ناک بڑی ہوگی یا کٹ جائے گی

نیا پاکستان والے بھائی بھی بس دعوؤں اور نعروں تک محدود دکھائی دیے اس سے زیادہ کچھ نہیں


راؤ سیف الزماں February 21, 2018

ISLAMABAD: عوام کی جانب سے دیکھنے میں آرہا ہے، صرف لودھراں کے الیکشن میں نہیں اور بھی کئی ایک جگہوں پر،کئی ایک مقامات پر ظاہر ہوا کہ انھوں نے اداروں کے فیصلوں کو اپنی تقدیر ماننا چھوڑ دیا ہے، ان اداروں میں پارلیمنٹ بھی شامل ہے، لیکن وہ بھی ہیں جن کے احکامات ماضی میں ملک وقوم کی قسمت ہُوا کرتے تھے۔

اب یہ ٹھیک ہوا یا غلط لیکن اس کے اشارے بہت صاف اور واضح ہیں، ممکن ہے لوگ اسے میری خوش فہمی سمجھیں لیکن میں آنے والے دنوں میں آنے والے دور میں پاکستان کو تبدیل ہوتا ہُوا دیکھ رہا ہوں۔

شاید ... شاید یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے ان سب کے لیے جو آج بھی اس قوم کو اور اس کے جذبات کو محض مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جن کے لیے سیاست ایک کھیل تماشہ ہے، جیسے نوازشریف ایک طرف تو تحریکِ عدل چلا رہے ہیں دوسری طرف انھوں نے سینیٹ ٹکٹ بہرحال اپنے سمدھی کو ہی دیا یا عمران خان جو موروثی سیاست کے خلاف تقاریر کرتے نہیں تھکتے تھے انھوں نے بھی لودھراں سے الیکشن جہانگیر ترین کے بیٹے کو لڑوایا، تو پھر جن سے یہ گلہ کرتے ہیں، جس فیصلے پر یہ صبح وشام تنقیدکرتے ہیں کہ وہ غلط ہے، بے ایمان تو آپ بھی ہُوئے نا،آپ کا بھی کونسا انقلاب ملک میں لارہے ہیں،اقربا پروری،جھوٹ، دروغ گوئی،کرپشن ،خاندانی سیاست کو فروغ دینا اگرکوئی انقلاب ہے تو مان لیتے ہیں کہ آپ کے دور میں ملک نے ترقی کی، ورنہ سڑکوں کی تعمیر، بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی ایسے ایشوز نہیں جن پر آپ کو دوبارہ ووٹ دیا جائے، جب کہ آپ پرکرپشن ثابت ہوچکی اورآپ سے زیادہ آپ کے سمدھی اسحاق ڈار پر۔

اسی طرح نیا پاکستان والے بھائی بھی بس دعوؤں اور نعروں تک محدود دکھائی دیے اس سے زیادہ کچھ نہیں، بلکہ وہاں تو فہم و فراست کی بھی خاطرخواہ کمی نظر آئی۔ لگتا ہے کچھ بڑ بولے ایک جگہ جمع ہوگئے، جو اکثر و بیشتر مخالفین کوگالیوں اور دھمکیوں سے نوازتے ہیں،ورنہ الیاس کاشمیری مرحوم والی بڑھکیں۔ بہرحال ماننا ہوگا اہل لودھراں نے آخری ضمنی الیکشن میں جو فیصلہ دیا وہ خلافِ توقع تھا اور عنقریب منعقد ہونے والے الیکشن میں ایک رجحان کی طرف اشارہ بھی،خواہ اپوزیشن میری اس رائے سے اتفاق کرے یا نا کرے لیکن نتیجہ تو ماننا پڑے گا،کہ میاں صاحب نے عوام کو اپنے نکتہ نظر پر قائل کیا۔لودھراں کے حالیہ الیکشن میں بھی تحریکِ لبیک کے امیدوار نے تقریبا بارہ ہزار ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کی تشکیل کے بعد سے اب تک جتنے ضمنی انتحابات ہوئے اُن سب میں تحریک ِ لبیک کم و بیش اتنے ہی ووٹ لے چکی، تو مان لیا جائے کہ وہ اپنا اتنا ووٹ تو پیدا کر ہی گئے جو بہت سی نشستوں پرکم ازکم پنجاب میں بیلنس وووٹ ہوسکتا ہے، یعنی جن سیٹوں پر مقابلہ سخت ہُوا وہاں ان کی اہمیت سے کوئی انکار ممکن نہیں، لیکن نقصان خود ان کے لیے یہ ہے کہ ان کا سپورٹر، ووٹر بد دل ہوسکتا ہے ۔کیونکہ مذکورہ تعداد حکومت بنانے کے لیے کافی نہیں۔

