دہشت گردی کے گرد اب سے نجات آخر کب

زندگی پر موت کے سائے اس قدر گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہر شہری خوف و ہراس کا اسیر ہے۔


Editorial March 31, 2013
حکومتی اداروں کی کمزوریوں نے بھتہ خوروں کو اس قدر دیدہ دلیر کر دیا ہے کہ وہ کھلم کھلا بھتہ مانگتے اور انکاری کو اگلی دنیا کا رستہ دکھا دیتے ہیں مگر قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ فوٹو: رائٹرز / فائل

پاکستان گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ ہماری حکومت اور عسکری ادارے دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہیں مگر تمام تر کوششوں اور قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے اس عفریت پر کامیابی سے قابو نہیں پایا جا سکا۔ صورت حال اس قدر گمبھیر اور پیچیدہ ہے کہ اسے حل کرنے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے یہ گتھی اتنی ہی الجھتی چلی جا رہی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی اور بم دھماکوں کا عذاب مسلسل جھیل رہے ہیں۔ اگر خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں تو کراچی جو ایک بندوبستی علاقہ اور پاکستان کا تجارتی حب ہے اس کے حالات بھی تسلی بخش نہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ کراچی تو قبائلی علاقہ نہیں مگر وہاں ہونے والی دہشت گردی اور قتل و غارت کی وارداتوں سے اس پر کسی قبائلی علاقے ہی کا گماں گزرتا ہے۔ یہاں انتظامیہ بھی ہے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مسلح ادارے بھی چوکنا ہیں مگر نہ قتل و غارت گری رکنے میں آ رہی ہے اور نہ بھتہ خوروں ہی کو گرفت میں لایا جا سکا ہے۔

حکومتی اداروں کی کمزوریوں نے بھتہ خوروں کو اس قدر دیدہ دلیر کر دیا ہے کہ وہ کھلم کھلا بھتہ مانگتے اور انکاری کو اگلی دنیا کا رستہ دکھا دیتے ہیں مگر قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ ایسا ہی افسوسناک واقعہ ہفتہ کو کراچی کے علاقہ بلدیہ ٹائون میں پیش آیا جہاں بھتہ خوروں نے بھتہ دینے سے انکار پر ایک نجی اسکول پر دستی بم سے حملہ اور فائرنگ کر دی جس سے ادارے کا پرنسپل جاں بحق اور 5 بچوں اور بچیوں سمیت 8 افراد زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں پولیس حکام کا کہنا تھا کہ حملہ ہینڈ گرنیڈ سے نہیں بلکہ کریکر سے کیا گیا تھا جو ربڑ بال کی شکل میں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کراچی بھتہ خوروں کے شکنجے میں اس قدر جکڑا جا چکا کہ ان کی ''حکم عدولی'' اتنا بڑا جرم قرار پائے کہ زندگی ہی چھین لی جائے۔

یہاں قتل و غارت روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ زندگی پر موت کے سائے اس قدر گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہر شہری خوف و ہراس کا اسیر ہے۔ روشنیوں کے اس شہر میں جہاں کبھی امن و سکون کی معطر فضائوں میں اس کے باسیوں کے محبت بانٹنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے والے جذبات سے سمندر کی لہریں اٹھکیلیاں کرتی تھیں اب کسی بھولی بسری داستان کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ کاروبار کا یہ عالم ہے کہ تاجر حکومت کے مقابل بھتہ خوروں کو ''ٹیکس'' زیادہ دے رہے ہیں۔ عافیت کے متلاشی سرمایہ کار اپنا سرمایہ دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ملکوں تک میں منتقل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کراچی میں حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کو اس کا از خود نوٹس لینا پڑا۔

جمعے کو ایسے ہی ایک کیس کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدالت کے واضح احکامات کے باوجود کراچی میں نو گو ایریاز ختم نہ ہونے پر اپنی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور رینجرز کے خاتمے کے لیے اقدامات کے بارے میں رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ بالآخر چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ لیاری میں آپریشن ہو چکا تو بتایا جائے کہ جرائم کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟ گو کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف رینجرز نے آپریشن کے دوران متعدد افراد کو گرفتار اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کر لیا ہے مگر کراچی کے حالات جس قدر تشویشناک ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر کارروائی کے متقاضی ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے اس شہر میں مسلح گروہوں کے درمیان تصادم، تنازعات اور خونریزی اجنبی امر نہیں، نئے ابھرنے والے بعض گروہوں نے دیگر جرائم پیشہ، نسلی اور سیاسی مسلح گروہوں کے خلاف اپنا نیٹ ورک بڑھا لیا ہے جس سے شہر میں سیاسی جماعتوں کی گرفت بھی ختم ہو رہی ہے۔ دوسری جانب صوبہ پختون خوا کے شہر مردان میں بھی پولیس پر خودکش حملے میں ایڈیشنل ایس ایچ او شہید اور جوابی فائرنگ سے دو بمبار ہلاک ہو گئے جب کہ تیراہ میں راکٹ حملوں میں دو خواتین جاں بحق اور گھر تباہ ہو گئے۔

جمعے کو بھی پشاور صدر میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے قافلے پر خودکش حملے میں 2 سیکیورٹی اہلکاروں اور 2 خواتین سمیت 12 افراد جاں بحق اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔ حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کے دعوے تو کر رہی ہے مگر دہشت گرد جس قدر منظم انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں اس سے عیاں ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں کو اپنا انداز کارروائی بدلنا ہو گا۔ کارروائی کے روایتی طریقے دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔ یہ بھی اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ پولیس اور انتظامی اداروں میں چھپے اپنے ہمدردوں کی آشیرباد کے بغیر دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

جب تک دہشت گردوں کے ان ہمدردوں کے خلاف بھر پور کارروائی نہیں ہو گی، کوئی بھی آپریشن اپنے حتمی مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔ دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے، ان کے سپورٹرز کون ہیں، مالی معاونت کون کر رہا ہے۔ جب تک ان چھپے ہوئے معاونوں کو تلاش کر کے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی دہشت گردوں کو کمزور کرنا ایک مشکل امر رہے گا۔ پورے ملک میں جا بجا اسلحے کی دکانیں کھلی ہیں۔ حکومت کو سب سے پہلے پورے ملک کو اسلحہ سے پاک قرار دینا ہو گا۔ اسلحہ کی سپلائی کے تمام راستے مسدود کرنا ہوں گے۔ عام شہریوں کے پاس اسلحے کا کیا جواز ہے؟ یہ صرف پولیس اور حکومتی عسکری اداروں کے پاس ہونا چاہیے۔ اب مرکز سمیت چاروں صوبوں میں نگران حکومتیں آ چکی ہیں۔ امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ ان کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔

سابق دور حکومت میں بعض ناقدین کی جانب سے یہ الزامات دہرائے جاتے رہے کہ دہشت گردوں' جرائم پیشہ گروہوں اور بھتہ خوروں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اس لیے پولیس ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں رہتی ہے مگر اب تو وہ حکومت رخصت ہو چکی ہے۔ پاکستان آخر کب تک دہشت گردی کا یہ عذاب جھیلتا رہے گا۔ نگران حکومت کو عوامی تائید و حمایت سے امن کے ان دشمنوں کے خلاف بلا رو رعایت جرأت مندانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفقہ ایجنڈا اپناتے ہوئے حکومت کا بھرپور ساتھ دیں تا کہ وطن عزیز کو اس ناسور سے پاک کر کے اسلام کے اصولوں کے عین مطابق اسے امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