ہمارا نصاب اور تاریخ کا شعور
دنیا بھر میں تاریخی کھنڈرات سے سیاحت کو فروغ دیا جاتا ہے پر ہم نے اسے نظریاتی بنیاد پر کفر و ایمان کا مسئلہ بنا دیا ہے
انگریزی کے معروف ادیب جارج اورویل کا قول ہے، اگر کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو اس سے اس کی تاریخ کا شعور چھین لو۔ اور ہم عملاً ستر سال سے یہی کر رہے ہیں۔
پچھلے سال انڈیا میں موئن جودڑو کے نام سے بننے والی ایک فلم کے ریویو دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت بڑی کاسٹ سے بننے والی اس کمرشل فلم میں ہیرو (ہرتھک روشن) کو دریائے سندھ کے کنارے امری نامی شہر کا باسی بتایا گیا جو فلم کے آغاز میں کسی مقصد کے لیے موئن جودڑو کا سفر کرتا ہے۔ ریویو میں بھارتی ناظرین فلم کا پریمئیر دیکھنے کے بعد اپنی قدیم تہذیب پر فخر کا اظہار کر رہے تھے۔ ہسٹوریکل ایپک کہلانے والی صنف کی اس فلم میں ظاہر ہے کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ موئن جودڑو کے کھنڈرات آج موجودہ پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فلم پاکستان میں بھی یقیناً دیکھی گئی ہوگی، مگر شاید کم ہی لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ امری کے کھنڈرات حیدرآباد کے قریب واقع ہیں۔ خود حیدرآباد میوزیم میں تاریخ کی اس اہم دور کے بارے میں امری سے دریافت شدہ نوادرات کی چند انتہائی بھونڈی نقلیں موجود ہیں۔ اصل نوادرات کہاں پائے جاتے ہیں اس کا علم یا تو الله کو ہے یا انہیں بیچ کھانے والوں کو۔
بھارت صرف نصاب کے ذریعے ہی نہیں، بالی وُڈ کی مدد سے بھی اپنی تاریخ کے ذریعے قوم کو شناخت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ پاکستان کے علاقوں کی تاریخ کو ہندوستان کی تاریخ ثابت کر رہا ہے۔
کوئی 2005 کی بات ہے، میتھ میٹکس کی تاریخ کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دنیا کے قدیم ترین mathematician یعنی ریاضی دان کا تعلق انڈیا کے علاقے موئن جودڑو اور ہڑپہ سے تھا۔
پاکستان کے خطوں کی قدیم تاریخ بھارت کی تاریخ سے کہیں زیادہ زرخیز ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ انڈیا کا نام جس دریا کے نام سے لیا گیا وہ اور اس کے کنارے ابھرنے والی دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی تمام نشانیاں آج موجودہ پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ مگر اس سے بڑھ کرہماری بدقسمتی کہ ہمارا نصاب اس تاریخ کو اپنی تاریخ ماننے سے عملاً انکاری ہے۔ اگر اس کا تذکرہ بھولے بھٹکے کسی سبق کا حصہ بنایا بھی جاتا ہے تو ایسے جیسے ہم شرمندہ ہوں کہ پاکستان پر یہ وقت بھی آیا تھا جب یہاں بت پرستی ہوتی تھی اور لوگ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذھب پر یقین رکھتے تھے۔
ہمارے سرکاری نصاب کی تشکیل دینے والے عناصر نے ارادتاً نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے پیش نظر ہمارے اس شاندار ماضی سے صرف نظر کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ موئن جودڑو اور ہڑپہ کے بارے میں ایک آدھ مضمون خانہ پری کےلیے موجود ہے، مگر یہ مضامین بچوں کو پاکستان کی تاریخی شناخت پر فخر کرنا سکھانے کےلیے قطعی ناکافی ہیں۔
یہ بجا ہے کہ آج پاکستان میں رہنے والی بیشتر آبادی مسلمان ہے، مگر برصغیر میں ہم میں سے بہت سوں کی جڑیں بہت پرانی ہیں؛ کہیں کہیں ظہورِ اسلام سے بھی بہت پرانی۔ اورآج ہم جس سرزمین پر موجود ہیں، ہمارے دین کے ساتھ ساتھ اس کا متنوع اور شاندار ماضی بھی ہماری شناخت ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنی تاریخی شناخت پر فخر کرنے سے منع نہیں کرتا۔
