کھودیے انکار سے تو نے مقامات بلند
ہاں پاکستانی ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایوب خاں والے مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ اس مسئلہ نے سر اٹھایا تھا۔
لاہور:
یہ تو ادیبوں کا مسئلہ چلا آتا تھا، صحافیوں کا مسئلہ کیسے بن گیا، اصل میں اس بیچ ایک واقعہ گزر گیا، جیسا کہ ہمارے نامور صحافی اور سیاسی مبصر طلعت حسین نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ نگراں وزیراعظم کی طرف سے انھیں نگراں وزیراطلاعات بننے کی پیش کش ہوئی تھی مگر انھوں نے معذرت کرلی۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ''صحافی کو ٹوپی گھما کر دوسری طرف جانا زیب نہیں دیتا۔ اگر صحافی کو سرکار میں شامل ہونا ہے تو پھر بہتر ہے کہ وہ صحافت چھوڑ دے''۔
بس یہ عجب گل کھلا کہ اچانک صحافتی حلقوں نے جھرجھری لی۔ طلعت حسین کے اس اقدام پر واہ واہ ہوئی ۔
ہمیں یہ واقعہ اس لیے عجب نظر آیا کہ اب تک پاکستان میں ادیبوں کا یہ مسئلہ چلا آتا تھا کہ کیا ایک بھلے ادیب کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مقام کو چھوڑ کر کوئی سرکاری عہدہ قبول کرلے۔ پتھر اپنی جگہ پر بھاری ہوتا ہے۔ اپنی جگہ سے اگر ہل گیا تو گلی کا روڑا بن کر رہ جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے یہاں یہ احساس غالب کے وقت سے چلا آرہا تھا؎
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
مگر ہماری صحافت نے اس صورت حال کو کبھی مسئلہ نہیں بنایا ورنہ سب سے پہلے تو ''ڈان'' کے مرحوم ایڈیٹر الطاف حسین ہدف تنقید بنتے جب انھوں نے اپنے اعلیٰ صحافتی مقام کو چھوڑ کر وزارت قبول کی تھی۔ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں سب سے مؤثر ایڈیٹر تو الطاف حسین ہی گزرے ہیں۔ ان کا وہی مقام و مرتبہ تھا جو جمال عبدالناصر کے زمانے میں حسنین ہیکل کا تھا۔ مصری انقلاب سے نظریاتی وابستگی کے باوصف وہ سرکار کا حصہ نہیں بنے۔ ایک آزاد صحافی کی حیثیت سے مصری انقلاب کے مفسر کا فریضہ ادا کرتے رہے۔
تحریک پاکستان کے وقتوں سے یہی حیثیت الطاف حسین کی چلی آرہی تھی۔ لیکن جب وہ ''ڈان'' کو چھوڑ کر وزیر بن گئے تو ان کی مؤثر حیثیت ختم ہوگئی۔ بس پھر وہ وزیر بن کر رہ گئے۔ مگر جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے وہ وزارت کو قبول کرنے کی بنا پر صحافتی حلقوں میں ہدف تنقید نہیں بنے تھے۔ پھر جب حقانی صاحب اور نجم سیٹھی صاحب نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد کی کابینہ میں شامل ہوئے تو اس وقت بھی صحافتی حلقوں میں سے کسی نے بھی ان پر انگلی نہیں اٹھائی۔
ہاں پاکستانی ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایوب خاں والے مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ اس مسئلہ نے سر اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے کے زمانے کی صورت یہ تھی کہ پاکستان نیا نیا قائم ہوا تھا تو جن ادیبوں نے کوئی سرکاری عہدہ قبول بھی کیا تو وہ پاکستان کی خدمت کے ذیل میں شمار ہوا۔ البتہ ترقی پسند تحریک معتوب تھی۔ اس لیے جو اکا دکا ترقی پسند ادیب نے کوئی سرکاری فریضہ انجام دیا تو یوں تو وہ بھی پاکستان کی خدمت ہی کے ذیل میں شمار ہوا۔ مگر اس ادیب کا رشتہ اپنی ترقی پسند برادری سے خود بخود منقطع ہوگیا۔
مگر ایوب خاں کے مارشل لاء میں تو فوراً ہی اس فوجی بندوبست کے ساتھ ادیبوں کی وابستگی اور ناوابستگی کا سوال کھڑا ہوگیا تھا۔ قدرت اللہ شہاب جو سرکاری افسر بھی تھے اور ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے اس بندوبست کے سرگرم وکیل بن گئے۔ انھی کی کمان میں ادیبوں کا جو اجلاس طلب کیا گیا جس میں ادیبوں نے کیا ترقی پسند کیا غیر ترقی پسند سب نے شرکت کی۔
