بیانیہ سیاست کا محور
میاں صاحب لودھراں کی کامیابی کے بعد شاید چھکے اور چوکے لگانا چاہتے ہیں
کبھی کبھی انسان خود اعتمادی کے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے، جہاں پر انسان کا اعتماد خود اعتمادی سے بڑھ کر اس کی اپنی نفی کرنے لگتا ہے۔
میاں صاحب لودھراں کی کامیابی کے بعد شاید چھکے اور چوکے لگانا چاہتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے بڑے کھلاڑی اسی طرح چوکے اور چھکے لگانے کے شوق میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔ یوں تو ہماری جمہوریت بڑے نشیب وفراز سے گزری ہے اور اب بالآخر اس مقام تک پہنچی ہے جہاں سے براہ راست جمہوریت کو پامال کرنا آسان نہیں، مگر بات صرف جمہوریت کو پامال کرنے کی نہیں کیونکہ جمہوریت کی بھی کئی اقسام ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی Hybrid Democracy ہے تو کوئی Diluted اور non Dilutedجمہوریت بھی ہے اور Quasai Democracy بھی۔
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا سب سے بڑا بحران آئین کی عدم موجودگی تھا اور سب سے بڑا معجزہ آئین کا وجود میں آنا تھا۔
شیخ مجیب کیا تھے؟ وہ جو بھی تھے مگر تھے وہ مشرقی پاکستانی۔ ان کا اپنا بیانیہ تھا، مشرقی پاکستان کا اپنا بیانیہ تھا اور مغربی پاکستان کا اپنا بیانیہ۔ شیخ مجیب وہاں اس بیانیے کو لے کر چلے اور بھٹو یہاں۔ مگر بات اتنی سلیس بھی نہیں، بھٹو کا بیانیہ سندھ اور پنجاب میں تو چلتا تھا مگر سرحد اور بلوچستان میں NAP کا بیانیہ کرنسی تھی۔ بیانیہ کبھی مکمل نہیں ہوتا وہ وقتا فوقتا اپنی ماہیت تبدیل کرتا ہے۔ آج کا نواز شریف اور اس کا بیانیہ ،کل کے نواز شریف اور ان کا بیانیہ اب دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہوسکتا ہے اب کل میاں صاحب اور ان کا بیانیہ نئے دور میں نیا رخ لے لیں اور ایسا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
الطاف حسین نے بھی ایک بیانیہ دیا تھا مگر الطاف حسین اپنا بیانیہ دیتے دیتے حد سے تجاوزکرگئے نقصان کس کا ہوا؟ کراچی کا اور ان کے ووٹرز کا۔ وہ تمام بیانیہ جو NAP نے دیا یا کسی اور نے جب اپنی حدود سے نکل گئے تو وہ خود بھی نہ رہے اور ان کا بیانیہ بھی نہ رہا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارے جی ایم سید نے بھی ایک بیانیہ پیش کیا اس بیانیے کے بعد ان کا کوئی وارث ایسا نہ رہا جو کہ سندھ اسمبلی میں ایک نشست حاصل کرسکے اور پھر یہ بھی ہوا کہ بہت سے بیانیے اس ملک کے دشمنوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ جو بات ہمیں سمجھنی چاہیے کہ وہ یہ ہے کہ یہ ملک آئین پاکستان سے بنا ہوا ملک ہے۔ شیخ مجیب کے زمانے میں اس ملک کا کوئی آئین نہ تھا۔ ہم اس زمانے میں آئین بنانے کے مراحل سے گزر رہے تھے اورہم آئین کو بناتے بناتے آدھا ملک گنوا بیٹھے۔
آرٹیکل 204 واضح کرتا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی بے حرمتی نہیں کی جاسکتی اور اگرکوئی کرتا ہے تو سزا کا حقدار ہے۔ کورٹ کی بے حرمتی کیا ہے اورکیا نہیں اس کا فیصلہ پارلیمنٹ نہیں کورٹ خود کرے گی وہ چاہے غلط ہو یا صحیح ۔ خاقان عباسی ذرا ہمیں بھی بتائیں کہ پارلیمنٹ اورگورنمنٹ کی کوئی حرمت یا بے حرمتی کا کوئی اطلاق ہوتا ہے؟ کیونکہ پارلیمنٹ کی بے حرمتی کوئی آئینی معاملہ نہیں۔ کورٹ کی حرمت ہر ماڈرن اسٹیٹ کے آئین کے بنیادی ستونوں میں ایک ستون ہے۔