دوسری طرف اسلامی تاریخ بھی سرکاری نصاب میں انتہائی مختصر اور محدود پڑھائی جاتی ہے۔ مجھے کراچی کے جنریشنز اسکول میں 13-2012 میں اے اور او لیول کے اسٹاف کو اسلام کے ابتدائی ادوار اور قرونِ وسطیٰ کی تاریخ پر لیکچر دینے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ سرکاری نصاب سے بہت بہتر اور جامع اسلامیات کا کورس کیمبرج سسٹم کے بچے پڑھتے ہیں۔
تاریخ کا شعور ایک قوم کو جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انگریزی کے معروف ادیب جارج اورویل کا قول ہے، ''اگر کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو اس سے اس کی تاریخ کا شعور چھین لو۔'' اور ہم عملاً ستر سال سے یہی کر رہے ہیں۔
چند سال پیشتر بی بی سی کی ڈاکیومنٹریز The Story of India اور The Foot Steps of Alexander دیکھ کر بے چینی ہوئی کہ سکندرِ اعظم نے تو کبھی موجودہ انڈیا کی سرزمین پر قدم ہی نہیں رکھا، وہ تو ستلج کے پار کبھی گیا ہی نہیں، وہ تو موجودہ جہلم سے ہی دریائے سندھ کے ذریعہ مکران کے ساحل اور وہاں سے ایران چلا گیا تھا۔ اس کے خیبر کے راستے موجودہ پاکستان میں داخلے، اٹک، جہلم، اورچترال اور سوات کے علاقوں تک پہنچنے پر سب تاریخیں متفق ہیں۔ یہ صحیح ہے کے وہ ہندو پاک کی تقسیم سے کوئی دو ہزار سال پہلے اس علاقے میں وارد ہوا مگر اس وقت بھی انڈیا کسی ایک حکمران کے تحت متحد نہیں تھا۔ پتہ نہیں ہم میں سے کتنے ٹیکسلا میں بسائے جانے والے یونانی شہر کے بارے میں جانتے ہونگے جس کے بہت سے نوادرات برطانوی ماہر قدیمہ کی مہربانی سے آج ٹیکسلا کے میوزیم میں پائے جاتے ہیں۔ مگر بچوں کو نصاب میں ان کے بارے میں بتانے کی کسے فرصت، کہ تاریخ کے یہ ابواب کہیں ایمان کو کمزور کرتے ہیں تو کہیں سیکولرازم اور لبرلزم کی ان بنیادوں کو جو نہیں چاہتیں کہ ہم اپنے ماضی پر فخر کریں۔
یاد پڑتا ہے کہ کوئی ایک دہائی قبل اردو کے سب سے بڑے روزنامے میں ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا جس کے مطابق سکندرِاعظم کے حوالے سے مقدونیوں نے پاکستان میں کوئی یادگار تعمیر کرنا چاہی تو اس پر یہ اعتراض سامنے آیا کہ سکندر کی فوجوں نے تو حملہ کیا تھا اور تباہی مچائی تھی، وہ ہمارا ہیرو نہیں ہوسکتا؛ اس لیے ایسی کسی تعمیر کی گنجائش نہیں۔ غیر ملکی افواج ظاہر ہے یہی کیا کرتی ہیں، لیکن ایسی کوئی یادگار تعمیر ہوتی تو کم از کم ہمارے بچوں کو یہ توعلم ہوتا کے تاریخ کے اس اہم باب سے ہمارا بھی کوئی تعلق بنتا ہے۔ ہم بھی اتنے اہم تھے کہ سکندر کو یہاں آنے کی ضرورت پڑی۔
دنیا بھر میں تاریخی کھنڈرات کو سیاحت کے فروغ اور اس سے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کےلیے قومی سطح پر منصوبہ بندی ہوتی ہے، اور ہم نے اسے نظریاتی بنیادوں پر کفر اورایمان کا مسئلہ بنا دیا ہے۔
گندھارا کی خوبصورت تہذیب کے بارے میں بھی جو سوات، تخت بائی، پشاور، ٹیکسلا، شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ افغانستان اور وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی، ہم بچوں کو کچھ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انگریز کی مہربانی سے پشاور میوزیم ان بیش قیمت نوادرات سے ابلا پڑ رہا ہے، اور اب جو کچھ دریافت ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کے طفیل سیدھا باہر برآمد ہو رہا ہے۔ اور وہ ڈالر بھی جو اس نیک کام سے حاصل ہوتے ہیں۔