قارئینِ کرام۔ اب آتے ہیں نواز شریف اور اُن کی ہونہار دختر مریم صفدر کے اُس لب ولہجے کی طرف جو اِن دنوں اُن کے ہر جلسے جلوس، ریلی میں عدلیہ کے اُن ججزکے خلاف ہے جنہوں نے پاناما کیس میں اُن کے خلاف فیصلہ دیا ور اُنہیں اُن کے عہدئہ وزارتِ عظمٰی سے نا اہل کردیا، بقول اُن کے یہ ملک وقوم کے لیے کسی بڑے سانحے سے کم نہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ عوام کے انتخاب کی اور اُن ووٹوں کی توہین ہے جو لوگوں نے بڑی تعداد میں انھیں دیے، وہ ججزکی جانب سے کچھ القاب وآداب پر بھی برہم ہیں، مثلاً گاڈ فادر وغیرہ،اُدھر ججز بھی بھرے بیٹھے ہیں اورکسی طور پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں بلکہ ہرکیس کی سماعت کے دوران کچھ ایسی باتیں پھرکرجاتے ہیں جس کے بعد جلتی پر تیل چھڑک جاتا ہے۔

معاملہ کیسے حل ہوگا؟ آخر اعلیٰ عدلیہ کے وقارکوکیسے محفوظ رکھا جائے؟ آخر وزیراعظم کے عہدے کو بے توقیر ہونے سے کیسے بچایا جائے؟ اور یہ بھی دیکھا جائے کہ کون اِنہیں لڑوا رہا ہے؟ کس کے ایماء پر فریقین باہم دست وگریباں ہیں کہ کسی کو اپنی اور ملک وقوم کی عزت کی پرواہ ہے نا وقارکی، بس ایک دھن سوار ہے کہ جیت اس معاملے میں ہماری ہو، ہمیں سپریم مان لیا جائے۔ میرا خیال ہے بلکہ رائے ہے کہ وقت ہے سنبھل جایئے اور اپنا اپنا قبلہ درست کرلیجیے، ملک کی سلامتی سے مت کھیلیے اس میں کسی کی ناک بڑی نہیں ہوگی بلکہ کٹ جائے گی۔

پارلیمنٹ اپنی جگہ اہم ہے سپریم کورٹ اپنی جگہ،دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں انھیں کراس نہیں کرنا چاہیے، لیکن بہرحال آئین و قانون بنانا منتخب اسمبلی کی ذمے داری ہے اُنہی کا کام ہے،آپ اس قانون کی تشریح کرسکتے ہیں لیکن منتخب لوگوں کو چور، ڈاکو قرار دیں گے تو ری ایکشن ہوگا، عوام کی جانب سے بھی ہوگا جو آپ ملاحظہ فرما ہی رہے ہوں گے۔ ایسے الفاظ کے استعمال کا حق آپ کے وجود اور انصاف پر بہت سے سوالیہ نشان لگا سکتا ہے۔اس صورتحال سے فی الفور نکلنے کی ضرورت ہے،دیکھیے منتخب لوگ ایک دوسرے کو بہت کچھ کہہ دیتے ہیں دنیا بھر کی پارلیمنٹس میں ہاتھا پائی تک دیکھنے میں آئی ہے لیکن آپ اعلیٰ عدلیہ ہیں،ایک ادارہ ہیں اور سرکاری ادارہ ہیں آپ کا کام کم از کم یہ نہیں کہ ایسے قابلِ اعراض جملوں کا استعمال کریں جس کے بعد کوئی فریق آپ کے انصاف پر اپنا اعتبار ہی کھو بیٹھے۔