یہ اطلاق صرف پاکستان کے آئین میں نہیں۔ کیونکہ معاملہ جو بھی ہو آخری فیصلہ سپریم کورٹ کا ہی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح پر عبور حاصل ہے، یہ ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ فطری ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟ کسی نے کہا کہ کورٹ کے فیصلے ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ کورٹ کے فیصلے صحیح ہونا اور نہ ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور کورٹ کے فیصلے نہ ماننا الگ بات ہے۔
آپ نے کورٹ کا فیصلہ مانا لیکن Quasai ۔ یعنی آدھا! میاں نواز شریف کا پاناما کے فیصلے میں اقامہ کے فیصلے پر ابھی مکمل عمل در آمد نہیں ہوا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں عدالت کے صادر کیے ہوئے فیصلوں، جن پر تنقید کی گئی، اگر اس فیصلے کو بھی شامل کر لیا جائے تو ماضی میں بھی کسی نے اس طرح سے کورٹ کے فیصلے کے خلاف نہیں بولا ہوگا جس طرح سے نواز شریف بول رہے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ وجہ شاید یہ بھی ہوکہ وہ 2018ء کے الیکشن کے لیے اپنی پارٹی کا بیانیہ دینا چاہ رہے ہوں اور دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے وہ اپنی لندن کی پراپرٹی اور تمام اثاثہ جات جو ان کی آمدنی سے تجاوز کررہے ہیں ان کو عوام اور اپنے ووٹرز کے سامنے متوازن کرنا چاہ رہے ہوں۔ تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عدالت کے خلاف بول کر وہ اپنی ہمت اور طاقت کا مظاہرہ کررہے ہوں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی اسٹرٹیجی کو اپنایا تھا۔ بھٹو، جنرل ایوب کے خلاف کھڑے ہوئے اور لیڈر بن گئے۔
جو بنیادی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ بیانیہ آج کل کی سیاست کا محور بن تو چکا ہے، جمہوریت بھی موجود رہے گی اور عدالت کے فیصلے بھی صادر ہوتے رہیں گے، اس پر عمل بھی کرنا ہوگا، مگرکورٹ کی بے حرمتی کرنا،کورٹ کے فیصلوں کو Quasai حد تک ماننا بھی جمہوریت اور آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔
میاں صاحب کے لیے ایک اور فیصلہ بھی آنیوالا ہے، آیا وہ نااہل وزیر اعظم ہوتے ہوئے پارٹی کے صدر بن سکتے ہیں یا نہیں یعنیٰ People Representation Act میں جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی وہUltra Vires ہے کہ نہیں اور چند ایسے فیصلے بھی میاں صاحب کے لیے متوقع ہیں۔ میاں صاحب کا کورٹ کے فیصلوں پریہ رد عمل کورٹ کے Procedures میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب پاپولر لیڈر ہوں اور بن بھی جائیں مگر وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنا جانشین کامیابی کے ساتھ بنا بھی دیں مگر اداروں کے ساتھ ٹکراؤ میں آکر وہ بھی اقتدار میں نہیں آسکتیں اور اگر عدالت کی طرف سے وہ مجرم قرار پائیں تو وہ الیکشن میں حصہ بھی نہیں لے سکتیں۔
اس معاملے کا بھی کوئی حل ہونا چاہیے۔ ہماری بینظیر بھٹو اس ملک کا اثاثہ تھیں وہ آج اگر زندہ ہوتیں تو بڑی خوبصورتی سے اس ملک کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیتیں۔ یوں سمجھیے کہ ہم نے بینظیر کوکھو کر اپنا ایک بہت بڑا سیاسی اثاثہ گنوا دیا۔ میاں صاحب بھی ہمارا اثاثہ ہیں اور اس طرح سے مریم نواز اور بلاول بھٹو بھی یا عمران خان بھی۔ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ ہمارے ملک کی بہتری میں نہیں۔ ملک کی بہتری کے لیے اول تو اس ٹکراؤ سے اجتناب کرنا چاہیے یا پھر اگر ٹکراؤ ہے تو اس حد تک کہ کوئی مثبت نتائج سامنے آسکیں۔
میاں صاحب لودھراں کی کامیابی کے بعد شاید چھکے اور چوکے لگانا چاہتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے بڑے کھلاڑی اسی طرح چوکے اور چھکے لگانے کے شوق میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں۔ یوں تو ہماری جمہوریت بڑے نشیب وفراز سے گزری ہے اور اب بالآخر اس مقام تک پہنچی ہے جہاں سے براہ راست جمہوریت کو پامال کرنا آسان نہیں، مگر بات صرف جمہوریت کو پامال کرنے کی نہیں کیونکہ جمہوریت کی بھی کئی اقسام ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی Hybrid Democracy ہے تو کوئی Diluted اور non Dilutedجمہوریت بھی ہے اور Quasai Democracy بھی۔
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا سب سے بڑا بحران آئین کی عدم موجودگی تھا اور سب سے بڑا معجزہ آئین کا وجود میں آنا تھا۔
شیخ مجیب کیا تھے؟ وہ جو بھی تھے مگر تھے وہ مشرقی پاکستانی۔ ان کا اپنا بیانیہ تھا، مشرقی پاکستان کا اپنا بیانیہ تھا اور مغربی پاکستان کا اپنا بیانیہ۔ شیخ مجیب وہاں اس بیانیے کو لے کر چلے اور بھٹو یہاں۔ مگر بات اتنی سلیس بھی نہیں، بھٹو کا بیانیہ سندھ اور پنجاب میں تو چلتا تھا مگر سرحد اور بلوچستان میں NAP کا بیانیہ کرنسی تھی۔ بیانیہ کبھی مکمل نہیں ہوتا وہ وقتا فوقتا اپنی ماہیت تبدیل کرتا ہے۔ آج کا نواز شریف اور اس کا بیانیہ ،کل کے نواز شریف اور ان کا بیانیہ اب دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہوسکتا ہے اب کل میاں صاحب اور ان کا بیانیہ نئے دور میں نیا رخ لے لیں اور ایسا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
الطاف حسین نے بھی ایک بیانیہ دیا تھا مگر الطاف حسین اپنا بیانیہ دیتے دیتے حد سے تجاوزکرگئے نقصان کس کا ہوا؟ کراچی کا اور ان کے ووٹرز کا۔ وہ تمام بیانیہ جو NAP نے دیا یا کسی اور نے جب اپنی حدود سے نکل گئے تو وہ خود بھی نہ رہے اور ان کا بیانیہ بھی نہ رہا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہمارے جی ایم سید نے بھی ایک بیانیہ پیش کیا اس بیانیے کے بعد ان کا کوئی وارث ایسا نہ رہا جو کہ سندھ اسمبلی میں ایک نشست حاصل کرسکے اور پھر یہ بھی ہوا کہ بہت سے بیانیے اس ملک کے دشمنوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ جو بات ہمیں سمجھنی چاہیے کہ وہ یہ ہے کہ یہ ملک آئین پاکستان سے بنا ہوا ملک ہے۔ شیخ مجیب کے زمانے میں اس ملک کا کوئی آئین نہ تھا۔ ہم اس زمانے میں آئین بنانے کے مراحل سے گزر رہے تھے اورہم آئین کو بناتے بناتے آدھا ملک گنوا بیٹھے۔
آرٹیکل 204 واضح کرتا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی بے حرمتی نہیں کی جاسکتی اور اگرکوئی کرتا ہے تو سزا کا حقدار ہے۔ کورٹ کی بے حرمتی کیا ہے اورکیا نہیں اس کا فیصلہ پارلیمنٹ نہیں کورٹ خود کرے گی وہ چاہے غلط ہو یا صحیح ۔ خاقان عباسی ذرا ہمیں بھی بتائیں کہ پارلیمنٹ اورگورنمنٹ کی کوئی حرمت یا بے حرمتی کا کوئی اطلاق ہوتا ہے؟ کیونکہ پارلیمنٹ کی بے حرمتی کوئی آئینی معاملہ نہیں۔ کورٹ کی حرمت ہر ماڈرن اسٹیٹ کے آئین کے بنیادی ستونوں میں ایک ستون ہے۔