غالباً پرویز مشرف کے دور میں اسلام آباد میں پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار کے حوالے سے ایک میوزیم تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ کوشش قابل تعریف ہے، لیکن ایسے میوزیم ہر صوبے میں ہونے چاہییں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2012 میں رقم کے مشاہدے کے مطابق خود راولپنڈی کے پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے اور بڑے بھی اس میوزیم کے وجود سے وا قف نہیں تھے۔ یہ بھی ہمارے میڈیا کی مہربانی ہے جو دنیا کے سرگرم ترین میڈیا کے طور پر معروف ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ نصاب کی ان کمیوں کو دور کرنے کےلیے آکسفورڈ جیسے اداروں کو سامنے آنا پڑتا ہے جو پاکستان کے شاندار ماضی کو اس کے بچوں کےلیے مرتب کرتی ہیں، تب بھی ایک طبقہ مذہب کے نام پر اعتراض کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر یونیورسٹی کی شائع کردہ پیٹرموس نامی مصنف کی لکھی ہوئی آکسفورڈ ہسٹری آف پاکستان سے زیادہ جامع اور عام فہم نصابی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ لارج سائز پر تین حصوں میں شائع شدہ ان تصاویر سے مرصع کتاب میں پتھر کے ادوار سے لےکر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے مختصر تعارف کے بعد سندھ کی تہذیب، ہندو مت اور بدھ مت کی مختصر تاریخ، سکندر اعظم کی آمد اور گندھارا تہذیب سے لےکر مسلمانوں کی برصغیر آمد اور اس کے بعد تقسیم پاکستان کےمراحل کو بڑے ہی دلچسپ اور سادہ انداز میں سمویا گیا ہے۔ یہ کتاب چند سال پیشتر پری اے اور او لیول کے طلبہ کو چھٹی سے نویں تک پڑھائی جاتی تھی۔ غالباً اگلے مراحل کی تیاری کے لیے۔ مگر پاکستان کا سرکاری نصاب سندھ بورڈ ابھی تک تیس چالیس سال پہلے کے فرسودہ نصاب پر مشتمل ہے۔ (میں نے آخری مرتبہ 2013 میں اس کا مشاہدہ کیا۔ شاید اب کوئی تبدیلی آئی ہو) کاش ہمارے سرکاری نصاب مرتب کرنے کےذمہ دار محکمے اور ان کے لاکھوں روپے کی تنخواہ لینے والے افسران کو کبھی خیال آئے کہ وہ کیمبرج سسٹم کی کتابوں پر نظر ڈال کر ہی سرکاری نصاب کو اپ ڈیٹ کریں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان سے انتہاپسندی کا خاتمہ ہو، تو ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی پاکستانیت کی شناخت دینی ہو گی۔ اور اس کے لیے انہیں اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس سرزمین کی تاریخ کا بھی شعور دینا ہو گا جس میں ان کی جڑیں موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پچھلے سال انڈیا میں موئن جودڑو کے نام سے بننے والی ایک فلم کے ریویو دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت بڑی کاسٹ سے بننے والی اس کمرشل فلم میں ہیرو (ہرتھک روشن) کو دریائے سندھ کے کنارے امری نامی شہر کا باسی بتایا گیا جو فلم کے آغاز میں کسی مقصد کے لیے موئن جودڑو کا سفر کرتا ہے۔ ریویو میں بھارتی ناظرین فلم کا پریمئیر دیکھنے کے بعد اپنی قدیم تہذیب پر فخر کا اظہار کر رہے تھے۔ ہسٹوریکل ایپک کہلانے والی صنف کی اس فلم میں ظاہر ہے کہیں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ موئن جودڑو کے کھنڈرات آج موجودہ پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فلم پاکستان میں بھی یقیناً دیکھی گئی ہوگی، مگر شاید کم ہی لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ امری کے کھنڈرات حیدرآباد کے قریب واقع ہیں۔ خود حیدرآباد میوزیم میں تاریخ کی اس اہم دور کے بارے میں امری سے دریافت شدہ نوادرات کی چند انتہائی بھونڈی نقلیں موجود ہیں۔ اصل نوادرات کہاں پائے جاتے ہیں اس کا علم یا تو الله کو ہے یا انہیں بیچ کھانے والوں کو۔
بھارت صرف نصاب کے ذریعے ہی نہیں، بالی وُڈ کی مدد سے بھی اپنی تاریخ کے ذریعے قوم کو شناخت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ پاکستان کے علاقوں کی تاریخ کو ہندوستان کی تاریخ ثابت کر رہا ہے۔
کوئی 2005 کی بات ہے، میتھ میٹکس کی تاریخ کے بارے میں ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دنیا کے قدیم ترین mathematician یعنی ریاضی دان کا تعلق انڈیا کے علاقے موئن جودڑو اور ہڑپہ سے تھا۔