سادہ سی با ت ہے آپ تو فیصلہ دیں اور فیصلوں کی زبان میں بات کریں،فریقِ دوئم کو اگر فیصلے پر اعتراض ہے اور اس کا اظہار بھی کررہا ہے تو بھی دو بدو اُس کی بات کا جواب دینے کے بجائے آپ اُس سے جواب طلبی کرسکتے ہیں، اس کا قانون موجود ہے ،جو فضاء اس وقت ملک میں موجود ہے وہ تو بہت خوفناک اور خطرناک ہے،یہ الزام در الزام والا معاملہ ہے جوکسی طور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ بہرحال کل کیا ہوگا کون جانے؟ لیکن کسی اچھی بات کی امید دکھائی تو نہیں دے رہی، بظاہر ذہن میں آتا ہے کہ اس جھگڑے کو بھی وہی نمٹائیں جو پہلے نمٹایا کرتے تھے لیکن پھر خیال آتا ہے کہ انھیں تکلیف نہ ہی دی جائے ورنہ وہ اپنی پر آئے تو نجانے کیِا کیِا نمٹانے پر آجائیں گے، لہٰذا خود ہی آگے بڑھنا ہوگا، ویسے چیف جسٹس تو بڑے معاملہ فہم انسان دکھائی دیتے ہیں وہ ہی کچھ بہترکرنے کی کوشش کریں، مطلب ٹھنڈا کریں جو بہرحال خوش دلی اور خوش اخلاقی سے ہوگا۔

قارئینِ کرام ! آنے والا الیکشن اپنے دامن میں ملک و قوم کے لیے کیِا خوش خبریاں رکھتا ہے،کون حکومت میں ہوگا کون دھرنوں میں؟ ابھی یقین سے توکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا لیکن خصوصی طور پر صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کے امکانات وسیع تر نظر آتے ہیں۔ دعا یہ ہے کہ الیکشن پُر امن ہوں،آئے کوئی بھی ہم عوام کوکچھ خاص فرق نہیں پڑنے والا، آپ نے سینیٹ کے الیکشن سے قبل ممبرانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کی حالت ملاحظہ ضرور کرلی ہوگی، یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ہم ووٹ دیکر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں تو جاہلِ مطلق کون ہُوا؟ وہ یا ہم؟ یہ بکے ہُوئے، لٹے پٹے منافق لوگ۔کیا یہی ہمارا انتخا ب ہیں؟ سوچ لیجیے ابھی وقت ہے۔

میں اپنے اس کالم میں بھی اعلیٰ عدلیہ کے کچھ کاموں کی تعریف ضرورکروں گا، جو انھوں نے بر وقت کیے، بالخصوص ماورائے عدالت ہلاکتوں پر فوری ایکشن، غذائی ملاوٹ،گندے پانی کی فراہمی ، اسپتالوں کی نا گفتہ بہ حالت،سیاسی قیدیوں کے اسپتال منتقل ہوکر آرام وسکون سے رہنے سہنے پر اقدام یہ تمام قابلِ ستائش ہیں، اگر چہ فرائض حکومت کے تھے،ذمے داری اُن کی تھی لیکن ادائیگی سپریم کورٹ کی جانب سے، اس پر اعلیٰ عدالت کے ججزکی خاص طور پر چیف جسٹس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ہم باقی معاملات میں بھی جو ان کے اور مسلم لیگ ن کے درمیان چل رہے ہیں اُنہی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور سیز فائر کروا دیں ،ورنہ ایک ایسے ڈیڈ لاک کا خطرہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس میں، میں اسی تحریر میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کسی کی ناک بڑی نہیں ہوگی کٹ جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں