داخلی سلامتی کی صورتحال اعتراض کیوں
طارق کھوسہ پولیس اور ایف آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز رہے
طارق کھوسہ کی کتاب"The Faltering State - Pakistan's Internal Security Landscape" اپنے عمل کا جائزہ لینے سے متعلق ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔
یہ کتاب، ایک انگریزی اخبار میں شایع ہونے والے ان کے حوصلہ افزا آرٹیکلز کا مجموعہ ہے۔اس کتاب کی اہمیت اس وجہ سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ لکھنے والا داخلی سلامتی کے منظر نامے کے اندر کا آدمی ہے۔ میں اختصار سے کام لیتے ہوئے اس کتاب کے صرف چار ابواب میموگیٹ، بینظیر قتل کا معمہ، ممبئی حملوں کا مقدمہ اورDeep State کا ذکرکروں گا، جب کتاب کے مصنف طارق کھوسہ کو سپریم کورٹ کی طرف سے میمو گیٹ کمیشن کا سربراہ بننے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے''اسٹیبلشمنٹ'' کا آلہ کار بننے سے انکارکر دیا، جس کا نشانہ آصف زرداری اورواشنگٹن میں ان کے سفیر تھے۔
لگتا ہے کہ ایک تجربہ کار پولیس افسر ہونے کی حیثیت سے انھوں نے بھانپ لیا تھا کہ یہ آئی ایس آئی کے(اُس وقت کے)چیف، جنرل پاشا کا اسٹنگ آپریشن ہے۔ یہ فیصلہ کرتے وقت ان کے ذہن میں جو سوال اٹھ رہے تھے، ان میں سے چند یہ تھے کہ''نواز شریف، وکیل کی طرح کالاکوٹ پہن کر عدالت میں کیا کررہے ہیں؟ ان کے اور بینظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کا کیا بنا؟ اورکیا انھیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے۔کھوسہ نے اسی باب میں لکھا ہے کہ ''میموگیٹ، واٹر گیٹ نہیں تھا۔نکسن کے بر عکس، زرداری کو استعفا نہیں دینا پڑا، تاہم اس میں حسین حقانی کو سب کچھ چھوڑنا پڑا، جن پر الزام تھا کہ انھوں نے میمو لکھ کر مائیک مولن کو پہنچایا تھا۔'' طارق کھوسہ جرات مندی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ''اسامہ بن لادن کے گھر پر حملے کے حوالے سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی،حالانکہ پارلیمنٹ کے سامنے انٹیلجنس اور سیکیورٹی کی ناکامی کا اعتراف کیا گیا تھا۔ نہ کسی میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اس وقت کے سیکیورٹی کے سربراہوںسے کوئی سخت سوال کرتا جو ملازمت میں توسیع کے خواہش مند تھے اور ریٹائرہونا نہیں چاہتے تھے۔
جب2009ء میں بینظیر بھٹو کا قتل کیس ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا تو طارق کھوسہ تفتیش کی سربراہی کررہے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ ''تفتیشی ٹیم کو عینی شہادتیں اور دستاویزی، فارنزک اور واقعاتی شہادتیں جمع کرنے کا کام سونپا گیا، یہ فیصلہ ان تمام لوگوں کی گواہی ریکارڈ کرنے کے لیے کیا گیا تھا جوگاڑی میں بینظیربھٹو کے ساتھ تھے۔'' سینیٹر صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ، ناہید خان سر عام یہ دعویٰ کرچکے تھے کہ ان کی رہنما کو قتل کرنے کے لیے شارپ اسنائپر فائراورایک خاص قسم کا انٹیلجنس آپریشن کیا گیا۔ پی پی پی کی ترجمان، شیری رحمان نے کہا تھا کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔
ان کے بیانات اور ایک سیکیورٹی گارڈ، خالد شہنشاہ، جسے ٹی وی فوٹیج میں اسٹیج کے قریب بینظیر بھٹو سے کچھ ہی فاصلے پر جلسے سے ان کی روانگی سے قبل اشارہ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، کے مشکوک طرز عمل کی تفصیلی تحقیقات کی ضرورت تھی۔طارق کھوسہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے رحمٰن ملک سے مدد مانگی تھی، جو بینظیر کے چیف سیکیورٹی آفیسر تھے، مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ شاید پی پی پی کی حکومت میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگاتی اور اسی لیے اس نے اقوام متحدہ کے کمیشن سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے درخواست کی۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے ڈیپ اسٹیٹ کے نامعلوم سیکیورٹی افسروں کے حکم پر پولیس کی جانب سے کراچی اور راولپنڈی، دونوں مقامات پر جائے وقوعہ کو دھو دینے جیسے معاملات اٹھا کر بالواسطہ طریقے سے مشرف اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا۔اسی طرح،ان کے قتل کے بعد بعض اہم شہادتیں غائب تھیں۔ طارق کھوسہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے یو این کمیشن کے نتائج اور سفارشات پر''ایک پروفیشنل کی حیثیت سے'' اُس وقت کے وزیراعظم کے نام اپنے ایک کانفیڈنشل خط میں اپنی رائے دی مگر ان سفارشات کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا گیا۔
بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات کے بارے میں جب بھی کوئی بات چیت ہوتی ممبئی حملوں کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی۔ بھارت کی طرف سے اصرارکیا جاتا ہے کہ پاکستان، ممبئی حملے کے ذمے داروں اور ان کے ماسٹرمائنڈز کو سزا دے، جن میں 162 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہکسی کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت نہیں ہیں۔ طارق کھوسہ نے "Mumbai Attacks Trial" کے عنوان سے باب میں جو کچھ بتایا ہے اس کی روشنی میں ہمارا سرکاری موقف مضحکہ خیز لگتا ہے۔ پیسہ فراہم کرنے والے دو افراد کو جو بیرون ملک مقیم تھے گرفتارکیا گیا اور انھیں مقدمہ چلانے کے لیے لایا گیا، جنھیں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اپنا کہتے ہیں
طارق کھوسہ نے جو پولیس اور ایف آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز رہے،"The Deep State" میں بڑی جرات کے ساتھ بات کی ہے اور ایسے متعدد واقعات کا ذکرکیا ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔ انھوں نے خاص طور سے بتایا ہے کہ ''ریاست نواز اور ریاست دشمن عسکریت پسندوں'' میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔یہ سب پر تشدد ایجنڈا پر عمل کرتے ہیں۔خفیہ سیاسی مقاصد کے ساتھ یا ان کے بغیر، پرائیویٹ عسکریت پسندوں کی تشکیل اور تشدد پسند تنظیموں کا قیام سراسرغیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔غورکیجیے!آپ آج جس ''جن'' کو پیدا کریں گے وہ کل آپ ہی کو ڈرائے گا۔براہِ کرم ممنوعہ عسکریت پسند تنظیموں کو روکیے، پابندکیجیے اور ان کے لیڈروں کوگرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایئے۔ڈیپ اسٹیٹ ان غیر ریاستی اداکاروں کی تخلیق میں مدد کرتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ پاکستانی ریاست کے بخیے ادھیڑ دیں گے۔
مصنف نے شروع ہی میں عاجزی کے ساتھ امید ظاہرکی ہے کہ یہ کتاب، پالیسی سازوں اور داخلی سلامتی کے موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے والے پروفیشنلز کے لیے نہ صرف اصلاح کا ذریعہ ہوگی بلکہ ان تمام جرات مند، با ضمیر اور محب وطن سیکیورٹی حکام کی ہمت افزائی کرے گی جو اس عظیم قوم کے لیے ایک پر امن، ترقی پسند اور خوش حال مستقبل دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جو لکھاری سچ لکھتے ہیں ان کی کتاب کو وہی لوگ نہیں پڑھتے جن کا ان معاملات سے تعلق ہوتا ہے۔