پاکستان کے خطوں کی قدیم تاریخ بھارت کی تاریخ سے کہیں زیادہ زرخیز ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ انڈیا کا نام جس دریا کے نام سے لیا گیا وہ اور اس کے کنارے ابھرنے والی دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی تمام نشانیاں آج موجودہ پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ مگر اس سے بڑھ کرہماری بدقسمتی کہ ہمارا نصاب اس تاریخ کو اپنی تاریخ ماننے سے عملاً انکاری ہے۔ اگر اس کا تذکرہ بھولے بھٹکے کسی سبق کا حصہ بنایا بھی جاتا ہے تو ایسے جیسے ہم شرمندہ ہوں کہ پاکستان پر یہ وقت بھی آیا تھا جب یہاں بت پرستی ہوتی تھی اور لوگ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذھب پر یقین رکھتے تھے۔
ہمارے سرکاری نصاب کی تشکیل دینے والے عناصر نے ارادتاً نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے پیش نظر ہمارے اس شاندار ماضی سے صرف نظر کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ موئن جودڑو اور ہڑپہ کے بارے میں ایک آدھ مضمون خانہ پری کےلیے موجود ہے، مگر یہ مضامین بچوں کو پاکستان کی تاریخی شناخت پر فخر کرنا سکھانے کےلیے قطعی ناکافی ہیں۔
یہ بجا ہے کہ آج پاکستان میں رہنے والی بیشتر آبادی مسلمان ہے، مگر برصغیر میں ہم میں سے بہت سوں کی جڑیں بہت پرانی ہیں؛ کہیں کہیں ظہورِ اسلام سے بھی بہت پرانی۔ اورآج ہم جس سرزمین پر موجود ہیں، ہمارے دین کے ساتھ ساتھ اس کا متنوع اور شاندار ماضی بھی ہماری شناخت ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنی تاریخی شناخت پر فخر کرنے سے منع نہیں کرتا۔
دوسری طرف اسلامی تاریخ بھی سرکاری نصاب میں انتہائی مختصر اور محدود پڑھائی جاتی ہے۔ مجھے کراچی کے جنریشنز اسکول میں 13-2012 میں اے اور او لیول کے اسٹاف کو اسلام کے ابتدائی ادوار اور قرونِ وسطیٰ کی تاریخ پر لیکچر دینے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ سرکاری نصاب سے بہت بہتر اور جامع اسلامیات کا کورس کیمبرج سسٹم کے بچے پڑھتے ہیں۔
تاریخ کا شعور ایک قوم کو جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انگریزی کے معروف ادیب جارج اورویل کا قول ہے، ''اگر کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو اس سے اس کی تاریخ کا شعور چھین لو۔'' اور ہم عملاً ستر سال سے یہی کر رہے ہیں۔
چند سال پیشتر بی بی سی کی ڈاکیومنٹریز The Story of India اور The Foot Steps of Alexander دیکھ کر بے چینی ہوئی کہ سکندرِ اعظم نے تو کبھی موجودہ انڈیا کی سرزمین پر قدم ہی نہیں رکھا، وہ تو ستلج کے پار کبھی گیا ہی نہیں، وہ تو موجودہ جہلم سے ہی دریائے سندھ کے ذریعہ مکران کے ساحل اور وہاں سے ایران چلا گیا تھا۔ اس کے خیبر کے راستے موجودہ پاکستان میں داخلے، اٹک، جہلم، اورچترال اور سوات کے علاقوں تک پہنچنے پر سب تاریخیں متفق ہیں۔ یہ صحیح ہے کے وہ ہندو پاک کی تقسیم سے کوئی دو ہزار سال پہلے اس علاقے میں وارد ہوا مگر اس وقت بھی انڈیا کسی ایک حکمران کے تحت متحد نہیں تھا۔ پتہ نہیں ہم میں سے کتنے ٹیکسلا میں بسائے جانے والے یونانی شہر کے بارے میں جانتے ہونگے جس کے بہت سے نوادرات برطانوی ماہر قدیمہ کی مہربانی سے آج ٹیکسلا کے میوزیم میں پائے جاتے ہیں۔ مگر بچوں کو نصاب میں ان کے بارے میں بتانے کی کسے فرصت، کہ تاریخ کے یہ ابواب کہیں ایمان کو کمزور کرتے ہیں تو کہیں سیکولرازم اور لبرلزم کی ان بنیادوں کو جو نہیں چاہتیں کہ ہم اپنے ماضی پر فخر کریں۔
