ امریکا افغانستان میں اپنے ممکنہ مقاصد کے حصول ہی میں کامیاب ہوسکے گا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق واشنگٹن میں اسکول آف پبلک افیئرز کے اسسٹنٹ پروفیسرا سٹیفن ٹینکل نے تجزیہ پیش کیا کہ پاکستان کو دہشت گردوںکا سہولت کار قراردینا انتہائی خطرناک ہے، اس طرزعمل سے خطے میں پیدا کردہ امریکی صورتحال کے خاتمے کی گنجائش ختم ہوجائیگی،جب کہ واشنگٹن میں بروکنگزانسٹی ٹیوشن سے منسلک ڈاکٹر مدیحہ افضال نے بھی امریکی تجویز مسترد کی اورکہا کہ امریکا کواپنا رویہ بدلنا ہوگا اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے چین کے ساتھ بات کرنی پڑے گی تاکہ پاکستان افغانستان کے معاملے پر امریکا کی سنے اور یقیناً وہ توجہ دے گا۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے پر مبنی الزام سے متعلق قرارداد منطور کی جاتی تو فہرست میں نام ڈالے جانے کے مضمرات سنگین اور اس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات بھی مرتب ہوسکتے تھے ، حیرت ہے کہ متعدد عالمی ایشوز پر پاکستان کے موقف کی حمایت پر رضاکارانہ طور پر تیار جرمنی، برطانیہ اور فرانس بھی امریکی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے قرارداد کی حمایت پر کمربستہ تھے، اس انداز سیاست سے ہمارے ارباب اختیار اور وزارت و دفتر خارجہ کے حکام کوہمہ وقت باخبر رہنا چاہیے۔
تاہم یہ خوش آیند بات ہے کہ واچ لسٹ کی کارروائی سے پہلے ہی پاکستان اپنی نامزدگی رکوانے کے لیے سرگرم تھا اور اس کوشش کو غیر موثر کرنے کے لیے متعدد ملکوں سے اس کے نتیجہ خیز رابطے تھے، ملک کو اسی نوعیت کی جارحانہ،فعال اور متحرک ڈپلومیسی کی ضرورت ہے، آج کی دنیا اقتصادی طاقت کے محور پر گھوم رہی ہے جس کے لیے جمہوری روابط، اچھی طرز حکمرانی ، داخلی امن اور دہشتگردی کے خلاف غیر متزلزل سفارتی موقف سے ہی دنیا کو قائل کیا جا سکتا ہے۔ابھی پاکستان کے سیاسی ومعاشی استحکام، اور عالمی امیج کی بحالی کا بہت سارا کام باقی ہے، لہذا دشمن کبھی اس چال میں کامیاب نہ ہوں کہ پاکستان ان کی سازشوںکے جال میں پھنس کر بے دم ہوجائیگا۔ایں خیال است و محال است و جنوں۔