یہ کتاب، ایک انگریزی اخبار میں شایع ہونے والے ان کے حوصلہ افزا آرٹیکلز کا مجموعہ ہے۔اس کتاب کی اہمیت اس وجہ سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ لکھنے والا داخلی سلامتی کے منظر نامے کے اندر کا آدمی ہے۔ میں اختصار سے کام لیتے ہوئے اس کتاب کے صرف چار ابواب میموگیٹ، بینظیر قتل کا معمہ، ممبئی حملوں کا مقدمہ اورDeep State کا ذکرکروں گا، جب کتاب کے مصنف طارق کھوسہ کو سپریم کورٹ کی طرف سے میمو گیٹ کمیشن کا سربراہ بننے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے''اسٹیبلشمنٹ'' کا آلہ کار بننے سے انکارکر دیا، جس کا نشانہ آصف زرداری اورواشنگٹن میں ان کے سفیر تھے۔
لگتا ہے کہ ایک تجربہ کار پولیس افسر ہونے کی حیثیت سے انھوں نے بھانپ لیا تھا کہ یہ آئی ایس آئی کے(اُس وقت کے)چیف، جنرل پاشا کا اسٹنگ آپریشن ہے۔ یہ فیصلہ کرتے وقت ان کے ذہن میں جو سوال اٹھ رہے تھے، ان میں سے چند یہ تھے کہ''نواز شریف، وکیل کی طرح کالاکوٹ پہن کر عدالت میں کیا کررہے ہیں؟ ان کے اور بینظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کا کیا بنا؟ اورکیا انھیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے۔کھوسہ نے اسی باب میں لکھا ہے کہ ''میموگیٹ، واٹر گیٹ نہیں تھا۔نکسن کے بر عکس، زرداری کو استعفا نہیں دینا پڑا، تاہم اس میں حسین حقانی کو سب کچھ چھوڑنا پڑا، جن پر الزام تھا کہ انھوں نے میمو لکھ کر مائیک مولن کو پہنچایا تھا۔'' طارق کھوسہ جرات مندی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ''اسامہ بن لادن کے گھر پر حملے کے حوالے سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی،حالانکہ پارلیمنٹ کے سامنے انٹیلجنس اور سیکیورٹی کی ناکامی کا اعتراف کیا گیا تھا۔ نہ کسی میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اس وقت کے سیکیورٹی کے سربراہوںسے کوئی سخت سوال کرتا جو ملازمت میں توسیع کے خواہش مند تھے اور ریٹائرہونا نہیں چاہتے تھے۔
جب2009ء میں بینظیر بھٹو کا قتل کیس ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا تو طارق کھوسہ تفتیش کی سربراہی کررہے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ ''تفتیشی ٹیم کو عینی شہادتیں اور دستاویزی، فارنزک اور واقعاتی شہادتیں جمع کرنے کا کام سونپا گیا، یہ فیصلہ ان تمام لوگوں کی گواہی ریکارڈ کرنے کے لیے کیا گیا تھا جوگاڑی میں بینظیربھٹو کے ساتھ تھے۔'' سینیٹر صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ، ناہید خان سر عام یہ دعویٰ کرچکے تھے کہ ان کی رہنما کو قتل کرنے کے لیے شارپ اسنائپر فائراورایک خاص قسم کا انٹیلجنس آپریشن کیا گیا۔ پی پی پی کی ترجمان، شیری رحمان نے کہا تھا کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔
ان کے بیانات اور ایک سیکیورٹی گارڈ، خالد شہنشاہ، جسے ٹی وی فوٹیج میں اسٹیج کے قریب بینظیر بھٹو سے کچھ ہی فاصلے پر جلسے سے ان کی روانگی سے قبل اشارہ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، کے مشکوک طرز عمل کی تفصیلی تحقیقات کی ضرورت تھی۔طارق کھوسہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے رحمٰن ملک سے مدد مانگی تھی، جو بینظیر کے چیف سیکیورٹی آفیسر تھے، مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ شاید پی پی پی کی حکومت میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگاتی اور اسی لیے اس نے اقوام متحدہ کے کمیشن سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے درخواست کی۔ اقوام متحدہ کے کمیشن نے ڈیپ اسٹیٹ کے نامعلوم سیکیورٹی افسروں کے حکم پر پولیس کی جانب سے کراچی اور راولپنڈی، دونوں مقامات پر جائے وقوعہ کو دھو دینے جیسے معاملات اٹھا کر بالواسطہ طریقے سے مشرف اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا۔اسی طرح،ان کے قتل کے بعد بعض اہم شہادتیں غائب تھیں۔ طارق کھوسہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے یو این کمیشن کے نتائج اور سفارشات پر''ایک پروفیشنل کی حیثیت سے'' اُس وقت کے وزیراعظم کے نام اپنے ایک کانفیڈنشل خط میں اپنی رائے دی مگر ان سفارشات کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا گیا۔
بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات کے بارے میں جب بھی کوئی بات چیت ہوتی ممبئی حملوں کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی۔ بھارت کی طرف سے اصرارکیا جاتا ہے کہ پاکستان، ممبئی حملے کے ذمے داروں اور ان کے ماسٹرمائنڈز کو سزا دے، جن میں 162 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہکسی کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت نہیں ہیں۔ طارق کھوسہ نے "Mumbai Attacks Trial" کے عنوان سے باب میں جو کچھ بتایا ہے اس کی روشنی میں ہمارا سرکاری موقف مضحکہ خیز لگتا ہے۔ پیسہ فراہم کرنے والے دو افراد کو جو بیرون ملک مقیم تھے گرفتارکیا گیا اور انھیں مقدمہ چلانے کے لیے لایا گیا، جنھیں اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اپنا کہتے ہیں
طارق کھوسہ نے جو پولیس اور ایف آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز رہے،"The Deep State" میں بڑی جرات کے ساتھ بات کی ہے اور ایسے متعدد واقعات کا ذکرکیا ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔ انھوں نے خاص طور سے بتایا ہے کہ ''ریاست نواز اور ریاست دشمن عسکریت پسندوں'' میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔یہ سب پر تشدد ایجنڈا پر عمل کرتے ہیں۔خفیہ سیاسی مقاصد کے ساتھ یا ان کے بغیر، پرائیویٹ عسکریت پسندوں کی تشکیل اور تشدد پسند تنظیموں کا قیام سراسرغیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔غورکیجیے!آپ آج جس ''جن'' کو پیدا کریں گے وہ کل آپ ہی کو ڈرائے گا۔براہِ کرم ممنوعہ عسکریت پسند تنظیموں کو روکیے، پابندکیجیے اور ان کے لیڈروں کوگرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایئے۔ڈیپ اسٹیٹ ان غیر ریاستی اداکاروں کی تخلیق میں مدد کرتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ پاکستانی ریاست کے بخیے ادھیڑ دیں گے۔
مصنف نے شروع ہی میں عاجزی کے ساتھ امید ظاہرکی ہے کہ یہ کتاب، پالیسی سازوں اور داخلی سلامتی کے موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے والے پروفیشنلز کے لیے نہ صرف اصلاح کا ذریعہ ہوگی بلکہ ان تمام جرات مند، با ضمیر اور محب وطن سیکیورٹی حکام کی ہمت افزائی کرے گی جو اس عظیم قوم کے لیے ایک پر امن، ترقی پسند اور خوش حال مستقبل دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جو لکھاری سچ لکھتے ہیں ان کی کتاب کو وہی لوگ نہیں پڑھتے جن کا ان معاملات سے تعلق ہوتا ہے۔