یہ اطلاق صرف پاکستان کے آئین میں نہیں۔ کیونکہ معاملہ جو بھی ہو آخری فیصلہ سپریم کورٹ کا ہی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح پر عبور حاصل ہے، یہ ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ فطری ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟ کسی نے کہا کہ کورٹ کے فیصلے ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ کورٹ کے فیصلے صحیح ہونا اور نہ ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور کورٹ کے فیصلے نہ ماننا الگ بات ہے۔
آپ نے کورٹ کا فیصلہ مانا لیکن Quasai ۔ یعنی آدھا! میاں نواز شریف کا پاناما کے فیصلے میں اقامہ کے فیصلے پر ابھی مکمل عمل در آمد نہیں ہوا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں عدالت کے صادر کیے ہوئے فیصلوں، جن پر تنقید کی گئی، اگر اس فیصلے کو بھی شامل کر لیا جائے تو ماضی میں بھی کسی نے اس طرح سے کورٹ کے فیصلے کے خلاف نہیں بولا ہوگا جس طرح سے نواز شریف بول رہے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ وجہ شاید یہ بھی ہوکہ وہ 2018ء کے الیکشن کے لیے اپنی پارٹی کا بیانیہ دینا چاہ رہے ہوں اور دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے وہ اپنی لندن کی پراپرٹی اور تمام اثاثہ جات جو ان کی آمدنی سے تجاوز کررہے ہیں ان کو عوام اور اپنے ووٹرز کے سامنے متوازن کرنا چاہ رہے ہوں۔ تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عدالت کے خلاف بول کر وہ اپنی ہمت اور طاقت کا مظاہرہ کررہے ہوں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی اسٹرٹیجی کو اپنایا تھا۔ بھٹو، جنرل ایوب کے خلاف کھڑے ہوئے اور لیڈر بن گئے۔
جو بنیادی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ بیانیہ آج کل کی سیاست کا محور بن تو چکا ہے، جمہوریت بھی موجود رہے گی اور عدالت کے فیصلے بھی صادر ہوتے رہیں گے، اس پر عمل بھی کرنا ہوگا، مگرکورٹ کی بے حرمتی کرنا،کورٹ کے فیصلوں کو Quasai حد تک ماننا بھی جمہوریت اور آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔
میاں صاحب کے لیے ایک اور فیصلہ بھی آنیوالا ہے، آیا وہ نااہل وزیر اعظم ہوتے ہوئے پارٹی کے صدر بن سکتے ہیں یا نہیں یعنیٰ People Representation Act میں جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی وہUltra Vires ہے کہ نہیں اور چند ایسے فیصلے بھی میاں صاحب کے لیے متوقع ہیں۔ میاں صاحب کا کورٹ کے فیصلوں پریہ رد عمل کورٹ کے Procedures میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب پاپولر لیڈر ہوں اور بن بھی جائیں مگر وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنا جانشین کامیابی کے ساتھ بنا بھی دیں مگر اداروں کے ساتھ ٹکراؤ میں آکر وہ بھی اقتدار میں نہیں آسکتیں اور اگر عدالت کی طرف سے وہ مجرم قرار پائیں تو وہ الیکشن میں حصہ بھی نہیں لے سکتیں۔
اس معاملے کا بھی کوئی حل ہونا چاہیے۔ ہماری بینظیر بھٹو اس ملک کا اثاثہ تھیں وہ آج اگر زندہ ہوتیں تو بڑی خوبصورتی سے اس ملک کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیتیں۔ یوں سمجھیے کہ ہم نے بینظیر کوکھو کر اپنا ایک بہت بڑا سیاسی اثاثہ گنوا دیا۔ میاں صاحب بھی ہمارا اثاثہ ہیں اور اس طرح سے مریم نواز اور بلاول بھٹو بھی یا عمران خان بھی۔ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ ہمارے ملک کی بہتری میں نہیں۔ ملک کی بہتری کے لیے اول تو اس ٹکراؤ سے اجتناب کرنا چاہیے یا پھر اگر ٹکراؤ ہے تو اس حد تک کہ کوئی مثبت نتائج سامنے آسکیں۔