فیض صاحب، قاسمی صاحب اس وقت نظر بند تھے اور جن دو ادیبوں نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کیا ان میں کوئی ترقی پسند نہیں تھا۔ ان میں ایک تھے مولانا صلاح الدین احمد اور دوسرے تھے محمد حسن عسکری۔ اور مولانا صلاح الدین احمد نے تو حلقۂ ارباب ذوق کے سالانہ اجلاس میں اپنا خطبہ پڑھتے پڑھتے اس اجلاس اور اس کے نتیجہ میں بننے والے پاکستان رائٹرز گلڈ پر عجب رنگ میں محاکمہ کیا۔ کہا کہ شاعری تو بقول مولانا روم پیغمبری کا جز ہے؎
شاعری جزویست از پیغمبری
کبھی پیغمبروں نے بھی گلڈ بنائے ہیں
تاہم پاکستان رائٹرز گلڈ کو جلد ہی قبولیت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ جمیل الدین عالی اس میں پیش پیش تھے۔ شوکت صدیقی گلڈ کے آفس سیکریٹری بن گئے۔
اسی دور میں ادب کے نام اچھی خاصی گہما گہمی رہی اور ایوب خاں کو بھی دنیائے ادب سے کچھ اچھے مداح میسر آگئے۔ شاید انھی میں سے کسی نے ایوب خاں کو پاکستان کے جنرل ڈیگال کے خطاب سے یادکیا تھا۔ اس صورت میں قدرت اللہ شہاب خود بخود اپنے پاکستانی ڈیگال کے آندرے مالرو بن گئے۔ اس میں آندرے مالرو کے ساتھ تھوڑی سی زیادتی بھی ہوگئی۔ آندرے مالرو فرانسیسی زبان کے جانے مانے ناول نگار اور صاحب دانش ادیب۔ وہ کوئی بیوروکریٹ تو نہیں تھے بلکہ جن ناگفتہ بہ حالات میں ڈیگال نے فرانس کے بااثر سیاسی حلقوں کے اصرار پر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی آندرے مالرو ان کے مشیر بن گئے۔ اس سے ان کا ادبی قد تو کوئی نہیں بڑھا مگر شہاب صاحب کا ادبی قد البتہ بہت بڑھ گیا۔ اگرچہ ان کا افسانہ وہیں کا وہیں رہا۔
ہاں ادیبوں کی حکومتوں کے ساتھ وابستگی ناوابستگی نے ضیاء الحق کے زمانے میں زیادہ شدت اختیار کی۔ اس ڈکٹیٹر نے بھی کیا ستم ظریفی کی کہ ابھی بھٹو صاحب کی پھانسی کا حادثہ گزرا تھا اور ابھی اکیڈمی آف لیٹرز کے طلب کردہ ادبی اجلاس میں ادیبوں کو خطاب کرنے کے لیے آن پہنچا۔ خیر اس برس تو تھوڑے ادیب ہی ہچکچاتے ہچکچاتے اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے مگر اگلے برسوں میں کیا ترقی پسند اور کیا غیر ترقی پسند کتنے سارے ادیب ان جلسوں میں شریک ہوتے رہے اور جنرل ضیاء الحق کے خیالات عالیہ دربارہ ادب گوش ہوش سے سنتے رہے۔
مگر نکو بن گئے اکیلے احمد ندیم قاسمی۔ اور ہونا بھی یہی تھا۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کے سرخیل تو وہی تھے۔ ایک وقت میں تحریک بھی بہت زوروں میں تھی اور وہ بھی بہت زوروں میں تھے۔ تو ظاہر ہے کہ ان کی شرکت اس جرنیلی تقریب میں بہت معنی رکھتی تھی اور اس لیے جو بھی بچے کھچے ترقی پسند تھے اور بھٹو صاحب کے چاہنے والے ان کی طرف سے کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ناراضگی ہونا ہی تھا۔
مگر یہ وضاحت ضروری ہے کہ ترقی پسندوں کے حلقہ سے بھی اور غیر ترقی پسندوں کے حلقہ سے بھی ایسے تھوڑے بہت ادیب ضرور تھے جنہوں نے سال کے سال ہونے والے اس کھیل میں شریک ہونے سے اپنے آپ کو بچائے رکھا۔
تو ہماری دنیائے ادب میں اس حوالے سے لکھنے والوں کو اچھے برے دن بہت دیکھنے پڑے ہیں۔ اسی حساب سے نیک نامی اور بدنامی ان کے حساب میں لکھی جاتی رہی ہے۔ اب ادب سے نکل کر صحافت کی دنیا میں یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ فوجی اور غیر فوجی آمروں کے ساتھ صحافیوں کا لشتم پشتم گزارہ ہو ہی رہا تھا۔ مگر اب طلعت حسین کے ایک انکار نے صحافیوں کے لیے ایک اچھا خاصا بڑا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔
یہ تو ادیبوں کا مسئلہ چلا آتا تھا، صحافیوں کا مسئلہ کیسے بن گیا، اصل میں اس بیچ ایک واقعہ گزر گیا، جیسا کہ ہمارے نامور صحافی اور سیاسی مبصر طلعت حسین نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ نگراں وزیراعظم کی طرف سے انھیں نگراں وزیراطلاعات بننے کی پیش کش ہوئی تھی مگر انھوں نے معذرت کرلی۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ''صحافی کو ٹوپی گھما کر دوسری طرف جانا زیب نہیں دیتا۔ اگر صحافی کو سرکار میں شامل ہونا ہے تو پھر بہتر ہے کہ وہ صحافت چھوڑ دے''۔
بس یہ عجب گل کھلا کہ اچانک صحافتی حلقوں نے جھرجھری لی۔ طلعت حسین کے اس اقدام پر واہ واہ ہوئی ۔
ہمیں یہ واقعہ اس لیے عجب نظر آیا کہ اب تک پاکستان میں ادیبوں کا یہ مسئلہ چلا آتا تھا کہ کیا ایک بھلے ادیب کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مقام کو چھوڑ کر کوئی سرکاری عہدہ قبول کرلے۔ پتھر اپنی جگہ پر بھاری ہوتا ہے۔ اپنی جگہ سے اگر ہل گیا تو گلی کا روڑا بن کر رہ جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے یہاں یہ احساس غالب کے وقت سے چلا آرہا تھا؎
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
مگر ہماری صحافت نے اس صورت حال کو کبھی مسئلہ نہیں بنایا ورنہ سب سے پہلے تو ''ڈان'' کے مرحوم ایڈیٹر الطاف حسین ہدف تنقید بنتے جب انھوں نے اپنے اعلیٰ صحافتی مقام کو چھوڑ کر وزارت قبول کی تھی۔ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں سب سے مؤثر ایڈیٹر تو الطاف حسین ہی گزرے ہیں۔ ان کا وہی مقام و مرتبہ تھا جو جمال عبدالناصر کے زمانے میں حسنین ہیکل کا تھا۔ مصری انقلاب سے نظریاتی وابستگی کے باوصف وہ سرکار کا حصہ نہیں بنے۔ ایک آزاد صحافی کی حیثیت سے مصری انقلاب کے مفسر کا فریضہ ادا کرتے رہے۔
تحریک پاکستان کے وقتوں سے یہی حیثیت الطاف حسین کی چلی آرہی تھی۔ لیکن جب وہ ''ڈان'' کو چھوڑ کر وزیر بن گئے تو ان کی مؤثر حیثیت ختم ہوگئی۔ بس پھر وہ وزیر بن کر رہ گئے۔ مگر جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے وہ وزارت کو قبول کرنے کی بنا پر صحافتی حلقوں میں ہدف تنقید نہیں بنے تھے۔ پھر جب حقانی صاحب اور نجم سیٹھی صاحب نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد کی کابینہ میں شامل ہوئے تو اس وقت بھی صحافتی حلقوں میں سے کسی نے بھی ان پر انگلی نہیں اٹھائی۔
ہاں پاکستانی ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایوب خاں والے مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ اس مسئلہ نے سر اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے کے زمانے کی صورت یہ تھی کہ پاکستان نیا نیا قائم ہوا تھا تو جن ادیبوں نے کوئی سرکاری عہدہ قبول بھی کیا تو وہ پاکستان کی خدمت کے ذیل میں شمار ہوا۔ البتہ ترقی پسند تحریک معتوب تھی۔ اس لیے جو اکا دکا ترقی پسند ادیب نے کوئی سرکاری فریضہ انجام دیا تو یوں تو وہ بھی پاکستان کی خدمت ہی کے ذیل میں شمار ہوا۔ مگر اس ادیب کا رشتہ اپنی ترقی پسند برادری سے خود بخود منقطع ہوگیا۔
مگر ایوب خاں کے مارشل لاء میں تو فوراً ہی اس فوجی بندوبست کے ساتھ ادیبوں کی وابستگی اور ناوابستگی کا سوال کھڑا ہوگیا تھا۔ قدرت اللہ شہاب جو سرکاری افسر بھی تھے اور ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے اس بندوبست کے سرگرم وکیل بن گئے۔ انھی کی کمان میں ادیبوں کا جو اجلاس طلب کیا گیا جس میں ادیبوں نے کیا ترقی پسند کیا غیر ترقی پسند سب نے شرکت کی۔