یاد پڑتا ہے کہ کوئی ایک دہائی قبل اردو کے سب سے بڑے روزنامے میں ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا جس کے مطابق سکندرِاعظم کے حوالے سے مقدونیوں نے پاکستان میں کوئی یادگار تعمیر کرنا چاہی تو اس پر یہ اعتراض سامنے آیا کہ سکندر کی فوجوں نے تو حملہ کیا تھا اور تباہی مچائی تھی، وہ ہمارا ہیرو نہیں ہوسکتا؛ اس لیے ایسی کسی تعمیر کی گنجائش نہیں۔ غیر ملکی افواج ظاہر ہے یہی کیا کرتی ہیں، لیکن ایسی کوئی یادگار تعمیر ہوتی تو کم از کم ہمارے بچوں کو یہ توعلم ہوتا کے تاریخ کے اس اہم باب سے ہمارا بھی کوئی تعلق بنتا ہے۔ ہم بھی اتنے اہم تھے کہ سکندر کو یہاں آنے کی ضرورت پڑی۔
دنیا بھر میں تاریخی کھنڈرات کو سیاحت کے فروغ اور اس سے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کےلیے قومی سطح پر منصوبہ بندی ہوتی ہے، اور ہم نے اسے نظریاتی بنیادوں پر کفر اورایمان کا مسئلہ بنا دیا ہے۔
گندھارا کی خوبصورت تہذیب کے بارے میں بھی جو سوات، تخت بائی، پشاور، ٹیکسلا، شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ افغانستان اور وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی، ہم بچوں کو کچھ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انگریز کی مہربانی سے پشاور میوزیم ان بیش قیمت نوادرات سے ابلا پڑ رہا ہے، اور اب جو کچھ دریافت ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کے طفیل سیدھا باہر برآمد ہو رہا ہے۔ اور وہ ڈالر بھی جو اس نیک کام سے حاصل ہوتے ہیں۔
غالباً پرویز مشرف کے دور میں اسلام آباد میں پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار کے حوالے سے ایک میوزیم تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ کوشش قابل تعریف ہے، لیکن ایسے میوزیم ہر صوبے میں ہونے چاہییں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2012 میں رقم کے مشاہدے کے مطابق خود راولپنڈی کے پڑھے لکھے گھرانوں کے بچے اور بڑے بھی اس میوزیم کے وجود سے وا قف نہیں تھے۔ یہ بھی ہمارے میڈیا کی مہربانی ہے جو دنیا کے سرگرم ترین میڈیا کے طور پر معروف ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ نصاب کی ان کمیوں کو دور کرنے کےلیے آکسفورڈ جیسے اداروں کو سامنے آنا پڑتا ہے جو پاکستان کے شاندار ماضی کو اس کے بچوں کےلیے مرتب کرتی ہیں، تب بھی ایک طبقہ مذہب کے نام پر اعتراض کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر یونیورسٹی کی شائع کردہ پیٹرموس نامی مصنف کی لکھی ہوئی آکسفورڈ ہسٹری آف پاکستان سے زیادہ جامع اور عام فہم نصابی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ لارج سائز پر تین حصوں میں شائع شدہ ان تصاویر سے مرصع کتاب میں پتھر کے ادوار سے لےکر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے مختصر تعارف کے بعد سندھ کی تہذیب، ہندو مت اور بدھ مت کی مختصر تاریخ، سکندر اعظم کی آمد اور گندھارا تہذیب سے لےکر مسلمانوں کی برصغیر آمد اور اس کے بعد تقسیم پاکستان کےمراحل کو بڑے ہی دلچسپ اور سادہ انداز میں سمویا گیا ہے۔ یہ کتاب چند سال پیشتر پری اے اور او لیول کے طلبہ کو چھٹی سے نویں تک پڑھائی جاتی تھی۔ غالباً اگلے مراحل کی تیاری کے لیے۔ مگر پاکستان کا سرکاری نصاب سندھ بورڈ ابھی تک تیس چالیس سال پہلے کے فرسودہ نصاب پر مشتمل ہے۔ (میں نے آخری مرتبہ 2013 میں اس کا مشاہدہ کیا۔ شاید اب کوئی تبدیلی آئی ہو) کاش ہمارے سرکاری نصاب مرتب کرنے کےذمہ دار محکمے اور ان کے لاکھوں روپے کی تنخواہ لینے والے افسران کو کبھی خیال آئے کہ وہ کیمبرج سسٹم کی کتابوں پر نظر ڈال کر ہی سرکاری نصاب کو اپ ڈیٹ کریں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان سے انتہاپسندی کا خاتمہ ہو، تو ہمیں اپنے بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی پاکستانیت کی شناخت دینی ہو گی۔ اور اس کے لیے انہیں اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس سرزمین کی تاریخ کا بھی شعور دینا ہو گا جس میں ان کی جڑیں موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