فیض صاحب، قاسمی صاحب اس وقت نظر بند تھے اور جن دو ادیبوں نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کیا ان میں کوئی ترقی پسند نہیں تھا۔ ان میں ایک تھے مولانا صلاح الدین احمد اور دوسرے تھے محمد حسن عسکری۔ اور مولانا صلاح الدین احمد نے تو حلقۂ ارباب ذوق کے سالانہ اجلاس میں اپنا خطبہ پڑھتے پڑھتے اس اجلاس اور اس کے نتیجہ میں بننے والے پاکستان رائٹرز گلڈ پر عجب رنگ میں محاکمہ کیا۔ کہا کہ شاعری تو بقول مولانا روم پیغمبری کا جز ہے؎
شاعری جزویست از پیغمبری
کبھی پیغمبروں نے بھی گلڈ بنائے ہیں
تاہم پاکستان رائٹرز گلڈ کو جلد ہی قبولیت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ جمیل الدین عالی اس میں پیش پیش تھے۔ شوکت صدیقی گلڈ کے آفس سیکریٹری بن گئے۔
اسی دور میں ادب کے نام اچھی خاصی گہما گہمی رہی اور ایوب خاں کو بھی دنیائے ادب سے کچھ اچھے مداح میسر آگئے۔ شاید انھی میں سے کسی نے ایوب خاں کو پاکستان کے جنرل ڈیگال کے خطاب سے یادکیا تھا۔ اس صورت میں قدرت اللہ شہاب خود بخود اپنے پاکستانی ڈیگال کے آندرے مالرو بن گئے۔ اس میں آندرے مالرو کے ساتھ تھوڑی سی زیادتی بھی ہوگئی۔ آندرے مالرو فرانسیسی زبان کے جانے مانے ناول نگار اور صاحب دانش ادیب۔ وہ کوئی بیوروکریٹ تو نہیں تھے بلکہ جن ناگفتہ بہ حالات میں ڈیگال نے فرانس کے بااثر سیاسی حلقوں کے اصرار پر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی آندرے مالرو ان کے مشیر بن گئے۔ اس سے ان کا ادبی قد تو کوئی نہیں بڑھا مگر شہاب صاحب کا ادبی قد البتہ بہت بڑھ گیا۔ اگرچہ ان کا افسانہ وہیں کا وہیں رہا۔
ہاں ادیبوں کی حکومتوں کے ساتھ وابستگی ناوابستگی نے ضیاء الحق کے زمانے میں زیادہ شدت اختیار کی۔ اس ڈکٹیٹر نے بھی کیا ستم ظریفی کی کہ ابھی بھٹو صاحب کی پھانسی کا حادثہ گزرا تھا اور ابھی اکیڈمی آف لیٹرز کے طلب کردہ ادبی اجلاس میں ادیبوں کو خطاب کرنے کے لیے آن پہنچا۔ خیر اس برس تو تھوڑے ادیب ہی ہچکچاتے ہچکچاتے اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے مگر اگلے برسوں میں کیا ترقی پسند اور کیا غیر ترقی پسند کتنے سارے ادیب ان جلسوں میں شریک ہوتے رہے اور جنرل ضیاء الحق کے خیالات عالیہ دربارہ ادب گوش ہوش سے سنتے رہے۔
مگر نکو بن گئے اکیلے احمد ندیم قاسمی۔ اور ہونا بھی یہی تھا۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کے سرخیل تو وہی تھے۔ ایک وقت میں تحریک بھی بہت زوروں میں تھی اور وہ بھی بہت زوروں میں تھے۔ تو ظاہر ہے کہ ان کی شرکت اس جرنیلی تقریب میں بہت معنی رکھتی تھی اور اس لیے جو بھی بچے کھچے ترقی پسند تھے اور بھٹو صاحب کے چاہنے والے ان کی طرف سے کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ناراضگی ہونا ہی تھا۔
مگر یہ وضاحت ضروری ہے کہ ترقی پسندوں کے حلقہ سے بھی اور غیر ترقی پسندوں کے حلقہ سے بھی ایسے تھوڑے بہت ادیب ضرور تھے جنہوں نے سال کے سال ہونے والے اس کھیل میں شریک ہونے سے اپنے آپ کو بچائے رکھا۔
تو ہماری دنیائے ادب میں اس حوالے سے لکھنے والوں کو اچھے برے دن بہت دیکھنے پڑے ہیں۔ اسی حساب سے نیک نامی اور بدنامی ان کے حساب میں لکھی جاتی رہی ہے۔ اب ادب سے نکل کر صحافت کی دنیا میں یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ فوجی اور غیر فوجی آمروں کے ساتھ صحافیوں کا لشتم پشتم گزارہ ہو ہی رہا تھا۔ مگر اب طلعت حسین کے ایک انکار نے صحافیوں کے لیے ایک اچھا خاصا بڑا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